محمود صدیقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمود صدیقی
محمود صدیقی
معلومات شخصیت
پیدائش 1944ء
سکھر، پاکستان
وفات 4 اگست 2000(2000-08-04)ء
کراچی، پاکستان
قومیت پاکستان کا پرچمپاکستانی
عملی زندگی
پیشہ ٹیلی ویژن اداکار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ شہرت اداکاری
کارہائے نمایاں
  • دیواریں
  • دنیا دیوانی
  • جنگل
  • قربتوں کی تلاش
  • زینت
اعزازات
پی ٹی وی ایوارڈ (بہترین اداکار)

محمود صدیقی (پیدائش: 1944ء - وفات: 4 اگست، 2000ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے ٹیلی وژن کے نامور اداکار تھے۔

حالات زندگی[ترمیم]

محمود صدیقی 1944ء کو پاکستان میں سکھر کے نزدیک ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد انھیں عالم دین بنانا چاہتے تھے لیکن وہ سیاست کی جانب مائل تھے۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے کیا۔ اس سلسلہ میں انھوں نے قید و بند کی صعوبت بھی برداشت کی۔ انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور شیخ ایاز کے جونیئر کے طور پر وکالت کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ انھوں نے کچھ وقت ریڈیو پاکستان میں اناؤنسمنٹ بھی کی اور کچھ عرصہ کے لیے روزنامہ ہلال پاکستان میں بھی کام کیا۔ 1973ء میں محمود صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن کے سندھی ڈراما بدمعاش سے اپنی ٹیلی وژن کیریئر کا آغاز کیا اور زینت، گلن وار چھوکری، تلاش اور رانی جی کہانی میں کام کرکے مقبولیت حاصل کی۔ رانی جی کہانی کو بعد میں دیواریں کے نام سے اردو میں بھی پیش کیا گیا جس کے بعدمحمود صدیقی نے ملک گیر شہرت حاصل کرلی۔ بعد ازاں اردو ڈراما سیریل جنگل، قربتوں کی تلاش، دنیا دیوانی اور کارواں نے ان کی شہرت کو مزید استحکام بخشا۔ کارواں میں انھوں نے بہترین اداکار کا پی ٹی وی ایوارڈ بھی حاصل کیا۔[1]

محمود صدیقی نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے نہلے پہ دہلا کے نام سے ایک سیریل بھی بنائی تھی جسے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل نے تین مرتبہ نشر کیا مگر محمود صدیقی کو اس سیریل کے بدلے میں طے شدہ رقم کا صرف دس فیصد حصہ ادا کیا۔ محمود صدیقی نے یہ سیریل قرض لے کر بنایا تھا چنانچہ وہ ان مالی مشکلات سے بے حد دل برداشتہ ہوئے اور اسی غم میں وفات پاگئے۔[1]

اعزازات[ترمیم]

وفات[ترمیم]

محمود صدیقی 4 اگست، 2000ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے اور وہ کراچی میں ڈالمیا کے نزدیک واقع قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ پاکستان کرونیکل: عقیل عباس جعفری، ص 861، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء