مخطوطہ گیگاس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مخطوطہ گیگاس

مخطوطہ گیگاس ایک کتاب جو سوا چودوی صدی عیسوی میں دنیا کے سامنے آئی۔ جو اپنی جسامت کے حوالے سے ایک بہت بڑی کتاب تصور ہوتی ہے جس کی لمبائی تقریباً 36 انچ یعنی 3 فٹ تک اور چوڑائی 20 انچ تک ہے جبکہ اس کی موٹائی 8.7 میٹر تک ہے۔ 74.8 کلو وزن کی حامل اس کتاب کو جسامت کے لحاظ سے قران وسطی کی سب سے بڑی کتاب تسلیم کیا جاتا ہے۔[1][2] اس کتاب میں موجود غیر معمولی تصاویر اور خاص طور پر بڑے سائز کے شیطانی تصویروں کی بدولت اسے شیطانی کتاب بھی کہا جاتا ہے۔[3][4][5] چمڑے کے صفحات پر لکھی گئی اس کتاب میں ماہرین کے اندازے کے مطابق 160 گدھوں کی کھال کا استعمال کیا گیا ہے۔[5] کہا جاتا ہے کہ اس کتاب میں 320 صفحات تھے جن میں سے کچھ اب ضائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب میں سرخ، نیلے، پیلے سبز اور سنہری رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے۔[6] ایک راویت کے مطابق اس کتاب کے مصنف جس کا نام ہرمن بتایا جاتا ہے کا تعلق موجودہ جمہوریہ چیکو سلوواکیہ سے تھا۔ 1593ء میں اس کتاب کو بروموو کی ایک لائبریری کی زینت بنایا گیا لیکن بعد ازاں یہ کتاب سویڈن منتقل کر دی گئی تو اس کے بعد 7 مئی 1697ء کو جب اسٹاک ہوم کی لائبریری میں آتش زدگی کا واقعہ درپیش آیا اور وہاں ہر موجود کتابوں کو شدید نقصان پہنچا تو اسی اثنا میں کسی اہلکار نے اس کتاب کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا جس کی وجہ سے اگرچہ اس کی جلد اور دیگر چند صفحات آگ کی نظر ہو گئے لیکن اس کا بہت سا حصہ محفوظ رہا پھر 359 سال بعد اس شیطانی کتاب کو ستمبر 2007ء سے جنوری 2008ء تک چیکو سلوواکیہ کی حکومت کو سویڈن سے مستعار مانگ لیا اور اسے وہاں کی قومی کتب خانہ کی زینت بنایا۔ یہ کتاب جس میں لاطینی اور عبرانی زبان کا استعمال کیا گیا ہے کہ دو حصے یہودیوں پر بحث کرتے ہیں جبکہ اس میں شیطان کی تصاویر کے علاوہ مختلف ہودوں کی شکلیں بنیں ہوئی ہیں جن کی وضاحت کے بارے میں ابھی تک دنیا کے ماہرین مختلف آرا رکھتے ہیں۔ جبکہ انسانوں اور جانوروں کی شکلوں کے علاوہ اس میں جنت اور دوزخ کے مناظر بھی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے اس کے علاوہ اس میں سرخ و سبز رنگ دائرے بھی ملتے ہیں جنہیں سورج، چاند اور دیگر ستاروں سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس کے بڑے حروف سرخ رنگ میں تحریر کیے گئے ہیں جو غیر معمولی طور پر بڑے سائز میں لکھے گئے ہیں۔ اس میں جنت کی بادشاہت کے مقابلے میں شیطان کی تصویر کو غیر معمولی طور پر بڑا دکھایا گیا ہے جو اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیے ہوئے یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ جب چاہے اپنے خوفناک پنجے شکار کے دل پر گاڑ سکتا ہے اس کو اس قدر خوفناک دکھایا گیا ہے کہ اس نے پوری جہنم کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے جبکہ تصویر میں وہ اپنے جسم پر سرخ لائنوں کے ساتھ مکمل طور پر برہنہ نظر آتا ہے اس کے جسم، ہاتھ اور ٹانگیں انسانوں کی طرح جبکہ اس کے پاؤں اور ہاتھ کی انگلیاں سرخ رنگ میں یہ تاثر دیتے نظر آتے ہیں کہ گویا انھیں خون میں ڈبو کر باہر نکالا گیا ہو اس کی آنکھیں چھوٹی مگر سرخ رنگ میں شعلے برساتی نظر آتی ہیں جبکہ اس کے سرخ رنگ کے کان کئی اور منظر کی دلالت کرتے ہیں اس کے منہ کے اطراف سے چھوٹے چھوٹے سفید دانتوں کے علاوہ نکلتی ہوئی دو شاخ والی زبان اس کی جہانوی مخلوق ہونے پر مہر ثبت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایک راویت کے مطابق ایک راہب پادری کو جب کسی جرم کی پاداش میں زندہ دیوار میں چرواتے ہوئے اسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا تو اس نے شیطان کی مدد سے صرف ایک رات میں اس کتاب کو تحریر کرتے ہوئے اس کائنات اور اس کے انجام کے بارے میں وضاحت کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن شیطان پھر ایسہ اس پر حیوی

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Kamil Boldan، Michal Dragoun، Duan Foltýn، Jindřich Marek، Zdeněk Uhlíř (2007)۔ The Devil's Bible - Codex Gigas. The Secrets of the World's Largest Book۔ NKP۔ صفحہ: 15۔ ISBN 978-80-7050-532-8 
  2. "Codex Gigas"۔ National Library of Sweden, Kungl. Biblioteket, Stockholm۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 فروری 2016 
  3. KB, "About the Content"
  4. KB, Medical contents
  5. ^ ا ب "Description of the MS - Kungliga biblioteket"۔ Kb.se۔ 2007-06-19۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 نومبر 2013 
  6. KB, "Decoration"

مزید پڑھیے[ترمیم]

  • Bártl, S., Kostelecký, J.: Ďáblova bible. Tajemství největší knihy světa, Paseka, 1993. آئی ایس بی این 80-85192-64-0
  • J. Belsheim, Die Apostelgeschichte und die Offenbarung Johannis in einer alten lateinischen Übersetzung aus dem 'Gigas librorum' auf der königlichen Bibliothek zu Stockholm (Christiana, 1879).
  • M. Gullick, The Codex Gigas. A revised version of the George Svensson lecture delivered at the National Library of Sweden, Stockholm, November 2006, Biblis 28 (2007), pp. 5–19.