محمود ہوتکی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمود ہوتکی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1697ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صوبہ خراسان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 اپریل 1725ء (27–28 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اصفہان  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد میر وایس ہوتک  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان ہوتکی سلطنت  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
شاہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
23 اکتوبر 1722  – 22 اپریل 1725 
شاہ سلطان حسینی 
 
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شاہ محمود ہوتک (پیدائش: 1697ء— وفات: 1725ء) جسے شاہ محمود غلجی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، ہوتکی سلطنت کا ایک افغان حکمران تھا جس نے 1722 میں طاقتور صفوی سلطنت کو کچل ڈالا اور 1725 تک فارس کا بادشاہ رہا۔

شاہ محمود ہوتک افغانستان کے غلجی پشتون قبیلے کے سردار میر وایس ہوتک کا بڑا بیٹا تھا ، جس نے سن 1709 میں قندھار کے علاقے کو فارسی حکومت سے آزاد کروادیا تھا۔ جب میرویس کی وفات 1715 میں ہوئی ، تو اس کے بعد اس کا بھائی عبد العزیز ہوتک تخت نشین ہوا ، لیکن غلجی افغانوں نے محمود کو اپنے لیے اقتدار پر قبضہ کرنے پر راضی کیا اور 1717 میں اس نے اپنے چچا کو معزول کر دیا اور اسے مار ڈالا۔

ابتداٸی حالات[ترمیم]

19 سالہ محمود کم عمر مگر اپنے باپ کی طرح نہایت ذہین، حوصلہ مند اور سیاسی سوجھ بوجھ کا حامل تھا۔ اس نے تخت پر براجمان ہونے کے بعد اس چھوٹی سی حکومت کو وسیع کرکے سلطنت کی شکل دی اور شاہ محمود کہلایا۔ ابتداٸی چار سال تک وہ اندرونی مہمات کی طرف متوجہ رہا۔ اس دوران ہرات کے نٸے ابدالی حکمران عبد اللہ خان سے بھی اس کی جھڑپیں ہوٸیں۔ عبد اللہ خان کا بیٹا اسداللہ 1719 میں ایک بڑی فوج کے ساتھ قندھار کی طرف لپکا، فراہ کے مقام پر شاہ محمود نے اس کا جم کر مقابلہ کیا اور اسے بری طرح شکست دی، اسداللہ خان میدان جنگ میں مارا گیا۔ اس لڑاٸی نے ابدالی سلطنت اور قندھار کی ہوتکی سلطنت میں منافرت کا بیج بودیا۔

ایران سے ٹکر[ترمیم]

1720 میں محمود اور غلجیوں نے حریف افغان قبیلے ابدالیوں کو شکست دی۔ تاہم شاہ محمود ایرانیوں سے قرضہ چکانے کی منصوبی بندی کر رہا تھا۔ وہ پورے ایران پر قبضہ کرکے سابقہ آقاؤں کو اپنی رعایا بنانا چاہتا تھا۔ اس نے پہلے ہی 1719 میں کرمان کے خلاف ایک مہم شروع کی تھی اور 1721 میں اس نے پھر شہر کا محاصرہ کیا۔ ابھی جنگ جاری تھی کہ اسے قندھار میں شورش کی اطلاع ملی چنانچہ اسے محاصرہ اٹھانا پڑا۔

اگلے سال اس نے پہلے سے بہتر تیاریوں کے ساتھ پیش قدمی کی۔ اس کے ہمراہ 28 ہار جنگجو تھے، توپ خانے میں ایسی عمدہ بڑی توپیں بھی تھیں جو 300 سے 500 گز تک گولہ باری کرسکتی تھیں۔ شاہ محمود نے کسی بڑے نقصان کے بغیر بام شہر اور کرمان پر قبضہ کر لیا اور پھر ایران کے پایہ تخت اصفہان کی طرف بڑھا، جہاں ایرانی حکمران شاہ سلطان حسینی صفوی خود موجود تھا۔ اس نے شاہ محمود کی آمد کی خبر سن کر 60 ہزار سپاہیوں اور بھاری بھر کم توپ خانے کے ساتھ مقابلے کی تیاریاں کرلی تھیں۔ جب شاہ محمود اصفہان کے نواح میں پہنچا تو شاہ سلطان حسینی نے یہ محسوس کیا کہ وہ عوامی حمایت سے محرومی اور افواج کی عیش پسندی کے باعث افغانوں کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ چنانچہ اس نے شاہ محمود سے صلح کی درخواست کی اور گراں قدر رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ شاہ محمود نے صلح کے لٸے دو شراٸیط پیش کیں۔ اس نے کہا:”(١)......خراسان کا صوبہ قدیم زمانے سے افغانستان کا حصہ ہے جس پر ایران نے ناجاٸز قبضہ کیا ہوا ہے، یہ علاقے افغانستان کو واپس کردئے جائے۔ (٢)......شاہ حسینی اپنی بیٹی میرے نکاح میں دے۔“ یہ شراٸیط جب ایران پہنچے تو امرإ نے کھل کر اس کی مخالفت کی اور جنگ پر اصرار کیا۔ شہر میں وقت ضاٸع کرنے اور محاصرہ کی مزاحمت کرنے کی بجائے شاہ حسین شاہ محمود کا مقابلہ کرنے گلان آباد پہنچا۔ 8 مارچ کو فارسی فوج تتر بتر ہوکر اصفہان کی فصیلوں میں پنا گزین ہوگیٸ۔ شاہ حسینی نے دوسرے صوبوں سے فوج جمع کرنے پر زور دیا اور خود محصور رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ ادھر افغانوں نے ان کی مکمل ناکہ بندی کرلی اور ان کو رسد و کمک سے محروم کر دیا۔ اصفہان کا محاصرہ مارچ سے اکتوبر 1722 تک جاری رہا۔ فاکہ کشی اور بیماری نے آخرکار اصفہان کو تابع ہونے پر مجبور کر دیا۔ (ایک اندازے کے مطابق ان کے 80,000 باشندے محاصرے کے دوران ہی ہلاک ہوگیئے تھے۔) 23 اکتوبر 1722 کو سلطان شاہ حسینی کو معزول کرکے شاہ محمود کو فارس کا نیا شاہ تسلیم کر لیا گیا۔

شاہ محمود بحیثیت شاہ[ترمیم]

اپنی حکمرانی کے ابتدائی دنوں میں محمود نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا ، قبضہ شدہ شاہی خاندان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور فاقہ کشی والے دار الحکومت میں کھانے پینے کا سامان لایا۔ لیکن اس کا مقابلہ تخت کے حریف دعویدار سے ہوا جب نومبر میں شاہ حسینی کے بیٹے ، طہماسپ نے خود کو شاہ قرار دیا۔ محمود نے تہماسپ کے اڈے قزوین کے خلاف ایک فوج بھیجی۔ تہماس فرار ہو گیا اور افغانوں نے شہر کو اپنے قبضہ میں کر لیا لیکن فاتح فوج کے ہاتھوں ہونے والے سلوک پر چونک گئے ، جنوری 1723 میں آبادی ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گئی۔ بغاوت کامیاب تھی، شکست کی خبر جب اصفہان پہنچی تو محمود بچ جانے والے افغانوں کے رد عمل سے پریشان تھا۔ ذہنی بیماریوں سے دوچار اور اپنے امرإ کے بغاوت سے خوفزدہ ہوکر محمود نے اپنے فارسی وزراء اور رئیسوں کو جھوٹے بہانوں کے تحت ایک اجلاس میں بلایا اور انھیں ذبح کر دیا۔ انھوں نے 3000 تک فارسی شاہی محافظوں کو بھی پھانسی دی۔ اسی اثنا میں ، فارس کے حریفوں ، عثمانیوں اور روسیوں نے اپنے اقتدار کے لیے زمین پر قبضہ کرنے کے لٸے فارس میں افراتفری کا فائدہ اٹھایا اور اس نے محمود کے زیر اقتدار علاقے کی مقدار کو محدود کر دیا۔ فارس میں اپنی حکمرانی مسلط کرنے میں ان کی ناکامی نے محمود کو افسردہ اور مشکوک کر دیا۔ وہ اپنے ہی آدمیوں کی وفاداری پر بھی فکرمند تھا ، کیوں کہ بہت سارے افغانی اس کے کزن اشرف خان ہوتک کو ترجیح دیتے تھے۔ فروری 1725 میں اس افواہ پر یقین رکھتے ہوئے کہ سلطان حسین کا ایک بیٹا صافی مرزا فرار ہو گیا تھا ، محمود نے خود سلطان حسین کے استثناء کے ساتھ ، باقی تمام صفوی شہزادوں کو پھانسی دینے کا حکم دے دیا۔ جب سلطان حسین نے اس قتل عام کو روکنے کی کوشش کی تو وہ زخمی ہو گیا ، لیکن اس کے اس عمل کے نتیجے میں محمود نے اپنے دو چھوٹے بچوں کی جان بچائی۔

وفات[ترمیم]

محمود نے پاگل پن کے ساتھ ساتھ جسمانی خرابی کا بھی شکار ہونا شروع کر دیا۔ 22 اپریل ، 1725 کو ، افغان افسران کے ایک گروہ نے اشرف خان ہوتک کو جیل سے رہا کیا جہاں اسے محمود نے قید کیا تھا اور اس نے محل میں انقلاب برپا کیا جس نے اشرف کو تخت پر بٹھایا۔ تین دن بعد محمود کی موت ہو گئی یا تو ان کی بیماری سے - اس وقت اس پر دعوی کیا گیا تھا - یا گھٹن کے گھٹنے سے قتل کیا گیا تھا۔ ... اس کے بعد اس کی عارضہ تیزی سے بڑھتا گیا ، یہاں تک کہ اس کو خود 22 اپریل کو اس کے کزن اشرف نے قتل کر دیا ، جو اس کے بعد بادشاہ کا اعلان کیا گیا تھا۔ شاہ محمود اپنی موت کے وقت صرف ستائیس سال کی عمر کے تھے اور اسے "درمیانے درجے اور اناڑی" کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ، اس کی گردن اتنی چھوٹی تھی کہ اس کے کاندھوں تک اس کا سر بڑھتا ہوا نظر آتا تھا ، اس کا چہرہ وسیع اور ناک چپٹھی تھا اور اس کی داڑھی پتلی اور سرخ رنگ کی تھی ، اس کی آنکھیں ، جو نیلی اور تھوڑی سی کھسکتی تھیں ، عموما نڈھال ہوجاتی تھیں ، جیسے کسی گہری سوچ میں مبتلا آدمی۔ "

حوالہ جات[ترمیم]

- ایڈورڈ جی براؤن ، 1924