مراکش

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
  
مراکش
مراکش
مراکش
پرچم
مراکش
مراکش
نشان


شعار
(عربی میں: الله، الوطن، الملك ویکی ڈیٹا پر (P1451) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ترانہ:
زمین و آبادی
متناسقات 32°N 6°W / 32°N 6°W / 32; -6  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
بلند مقام
پست مقام
رقبہ
دارالحکومت رباط  ویکی ڈیٹا پر (P36) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری زبان عربی[2]  ویکی ڈیٹا پر (P37) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
حکمران
طرز حکمرانی آئینی بادشاہت  ویکی ڈیٹا پر (P122) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعلی ترین منصب محمد ششم مراکشی (23 جولا‎ئی 1999–)  ویکی ڈیٹا پر (P35) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سربراہ حکومت عزیز اخنوش (7 اکتوبر 2021–)  ویکی ڈیٹا پر (P6) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 789[3]  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر
لازمی تعلیم (کم از کم عمر)
لازمی تعلیم (زیادہ سے زیادہ عمر)
شرح بے روزگاری
دیگر اعداد و شمار
منطقۂ وقت متناسق عالمی وقت+01:00 (معیاری وقت)
متناسق عالمی وقت±00:00 (رمضان)  ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹریفک سمت دائیں[4]  ویکی ڈیٹا پر (P1622) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈومین نیم ma.  ویکی ڈیٹا پر (P78) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ،  اورباضابطہ ویب سائٹ،  اورباضابطہ ویب سائٹ،  اورباضابطہ ویب سائٹ،  اورباضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آیزو 3166-1 الفا-2 MA  ویکی ڈیٹا پر (P297) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بین الاقوامی فون کوڈ +212  ویکی ڈیٹا پر (P474) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map


مراکش (عربی: المغرب، آمازیغی: ⵍⵎⵖⵔⵉⴱ، سرکاری طور پر"ⵜⴰⴳⵍⴷⵉⵜ ⵏ ⵍⵎⵖⵔⵉⴱ"، "المملكة المغربية" )، [5] شمالی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ بحر اوقیانوس کے ساتھ طویل ساحلی پٹی پر واقع اس ملک کی سرحد آبنائے جبرالٹر پر جاکر بحیرہ روم میں جاملتی ہیں۔ مشرق میں مراکش کی سرحد الجزائر، شمال میں بحیرہ روم اور اسپین سے منسلک آبی سرحد اور مغرب میں بحر اوقیانوس موجود ہے۔ جنوب میں اس کی سرحدیں متنازع ہیں۔ مراکش مغربی صحارا پر ملکیت کا دعویدار ہے اور 1975ء سے اس کے بیشتر رقبے کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔


مراکش افریقہ کا واحد ملک ہے جو افریقی یونین کا رکن نہیں البتہ وہ عظیم مغرب یونین، موتمر عالم اسلامی، عرب لیگ، بحیرہ روم ڈائیلاگ گروپ اور گروپ 77 کا رکن ہے اور امریکا کا ایک اہم غیر نیٹو اتحادی ہے۔

نام[ترمیم]

ملک کا مکمل عربی نام "المملكة المغربية" ہے جس کا مطلب مغربی سلطنت ہے۔ تاریخی طور پر مورخین مراکش کو المغرب الاقصی کہتے تھے جس کی بنیاد پر اسے مغرب کہا جانے لگا۔ اردو سمیت کئی زبانوں میں اسے مراکش کہا جاتا ہے جو اس کے سابق دارالحکومت مراکش (شہر) کا نام ہے۔

تاریخ[ترمیم]

آيت بن حدّو کا شہر فصیل کے اندر قائم ہے

جدید مراکش کا علاقہ 8 ہزار سال قبل مسیح میں آباد ہوا۔ قدیم دور میں یہ ماریطانیہ کہلا تا تھا۔ واضح رہے کہ ماریطانیہ نام کا ملک بھی مراکش کے قریب ہی واقع ہے۔ شمالی افریقہ اور مراکش عظیم رومی سلطنت کا حصہ رہے ہیں اور رومی سلطنت میں مراکش کا علاقہ Mauretania Tingitana کہلاتا تھا۔ 5 ویں صدی میں رومی سلطنت کے زوال کے بعد وینڈلز، وزیگوتھ اور بازنطینی یونانیوں نے اس سرزمین پر قبضہ کیا۔ اس دور میں بھی جدید مراکش کے پہاڑی علاقے آزاد رہے جن میں بربر نسل کے لوگ رہتے تھے۔

ظہور اسلام کے بعد 7 ویں صدی میں عرب افواج شمالی افریقہ کو فتح کرتے ہوئے مراکش پہنچیں۔ 670ء میں خلافت امویہ کا جرنیل عقبہ بن نافع شمالی افریقہ کی ساحلی پٹی میں فتوحات حاصل کرتے کرتے مراکش پہنچا اور 683ء تک جدید مراکش کا تقریباً تمام علاقہ فتح کر لیا۔

حسن ثانی مسجد، کاسابلانکا

اس فتح کے بعد مراکش میں اسلامی ثقافت اپنے عروج پر پہنچی اور مقامی بربر آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔

بنو امیہ کے زوال کے بعد خلافت عباسیہ کا دور آیا جس میں مراکش مرکزی حکومت کی دسترس سے نکل گیا اور ادریس بن عبداللہ نے ادریسی سلطنت قائم کردی۔ ادریسیوں نے فاس کو اپنا دار الحکومت قرار دیا اور مراکش کو تعلیم و ہنر کا مرکز بنادیا۔

مراکش بربروں کی دو بادشاہتوں کے درمیان میں اپنے عروج پر پہنچ گیا جو ادریسیوں کے بعد قائم ہوئیں۔ پہلے مرابطین اور بعد ازاں موحدین کے دور میں مراکش تمام شمال مغربی افریقہ اور اندلس کے بیشتر حصے کا حکمران بن گیا۔ اسلامی اسپین میں اشبیلیہ اور غرناطہ جیسے شہر یورپ میں علم و ہنر، سائنس، ریاضی، علم فلکیات، جغرافیہ اور طب کے مراکز تھے۔

فرڈینینڈ دوم آراغونی اور ملکہ آئزابیلا کے ہاتھوں سقوط غرناطہکے بعد اسپین میں مسلم اقتدار کا سورج غروب ہو گیا اور عیسائیوں نے مسلمانوں اور یہودیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑدیئے۔ عیسائیوں کے مظالم سے تنگ آکر اسپین کے مسلمان اور یہودی مراکش آ گئے۔ عیسائیوں نے مسلم ثقافت کی ہر نشانی کو ختم کرنے کے لیے اندلس کا ہر کتب خانہ تباہ کر دیا جس کے باعث ہزاروں انمول کتابیں ضائع ہوگئیں۔

مراکش 1666ء تا 1912ء[ترمیم]

بعد ازاں سلطنت علویہ نے عروج حاصل کیا جسے اسپین اور مسلسل مغرب کی جانب توسیع پانے والی سلطنت عثمانیہ کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا۔ علوی اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے حالانکہ ان کی حکومت گذشتہ حکومتوں کے مقابلے میں چھوٹی لیکن کافی دولت مند تھی۔ 1684ء میں انھوں نے طنجہ پر بھی قبضہ کر لیا۔

مراکش پہلا ملک ہے جس نے 1777ء میں امریکا کو بطور آزاد ملک تسلیم کیا۔ امریکی انقلاب کے آغاز میں بحر اوقیانوس میں سفر کرنے والے امریکی جہازوں پر بربر قزاق حملے کیا کرتے تھے۔ اس وقت امریکیوں نے یورپی قوتوں سے مدد کی درخواست کی لیکن اس کی شنوائی نہیں ہوئی۔ 20 دسمبر 1777ء کو مراکش کے سلطان نے اعلان کیا کہ امریکی تاجروں کے جہاز سلطنت کی حفاظت و امان میں ہوں گے۔

امریکا۔ مراکش دوستی کا یہ معاہدہ امریکا کا قدیم ترین دوستی کا معاہدہ ہے جو آج تک برقرار ہے۔ اس معاہدے پر جون ایڈمز اور تھامس جیفرسن نے دستخط کیے تھے اور یہ 1786ء سے نافذ ہے۔ صدر جارج واشنگٹن نے سلطان سیدی محمد کو خط لکھا جس سے دونوں ممالک کے درمیان میں تعلقات مزید مستحکم ہوئے۔ طنجہ میں امریکی قونصلیٹ ملک سے امریکی حکومت کی پہلی ملکیت تھی۔ اس عمارت میں اب طنجہ امریکن لیگیشن میوزیم قائم ہے۔

یورپی اثرات[ترمیم]

مراکش اس وقت افریقا میں سب سے دولت مند ملک تھا اور وہ بحیرہ روم میں داخلے کے راستے پر قائم ہونے اور اپنے بہترین محل وقوع کے باعث یورپی استعماری قوتوں کی نظر میں آ گیا۔ فرانس نے 1830ء میں مراکش میں زبردست دلچسپی دکھائی۔ 1904ء میں مراکش میں فرانس کے حلقہ اثر کی برطانوی قبولیت نے جرمنی میں زبردست رد عمل پیدا کیا اور جون 1905ء کے اس بحران کو 1906ء میں اسپین میں الجزیراس کانفرنس کے ذریعے حل کیا گیا جس کے ذریعے مراکش میں فرانس کی "خصوصی حیثیت" اور فرانس اور اسپین کے مشترکہ قبضے کو تسلیم کیا گیا۔ یورپی قوتوں کے درمیان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ساتھ مراکش کا دوسرا بحران برلن نے پیدا کیا اور 30 مارچ 1912ء کو معاہدہ فاس کے تحت مراکش کو فرانس کی کالونی بنادیا گیا۔ معاہدے کے تحت اسی سال 27 نومبر کو اسپین کو شمالی و جنوبی علاقوں کا قبضہ دیا گیا۔

مزاحمت[ترمیم]

دوسری جنگ عظیم کے بعد طے پانے والے میثاق اوقیانوس کے تحت مراکش کی کئی قومی سیاسی جماعتوں نے ملک کی آزادی کا مطالبہ کیا اور استقلال پارٹی نے پہلی مرتبہ 1944ء میں عوامی سطح پر آزادی کی آواز اٹھائی۔

1953ء میں سلطان محمد پنجم کی مڈغاسکر جلاوطنی اور ان کی جگہ غیر مقبول محمد بن عارفہ کی تقرری نے ملک بھر میں فرانس کے خلاف زبردست رد عمل پیدا کیا۔ اس دوران میں سب سے مشہور واقعہ اوجدا میں مراکشی باشندوں کو فرانس اور دیگر یورپی باشندوں کی رہائش گاہوں پر حملہ تھا۔ فرانسی قبضے کے خلاف یکم اکتوبر 1955ء کو "آرمی ڈی لبریشن" قائم کی گئی جس کا قیام "کمیٹی ڈی لبریشن ڈو مغرب عرب" نے قاہرہ، مصر میں کیا۔ اس کا ہدف سلطان محمد پنجم کی وطن واپسی اور الجزائر اور تیونس کی آزادی تھا۔ فرانس نے 1955ء میں محمد پنجم کو وطن واپسی کی اجازت دی اور مذاکرات کا آغاز ہوا جو بالآخر اگلے برس مراکش کی آزادی پر متنج ہوئے۔

یہ "انقلاب شاہ و عوام" کہلاتا ہے جسے ہر سال 20 اگست کو منایا جاتا ہے۔

آزادی[ترمیم]

مراکش نے 2 مارچ 1956ء کو سیاسی طور پر آزادی حاصل کی اور 7 اپریل کو فرانس نے مراکش پر اپنے قبضے کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ 1956ء اور 1958ء میں فرانس سے معاہدات کے تحت ہسپانوی قبضے کے تحت علاقوں پر مراکش کا قبضہ ہوا لیکن دیگر ہسپانوی قبضہ جات کو طاقت کے بل بوتے پر حاصل کرنے کی کوشش ناکام رہی۔ طنجہ کا بین الاقوامی شہر 29 اکتوبر 1956ء کو معاہدہ طنجہ پر دستخط کے ساتھ ایک بار پھر حاصل کر لیا۔ ان کا دور سیاسی عدم استحکام کا دور سمجھا جاتا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں مراکش نے مغربی صحارا پر فوج کشی کی اور اس خطے کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔

مراکش جون 2004ء میں امریکا کا نان نیٹو اتحادی قرار پایا اور اس نے امریکا و یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کیے۔

2003ء میں مراکش کا سب سے بڑا شہر کاسابلانکا دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا۔ ان حملوں کا نشانہ مغربی اور یہودی باشندے تھے جس میں 33 شہری ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے جن کی اکثریت مراکشی تھی۔

2006ء میں مراکش نے آزادی کی 50 ویں سالگرہ منائی۔

مراکش کی آزادی میں پاکستان کا کردار[ترمیم]

1912ء سے 1955ء تک مراکش پر فرانس قابض رہاتاہم ہزاروں مراکشی باشندوں کی قربانیوں کے نتیجے میں 1956ء میں مراکش نے فرانس سے آزادی حاصل کی۔آزادی کی تحریک میں پاکستان نے بھی مراکش کا بھرپور ساتھ دیا۔

1952ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی موقع پر مراکش کے شاہ محمدپنجم كى طرف سے بیجھے گئے تحریک آذادی کے سرگرم لیڈر [./Https://en.wikipedia.org/wiki/Ahmed%20Balafrej احمدعبدالسلام بلافریج] سیکیورٹی کونسل میں جب مراکش کی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو وہاں موجود فرانسیسی نمائندے نے احمد بلافریج کو یہ کہہ کر خطاب کرنے سے روک دیا کہہ "مراکش چونکہ فرانس کی کالونی ہے لہذا احمد بلافریج کو اس پلیٹ فارم سے بولنے کی اجازت نہیں۔" اجلاس میں پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سرظفراللہ خان(جو کہ قادیانی تھے) بھی شریک تھے، انھوں نے جب ایک مسلمان رہنما کے ساتھ فرانسیسی نمائندے کا ہتک آمیز سلوک دیکھا تو احمد بلافریج کو پاکستان کی شہریت کی پیشکش کی اور رات گئے نیویارک میں قائم پاکستانی سفارت خانہ کھلوا کر احمد بلافریج کوپاکستانی پاسپورٹ جاری کیا۔ اس طرح اگلے روز احمدبلافریج نے پاکستانی نشست سے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کر کے مراکش کی فرانس سے آزادی کے حق میں آواز بلند کی جس سے مراکش کی آزادی کی تحريک میں نئی روح پڑی اور بالآخر 19 نومبر 1956ء کو مراکش، فرانس کے تسلط سے آزاد ہوا۔

آزادی کے بعد مراکش کے بادشاہ محمدپنجم نے احمدعبدالسلام بلافریج کو مراکش کا پہلا وزیر اعظم نامزدکیا۔

احمدبلافریج آج دنیا میں نہیں مگر وہ جب تک وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے، انھوں نے اپنے دفترمیں پاکستانی پاسپورٹ کی کاپی آویزاں رکھی، وہ اپنے دفتر میں آنے والے ہر شخص کو پاکستانی پاسپورٹ دکھاتے ہوئے بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ:

مراکش کی آزادی کی تحريک میں پاکستان اور پاکستانی پاسپورٹ نے ان کی بڑی مدد کی۔

شاید یہی وجہ ہے کے ترکی کی بعد مراکش وہ ملک ہے جہاں کے لوگ پاکستانیوں سے بہت محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔

تاریخی مماثلت[ترمیم]

مراکش اور پاکستان میں تاریخی اعتبار سے بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔711ء میں جب نوجوان سپہ سالار طارق بن زیاد جبرالٹر کے مقام پر اپنی کشتیاں جلا کر فتح یا شہادت کا اعلان کر رہا تھا، اسی دوران میں ایک اور نوجوان سپہ سالار محمد بن قاسم برصغیر میں دیبل کے مقام پر فتح کا اسلامی پرچم گاڑھ رھا تھا جس کے نتیجے میں برصغیر میں اسلام پھیلا اور کئی صدیوں تک مسلمانوں نے ہندوستان پر حکمرانی کی۔[حوالہ درکار]

جغرافیہ[ترمیم]

مراکش کا نقشہ

ایک لاکھ 75 ہزار 402 مربع میل (4 لاکھ 46 ہزار 550 مربع کلومیٹر) کے رقبے پر پھیلا مراکش رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 57 واں سب سے بڑا ملک ہے۔

مشرق اور جنوب مشرق میں اس کی سرحد الجزائر سے ملتی ہے۔ بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ ساتھ چند شہروں پر اب تک ہسپانوی قبضہ برقرار ہے۔ مراکش کے شمال میں آبنائے جبرالٹر ہے۔ بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ ساحلی علاقوں پر کوہ ریف کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ معروف کوہ اطلس کا سلسلہ جنوب مغرب سے شمال مشرق کی جانب ہے۔ ملک کے جنوب مشرق کا بیشتر علاقہ صحرائے اعظم میں شامل ہے جہاں آبادی بہت کم ہے۔ آبادی کی اکثریت ان دونوں پہاڑی سلسلوں کے شمال میں رہائش پزیر ہے۔ جنوب میں سابق ہسپانوی کالونی مغربی صحارا واقع ہے جس پر 1975ء میں مراکش نے قبضہ کر لیا تھا اور اسے اپنا جنوبی صوبہ قرار دیتا ہے۔

مراکش کا دار الحکومت رباط ہے اور اس کا سب سے بڑا شہر اور بڑی بندرگاہ کاسابلانکا ہے۔

دیگر بڑے شہروں میں اگادیر، فاس، مراکیش، محمدیہ، طنجہ و دیگر شہر شامل ہیں۔

علاقائی تقسیم[ترمیم]

1997ء میں منظور شدہ قانون کے مطابق مراکش کو 16 نئے علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر علاقہ کو مزید چھوٹے انتظامی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کو صوبہ کہتے ہیں۔ مراکش میں صوبوں کی کل تعداد 61 ہے۔ علاقہ کا سربرہ والی (گورنر) کہلاتا ہے جس کو بادشاہ وقت نامزد کرتا ہے۔ اور والی اس صوبہ کا سربراہ بھی ہوتا ہے جس میں وہ رہتا ہے۔

مراکش کے علاقے اور ان کے صوبے درج ذیل ہیں۔

نمبر شمار علاقہ علاقہ کا صدر مقام علاقہ میں شامل صوبے دیگر اہم شہر
1 الشاويہ ورديغہ سلطات بن سليمان۔ خريبكہ
2 دكالہ عبدہ آسفي الجديدہ
3 فاس بولمان فاس بولمان۔ مولاۓ یعقوب۔ سیفراو
4 الغرب شراردہ بني حسين القنيطرہ سيدي قاسم
5 عظیم کاسابلانکا (عربی میں۔ جهہ الدار البيضاء الكبرى) کاسابلانکا عین شوک آۓ حسنی۔ عین صباۓ محمدی۔ بن مسک سیدی عثمان۔ کاسابلانکا انفا۔ انفدا درب سلطان۔ مشاور کاسابلانکا۔ سیدی برنوسی زیناتا۔ محمدیہ۔ میدیونہ۔ نوآشور
6 كلميم السمارہ كلميم عصا زاگ۔ سمارا۔ طانطان۔ طاطہ
7 العيون بوجدور الساقيہ الحمراء العيون بوجدور
8 مراكش تانسيفت حاوز مراکیش مراکیش مدینہ۔ مراکیش منارہ۔ سیدی یوسف بن علی۔ العاوز۔ کیکاؤا۔ الکیلات اسراغنا۔ الصويرہ
9 مكناس تافيلالت مکناس الاسماعیلیہ۔ مکناس المنزہ۔ الحجاب۔ الراشيديہ۔ افران۔ خنيفرہ
10 الجهہ الشرقيہ وجدہ بركان۔ فگواگ۔ جرادہ۔ الناظور‎۔ وجدہ انغد۔ توریرت
11 وادي الذهب لكويرہ الداخلہ آوسرد۔ اودادھاب
12 الرباط سلا زمور زعير رباط صاليہ۔ سکرت تمارہ۔ الخميسات
13 سوس ماسة درعہ اگادیر اگادیر ادآو طنانے۔ انزیغانے آیت میلاول۔ شتوکہ آیت باہہ۔ ورزازات۔ ترودانت۔ تزنيت‎۔ زكورہ
14 تادلہ ازيلال بني ملال ازلال
15 طنجہ تطوان تطوان فہس انجرا۔ تنجیر اسیلہ۔ شفشاون۔ وزان۔ العرائش
16 تازہ الحسيمہ تاونات الحسيمہ تاونات۔ تازہ

بین الاقوامی تعلقات[ترمیم]

تنظیم تاریخ شمولیت
اقوام متحدہ 12 نومبر 1956ء سے
عرب لیگ یکم اکتوبر 1958ء سے
انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی 1959 سے
آرگنائزیشن آف افریقن یونٹی تاسیسی رکن 25 مئی 1963ء، دستبرداری 12 نومبر 1984ء
گروپ آف 77 15 جون 1964ء سے
align="center" موتمر عالم اسلامی 22 ستمبر 1969ء
عظیم مغرب یونین 17 فروری 1989ء
عالمی تجارتی تنظیم یکم جنوری 1995ء سے
میڈیٹیرینیئن ڈائیلاگ گروپ فروری 1995ء سے
غیر نیٹو اتحادی 19 جنوری 2004ء سے

متعلقہ مضامین مراکش[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1.   ویکی ڈیٹا پر (P402) کی خاصیت میں تبدیلی کریں "صفحہ مراکش في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مارچ 2024ء 
  2. باب: 5
  3. https://www.jewishvirtuallibrary.org/rulers-of-morocco-789-present
  4. http://chartsbin.com/view/edr
  5. "Morocco"۔ World Factbook۔ Central Intelligence Agency۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 فروری 2015 

بیرونی روابط[ترمیم]