مدنی انعامات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ہمارا ہر کام چاہے اچھا ہو یا بُرا اُس کا اثر ہمارے باطن یعنی دل پر ضَرور پڑتا ہے اور دل کو جِسْم کا بادشاہ کہا جاتا ہے ،بحکمِ حدیث :’’اگر یہ درست ہو تو سارا جِسْم درست رہتا ہے اور یہ خراب ہو توپورا جِسْم خراب ہو جاتاہے۔‘‘ [1] انسان جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دِل پر ایک سیاہ نقطہ لگادیا جاتا ہے حتّٰی کہ گناہوں کی کثرت دل کو سیاہ کردیتی ہے اور اس پر نیکی کی بات اثر نہیں کرتی۔ جب انسان نیکی کرتا ہے تو نیکی کا اثر بحکم قرآنی یہ ہے کہ’’ نیکیاں گناہوں کو خَتم کردیتی ہیں۔‘‘(پ 12، ھود :114) چنانچہ نیکیوں کی بَرَکت سے دِل صاف و شفاف ہوجاتے ہیں اور اِنسان صاحبِ رُوحانیت ہوجاتا ہے پھر وہ بڑی بڑی عبادات و مُجا ہَدات پابندی و اِستِقامت کے ساتھ بَجالاتا ہے۔ منقول ہے کہ سرکارِ غوثِ اعظم اور سیدنا امام اعظم رَحِمَہُمَا اللّٰہُ الاَکْرَم نے چالیس بَرَس عشاء کے وُضو سے نمازِ فَجْرادا فرمائی ب[2] حضور سیدنا غوث الاعظم عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الاَکْرَم نے پچیس بَرَس اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرتے ہوئے عراق شریف کے جنگلات میں گزاردیئے۔[3] کئی کئی دن فاقے کیے اِسی طرح دیگر مُجَاہَدات بھی بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن سے منقول ہیں۔ اولیائے کِرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام نے کئی کئی بَرَس مسلسل روزے بھی رکھے روزانہ تین تین سو، پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار نوافل ادا کیے۔ روزانہ پورا قرآنِ پاک تلاوت کرلیتے، کئی کئی ہزار مرتبہ دُرودِ پاک پڑھا کرتے۔ یہ سب کیسے ہوجاتا اور پابندی کے ساتھ ایسے عَظِیْمُ الْمَرْتَبَت اُمور کس طرح انجام دے لیتے تھے…؟ آخر وہ کون سی طاقت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس طاقت کا نام رُوحانیت ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا کردہ اِس نعمتِ عُظمٰی کے سبب مُشکل ترین مُعاملات بھی آسان تر ہوجاتے ہیں اور رفتہ رفتہ اِستِقامت بھی مِل جاتی ہے، مگر ابتدا ء ً ہمیں اپنے نَفْس پر جَبْر کرنا ہوگا، اس کے عبادات کی طرف مائل نہ ہونے کے باوجود لگے رہنا ہوگا۔ جب کچھ عرصہ کی مَشَقَّت کے بعد رُوحانیت کی کرنیں دل کو مُنَوَّر کریں گی تو اس کے سبب اِستِقامت بھی حاصل ہو جائے گی۔ بُزُرگوں کا یہ مَقُولہ بھی خوب ہے ’’ اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ ‘‘ [4] یعنی اِستِقامت کرامت سے بڑھ کر ہے مگراس کے لیے ہر عمل اِخلاص سے پُر ہونا ضَروری ہے جبھی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا فَضْل بھی شاملِ حال ہوگا۔ (جنتیوں کو جنت میں داخلے کے وقت کہا جائے گا) یہ تمھارا صلہ ہے اور تمھاری محنت ٹھکانے لگی۔(پ 29، الدھر :22 ) اِس آیت سے معلوم ہوا کہ اِنْ شَاء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ جنت میں جانا اسے نصیب ہوگا جس نے دُنیا میں کوشش کی اور خدا کی بندَگی میں مصروف رہا۔ اس لیے ہم نے عبادت کی حقیقت میں نظر کی، اس کے طریقوں پر غور کیا ،اس کے بنیادی اُمور و مقاصد پر نظر دوڑائی تو غور کرنے سے معلوم ہوا کہ عبادت میں اِستِقامت نہایت دشوار و مشکل ہے اِس راہ میں نہایت تنگ و تاریک گھاٹیاں عبور کرنا پڑتی ہیں۔ شدید مَشَقَّتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بڑی بڑی آفات راستے میں پیش آتی ہیں اور منزلِ مقصود تک پہنچنے میں بَہُت سی رُکاوٹیں درپیش ہیں اس راستے میں گُوناگُوں ہلاک اور تباہ کن چیزیں مَخفی ہیں، الغَرَض اس راستے کا ایسا مشکل اور پیچیدہ ہونا ضَروری ہے کیونکہ یہ جنت کا راستہ ہے اور جنت میں پہنچنا آسان نہیں اور عبادت کا اِتنا مشکل ہونا حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس ارشاد کی تصدیق کرتا ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسلَّم نے فرمایا :’’ سن لو جنت خلافِ نَفْس کام کرنے سے حاصل ہوگی اور دوزخ میں لوگ شَہْوات کی پیروی کی وَجْہ سے جائیں گے۔‘‘ [5] ایک اور حدیثِ پاک میں ہے: ’’ سُن لو کہ جنت اُونچے ٹیلے پر پتھریلی زمین کی طرح ہے اور دوزخ صحن میں نرم و ہموار زمین کی مانند ہے۔‘‘[6]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. صحیح البخاری،کتاب الایمان، باب فضل من استبرء لدینہ، الحدیث:52، ج1،ص33
  2. ہجۃ الاسرار، ذکرطریقہ، ص164
  3. بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعاً بشیٔ من عجائب ،ص 118
  4. سبع سنابل، ص44
  5. صحیح مسلم، کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و اھلھا،الحدیث:2822،ص 1516
  6. مسند احمد بن حنبل، مسند عبد اللہ بن العباس الحدیث:3017، ج 1، ص700