مریخ پر جھیلیں

متناسقات: 15°00′S 67°30′W / 15°S 67.5°W / -15; -67.5
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
فینکس خلائی گاڑی کے نیچے کا منظر جس میں روشن سطح  کے پیوند ہو سکتا ہے کہ برف کو ظاہر کر رہے ہوں۔

 1965 کے موسم گرما میں، مریخ کی پہلی قریبی تصاویر نے شہابی گڑھوں سے پرایسے صحرا کی صورت پیش کی جہاں پانی کی کوئی علامات نہیں تھی۔ تاہم گزرتے عشروں کے ساتھ جیسے جیسے سیارے کے زیادہ حصّوں کی پیچیدہ سیارچوں پر لگے بہتر کیمروں سے تصویر کشی ہوتی رہی ویسے ویسے مریخ نے سطح پر موجود ماضی کی قدیم وادیوں، جھیلوں اور برفیلے تودوں کے ثبوتوں کو آشکار کرنا شروع کر دیا۔ یہ دریافت ہوا کہ مریخ کی آب و ہوا ارضیاتی وقت کے دوران عظیم تغیر کو ظاہر کرتی ہے کیونکہ اس کا محور زمین جیسے بڑے چاند کے نہ ہونے کی وجہ سے مستحکم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، بعض محققین سمجھتے ہیں کہ پانی حرحرارتی اثر یا سیارچوں کے تصادموں کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے وہاں پر موجود ہو سکتا تھا۔  

 ماضی کے پانی کی نشانیوں سے بننے والی ساختوں کو دیکھنے کے ساتھ محققین کو پانی کے پائے جانے کے دوسرے ثبوت بھی ملے۔ بہت سے مقامات میں پائے جانے والی معدنیات کو بننے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں گرد خلائی جہاز مریخی مہم پر لگے ہوئے ایک آلے نے سطح کے قریب پانی کی تقسیم کی نقشہ کشی کی ہے۔ جب فینکس خلائی جہاز نے شمالی بعید میں اترنے کے لیے راکٹوں کو چھوڑا تو برف سامنے آگئی تھی۔ 

جب پانی کسی بڑے پانی کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو ایک ڈیلٹا بن سکتا ہے۔ مریخ پر کئی شہابی گڑھے اور پچکی ہوئی جگہیں زمین کی طرح کے ڈیلٹاؤں کو ظاہر کرتی ہے۔ مزید براں اگر جھیل کسی پچکے ہوئے حصّے میں ہوتی ہے تو اس میں داخل ہونے والی نہریں ایک ہی اونچائی پر جاکر رک جائیں گی۔ اس طرح کا انتظام مریخ پر ان جگہوں کے ارد گرد واضح نظر آتا ہے جن کے بارے میں قیاس ہے کہ وہاں پانی کے بڑے اجسام موجود تھے - بشمول شمال میں ایک ممکنہ سمندر کے گرد بھی۔ 

کچھ وقت سے کئی محققین نے جھیل کی تشکیل کے نظریے کو پیش کیا تھا۔ ایک تحقیق میں مریخ کی جھیلوں کے 205 بند طاسوں کو دیکھا گیا۔ طاسوں میں ایک خلیجی کھاڑی شہابی گڑھے کے کگر کو کاٹ کر طاس میں گرتی ہے، تاہم کوئی مخرج وادی بظاہر نظر نہیں آتی۔ طاسوں کی کل پانی کی مقدار اتنی ہے کہ اگر مریخ پر اس کو برابر پھیلایا جائے تو 1.2 میٹر کی گہرائی تک پانی پھیل سکتا ہے۔ تاہم یہ مقدار جدید مریخ پر پانی کی برف کا بہت ہی کم حصّہ ہے۔ ایک اور تحقیق میں 210 جھیل کے کھلے طاسوں دیکھا گیا۔ یہ جھیلیں تنگ کھاڑی اور مخرج دونوں کے ساتھ تھیں؛ لہٰذا پانی لازمی طور پر طاس میں پہنچ کر مخرج کی اونچائی تک گیا ہوگا۔ ان جھیلوں میں پانی کی مقدار زمین کی بحیرہ کیسپیئن، بحیرہ اسود اور جھیل بیکال جتنی تھی۔ 

اس کے علاوہ، مریخ پر کچھ طاس جھیلوں کے طویل سلسلوں کا حصہ ہیں۔ نکتونگ/ اسکامینڈر/ ممیرس وادیوں کے جھیل کے سلسلوں کے نظام لگ بھگ 4500 کلومیٹر طویل ہیں اورنکاسی آب کے علاقے زمین کی مسوری-مسیسپی دریا کی طرح کے ہیں۔. ایک، سمارا / حمیرہ ویلس کا نظام 1800 کلومیٹر طویل ہے۔ جھیلوں کے اکثر بڑے سلسلے مارگریٹیفر سینس چوگوشہ میں پائے گئے ہیں۔ 

کچھ جھیلیں ایسی لگتی ہیں کہ ان میں پانی کی مقدار ان کے نکاسی علاقے سے زیادہ تھی؛ لہٰذا یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا کچھ پانی زیر زمین پانی ہوگا۔ مزید ثبوت طاس کے پیندے میں گٹھیلے مادّے کی موجودگی ہے۔ یہ گھٹلیاں اس وقت بنتی ہیں جب پانی کی کافی مقدار سطح کو چھوڑتی ہے۔ 

یہ مضمون کچھ ان جگہوں کے بارے میں وضاحت کرے گا جہاں کچھ بڑی جھیلیں ہوا کرتی تھیں۔ شاید جھیلوں میں پانی اتنے عرصے تک موجود رہا تھا کہ حیات کا ظہور ہو سکے۔ 

ممکنہ ڈیلٹا کی تصاویر [ترمیم]

مریخ کے سمندر [ترمیم]

ارضیاتی اعداد و شمار کی بنیاد پر قدیم مریخ اور اس کے سمندر ایک مصور کی نگاہ میں
 نیلا حصّہ مریخی شمالی نصف کرہ میں پست مقام نگاری کے علاقوں کو مائع پانی کے قدیم سمندروں کی جگہ سمجھا جاتا ہے۔

مریخ کے سمندر کا قیاس بتاتا ہے کہ تقریباً مریخ کی ایک تہائی سطح سیارے کی ابتدائی ارضیاتی تاریخ میں مائع پانی کے سمندر سے ڈھکی ہوئی تھی۔ یہ قدیمی سمندر، جن کو پیلیو سمندر اور دیومالائی بوریلس سے پکارا جاتا ہے، انھوں نے شمالی نصف کرہ میں واقع وسٹیٹاس بوریلس طاس کو لگ بھگ 3.8 ارب برس پہلے کے دور میں ڈھکا ہوا ہوگا، یہ وہ علاقہ ہے جو سیارے کی اوسط اونچائی سے 4 - 5 کلومیٹر نیچے واقع ہے۔ اس سمندر کے ثبوتوں میں قدیمی ساحلوں سے مشابہ ارضیاتی خدوخال، مریخی مٹی کی کیمیائی خصوصیات اور اس کا کرۂ فضائی ہے۔ بہرحال اس طرح کے سمندر کا وجود رکھنے کے لیے ابتدائی مریخ کو کثیف کرۂ فضائی اور مرطوب آب و ہوا کی ضرورت تھی تاکہ مائع پانی سطح پر باقی رہ سکے۔ 

مریخی سمندروں کے مشاہداتی ثبوتوں کی تاریخ[ترمیم]

1976 ء میں وائی کنگ جہاں گرد سے دیکھے گئے خدوخال نے قطب کے قریب دو ممکنہ قدیمی ساحلی پٹیوں عریبیہ اور ڈیوٹرونیلس کو ظاہر کیا جن میں سے ہر ایک ہزار کلومیٹر لمبی تھی۔ حالیہ جغرافیے میں موجود کئی طبیعیاتی خصائص ماضی کے قدیمی سمندر کے بارے میں بتاتے ہیں۔ نالیوں کے بڑی نہروں میں ضم ہوتے ہوئے جال مائع عامل کے ذریعہ کٹاؤ کا بتاتے ہیں اور زمین پر موجود قدیمی دریاؤں کے فرش کے مشابہ ہیں۔ 25 کلومیٹر چوڑی اور سینکڑوں میٹر گہری شاندار نہریں بظاہر زیر زمین جنوبی اونچے علاقے کے آب اندوخت سے نکلنے والے پانی کے بہاؤ سے شمالی میدانوں میں بنتی لگتی ہیں۔ مریخ کا زیادہ تر شمالی نصف کرہ باقی سیارے سے کافی پست علاقے میں واقع ہے (جس کو مریخی دو شاخیت کہتے ہیں) جو غیر معمولی طور پر چپٹا ہے۔ اگر پانی وہاں پر موجود ہوگا تو پست علاقے میں جمع ہو سکتا ہوگا۔ سمندر نیچے موجود میدان کو سطح کے برابر کردیتا ہوگا۔ گذشتہ کچھ دہائیوں کے دوران شمالی وسیع سمندر کے تصور کی قبولیت آتی جاتی رہی ہے۔ 1998 ء کی شروعات میں سائنس دان مائیکل مالن اور کینتھ ایڈگیٹ نے مریخی سیاروی مساحت کنندہ پر لگے ہوئے بہتر ریزولوشن والے کیمرے سے ان جگہوں کی تفتیش کی ابتدا کی جس میں ان ساحلی پٹیوں کی جانچ کرنا تھی جن کے بارے میں دوسرے سائنس دانوں نے خیال ظاہر کیا تھا، یہ کیمرا وائی کنگ پر لگے ہوئے کیمرے سے پانچ سے دس گنا زیادہ بہتر تھا۔ ان کے تجزیہ غیر حتمی تھے جس میں بتایا گیا کہ ساحلی پٹیوں میں کئی کلومیٹر تک اونچائی میں تفاوت تھا جو ایک چوٹی سے اٹھ کر ہزارہا کلومیٹر دور دوسری چوٹی تک گرتی ہے۔ یہ رجحانات شبہ پیدا کرتے ہیں کہ آیا خصائص حقیقت میں بہت عرصے پہلے ختم ہوئی ساحلی پٹیوں کے ہی ہیں یا نہیں اور انہی دلائل کو مریخی ساحلی پٹیوں (اور سمندروں) کے قیاس کو رد کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 2009ء میں شائع تحقیق سے پہلے کے تصور سے کہیں زیادہ کثافت والی نہروں کے بہاؤ کا پتا چلتا ہے۔ مریخ میں زیادہ تر وادیوں والے علاقے زمین پر پائے جانے والے علاقوں کے مماثل ہیں۔ تحقیق میں ٹیم نے ایک کمپیوٹر پروگرام بنایا تاکہ مقامی جغرافیائی اعدادوشمار میں انگریزی حرف یو کی شکل کو تلاش کرکے وادیوں کی شناخت کرسکیں۔ وادیوں کے جالوں کی بڑی تعداد سے ماضی میں سیارے پر ہونے والی بارش کو زبردست تقویت ملتی ہے۔ مریخی وادیوں کا سیاروی نمونہ ایک بڑے شمالی سمندر کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے۔ شمالی نصف کرہ میں واقع ایک بڑا سمندر واضح کرتا ہے کہ آیا کیوں جنوبی حصّے میں وادیاں محدود ہیں؛ مریخ کے جنوب میں بعید ترین علاقے پانی کے ذخیروں سے دور کم پانی کو حاصل کرتے ہوں گے اور وادیاں نہیں بنا سکے ہوں گے۔ بعینہ اس طرح سے بارش کی کمی اس بات کو بیان کرتی ہے کہ آیا کیوں مریخی وادیاں شمال سے جنوب کی طرف کم ہوتی جاتی ہیں۔ 2010ء میں ڈیلٹاؤں پر کی گئی تحقیق بتاتی ہے کہ ان میں سے سترہ اس عرض البلد پر پائی گئی ہیں جن کو مریخی سمندر کی ساحلی پتیاں سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کی امید اس وقت کی جاتی ہے جب تمام ڈیلٹا کسی پانی کے بڑے جسم کے پاس موجود ہوں۔ مریخی ایکسپریس مدار گرد میں لگے ہوئے ریڈار مارسس سے حاصل کردہ اطلاعات کی بنیاد پر 2012ء میں شایع ہونے والی تحقیق معدوم بڑے شمالی سمندر کے قیاس کو تقویت دیتی ہے۔ آلے سے سطح کے ایک غیر موصل مستقل کا معلوم ہوا ہے جو بعینہ کم کثافت والے تلچھٹ کے ذخیروں، ضخیم زمینی برف کے ذخیروں یا دونوں کے امتزاج جیسا ہی ہے۔ پیمائش ایسی نہیں ہے جیسا کہ لاوے سے لبریز سطح کی ہوتی ہے۔ 

مارچ 2015 ء میں، سائنسدانوں نے بتایا کہ قدیمی پانی کی مقدار جو سمندر کو بنا سکتا تھا اس کے ثبوت موجود ہیں،یہ ممکنہ طور پر سیارے کے شمالی نصف کرہ کی طرف ہیں اور زمین کے بحر اوقیانوس کے حجم کا ہے۔ یہ تلاش حالیہ مریخی کرۂ فضائی میں موجود پانی اور ڈیوٹیریم کی نسبت سے نکالی گئی ہے اور اس کو زمین پر پائی جانے والی نسبت سے ملایا گیا ہے، یہ اعدادوشمار دوربینی مشاہدات سے حاصل کیے گئے ہیں۔ زمین پر موجود ڈیوٹیریم سے آٹھ گنا زیادہ مریخی قطب پر اس کے ذخیرے موجود ہیں (وی ایس ایم او ڈبلیو)، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیمی مریخ میں پانی کی کافی بلند سطح موجود ہوگی۔ نمائندہ کرۂ فضائی کی حاصل کردہ قدر (7 وی ایس ایم او ڈبلیو) آب و ہوا کے اثر سے متاثر نہیں ہے کیونکہ اس کو مقامی جہاں گردوں سے ناپا ہے، اگرچہ دوربین سے کی گئی پیمائش اسی افزوں کی پیمائش کی حد کے اندر ہیں جسے کیوریوسٹی جہاں گرد نے گیل شہابی گڑھے میں 5-7 وی ایس ایم او ڈبلیو میں ناپا تھا۔  

ویلس مرینیرس کا وادی کا نظام[ترمیم]

کوپریٹس چوگوشہ
مریخی جہاں گرد لیزر ارتفاع پیما سے کوپریٹس چوگوشے کے نقشے (مولا) کے اعداد و شمار۔ سب سے زیادہ بلند علاقے سرخ جبکہ پست نیلے ہیں۔
متناسقات15°00′S 67°30′W / 15°S 67.5°W / -15; -67.5

[[زمرہ:سانچہ:Mars quadrangle/0-30S quadrangle]]

ویلس مرینیرس نظام شمسی کا سب سے بڑا وادی کا نظام ہے اور زیادہ تر ثبوت بتاتے ہیں کہ وادی کے تمام یا کچھ حصّوں میں جھیلیں تھیں۔ یہ کوپریٹس چوگوشے میں واقع ہے۔ گھاٹیوں کی دیواریں اکثر کئی تہوں پر مشتمل ہیں۔ وادیوں میں سے کچھ کے فرش پر تہوں والے مادّے کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ بعض محققین سمجھتے ہیں کہ پرتیں اس وقت بنی ہوں گی جب پانی نے گھاٹیوں کو بھر دیا ہوگا۔

پرت دار ذخیرے جو اندرونی تہوں والی ذخائر کہلاتے ہیں ویلس مرینیرس کے کئی حصّوں میں موجود ہیں خاص طور پر کنڈور غار اور جوینتے غار میں جس کی وجہ سے محققین سمجھتے ہیں کہ یہ اس وقت بنے تھے جس پورا علاقہ ایک عظیم جھیل تھا۔ تاہم دوسرے کئی تصورات ان کی وضاحت کرنے کے لیے بھی بہت اعلیٰ ہیں۔ مغرب میں کنڈور غار کے بہتر درجے کی ساخت اور ارضیاتی نقشے مارچ 2015ء میں پیش کیے گئے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کنڈور غار کے فرشپر موجود ذخائر تلچھٹ سے بھرے ہوئے طاس ہیں جو ایک تر جوہڑ جیسی ساخت میں جمع ہوئے تھے؛ لہٰذا ان کی تشکیل میں پانی کار فرما رہا ہوگا۔ وہ معدنیات جن کی تشکیل کے لیے پانی درکار ہوتا ہے وہ آئی ایل ڈی میں پائے گئے ہیں لہٰذا نظام میں پانی کی موجودگی کو تقویت ملتی ہے۔ یورپی خلائی ایجنسی کے مریخ ایکسپریس نے پانی کی موجودگی میں بننے والے معدن خام میگنیشیم سلفیٹ اور کیسرائٹ پائے جانے کے ممکنہ ثبوت حاصل کیے ہیں۔ اس کے علاوہ قلمی سرمئی کچا لوہے کی صورت میں آہنی آکسائیڈ کا بھی سراغ ملا ہے جس کی تشکیل میں عام طور پر پانی درکار ہوتا ہے۔ اگرچہ ویلس مرینیرس کے پورے علاقے میں جھیل کی موجودگی پر کافی تنازع کھڑا ہوا ہے، تاہم وہاں چھوٹی جھیلوں کی موجودگی کی کافی معقول صورت ہو سکتی ہے۔ میلس غار کے بارے میں بطور خاص سمجھا جاتا ہے کہ وہاں کبھی کوئی جھیل موجود ہوگی کیونکہ وہ ویلس مرینیرس نظام کا سب سے گہرا حصّہ ہے جو آس پاس کے علاقے سے گیارہ کلومیٹر کی گہرائی میں موجود ہے، وہاں سے مخرج نہریں شمالی میدان سے لگ بھگ 0.03 درجے کی اوپر اٹھتی ہوئی ڈھلوان پر ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ نے گھاٹی کو سیال سے بھر دیا تو آپ کے پاس ایسی جھیل ہوگی جو سیال کو شمالی میدانوں میں بہانے سے پہلے ایک کلومیٹر گہرائی تک بھرا ہوئی ہوگی۔ میلس غار ویلس مرینیرس گھاٹی کے نظام کا وسیع ترین حصّہ ہے جو آئیس غار کے مشرق میں 9.8 ° ایس، 283،6 ° ای میں کوپریٹس چوگوشے میں واقع ہے۔ یہ پرتوں کے ذخائر کو کاٹتا ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ پرانی جھیل کی تلچھٹ ہوں گے اور مغرب کی طرف وادیوں کے جال کے بہنے کی وجہ سے وجود میں آئے تھے۔ میلس غار میں ماضی میں پانی کی فراوانی کے ثبوت ایم آر او سے دریافت شدہ آبیدہ گندھک سے ملے ہیں جن کو بننے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جنوب مغربی میلس غار پر کی گئی ایک حالیہ تحقیق جس کو اعلیٰ ریزولوشن کے حامل شبیہ ساز سے مقام نگاری اور طیفی اطلاعات کی مدد سے پنکھ صورت کی ساختوں کو پایا۔ پنکھوں نے ان بڑھتے ہوئے ثبوتوں میں مزید اضافہ کیا جس میں سمجھا جاتا تھا کہ میلس غار میں کبھی جھیل موجود تھی جس کی سطح میں اتار چڑھاؤ رہتا تھا۔ میلس غار کے جنوب مغرب حصّے میں مقامی وادیوں کے بہتے ہوئے جال سے ایک جھیل بن سکتی تھی۔ کیتھ ہیریسن اور میری چپمین ویلس مرینیرس کے مشرقی حصّے بالخصوص کوپریٹس غار میں جھیل کے مضبوط ثبوت کو بیان کرتے ہیں۔ اس کی اوسطاً گہرائی 842 میٹر کی ہوگی - ویلس مرینیرس کے حصّوں کی 5 تا 10 کلومیٹر گہرائی سے کہیں زیادہ کم۔ اس کے باوجود اس کی 110,000 مکعب میٹر کی مقدار زمین کے جھیل کیسپین اور بحیرہ اسود کے مقابلے کی ہوگی۔ اس طرح کی جھیل کے اہم ثبوت اس سطح پر تختوں کی موجودگی ہے جس کے مطابق نمونہ بتاتا ہے کہ جھیل کو کہاں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ایاوس غار کے پست نقطے جہاں پر پانی کے بہنے کا اندازہ لگایا جاتا ہے وہ بہتے ہوئے خدوخال سے نشان زدہ ہیں۔ خدوخال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بہاؤ ایک چھوٹے نقطہ پر ایک ساتھ آیا ہوگا اور کافی زیادہ کٹاؤ کیا ہوگا۔

ہیلس طاس [ترمیم]

ہیلس چوگوشہ ہیلس طاس کا کچھ حصّہ رکھتا ہے، جو مریخ کی سطح پر دیکھا جانے والے اب تک کا سب سے بڑا جبکہ نظام شمسی کا دوسرا بڑا تصادمی شہابی گڑھا ہے۔ شہابی گڑھے کی گہرائی 7152 میٹر (23،000 فٹ) ہے جو مریخ کی معیاری معلوم مقام نگاری سے نیچے ہے۔ طاس مریخ کے جنوبی بلند میدانوں میں واقع ہے اور اس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ یہ لگ بھگ 3.9 ارب برس پہلے ماضی بعید کی عظیم بمباری کے دوران بنا تھا۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک عظیم جھیل ہیلس طاس میں سیارے کی ابتدائی تاریخ میں موجود تھی جس کی ممکنہ گہرائی 5.5 کلومیٹر کی تھی۔ ممکنہ ساحلی پٹیوں کو بھی دریافت کر لیا گیا ہے۔ یہ ساحلی خطوط متبادل تختوں اور کھڑی چوٹیوں میں مریخ مدار گرد کے کیمرے سے تنگ زاویہ والی تصاویر میں واضح ہیں۔ پرتوں کی ایک اچھی مثال جو ہیلس میں ذخیرہ کی گئی ہیں اور بعد میں کٹاؤ کی وجہ سے نظر آگئی ہیں وہ ہے ٹربی شہابی گڑھا جو ہیلس کی کگر کے شمال میں واقع ہے۔ یہ سمجھا جاتا رہا تھا کہ ٹربی شہابی گڑھے میں ایک بڑا ڈیلٹا موجود ہے۔ تاہم نئے مشاہدات سے محققین یہ سوچنے لگے کہ پرتوں کے سلسلے پرتوں کی جماعت کے گروہ کا حصّہ ہیں جو پورے ہیلس میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ٹربی کی شمالی کگر میں کوئی بھی وادی اتنی بڑی نہیں ہے کہ پرتوں کو بنانے کے لیے درکار تلچھٹ کی بڑی مقدار کو لا سکے۔ دوسرے مشاہدات ٹربی میں ڈیلٹا کے موجود ہونے کے خلاف دلیل دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مریخی مدار گرد لیزر ارتفاع پیما کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ان تلچھٹ کی اکائیوں کے رابطے مستقل اٹھان کو ہزارہا کلومیٹر کو نشان زدہ کرتے ہیں اور ایک جگہ تو طاس کے گرد مکمل طور پر ایسے ہیں۔

 

 

نہریں اس پانی سے بنی ہوئی سمجھی جاتی ہیں جو تمام اطراف سے طاس میں داخل ہوا ہوگا۔

تھیمس سے دیکھا جانے والا ڈاؤ ویلس۔ ڈاؤ ویلس کا دوسی قریبی ساختوں بطور خاص نہروں سے تعلق دیکھنے کے لیے تصویر پر کلک کریں۔

ڈاؤ ویلس کی شروعات ایک بڑے آتش فشاں سے ہوتی ہے جو ہیڈریاکا پتیرا کہلاتا ہے، لہٰذا اس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اس نے پانی اس وقت حاصل کیا ہوگا جب گرم میگما نے زمین کے اندر موجود عظیم برف کی مقدار کو پگھلایا ہوگا۔ سیدھی طرف تصویر میں نظر آنے والی نہر کے بائیں طرف جزوی گول پچکی ہوئی جگہ بتاتی ہے کہ رستے ہوئے زیر زمین پانی نے بھی پانی میں اپنا حصّہ ڈالا ہوگا۔ ہیلس طاس کے اخراج پورے شمالی میدانوں کا لگ بھگ ایک بٹا پانچ حصّہ ہوگا۔ آج کے مریخی ماحول میں موجود ہیلس میں کوئی جھیل اپنے اوپر برف کی ایک موٹی تہ چڑھا سکتی ہے جو بالآخر عمل تصعید میں غائب ہو جائے گی۔ یعنی کہ برف براہ راست ٹھوس سے گیس میں تبدیل ہو جائے گی۔ یہ بعینہ اسی طرح سے ہے جیسے خشک برف (ٹھوس کاربن ڈائی آکسائڈ) زمین پر برتاؤ کرتی ہے۔ برفیلے تودوں جیسی ساختیں ( باقی بچا ہوا ثلجی ملبہ، ٹیلے اور سنگریزوں کے انبار) پائی گئی ہیں جو اس وقت بنی ہوں گی جب پانی منجمد ہوا ہوگا۔ ہیلس طاس کو بھرنے والی جھیل کافی عرصہ تک باقی رہی ہوگی بطور خاص اگر حرارت کو کوئی حرحرارتی منبع موجود ہوگا۔ نتیجتاً حیات یہاں پنپ سکتی تھی۔

 

گیل شہابی گڑھا[ترمیم]

گیل شہابی گڑھے کا رنگین امدادی نقشہ۔ شمالی مغربی شہابی گڑھے فرش پر کیوریوسٹی کے اترنے کا عمومی مقام جس کا نام ہوائی پالس ہے وہ دائرے میں ہے۔ (ایچ آر ایس سی کے اعداد و شمار)

اگست 5، 2012، رات 10:32 بجے PDT (ای ڈی ٹی اگست 6، 2012 1:32 بجے) مریخی سائنس لیبارٹری جہاں گرد،،کیوریوسٹی مریخ پر، 4.5 ° ایس 137.4 ° ای کو گیل شہابی گڑھے کے اندر موجود پرت دار پہاڑ کے دامن میں اترا۔ شہابی گڑھے کا نام ایک آسٹریلین شوقین ماہر فلکیات والٹر ایف گیل (1865-1945)کے اعزاز میں رکھا گیا۔

مریخ پر گیل شہابی گڑھا ہوائی چوگوشے کے شمال مغربی حصّے کے قریب واقع ہے۔ گیل کا قطر 154 کلومیٹر (96 میل) ہے اور یہاں ایک پہاڑ بھی ہے، ایولس مونس (پہلے جس کاغیر رسمی نام ماؤنٹ شارپ تھا جو ماہر ارضیات رابرٹ پی شارپ کے اعزاز میں رکھا گیا تھا) شہابی گڑھے سے اس سے کہیں زیادہ اونچا ہے جتنا مونٹ رینیر سیٹل سے اوپ رہے۔ گیل کا علاقہ کنیکٹیکٹ اور رہوڈ آئی لینڈ دونوں کے علاقے کو ملا کرجتنا ہے۔ ثبوت موجود ہیں کہ کبھی گیل شہابی گڑھے میں ایک بڑی جھیل موجود تھی۔ 6 اگست، 2012ء کو مریخی سائنس لیبارٹری ہوائی پالس ایولس مونس کے قریب گیل شہابی گڑھے میں اترا۔ جہاز ہدف سے 2.279 کلومیٹر (1.416 میل) دور 4.591817 ° S 137.440247 ° E) کسی بھی پہلے اترنے والے جہاں گرد کے مقابلے میں ہدف کے اندر ہی اترا تھا۔ کیوریوسٹی سطح کا مطالعہ کر رہا تھا اور ایام و ماہ گذر رہے تھے دریافتوں پر دریافتیں ہو رہی تھیں، ناسا نتائج شایع کر رہا تھا جس میں تفصیلات کا پہاڑ ان ثبوتوں کا موجود تھا جو بتا رہے تھے کہ گیل میں کبھی ایک بڑی جھیل موجود تھی۔ ستمبر 27، 2012ء میں ناسا نے اعلان کیا کہ کیوریوسٹی جہاں گرد نے قدیمی نہروں کے پیندوں کے ثبوت حاصل کیے جو مریخ پر "زبردست بہاؤ" کا بتاتے ہیں۔ 9 دسمبر، 2013ء ناسا نے بتایا کہ کیوریوسٹی کے گیل شہابی گڑھے میں موجود ہوائی پالس کے مطالعے کی بنیاد پر ثبوت بتاتے ہیں کہ ایک قدیم تازہ پانی کی جھیل یہاں موجود تھی جو کسی خرد حیات کے لیے مہمان نواز ماحول ہو سکتا ہے۔ کیوریوسٹی نے باریک سفوف نما رسوبی چٹانیں دیکھیں ہیں جو ایک قدیمی جھیل کا نشان ہیں، کیمیائی سنگی خود پرور نامیہ کی بنیاد پر یہ حیات کو سہارا دے سکتی ہوگی۔ یہ مائع پانی والا ماحول تعدیل پی ایچ، پست نمکیات اور لوہا اور گندھک اس صورت میں موجود ہوگا جو مخصوص قسم کے جانداروں کے استعمال میں آ سکتا تھا۔ کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن، گندھک، نائٹروجن - زندگی کے لیے ضروری عناصر کو ناپا گیا تھا۔ گیل قدیمی جھیل ممکنہ طور پر سیکڑوں سے ہزارہا برس تک قائم رہ سکتی تھی۔

سفید چکنی مٹی (سہ ہشت پہلو) جو پانی کی موجودگی میں بنتے ہیں ان کو کیوریوسٹی نے رسوبی پتھروں (مٹی کے ڈلوں) میں گیل شہابی گڑھے میں واقع یلونائف بے میں دیکھا ہے۔ مٹی کے ڈلوں کا نام جان کلین اور کمبرلینڈ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ نواچیان دور کے بعد بنے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پانی اس سے کہیں زیادہ عرصے تک موجود رہا ہے جتنا پہلے سمجھا جاتا تھا۔

"جان کلین" مٹی کے ڈلے میں برمے سے سوراخ (1.6 سینٹی میٹر (0.63 انچ))۔
کمبرلینڈ مٹی کے ڈلے کا طیفی تجزیہ (ایس اے ایم)۔ .
مٹی کے ڈلے کی معدنی ساخت۔
کیوریوسٹی جہاں گرد مریخ پر یلو نائف بے کے قریب مٹی کے ڈلے کا تجزیہ (مئی 2013ء) کو کیا۔

گیل شہابی گڑھے میں ریتیلے پنکھ اور ڈیلٹا موجود ہیں جو ماضی میں جھیل کی سطح کے بارے میں اطلاع دیتے ہیں۔ یہ ساختیں پین کیک ڈیلٹا، مغربی ڈیلٹا، فرح ویلس ڈیلٹا اور امن ویلس پنکھ ہے۔ 8 دسمبر، 2014ء کو ایک پریس کانفرنس میں مریخ کے سائنسدانوں نے کیوریوسٹی جہاں گرد سے کیے گئے ان مشاہدات پر تبادلہ خیال کیا جو یہ بتاتی ہے کہ مریخ کا ماؤنٹ شارپ ان رسوبی چٹانوں سے بنا ہے جو ایک بڑی جھیل کی تہ میں کروڑ ہا برس تک جمع ہوتی رہی ہیں۔ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ قدیم مریخ کا ماضی سیارے پر کئی جگہوں پر لمبے عرصے تک قائم رہنے والی جھیلیں بنا سکتا تھا۔ چٹانوں کی پرتیں بتاتی ہے کہ ایک بڑی جھیل کئی مرتبہ بھری اور خالی ہوئی ہے۔ ثبوت موجود ہیں کہ کئی ڈیلٹا ایک دوسرے کے اوپر بن گئے ہیں۔

کیوریوسٹی جہاں گرد - (نچلی بائیں جانب ) شیپ بیڈ نامی مٹی کے ڈھیلے اور اطراف کا منظر(14 فروری، 2013ء)۔

گیل شہابی گڑھے کو بند طاس کی جھیل سمجھا جاتا ہے کیونکہ نہریں یہاں آتی تو ہیں پر یہاں سے نکلتی نہیں ہیں۔

معدنیات جن کو مٹی و گندھک کہتے ہیں وہ پانی کی ضمنی پیداوار ہوتی ہیں۔ ان میں بھی حیات کے ثبوت محفوظ ہو سکتے ہیں۔ چٹانوں میں درج ہوئی گیل شہابی گڑھے کی تاریخ نے کیوریوسٹی کو کافی اشارے تحقیق کے لیے دیے ہیں کہ وہ ان کو جمع کرکے دیکھے کہ آیا مریخ کبھی بھی چھوٹی حیات جن کو خرد حیات کہتے ہیں ان کے لیے قابل سکونت جگہ رہی ہے۔ گیل خاص اس لیے ہے کہ مٹی و گندھک والی دونوں معدن کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، یہ پانی کی موجودگی میں مختلف حالات کے زیر اثر بن سکتی ہیں۔

گیل شہابی گڑھے میں پانی کی موجودگی کے ثبوت
امن ویلس اور متعلقہ بہاؤ والے پنکھ جو کیوریوسٹی کے اترنے کی جگہ اور اس سے تھوڑا سے ہٹ کر۔
""ہوتاہ" مریخ پر ابھری چٹان - ایک قدیمی نہری فرش جس کو کیوریوسٹی سے دیکھا گیا (14 ستمبر، 2012ء) (قریبی) (سہ جہتی نسخہ)۔
مریخ پر ابھری چٹان کا "ربط" - جس کا موازنہ ارضی بہاؤ کے ڈھیر سے کیا جاسکتا ہے - جو نہر میں پانی کے 'زبردست' بہاؤ کا عندیہ دیتے ہیں۔
گلینلج جاتے ہوئے کیوریوسٹی (26 ستمبر، 2012ء)۔

ہولڈن شہابی گڑھا[ترمیم]

ہولڈن ایک 140 کلومیٹر چوڑا مارگریٹیفائرسائی نس چوگوشے میں شہابی گڑھا ہے۔ یہ ایڈورڈ سنگلٹن ہولڈن جوایک امریکی ماہر فلکیات اور بحر الکاہل کی فلکیات سوسائٹی کے بانی ہیں ان کے نام سے منسوب ہے۔ مریخ پر کچھ دوسرے شہابی گڑھوں کی طرح ہولڈن میں ایک مخرج نہر، ازبوئی ویلس اس میں داخل ہوتی ہے۔ شہابی گڑھوں میں کچھ خدوخال بطور خاص جھیل کے ذخیرے بہتے ہوئے پانی کی وجہ سے بنے ہیں۔ شہابی گڑھے کی کگر نالیوں سے چھیدی ہوئی ہیں اور کچھ نالیوں کے اختتام پر پنکھ کی صورت کے ذخیرے موجود ہیں جو پانی نے یہاں پر منتقل کیے ہیں۔ شہابی گڑھے سائنس دانوں کی دلچسپی کا مرکز اس لیے ہیں کہ ان میں سے کچھ سب سے بہتر جھیلوں کے ذخیرے ظاہر کرتے ہیں۔ مریخی پڑتال گر جہاں گرد نے ایک پرت میں سفیدی مائل چکنی مٹی کا سراغ دیکھا ہے۔ مٹی صرف پانی کی موجودگی میں ہی بنتی ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ پانی کی کثیر مقدار اس علاقے سے گذری ہوگی؛ ایک بہاؤ تو زمین کی جھیل ہرون سے بھی بڑے جسم کی وجہ سے بنی ہے۔ یہ اس وقت ہوا تھا جب پانی ایک شہابی دیوار کو توڑ کر نکلا تھا، اس دیوار نے پانی کو روکا ہوا تھا۔ ہولڈن ایک پرانا شہابی گڑھا ہے جس میں بے شمار چھوٹے شہابی گڑھے موجود ہیں جن میں سے اکثر تلچھٹ سے بھرے ہیں۔ اصل میں ہولڈن شہابی گڑھے میں 150 میٹر سے زائد تلچھٹ نمایاں ہیں خاص طور پر شہابی گڑھے کے جنوب مغربی حصّے میں۔ شہابی گڑھے کا مرکزی پہاڑ بھی تلچھٹ سے چھپا ہوا ہے۔ شاید زیادہ تر تلچھٹ دریائی اور جھیلوں کے ذخیروں سے بنی ہیں۔ ہولڈن شہابی گڑھا ازبوئی لینڈن موراوا بہاؤ کے نظام میں واقع ہے۔

ہولڈن
ہولڈن شہابی گڑھا جس کی بنیاد دن کے وقت تھیمس سے لی گئی تصویر ہے۔
سیارہمریخ
ازبوئی وادی
ازبوئی وادی جس کی بنیاد دن کے وقت تھیمس سے لی گئی تصویر ہے۔

ہولڈن شہابی گڑھے کی ارضیاتی تاریخ[ترمیم]

ہولڈن شہابی گڑھے کے اطراف میں پورے علاقے کی تحقیق سے ان پیچیدہ واقعات کے بارے میں تفہیم حاصل ہوئے جس نے گڑھے کی صورت نکالی تھی، یہاں دو mukhtal نہروں کے ایک بڑے سلسلے جس کو ازبوئی لاڈون موراوا نظام کہا جاتا ہے یہ پانی کو آرگائیر طاس جب کوئی تصادم ہوتا بالآخر دیواروں سے ہونے والی نکاسی پانی نے ممکنہ طور پر زیر زمین پانی کے ساتھ مل کر پہلی جھیل کو بنایا۔ یہ جھیل گہری اور دیرپا تھی۔ تلچھٹی چٹٹانوں کی سب سے کم سطح اس جھیل میں جمع ہو گئی تھی۔ ازبوئی ویلس میں زیادہ تر پانی اس لیے رکا رہا کیونکہ ہولڈن شہابی گڑھے کے کناروں نے بہاؤ کو روک دیا تھا۔ کچھ پانی نرگل ویلس سے 4800 مکعب میٹر فی سیکنڈ سے خارج ہوتا ہوا جمع ہوا تھا۔ ایک خاص نقطہ پر محفوظ پانی نے ہولڈن کے کنارے کو توڑکرا ایک دوسری چھوٹی کم عرصے تک قائم رہنے والی 200-250 میٹر گہری جھیل بنائی۔ کم از کم 50 میٹر کی گہرائی کے ساتھ پانی مسیسپی دریا کے نکلنے والے پانی کی شرح سے 5-10 گنا زیادہ تیزی سے داخل ہوا۔ چبوترے اور بڑی چٹانوں کی موجودگی (دسیوں میٹرپھیلی ہوئی) تیز رفتار اخراجی شرح کا بتاتی ہے۔

مغربی ایلیسیم پلانیشیا پیلو جھیل[ترمیم]

مغربی ایلیسیم میں ایک بڑی جھیل کے ثبوت ہیں ؛ تاہم بعض محققین سمجھتے ہیں کہ بڑے لاوے کے بہاؤ میدانوں کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ اس تصور کی گئی جھیل کا طاس 150 کلومیٹر مربع سے زیادہ ہے اور یہ رخنے دار تختوں اور پیچ دار پہاڑی چوٹیوں سے ڈھکی ہوئی ہے جو زمین پر موجود برف کے انبار جیسا لگتی ہے۔ برف سے لبریز والے علاقوں میں کثیر الاضلاع میدانوں میں چھانٹے ہوئے نمونوں والے میدان اور کٹاؤ کے نمونے ہیں، لہٰذا یہ جھیل ہی ہے۔ اس کے علاوہ بہاؤ والے جزیروں، پانی کی غیر شفاف چادر اور کی موجودگی اور کثیر شاخہ نہری نظام جھیل کے پانی سے اپنی تخلیق کا بتاتے ہیں۔ یہاں پر کچھ سطحیں "بے جڑ کی مخروط" نظر آتی ہیں جو گھڈ کے ساتھ ٹیلے ہیں۔ ایسا لاوے کے دھماکے سے زمینی برف کے ساتھ اس وقت ہو سکتا ہے جب لاوا برف سے لبریز میدان کے اوپر سے بہے۔ برف پگھلتی ہے اور بخارات میں تبدیل ہوجاتی ہے جو پھیل کر ایک دھماکے کی صورت اختیار کرتا ہے جس سے مخروطی یا چھلوں کی صورت بنتی ہے۔ اس طرح کی شکل و صورت آئس لینڈ میں اس وقت پائی جاتی ہیں جب لاوا پانی سے لبریز زیریں طبق کو ڈھکتا ہے۔ مغربی ایلیسیم پلانیشیا طاس کو مکمل طور پر متساوی القوٰی سطح کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ 500 کلومیٹر کے فاصلے پر صرف 10 میٹر ڈھلوان ہے - یعنی کہ یہ اتنی ہموار ہے جتنی زمین کے سمندر۔ یہ انتہائی نفیس ڈھلوان لاوے کے بہاؤ کے خلاف دلیل ہے۔ کچھ جگہوں پر ایسا پایا گیا ہے کہ بہتی ہوئی سطح 50 فیصد پست ہے جو صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب بہاؤ پانی کا ہو، تاہم اگر بہاؤ لاوے کا ہوگا تو یہ ایسی نہیں ہوتی۔ جھیل کی زیادہ سے زیادہ گہرائی کا اندازہ 31 تا 53 میٹر کے درمیان تھا۔ مغربی ایلیسیم پیلو جھیل ایلیسیم چوگوشے کے جنوبی حصّے، ایلیسیم آتش فشاں میدان کے جنوب میں اور سیربیرس فوسے کے قریب میں واقع ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس پیلو جھیل کے لیے پانی سربیرس فوسے کے حوض سے نمودار ہوا ہے۔ کئی نظریات نے کوشش کی ہے کہ درست میکانزم کو زیر زمین پانی کے اخراج اور برفیلے کرہ میں پیوست پشتے سمیت بیان کیا جاسکے۔

آرگائیر طاس[ترمیم]

آرگائیر طاس ایک دیو پیکر تصادم کے نتیجے میں بنا ہے جو ہیلس تصادم کے 7 کروڑ برس بعد وقوع پزیر ہوا تھا۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں پر مریخ کی ابتدائی تاریخ میں ایک جھیل موجود ہوگی۔ آرگائیر طاس آرگائیر چوگوشے میں واقع ہے۔ کم از کم تین دریا کی وادیوں (سوریس ویلس، ڈیزیگل ویلس اور پالاکوپس ویلس ) کا نکاس اس میں جنوب سے ہوتا ہے۔ آرگائیر جھیل کے منجمد ٹھوس ہونے کے بعد برف نے سنگریزوں کے انبار بنا دیے جو آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایکارس میں ایک مضمون 22 محققین نے لکھا جس میں انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ آرگائیر طاس کو بنانے والا تصادم ممکنہ طور پر برف کی ٹوپی یا دائمی زیر زمین برف کی پرت میں گڑھ گیا تھا۔ تصادم سے پیدا ہونے والی توانائی نے برف کو پگھلا دیا تھا جس سے ایک عظیم جھیل بن گئی تھی جس نے بالآخر پانی کو شمال کی طرف بھیج دیا تھا۔ جھیل کے پانی کی مقدار زمین کے بحیرہ روم کے برابر تھی۔ جھیل کے گہرے حصّے نے دوبارہ منجمد ہونے کے لیے ایک لاکھ برس سے بھی زیادہ کا عرصہ لیا ہوگا، تاہم تصادم کی گرمی، سیارے کی اندرونی حرارت اور حل شدہ محلل کی مدد سے مائع پانی کئی لاکھوں برسوں تک رہا ہوگا۔ اس دور میں حیات یہاں پنپ سکتی تھی۔ یہ علاقہ برفیلے تودوں کی سرگرمی بہاؤ کے خدوخال کے ساتھ، دراڑ جیسے شگاف، ٹیلے، سنگریزوں کے انبار، چھوٹی پہاڑیاں، نوکیلی چوٹیاں، اکھاڑے، سینگ، انگریزی حرف یو کی صورت کی وادیاں اور چبوتروں کے واضح ثبوت دیکھاتے ہیں۔ پیچ دار پہاڑی آرگائیر کی صورت کی وجہ سے مصنفین نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ سنگریزوں کے ٹیلے ہیں۔

ویلس مرینیرس میں جھیلیں[ترمیم]

کوپریٹس چوگوشہ
مریخی جہاں گرد لیزر ارتفاع پیما سے کوپریٹس چوگوشے کے نقشے (مولا) کے اعداد و شمار۔ سب سے زیادہ بلند علاقے سرخ جبکہ پست نیلے ہیں۔

گذرے برسوں کے دوران یہ کہا جاتا رہا کہ دیوہیکل ویلس مرینیرس میں کئی جھیلیں موجود ہیں۔ تاہم یہ معاملہ اب بھی قابل بحث ہے۔ زیادہ تر بحث کا مرکز پرت دار ساختوں کا ماخذ رہا ہے جس کو داخلی پرتی ذخیرہ کہتے ہیں۔ یہ ویلس مرینیرس نظام میں کافی اچھی طرح سے پھیلے ہوئے ہیں۔ کچھ آزاد کھڑے چھوٹی سطح مرتفع اور ٹیلے ہیں۔ داخلی پرت دار ذخیرے 9 کلومیٹر تک کی موٹائی کے ہیں۔

کنڈور غار اور جوونٹی غار کے فرش کے کچھ حصّے داخلی پرت دار ذخیروں پر مشتمل ہیں۔ یہ پرتیں اس وقت بنی ہوں گی جب پورا علاقہ ایک دیوہیکل جھیل ہوگی۔ تاہم دوسرے کئی تصورات ان کی وضاحت کرنے کے لیے بھی بہت اعلیٰ ہیں۔ مغرب میں کنڈور غار کے بہتر درجے کی ساخت اور ارضیاتی نقشے مارچ 2015ء میں پیش کیے گئے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کنڈور غار کے فرشپر موجود ذخائر تلچھٹ سے بھرے ہوئے طاس ہیں جو ایک تر جوہڑ جیسی ساخت میں جمع ہوئے تھے؛ لہٰذا ان کی تشکیل میں پانی کار فرما رہا ہوگا۔

ویلس مرینیرس کی بڑی جھیل کے نظریے کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کو بنانے کے لیے درکار عظیم پانی کی مقدار کا بظاہر کوئی منبع نہیں ہے۔ اگرچہ کئی چھوٹی نہریں علاقے میں موجود ہیں تاہم کوئی بڑی آبی گزرگاہیں موجود نہیں ہیں۔ تاہم زیادہ تر پانی نظام میں زیر زمین داخل ہوا ہوگا۔ اگرچہ پورے ویلس مرینیرس کا احاطہ کیے ہوئے جھیل کے بارے میں کافی تنازع کھڑا ہوا ہے تاہم اس نظام میں چھوٹی جھیلوں کی موجودگی کے بارے میں کافی یقین رکھا جاتا ہے۔

کنڈور غار اور جوونٹی غار کے فرش کے کچھ حصّے داخلی پرت دار ذخیروں پر مشتمل ہیں۔ یہ پرتیں اس وقت بنی ہوں گی جب پورا علاقہ ایک دیوہیکل جھیل ہوگی۔ تاہم دوسرے کئی تصورات ان کی وضاحت کرنے کے لیے بھی بہت اعلیٰ ہیں۔ مغرب میں کنڈور غار کے بہتر درجے کی ساخت اور ارضیاتی نقشے مارچ 2015ء میں پیش کیے گئے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کنڈور غار کے فرشپر موجود ذخائر تلچھٹ سے بھرے ہوئے طاس ہیں جو ایک تر جوہڑ جیسی ساخت میں جمع ہوئے تھے؛ لہٰذا ان کی تشکیل میں پانی کار فرما رہا ہوگا۔

معدنیات جو عموماّ پانی کی موجودگی میں بنتے ہیں وہ داخلی پرتوں کے ذخیروں میں پائے گئے ہیں؛ اس طرح سے یہ جھیلوں کی موجودگی کو زبردست تقویت دیتے ہیں۔ کچھ آئی ایل ڈیوں میں آبیدہ گندھک کے ذخیرے بھی موجود ہیں۔ گندھک بننے کے لیے پانی درکار ہوتا ہے۔ یورپی خلائی ایجنسی کے مریخ ایکسپریس نے خام میگنیشیم سلفیٹ اور کیسرائٹ پائے جانے کے ممکنہ ثبوت حاصل کیے ہیں۔ اسی طرح، اہنی آکسائیڈ قلمی سرمئی کچے لوہے کی صورت میں پایا گیا ہے جس کو بننے کے لیے ممکنہ طور پر پانی درکار ہوتا ہے۔

رٹچے شہابی گڑھا[ترمیم]

رٹچے شہابی گڑھا کوپریٹس چوگوشے میں واقع ایک گڑھا ہے۔ اس کا قطر 79 کلومیٹر کا ہے اور اس کا نام جارج ڈبلیو رٹچے، جو ایک امریکی فلکیات دان (1864ء تا 1945ء)تھے، کے اعزاز میں رکھا گیا ہے۔ یہاں پر کافی مضبوط ثبوت موجود ہے کہ یہ کبھی جھیل ہوتی تھی۔ رٹچے شہابی گڑھے کو مریخ جہاں گرد کے اترنے کی جگہ کے لیے تجویز کیا گیا تھا۔ رسوبی سلسلوں کا ایک موٹا ذخیرہ جس میں مٹی بھی موجود ہے وہ یہاں شہابی گڑھے میں پایا گیا ہے۔ مٹی کے ذخائر بتاتے ہیں کہ پانی شاید کچھ عرصے کے لیے یہاں موجود تھا۔ شہابی گڑھے کی دیوار اور کگر کے ساتھ موجود ناصرف بہاؤ کی خصوصیات بلکہ بہاؤ سے بنے ذخائر اس بات کو تقویت دیتے ہیں کہ ماضی کے کسی وقت میں یہاں پر کافی پانی موجود ہوگا۔

جیزیرو (شہابی گڑھا)[ترمیم]

جیزیرو شہابی گڑھا
یو ایس جی ایس
وائی کنگ اول جہاں گرد
جیزیرو شہابی گڑھا اور علاقے
سیارہمریخ
قطر49.0 کلومیٹر (30.4 میل)
Eponymجیزیرو کا مطلب سلاوی زبانوں میں "جھیل" کا ہے

جیزیرو مریخ پر ایک شہابی گڑھا ہے جو سیرٹس اکبر چوگوشے میں 18.855 ° این 77.519 ° ای میں واقع ہے۔ شہابی گڑھے کا قطر لگ بھگ 49.0 کلومیٹر (30.4 میل) ہے۔ پانی سے کسی زمانے میں لبریز سمجھا جانے والا شہابی گڑھا ایک پنکھ شکل کا ڈیلٹا رکھتا ہے جس میں مٹی کی بہتات ہے۔

مجوزہ مریخ 2020ء کے اترنے کی جگہ جیزیرو شہابی گڑھا ہے۔

جیزیرو شہابی گڑھا جسے کبھی مریخی سائنسی تجربہ گاہ کے اترنے کی جگہ کے طور پر تجویز کیا گیا تھا، اب تجویز ہے کہ یہاں مریخ 2020ء جہاں گرد مہم اترے گی۔ مٹی معدن شہابی گڑھے اور اس کے ارد گرد پائی گئی ہیں۔ مریخی پڑتال گر جہاں گرد نے سفیدی مائل چکنی مٹی کا سراغ لگایا ہے۔ مریخی پڑتال گر جہاں گرد نے سفیدی مائل چکنی مٹی کا سراغ لگایا ہے۔ مٹی پانی کی موجودگی میں بنتی ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ اس علاقے میں کبھی پانی موجود ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ قدیمی دور میں یہاں حیات بھی موجود ہو۔ کچھ جگہوں پر سطح کثیر الاضلاع نمونوں میں چٹخی ہوئی ہے۔ اس طرح کی صورت اکثر اس وقت بنتی ہے جب مٹی خشک ہوتی ہے۔

محققین نے ایک مارچ 2015ء میں شایع ہونے والے مقالے میں بیان کیا کہ کس طرح ایک قدیمی مریخی جھیل کا نظام جیزیرو شہابی گڑھے میں موجود ہو سکتا تھا۔ تحقیق اس خیال کو آگے بڑھاتی ہے کہ شہابی گڑھا پانی سے کم از کم دو مختلف ادوار میں لبریز رہا ہے۔ شہابی گڑھے کے شمالی اور مغربی اطراف میں دو نہریں تھیں جو ممکنہ طور پر اس کو پانی فراہم کرتی تھیں؛ ان دونوں نہروں میں ڈیلٹا کی طرح کے ذخائر موجود ہیں جہاں پانی تلچھٹ کو لا کر جھیل میں چھوڑ دیتا تھا۔ تصویر پرتیں اور پر پیچ راستوں کو ظاہر کرتی ہے۔

مریخ 2020ء مہم کا ایک اہم مقصد قدیم حیات کے اشاروں کی تلاش ہے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ بعد میں کوئی مہم اس جگہ سے نمونے لے کر واپس آسکتی ہے جس کی شناخت حیات کی باقیات کو رکھنے والی جگہ کے طور پر کی گئی ہے۔ خلائی جہاز کو حفاظت سے اتارنے کے لیے ایک 12 میل چوڑے، ہموار، چپٹے علاقے کی ضرورت ہے۔ ماہرین ارضیات امید کرتے ہیں کہ ان جگہوں کی جانچ کرسکیں گے جہاں کبھی پانی جمع ہوتا تھا۔ وہ تلچھٹ کی تہوں کی جانچ پڑتال کرنا چاہتے ہیں۔

ایریڈانیا جھیل[ترمیم]

ایریڈانیا جھیل ایک تصوراتی قدیمی جھیل ہے جس کی سطح کا رقبہ لگ بھگ 1.1 مربع کلومیٹر کا ہے۔ یہ مادیم ویلس بہاؤ والی نہر کے منبع پر واقع ہے۔ یہ مادیم ویلس بہاؤ والی نہر کے منبع پر واقع ہے اور یہ ایریڈانیا چوگوشے اور فیتھونٹس چوگوشے تک پھیلی ہوئی ہے۔ کیونکہ ایریڈانیا جھیل نواچیاں دور کے اواخر میں سوکھ گئی تھی لہٰذا یہ چھوٹی جھیلوں کے سلسلے میں تقسیم ہو گئی تھی۔ وہ معدنیات جن کی تشکیل کے لیے پانی درکار ہوتا ہے وہ اس تصوراتی جھیل کے کناروں کے اندر ہی پائے گئے ہیں۔ کرزم کے اضافی طیفی اعدادوشمار کا استعمال کرتے ہوئے ان کی شناخت ایسے سلیکا کے نمکیات کے طور پر ہوئی جو میگنیشیم/لوہے اور المونیم سے لبریز تھے۔

کولمبس شہابی گڑھا[ترمیم]

کولمبس شہابی گڑھا میمنونیا چوگوشے میں واقع ایک شہابی گڑھا ہے جس کا قطر 119 کلومیٹر کا ہے اور اس کا نام کرسٹوفر کولمبس، اطالوی کھوجی (1451ء تا 1506ء)، کے اعزاز میں رکھا گیا ہے۔ مدار گرد میں لگے قریبی زیریں سرخ شعاعوں کے طیف پیما کے ساتھ کی جانے والی تحقیق میں، جس میں حاضر معدنیات کی اقسام کا اندازہ ان کی روشنی کے طول موج کو جذب کرنے کی صلاحیت سے لگایا جاتا ہے، کولمبس شہابی گڑھے میں مٹی اور گندھک دونوں کی پرتوں کے ثبوت ملے ہیں۔ یہ بعینہ اس وقت ہوگا جب کوئی بڑی جھیل آہستگی کے ساتھ بخارات میں تبدیل ہوگی۔ بہرحال، کیونکہ کچھ پرتوں میں جپسم، ایک ایسی گندھک جو نسبتاً تازہ پانی میں بنتا ہے، شامل ہے، حیات شہابی گڑھے میں پنپ سکتی تھی۔ مریخی پڑتال گر مدار گرد پر لگے ہوئے کرزم آلے نے گل چینی، آبیدہ گندھک بشمول معدنی پھٹکری اور ممکنہ لوہے اور پوٹاشِيَم کے آبی سلفیٹ کو بھی پایا ہے۔ مزید تحقیق میں معلوم ہوا کہ جپسم، کثیر آبیدہ اور یک آبیدہ میگنیشیم آئرن سلفیٹ انتہائی عام ہیں جبکہ مونٹ موریلونائیٹ، لوہے اور میگنیشیم کے سلیکان کے نمک اور قلمی سرمئی کچ لوہے کے ذخائر تھوڑی تعداد میں پائے گئے ہیں۔ حرارتی اخراج کا طیف بتاتا ہے کہ کچھ معدن فیصد کے دسویں حصّے کی تعداد میں موجود ہیں۔ یہ معدن بتاتے ہیں کہ پانی شہابی گڑھے میں موجود تھا۔ سائنس دان مریخ پر آبیدہ معدنیات جیسا کہ گندھک اور مٹی کے پائے جانے پر کافی خوش تھے کیونکہ عام طور پر یہ پانی کی موجودگی میں ہی بنتے ہیں۔ وہ جگہیں جہاں مٹی/ یا دوسرے آبیدہ معدنیات موجود ہیں وہ حیات کی تلاش کے لیے اچھی جگہیں ثابت ہو سکتی ہیں۔ گندھکی معدنیات المونیم سے لبریز مٹی کے اوپر پائی گئی ہیں؛ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابتدا میں جب مٹی بنی تھی، پانی زیادہ معتدل تھا اور حیات کا پنپنا زیادہ آسان تھا۔ گندھک کے تیزابی نمک عام طور وہاں بنتے ہیں جہاں زیادہ تیزابی پانی موجود ہوتا ہے۔

کولمبس شہابی گڑھا
کولمبس شہابی گڑھا جس کی بنیاد دن کے وقت تھیمس سے لی گئی تصویر ہے۔
سیارہمریخ
قطر119 km
Eponymکرسٹوفر کولمبس، اطالوی کھوجی (1451ء-1506ء)

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]