مرواشیرینی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شہیدہ الحجاب کے نام سے معروف مرواشیرینی مصر سے تعلق رکھنے والی ایک با غیرت مسلم خاتون تھیں جو ایک نسل پرست جرمن کی سفاکیت کا نشانہ بنیں۔ مروا شیرینی جن کو اب سارے عالم اسلام میں اب ”شہیدہ الحجاب“ کے نام سے جانا جاتا ہے،

پس منظر[ترمیم]

31 سالہ مرواشیرینی اپنے شوہر ایلوی عکاذکے ہمراہ جرمنی میں رہائش پزیر تھیں جہاں ا یلوی عکاذ بسلسلہ روزگار مقیم تھے۔ آپ نے اجنبی ملک میں بھی بلا خوف و خطر حجاب کو اپنایا ہوا تھا۔ 2008 مروا ایک روز ایک تفریحی مقام پر اپنے بیٹے مصطفیٰ کے ساتھ ٹہل رہی تھیں کہ ایک اٹھائیس سالہ جرمن نوجوان ( جس کا نام ”ایلکس“ بتایا گیا ہے ) اس باحجاب خاتون کو میں” دہشت گرد اسلامسٹ“ کہہ کر پکارا۔ مروا شیرینی نے ”ایلکس“ کی اس بد تمیزی پر جرمنی کی ایک عدالت میں ایلکس کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ عدالت میں دائر کی گئی اپنی درخواست میں لکھا کہ” جرمن نوجوان نے ان کی مذہبی شناخت کی توہین کی ہے“ چنانچہ تحقیق و تفتیش کے بعد ایلکس کو مجرم ٹھہرا کراس پر عدالت نے 750 یورو جرمانہ عائد کیا۔ ایلکس ڈبلیو نے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی جس پر عدالت نے فریقین کو طلب کیا

شہادت[ترمیم]

7 جولائی 2009 کو مروا شیرینی عدالت پہنچی جبکہ خبیث جرمن نوجوان بھی عدالت پہنچا ،ابھی نظر ثانی کی درخواست شنوائی کا آغاز ہو ہی رہا تھا کہ اس حجاب دشمن جرمن نوجوان نے عفت مآب مروا شیرینی پر تیز دھار خنجر سے حملہ کر دیا۔ اس نے مروا کو لہو لہان کر کے انھیں اٹھارہ سے زائد وار کیے جن کی تاب نہ لاکر مروا شیرینی کمرہ عدالت میں جام شہادت نوش فرمایا۔ شہادت کے وقت آپ تین ماہ کی حاملہ تھیں اس دوران ان کے شوہر نے درندہ صفت جرمن نوجوان پر جھپٹنے کی کوشش کی تو اس درندے نے ا ن کو بھی لہو لہان کر دیا۔ ایلوی عکاذ گذشتہ کئی دنوں سے اسپتال میں موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ جبکہ عدالت میں وقوع ہونے والے اس دلخراش واقعے میں مروا کا تین سالہ بیٹا مصطفی بھی ان کے ساتھ تھا جو معجزاتی طور پر بچ نکلنے میں کامیاب ہوا۔

جرمن حکومت کا شرمناک کردار[ترمیم]

انسانی حقوق کے چیمپیئن جرمنی کی پولیس کی جانبداری اس سے عیاں ہے جس وقت جرمن درندہ ایلکس نے عفت مآب مروا شیرینی پر حملہ کیا تو عدالت میں موجود پولیس نے ایلکس کو قتل کرنے کی بجائے مروا شیرینی کے شوہر پر گولی چلائی۔ عدالت ابھی تک ایلکس کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر نہیں کر سکی اور یہ کہ مجرم کمرہ عدالت میں چاقو کیسے ساتھ لایا تھا اور اسے مسلم خاتون کو حجاب پر قتل کرنے کی عدالت میں کس نے اجازت دی تھی اس سب پر جرمن عدالت پر دہ ڈالے ہوئے ہے۔ ایک ہفتہ سے زائد وقت گزرنے کے باوجود جج اور وکلا کی موجودگی میں قتل کے مذموم فعل کا ارتکاب کرنے والے نسلی حیوان ایلکس کو ابھی تک جرمن حکومت مجرم کو قرار واقعی سزا دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے

مصری حکومت کی بے حسی[ترمیم]

اگرچہ مصری خاتون”شہیدہ الحجاب“ کے اس بہیمانہ قتل پر مصری مسلمانوں میں زبردست اشتعال پایا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود حسنی مبارک کی امریکا نواز سرکار اس سانحے پر جرمن حکومت کے خلاف کسی بھی کارروائی سے صرف ظر کر رہی ہے۔ مصری حکومت کے اس شرمناک طرز عمل پر مصری اخبارات اپنی شدید برہمی کا اظہار کر رہے ہیں اور وہ فوری طور پر ”شہیدہ الحجاب“ کے جرمن قاتل کو سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یاد رہے حسنی مبارک حکومت نے مصر میں عوامی احتجاج پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس وجہ سے مصری مسلمان سڑکوں پر آکر کوئی بھی احتجاج کرنے سے قاصر ہیں۔

قاتل[ترمیم]

جرمن نوجوان جس کا نام ”ایلکس“ بتایا گیا ہے اپنے خبث دل اور نجس دماغ میں مسلمانون کے ساتھ انتہائی درجے کی نفرت رکھتا ہے۔ وہ جرمنی کی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھتا ہے جو غیر جرمن کے ساتھ بھی تعصب رکھتی ہے اور مسلمان دشمنی میں پیش پیش ہے۔ وہ جرمنی میں مساجد کے خلاف آج تک کئی مرتبہ احتجاج کر چکی ہے۔