مندرجات کا رخ کریں

مرزا خلیل احمد بیگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مرزا خلیل احمد بیگ

معلومات شخصیت
پیدائش 1 جنوری 1945ء (80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گورکھپور ،  متحدہ صوبہ جات   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ دُردانہ خلیل
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ استاد جامعہ ،  ماہرِ لسانیات ،  ادبی نقاد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،  کنگ فہد یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

مرزا خلیل احمد بیگ (پیدائش: 1 جنوری 1945ء، گورکھپور، اتر پردیش) بھارتی ماہر لسانیات، نقاد اور ادبی شخصیت ہیں جو بالخصوص اردو لسانیات کے مطالعے میں اپنی خدمات کے لیے معروف ہیں۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ، بھارت کے شعبۂ لسانیات میں پروفیسر اور صدر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی کارنیل یونیورسٹی میں وزیٹنگ فیکلٹی بھی رہے۔

جامعہ علی گڑھ میں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ یکم جنوری 1945 کو گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں سے مکمل کی۔ 1964ء میں علی گڑھ منتقل ہو گئے۔ 1975ء میں جامعہ علی گڑھ سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اسی جامعہ میں شعبۂ لسانیات کے سربراہ بھی رہے اور اس عہدے سے 31 دسمبر 2006ء میں سبکدوش ہوئے۔[1] سنہ 1994ء میں امریکا کا علمی سفر شروع کیا اور یونیورسٹی آف ٹینسی (ناکس ول) کے شعبہ لسانیات میں داخلہ لیا۔ 1996ء میں واپس بھارت کا رخ کیا اور سماجی لسانیات پر ایک کتاب لکھی۔

حالات زندگی

[ترمیم]

مرزا خلیل احمد بیگ یکم جنوری 1945ء کو برطانوی ہند کے متحدہ صوبہ جات (موجودہ اتر پردیش) کے شہر گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہیں سے میاں صاحب جارج اسلامیہ (MSGI) کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات کے ساتھ بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کرنے کے بعد مسعود حسین خاں کی نگرانی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا۔ ابھی ان کی تحقیق کا سلسلہ جاری تھا کہ شعبۂ لسانیات میں علی گڑھ کالج میں ہی عارضی لیکچرار کی حیثیت سے ان کی تقرری ہو گئی۔ 1975ء میں انھوں نے پی ایچ ڈی مکمل کر لی تاہم سند 1976ء میں تفویص ہوئی۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں چار سال (1973ء تا 1977ء) عارضی لیکچرار رہنے کے بعد ان کی تقرری سولن (ہماچل پردیش) میں حکومت ہند کے قائم کردہ ادارے ”اُردو تدریسی و تحقیقی مرکز“ (اردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سینٹر) میں پرنسپل کی حیثیت سے ہو گئی۔ یہ ادارہ سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز (میسور) کے تحت کام کرتا تھا، جس کا براہِ راست تعلق وزارت ترقی انسانی وسائل، حکومت ہند سے تھا۔ سولن کا یہ ادارہ بنیادی طور پر ہماچل پردیش کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو اُردو کی تربیت دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا تا کہ اساتذہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سہ لسانی فارمولے کے تحت اپنے اپنے اسکولوں میں اُردو پڑھانے کے اہل ہو سکیں۔ اس ادارے میں قیام کے دوران انھوں نے ”آئیے اُردو سیکھیے“ کے عنوان سے ایک کتابچہ تیار کیا جو بعد میں اشاعت پزیر ہو کر بہت مقبول ہوا۔ اگست 1981ء میں سولن سے مستعفی ہو کر انھوں نے دوبارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ملازمت کا آغاذ کیا اور 2001ء میں شعبۂ لسانیات کی صدارت پر فائز ہوئے اور 2006ء تک منصب پر فائز رہے۔ بالآخر 33 سال تک درس و تدریس کے فرائض سر انجام دنے کے بعد 31 دسمبر 2006ء کو عمر کے 62 سال مکمل ہونے پر وظیفہ حسنِ خدمت پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے سبک دوش ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ملازمت کے دوران انھوں نے شعبۂ لسانیات اور مادر علم کے لیے کئی کاریائے نمایاں سر انجام دیے۔ اپنی مدتِ ملازمت کے دوران انھوں نے 20 طلبہ و طالبات کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالوں کی نگرانی کی۔ ان کی کوششوں سے جامعہ کے ذو لسانی مجلے اطلاقی لسانیات (اپلائیڈ لنگوسٹک) کا اِجرا عمل میں آیا۔ انھوں نے جامعہ میں کئی سیمینار بھی منعقد کرائے۔ 1986ء میں ان کا تقرر جامعہ اُردو علی گڑھ میں اعزازی خازن (Treasuree) کی حیثیت سے پانچ سال کے لیے ہو گیا۔ پانچ سال کی مدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ پھر انھیں جامعہ اُردو کی مجلس عامہ کی طرف سے اعزاری خازن کی حیثیت سے منتخب کر لیا۔ بعد میں خلیق انجم جب جامعہ اُردو کے وائس چانسلر منتخب ہوئے تو اُنھوں نے بھی انھیں اعزاری خازن کی حیثیت سے اپنی ٹیم میں شامل کر لیا تاہم بعد میں مستعفی ہو گئے۔ وہ اس دوران جامعہ اُردو سے شائع ہونے والے مجلے ”ادیب“ کے مدیر بھی رہے۔

لسانیات میں مزید تعلیم کے لیے وہ 1994ء میں امریکا روانہ ہو گئے اور یہاں یونیورسٹی آف ٹینیسی (ناکس ول) کے شعبہ میں لسانیات میں داخل لے لیا۔ یہاں سے واپسی پر اُنھوں نے سماجی لسانیات (سوشل لنگوسٹک) کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جو 1996ء میں نئی دہلی سے شائع ہوئی۔

1998ء میں ان کا تقرر سعودی عرب میں واقعہ جامعہ کنگ خالد میں شعبۂ انگریزی میں بحیثیت پروفیسر ہو گیا۔ جولائی 2010ء میں سعودی عرب سے واپس آئے اور 2011ء میں دوبارہ علمی سفر پر امریکا روانہ ہو گئے۔ علی گڑھ سے سبک دوشی کے بعد وہ مسلسل مختلف اداروں میں علمی خدمات ادا کر رہے ہیں۔ اسلوبیات، اطلاقی لسانیات ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ ان کی دلچسپی کا دوسرا بڑا میدان اُردو زبان و قواعد کی تاریخ ہے۔ وہ مسلسل ان موضوعات پر لکھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ علمی دنیا میں وہ ایک نامور ماہر لسانیات اور اسلوبیاتی نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔

وہ اکیسویں صدی کے اُن ماہرینِ لسانیات میں شامل ہیں، جن کا اُردو لسانیات اور اُسلوبیات کے میدان میں تحقیقی کام قابلِ قدر ہے۔

اردو کے متعلق نظریات

[ترمیم]

مرزا خلیل احمد بیگ اُردو کے آغاز و ارتقا کے سلسلے میں مختلف ماہرینِ لسانیات کی جانب سے پیش کردہ مختلف نظریات میں سے اپنے استاد مسعود حسین خاں کے لسانی نظریے کو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل گردانتے ہیں۔ وہ اپنے لسانی نظریے کی بنیاد اپنے استاد کے لسانی نظریے پر قائم کرتے ہیں، مگر اُردو کے آغاز کے حوالے سے اُن سے اختلاف کرتے ہوئے وہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ”میرے اور مسعود حسین خاں کے نظریے میں فرق صرف اتنا ہے کہ میں اُردو کا آغاز 1000 سنہِ عیسوی کے فوراً بعد سے مانتا ہوں اور مسعود حسین خاں 1193ء سے۔ مسعود حسین خاں آغازِ اُردو کے سلسلے میں فتحِ دہلی (1193ء) کو بے حد اہمیت دیتے ہیں جب کہ میں دہلی سلطنت کے قیام (1206ء) کو اُردو کے ارتقا کی دوسری منزل قرار دیتا ہوں۔“[2] دراصل کھڑی بولی کے آغاز کو ہی وہ اُردو کا آغاز خیال کرتے ہیں۔

تصانیف

[ترمیم]

ان کی اہم کتب کے نام حسب ذیل ہیں۔[1]

  • اردو کی لسانی تشکیل (1985ء)
  • تنقید اور اسلوبیاتی تنقید (2005ء)
  • اردو کا تاریخی تناظر
  • پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی (احوال و آثار) (1989ء)
  • مسعود حسین خاں (احوال وآثار) (2015ء)
  • نذر مسعود (1989ء)
  • اردو لفظ کا صوتیاتی اور تجز صوتیاتی مطالعہ (مسعود حسین خاں کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ) (1986ء)
  • ایک بھاشا جو مسترد کر دی گئی (2007ء)
  • لسانی مسائل و مباحث (2016ء)
  • لسانی تناظر (1997ء)
  • مکاتیب مسعود (2017ء)
  • پریم چند شخصیت اور فن (1997ء)
  • زبان، اسلوب اور اسلوبیات (1983ء)
  • آئیے اردو سیکھیے (1987ء)
  • اردو زبان کی تاریخ (1995ء)
  • اسلوبیاتی تنقید (2014ء)
  • ادبی تنقید کے لسانی مضمرات (2012ء)
  • Urdu Grammar: History & Structure, 1988
  • Psycholinguistics and Language Acquisition, 1991
  • Sociolinguistic perspective of Hindi and Urdu in India, 1996

ان پر لکھی گئی کتب

[ترمیم]

”مرزا خلیل احمد بیگ کی لسانی خدمات“[3] کے عنوان سے ایک اہم تحقیقی مقالہ محمد عثمان بٹ نے تحریر کیا، جوشش ماہی تحقیقی جریدے ”اُردو“ انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی کی جلد 96، شمارہ 2 میں 31 دسمبر 2020ء کو شائع ہوا۔ یہ تحقیقی مقالہ مرزا خلیل احمد بیگ کے مختصر سوانحی خاکے کے علاوہ اُن کی اُردو زبان کے حوالے سے لسانی خدمات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب مکاتیب مسعود، مروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ، دہلی: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 2017ء
  2. مرزا خلیل احمد بیگ (2016)۔ لسانی مسائل و مباحث۔ دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ ص 18
  3. محمد عثمان بٹ (31 دسمبر 2020)۔ "مرزا خلیل احمد بیگ کی لسانی خدمات"۔ اُردو۔ انجمن ترقی اُردو پاکستان۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-08-22