مریخ کا کرۂ فضائی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
کرۂ فضائی مریخ
مریخ
28 اکتوبر2005ء کومریخکیہبل خلائی دوربین سے لی گئی تصویر میں دھول کے طوفان۔
عمومی معلومات[1]
کیمیائی انواعمول فریکشن
اجزاء[1]
کاربن ڈائی آکسائڈ95.97%
آرگون1.93%
نائٹروجن1.89%
آکسیجن0.146%
کاربن مونو آکسائڈ0.0557%
شمسی ہوا مریخ کے بالائی کرۂ فضائی میں موجود برق پاروں کو اسراع دے کر خلا میں پھینک رہی۔

مریخ کا کرۂ فضائی گیسوں کی وہ تہ ہے جو زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بنی ہے۔ مریخی سطح پر ماحولیاتی دباؤ کی اوسط 600 پاسکل ہے، زمین پر سطح سمندر کے اوسط 101.3 کلو پاسکل کے دباؤ کا لگ بھگ 0.6 فیصد۔ یہ اولمپس مونس کی چوٹی پر 30 پاسکل سے لے کر ہیلس پلانیشیا کی گہرائی میں 1,155 پاسکل تک ہوتا ہے۔ یہ دباؤ بغیر حفاظتی لباس کے انسانی جسم کے لیے آرمسٹرانگ کی حد سے کہیں کم ہے۔ مریخ کے 25ٹن کے فضائی دباؤ کو زمین کے 5,148 ٹن سے موازنہ کیا جا سکتا ہے جو 11کلومیٹر کی اونچائی پر موجود ہو جبکہ زمین پر یہ 7 کلومیٹر کی اونچائی پر موجود ہو گا۔

مریخی کرۂ فضائی 43.34 g/mol[2][3] کی مولرکمیت کی اوسط میں لگ بھگ 96فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ، 1.9فیصد آرگان، 1.9فیصد نائٹروجن اور دوسری گیسوں کے ساتھ تھوڑی سی آکسیجن، کاربن مونو آکسائڈ، پانی اور میتھین پر مشتمل ہے۔[1] 2003ء میں اس کے کرۂ فضائی کی ترکیب میں میتھین کے پائے جانے کے بعد لوگوں کی دلچسپی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔[4][5] میتھین کی وجہ سے حیات کی موجودگی کا عندیہ ملتا ہے تاہم یہ کسی ارضی کیمیائی عمل، آتش فشانی عمل یا حر حرکی سرگرمی کے نتیجے میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔[6]

کرۂ فضائی میں کافی دھول موجود ہے، جس کی وجہ سے مریخی آسمان کا رنگ سطح سے ہلکا بھورا یا سرخی مائل نارنجی لگتا ہے؛ مریخی کھوجی جہاں گرد سے حاصل ہونے والی اطلاعات بتاتی ہیں کہ لگ بھگ 1.5 مائیکرو میٹر کے دھول کے زرّات فضا میں کھڑے رہتے ہیں۔[7]

16 دسمبر 2014ء کو ناسا نے سیارہ مریخ کے کرۂ فضائی میں میتھین کی مقدار میں غیر معمولی اضافہ اور اس کے بعد کمی کا سراغ لگایا۔ نامیاتی مادّوں کا سراغ اس سفوف میں ملا ہے جو کیوریوسٹی جہاں گرد نے چٹان کو کھود کر حاصل کیا۔ ڈیوٹیریئم سے لے کر ہائیڈروجن تک کے نسبتی مطالعہ کی بنیاد پر مریخ کے گیل شہابی گڑھے میں موجود زیادہ تر پانی کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ قدیمی دور میں ہی شہابی گڑھے کی جھیلوں کے فرش بننے سے پہلے ہی ضائع ہو گیا ہو گا؛ اس کے بعد باقی ماندہ پانی نے ضائع ہونا جاری رکھا ہو گا۔[8][9][10]

18 مارچ 2015ء ناسا نے ایک ایسی قطبی روشنی کے بارے میں اطلاع دی جس کو ابھی تک ٹھیک طریقے سے سمجھا نہیں گیا ہے اس کے علاوہ کرۂ فضائی میں ایک ناقابل توجیہ دھول کے طوفان کی بھی اطلاع پائی گئی ہے۔ [11]

4 اپریل 2015ء کو ناسا نے ایک تحقیق کی اطلاع دی جس کی بنیاد کیوریوسٹی جہاں گرد پر لگے مریخ پر نمونے کے تجزیاتی آلے کی تھی، اس نے مریخی کرۂ فضائی میں زینون اور آرگان کے ہم جاؤں کا استعمال کر کے اس کی پیمائش کی۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ مریخ کی ابتدائی تاریخ میں کرۂ فضائی کا زیاں کافی شدید تھا اور یہ بات زمین پر پائے جانے والے کچھ مریخی شہابیوں کے ماحولیاتی نقش پا سے بھی میل کھاتی ہے۔[12] 5 نومبر 2015ء کو ناسا کے سائنس دانوں نے مریخ کے گرد چکر لگانے والے ماوین مدار گرد سے حاصل کردہ اطلاعات کی بنیاد پر اطلاع دی کہ گذرے برسوں میں مریخ کی کرۂ فضائی کو اتارنے کی ذمہ دار شمسی ہوائیں ہیں۔[13][14]

ساخت [ترمیم]

کرۂ فضائی کا دباؤ
مقام دباؤ
اولمپس مونس کی چوٹی 0.03 کلوپاسکال (0.0044 psi)
مریخ کا اوسط 0.6 کلوپاسکال (0.087 psi)
ہیلس پلانیشیا کی تہ 1.16 کلوپاسکال (0.168 psi)
آرمسٹرانگ کی حد 6.25 کلوپاسکال (0.906 psi)
ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی[15] 33.7 کلوپاسکال (4.89 psi)
زمینی سطح سمندر 101.3 کلوپاسکال (14.69 psi)

مریخ کا کرۂ فضائی مندرجہ ذیل تہوں پر مشتمل ہے:

  • باہری کرۂ : عام طور پر اس کی شروعات 200 کلومیٹر یا اس سے زیادہ کی اونچائی پر ہوتی ہے، یہ وہ علاقہ ہے جہاں کرۂ فضائی کا آخری لچھا خلا کے جوف سے جا ملتا ہے۔ اس کے ختم ہونے کی کوئی واضح سرحد نہیں ہے، بس یہ شمع کی لوح کی طرح ختم ہو جاتی ہے۔
  • بالائی کرۂ یا کرۂ حرارت: ایک ایسا علاقہ جس کا درجہ حرارت کافی زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سورج کی گرمی ہوتی ہے۔ کرۂ فضائی کی گیسیں اس طرح کے ارض البلد پر ایک دوسرے سے الگ ہونا شروع ہو جاتی ہیں، وہ یہاں پر نچلے کرۂ فضائی پر پانے جانے والی گیسوں کے ملغوبے کی طرح نہیں ہوتیں۔
  •  وسطی کرۂ : وہ علاقے جہاں پر مریخ کے چشموں کی دھاریں بہتی ہیں۔
  •  نچلا کرۂ: نسبتاً گرم علاقہ جو ہوا میں موجود اور زمین سے آتی ہوئی دھول سے متاثر ہوتا ہے۔

یہاں پر ایک پیچیدہ روانی کرہ بھی ہے، [16] اس کے علاوہ جنوبی قطب کے اوپر موسمی اوزون کی تہ بھی ہوتی ہے۔[17] ماوین خلائی جہاز نے 2015ء میں پتا لگایا کہ تعدیلہ گیسوں اور برق پاروں کی کمیت میں خاصی تہوں والی ساخت موجود ہے۔[18]

زمین سے کیے جانے والے مشاہدات اور پیمائش [ترمیم]

زہرہ، مریخ اور زمین کے کرۂ فضائی کی بناوٹ کا موازنہ۔

1864ء میں ولیم رٹر ڈویز نے مشاہدہ کیا " کہ سیارے کی گلابی رنگت اس کے کسی خاص کرۂ فضائی کی وجہ سے نہیں ظاہر ہوتی اور اس بات کی مکمل تصدیق ایسے ہوتے ہوئے لگتی ہے کہ گلابی یا سرخی مائل رنگت ہمیشہ مرکز کے قریب گہری ہوتی ہے، جہاں پر کرۂ فضائی سب سے زیادہ مہین ہے۔"[19] 1860ء اور 1870ء کی دہائی[20][21] میں طیفی پیما سے کیے جانے والے مشاہدوں سے کئی لوگ یہ سوچنے لگے کہ مریخ کا کرۂ فضائی زمین سے مشابہ ہے۔ 1894ء میں ولیم والس کمپبل کے طیفی تجزیے اور دوسرے مشاہدات سے مریخ چاند کے مشابہ لگا، جس کا کوئی قابل ذکر کرۂ فضائی نہیں ہے۔

1926ء میں لک رصدگاہ میں کیے جانے والے ولیم ہیمونڈ رائٹ کے عکاسانہ مشاہدات کی مدد سے ڈونلڈ ہووارڈ مینزل نے مریخ کے ماحول کے مقداری ثبوت دریافت کیے۔[22][23]

موازنہ [ترمیم]

مریخ پر سب  سے زیادہ فرا واں گیسیں

کاربن ڈائی آکسائڈ[ترمیم]

مریخ کے کرۂ فضائی کا اہم جز کاربن ڈائی آکسائڈ95.9 فیصد کے ساتھ ہے۔ نصف کرۂ کی سردی میں ہر قطب مسلسل تاریکی میں ڈوبا رہتا ہے اور سطح اس قدر ٹھنڈی ہو جاتی ہے کہ لگ بھگ 25 فیصد تک ماحولیاتی کاربن ڈائی آکسائڈ قطبی ٹوپی پر مرتکز ہو کر ٹھوس کاربن ڈائی آکسائڈ کی برف بن جاتی ہے۔ جب گرمیوں میں قطب پر سورج کی روشنی پڑتی ہے، تو کاربن ڈائی آکسائڈ کی برف عمل تصعید سے گذر کر واپس کرۂ فضائی میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس عمل کی وجہ سے کرۂ فضائی کے دباؤ میں اور مریخی قطبین کے قریب کرۂ فضائی کی ساخت میں زبردست سالانہ تغیر ہوتا ہے۔

آرگون[ترمیم]

آرگون کے ہم جا کی نسبت مریخ کے کرۂ فضائی کے ضائع ہونے نقش پا ہیں۔ [24][25]

نظام شمسی میں پائے جانے والے دوسرے سیاروں کے کرۂ فضائی کے مقابلے میں مریخ کا کرۂ فضائی تعدیلہ گیسوں بالخصوص آرگان گیس سے لبریز ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کے برعکس، کرۂ فضائی میں موجود آرگان تکثیف نہیں ہوتی، لہذا مریخ کے کرۂ فضائی میں موجود آرگان کی کل مقدار مستقل ہی رہتی ہے۔ تاہم کسی بھی خاص جگہ پر نسبتی ارتکاز بدل سکتا ہے کیونکہ کاربن ڈائی آکسائڈ کرۂ فضائی میں اندر باہر ہوتی رہتی ہے۔ حالیہ سیارچوں سے حاصل ہونے والی اطلاعات سے معلوم ہوا ہے ہ جنوبی قطب پر خزاں کے موسم کے دوران میں کرۂ فضائی میں موجود آرگان میں اضافہ ہوتا ہے جو آنے والے موسم بہار میں منتشر ہو جاتا ہے۔  [26]

پانی[ترمیم]

مریخی کرۂ فضائی کی کچھ چیزیں کافی مختلف ہوتی ہیں۔ مریخی گرمیوں کے دوران میں جب کاربن ڈائی آکسائڈ عمل تصعید سے گذر کر جب واپس کرۂ فضائی میں جاتا ہے، تو وہ اپنے پیچھے پانی کے سراغ چھوڑ دیتی ہے۔ موسمی ہوائیں قطبین پر 400 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہیں جس کی وجہ سے بڑی مقدار میں دھول اور پانی کے بخارات وہاں سے لے کر زمین کی طرح کی دھند و بڑے لچھے دار بادل بنا دیتی ہے۔ پانی کی برف کے بادلوں کی تصاویر آپرچونیٹی جہاں گرد نے 2004ء میں عکس بند کی ہیں۔[27] ناسا کے سائنس دان جو فینکس مریخی مہم پر کام کر رہے ہیں انھوں نے 31جولائی 2008ء کو تصدیق کی کہ انھوں نے زیر زمین پانی کی برف کو مریخ کے شمالی قطبی علاقے میں پایا ہے۔

میتھین [ترمیم]

مریخ پر طیران پزیر گیسیں

کچھ حصے فی ارب کی سطح پر میتھین کی مقدار کا بھی سراغ لگا ہے، مریخ کے کرۂ فضائی میں اس کی اطلاع سب سے پہلے ناسا کی گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کی ٹیم نے 2003ء میں دی۔[28] مارچ 2004ء میں مریخی کھوجی مدار گرد اور زمین پر لگی دوربینوں سے تین گروہوں کے کیے گئے مشاہدات سے معلوم ہوا کہ کرۂ فضائی میں میتھین کی موجودگی ایک ارب کے دسویں حصّے تک کی سطح پر موجود ہے۔[29][30][31] 2003ء اور 2006ء کے دوران میں کیے جانے والے مشاہدوں میں فراوانی میں بڑے تغیرات پائے گئے جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ میتھین مقامی طور پر مرتکز ہے اور ہو سکتا ہے کہ موسمی بھی ہو۔

مریخ پر پائی جانے والی میتھین سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں اور دوسری گیسوں سے ہونے والے کیمیائی تعاملات کی وجہ سے تیزی سے ٹوٹ جائے گی، تاہم فضا میں اس کی برابر موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا ماخذ ضرور موجود ہے جو اس گیس کو دوبارہ سے بھر دیتا ہے۔ فی الوقت موجود روشنی سے کی گئی کیمیائی تبدیلی کے نمونے خود سے میتھین کی سطح میں ہونے والے اتنے تیز تغیرات کو بیان نہیں کر سکتے۔[32][33] یہ قیاس پیش کیا گیا ہے کہ کرۂ فضا میں میتھین مریخ میں داخل ہونے والے شہابیوں کی وجہ سے شامل ہو جاتی ہوگی۔[34] تاہم امپیریل کالج لندن کے محققین نے دریافت کیا کہ اس طرح سے میتھین کے نکلنے کی مقدار انتہائی کم ہے جو گیس کی موجود سطح کو قائم نہیں رکھ سکتی۔[35]

تحقیق کے مطابق میتھین کے تباہ ہونے کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ زمینی 4 برس اور کم سے کم زمین 0.6 برس تک کا ہو سکتا ہے۔[36][37] یہ دورانیہ فضائی چکر سے پورے سیارے پر میتھین کی غیر یکساں مقدار کا مشاہدہ کرنے کے لیے انتہائی کم ہے۔ کسی بھی طرح سے میتھین کے تباہ ہونے کا دورانیہ اس پیمانے (لگ بھگ 350 برس)سے کہیں کم ہے جو روشنی سے ہوئی کیمیائی تبدیلی (بالائے بنفشی اشعاع) کرتی ہے۔ میتھین گیس کا اس قدر تیزی رفتاری سے تباہ ہونے (یا ڈوبنے) کا مطلب بتاتا ہے کہ کوئی دوسرا عمل مریخ سے کرۂ فضائی سے میتھین کے نکالنے میں کار فرما ہے اور یہ عمل روشنی سے میتھین کو تباہ کرنے سے 100 تا 600 گنا تک زیادہ کارگر ہے۔ ناقابل توجیہ یہ تباہ کن شرح دوبارہ سے بھرنے والے کسی بہت ہی سرگرم ماخذ کے بارے میں بھی بتاتی ہے۔[38] 2014ء میں یہ اخذ کیا گیا کہ میتھین کو اس تیزی سے غرق کرنے والی چیز ماحولیاتی تکسید سے ماوراء ہے۔[39] ایک امکان یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ میتھین استعمال ہی نہ ہوتی ہو بلکہ یہ موسمی طور پر مشبک شرح سے مرتکز اور تبخیر ہوتی ہو۔[40] ایک امکان یہ بھی ہے کہ میتھین لرزتی سطحی کوارٹز اور زبر جد کے ساتھ متعامل ہو Si–CH3کا شریک گرفتی بند بناتی ہو۔[41]

مریخ پر میتھین کے ممکنہ ماخذ اور غرقاب

مریخ کی میتھین کے اہم ماخذ کے امید وار غیر حیاتیاتی عمل جیسا کہ پانی اور چٹان کا کیمیائی عمل، پانی کا ریڈیائی تجزیہ اور آہنی چقماق کے بننے کا عمل بھی ہو سکتے ہیں یہ تمام کیمیائی عمل H2 پیدا کرتے ہیں جو بعد میں میتھین اور دوسرے ہائیڈرو کاربن مادّوں کو بذریعہ فسچر ٹروپسچ تالیف میں کاربن آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ کے ساتھ مل کر بنا سکتے ہیں۔[42] یہ بھی معلوم ہے کہ میتھین پانی، کاربن ڈائی آکسائڈ اور اس معدن زبرجد کے ساتھ مل کر بن سکتی ہے جو مریخ پر عام پایا جاتا ہے۔[43] اس کیمیائی عمل کے لیے درکار شرائط (یعنی بلند درجہ حرارت اور دباؤ) سطح پر موجود نہیں ہے، تاہم یہ شرائط قشر کے اندر پوری ہو سکتی ہیں۔[44][45] معدن کی ایک ذیلی پیداوار سرپنٹیٹ بتاتی ہے کہ یہ عمل وقوع پزیر ہو رہا ہے۔ زمین پر اس تشبیہ بتاتی ہے کہ اس طرح کی سرپنٹیٹ چٹانوں سے کم درجہ حرارت اور میتھین کا اخراج مریخ پر ممکن ہو سکتا ہے۔[46] ایک دوسرا ممکن ارضی طبیعیاتی ذریعہ مشبک آبید بھی ہو سکتا ہے۔[47] ابتدائی مریخ کے ٹھنڈے ماحول کو قیاس کرتے ہوئے، ایک برفیلا کرہ اس طرح کی میتھین کو گہرائی میں مستحکم مشبک کی صورت میں قید کر سکتا ہے جو آج کل وقتاً فوقتاً وہاں سے نکلتی رہتی ہو۔[48]

میکسیکن سائنس دانوں کے گروہ نے تالیف کیے ہوئے مریخ کے ماحول میں پلازما کے تجربات کیے جس سے انھوں نے پتا لگایا کہ میتھین کی بوچھاڑیں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب خارج ہونے والا مادّہ پانی سے متعامل ہوتا ہے۔ ایک ممکنہ خارج ہونے والے مادّہ کا ماخذ ریت کے طوفان اور دھول کے بگولوں کے دھول کے زرّات کی برق کاری ہو سکتی ہے۔ برف کھائی یا زیر سطح پر پائی جا سکتی ہے۔ برقی اخراج گیسی کاربن ڈائی آکسائڈ کو آئن زدہ کر دیتی ہے اور پانی کے سالمات اور ان کی ذیلی پیداوار کے ساتھ مل کر میتھین بناتے ہیں۔ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ مریخ کے کرۂ فضائی میں برف کے نمونے پر ضربی برقی اخراج لگ بھگ میتھین کے 1.41 ×1016 سالمات فی جول اطلاقی توانائی کے پیدا کرتا ہے۔[49][50]

زندہ خرد اجسام جیسا کہ میتھانوجنس بھی دوسرے ممکنہ ذرائع ہو سکتے ہیں تاہم مریخ پر اس طرح کے جانداروں کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ زمین کے سمندروں میں، حیاتیاتی میتھین کی پیداوار کے ساتھ ایتھین بھی پیدا ہوتی ہے، جبکہ آتش فشانی میتھین کے ساتھ سلفر ڈائی آکسائڈ موجود ہوتی ہے۔[51] مریخ کے کرۂ فضائی میں موجود قلیل گیسوں پر کی جانے والی کئی تحقیقوں میں مریخی کرۂ فضائی میں کسی بھی قسم کے سلفر ڈائی آکسائڈ موجود ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں، جس کی وجہ سے آتش فشاں میتھین کو پیدا کرنے کے ذمہ دار نہیں لگتے۔[52][53]

2011ء میں ناسا کے سائنس دانوں نے اعلیٰ درجہ کی زیریں سرخ اشعاع کی طیف بینی زمینی دوربین سے کرکے مریخ پر قلیل نوع (بشمول میتھین) کی اطلاع دی جس میں انھیں میتھین کی اوپری حد فی ارب 7 حصّے، ایتھین فی ارب 0.2 حصّے، میتھانول فی ارب 19 حصّے اور دوسرے H2CO, C2H2, C2H4, N2O, NH3, HCN, CH3Cl, HCl, HO2 –تمام فی ارب کی سطح کی حد پر پائے گئے۔ یہ اعداد و شمار چھ ماہ کے عرصے کے دوران میں حاصل کیے گئے تھے اور مریخ کے مختلف علاقوں میں مختلف موسموں کے درمیان میں لیے تھے، جس سے معلوم چلتا ہے کہ اگر نامیاتی مرکبات فضا میں خارج ہوتے ہیں تو اس طرح کے واقعات حد درجہ نایاب یا عصر حاضر میں وجود ہی نہیں رکھتے ہوں گے، یہ بات کچھ نوع کی حیات کا دورانیہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہی جا سکتی ہے۔[54]

کیوریوسٹی  جہاں گرد سے مریخ کے کرۂ فضائی میں ناپی ہوئی میتھین

اگست 2012ء میں کیوریوسٹی جہاں گرد مریخ پر اترا۔ جہاں گرد پر لگے آلات اس قابل تھے کہ وہاں پر موجود اجزاء کا انتہائی درستی کے ساتھ تجزیہ کر سکیں، ان آلات کے استعمال سے میتھین کے مختلف ہم جاؤں میں بھی فرق کیا جا سکتا ہے۔[55][56] کیوریوسٹی پر لگے ہوئے سر پزیر لیزر طیف پیما سے کی گئی2012ء میں پہلی پیمائش سے معلوم ہوا کہ وہاں پر میتھین ہے ہی نہیں یا اترنے کی جگہ پر فی ارب میں سے صرف 5 حصّے ہی میتھین کے ہیں۔[57][58][59][60][61] 2013ء میں ناسا کے سائنس دانوں نے پھر یہ اطلاع دی کہ بنیادی خط سے آگے کسی بھی قسم کے میتھین کا سراغ نہیں لگا۔[62][63][64] تاہم 2014ء میں ناسا نے اطلاع دی کہ کیوریوسٹی جہاں گرد نے2013ء کے اواخر اور 2014ء کے شروع میں کرۂ فضائی میں میتھین میں ایک دس گنا زیادہ اضافہ دیکھا۔ اس دوران میں چار مرتبہ پیمائش کی گئی جس میں معلوم ہوا کہ اس دورانیے میں اوسط فی ارب میں 7.2 حصہ ہے یعنی مریخ وقتاً فوقتاً میتھین کو کسی نامعلوم ذرائع سے چھوڑتا ہے۔[65] اس سے پہلے اور بعد میں لیے جانے والی پیمائشوں میں یہ سطح اس سطح کا ایک بٹا دس حصہ تھی۔

ہندوستانی مریخی جہاں گرد مہم جو مریخ کے مدار میں 24 ستمبر 2014ء کو داخل ہوا تھا اس میں ایک فیبری پیروٹ تداخل پیما لگا ہوا تھا جس کا کام کرۂ فضائی میں موجود میتھین کو کئی سطحوں پر فی ارب حصّہ ناپنا تھا، اس نے منظم طریقے سے ستمبر 2015ء تک مواد کو جمع کیا۔[66][67] ایکزو مارس گیسی سراغ رساں جہاں گرد کو چھوڑنے کی منصوبہ بندی 2016ء میں کی گئی ہے جو نہ صرف مزید میتھین پر تحقیق کرے گا بلکہ اس کی بوسیدہ ہوتے وقت نکلنے والی ذیلی پیداوار جیسا کہ فارمل ڈی ہائیڈ اور میتھانول کی چھان بین بھی کرے گا۔[68][69][70]

سلفر ڈائی آکسائڈ [ترمیم]

کرۂ فضائی میں موجود گندھک کے تیزاب کی موجودگی کو آتش فشانوں کی کارستانی سمجھا جاتا ہے۔ مریخ پر موجود میتھین کی موجودگی کے لمبے تنازع کی وجہ سے یہ کافی دلچسپی کا باعث بن چکی ہے۔ اگر مریخ پر موجود میتھین کو آتش فشانوں نے بنایا ہے (جیسا کہ یہ زمین پر ہوتا ہے) تو ہمیں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار ملتی ہے۔ مریخ پر سلفر ڈائی آکسائیڈ کی تلاش کے لیے بہت ساری ٹیمیں ناسا کی زیریں سرخ شعاعوں کی دوربین کا استعمال کر رہی ہیں۔ اس طرح کی تحقیقوں میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کا سراغ نہیں ملا، تاہم وہ اس قابل ضرور ہو گئے کہ ماحولیاتی ارتکاز میں 0.2 فی ارب حصے کی اوپری حد ضرور معلوم کر لی۔ مارچ 2013ء میں ناسا گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر پر ایک سائنس دانوں کی ٹیم نے راک نیسٹ (مریخ) کی مٹی کا نمونے کا تجزیہ کیوریوسٹی جہاں گرد سے کیا جس میں انھیں S02 کا سراغ ملا۔[71]

اوزون [ترمیم]

مریخ کی محوری گردش جب وہ زمین مریخ اور سورج کے درمیان میں تھی۔دائرہ البرُوج اوپری طرف ہے۔

29 ستمبر 2013ء کو یورپین اسپیس ایجنسی نے اطلاع دی کہ خلائی جہاز سے حاصل کردہ اطلاعات کا کمپیوٹر نمونے سے کیے گئے نئے موازنہ میں معلوم ہوا کہ کس طرح سے سیاروی کرۂ فضائی کا چکر اوزون کی تہ کو مریخ کے جنوبی قطب کے اوپر سردیوں میں بناتی ہے۔ اوزون کا مریخ میں سراغ لگانا سب سے مشکل اس لیے ہے کہ اس کا ارتکاز زمین کے مقابلے میں عام طور پر 300 گنا کم ہوتا ہے، ہرچند کہ اس میں تغیر مقام و وقت کے ساتھ ہوتا ہے۔ مریخ ایکسپریس پر لگے ہوئے ایک بالائے بنفشی طیف پیما - اسپائیکیم سے نچلے تا وسط ارض البلد پر اوزون کی دو مختلف تہوں کا معلوم ہوا۔ ان میں سے ایک مستقل سطح کے قریب تہ 30 کلومیٹر کے ارض البلد کے نیچے ایک الگ تہ جو صرف شمالی بہار اور موسم گرما میں ہوتی ہے اور 30 تا 60 کلومیٹر کے ارض البلد کے درمیان میں رہتی ہے، جبکہ ایک دوسری الگ تہ جو 40 تا 60 کلومیٹر جنوبی قطب میں موسم سردی میں ہوتی ہے جبکہ اس جیسی کوئی تہ مریخ کے شمالی قطب میں نہیں ہوتی۔ یہ تیسری اوزون کی تہ 75 اور 50 ڈگری جنوب میں یک لخت کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسپائی کیم نے موسم سرما کے وسط میں 50 کلومیٹر تک اوزون کی تہ میں بتدریج اضافے کا سراغ لگایا، اس کے بعد یہ آہستہ آہستہ کم ہو کر بتدریج کم ارتکاز پزیر ہو گئی جبکہ 35 کلومیٹر سے اوپر اس تہ کا سراغ نہیں ملتا۔ رپورٹ کو شایع کرنے والے سائنس دان سمجھتے ہیں کہ مشاہدہ ہونے والی قطبی اوزون کی تہ اسی کرۂ فضائی کے چکر کے نمونے کی جس نے مختلف آکسیجن کے اخراج کو پیدا کیا جس کی شناخت قطبی رات میں ہوئی تھی اور جو زمین کے کرۂ فضائی میں بھی موجود ہوتی ہے۔ یہ چکر بڑے ہیڈلے خانے کی صورت لے لیتی ہے جس میں گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے اور بلند ارض البلد پر ڈوبنے اور ٹھنڈی ہونے سے پہلے جنوبی قطب کی طرف سفر کرتی ہے۔ مریخ کا مدار کافی بیضوی ہے اور اس کامحوری جھکاؤ بھی بڑا ہے، جس کی وجہ سے زبردست موسمی تغیرات جنوبی اور شمالی نصف کرہ کے درمیان میں ہوتے ہیں۔ مریخ کا درجہ حرارت میں فرق کرۂ فضائی میں موجود پانی کی مقدار پر اثر انداز ہوتی ہے، کیونکہ گرم ہوا زیادہ مرطوب ہوتی ہے۔ اس طرح سے یہ اوزون کو تباہ کرنے والی بنیادی ہائیڈروجن کی پیدوار پر اثر انداز ہوتی ہے۔

انسانی استعمال کا امکان [ترمیم]

مریخ کا کرۂ فضائی مریخ پر اترنے والی کسی بھی جگہ پر معلوم وسائل کا جز ترکیبی ہے۔ یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ مریخ کی انسان کھوج میں مریخ کے کرۂ فضائی سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لے کر مہم کی واپسی میں استعمال ہونے والے ایندھن کو بنایا جا سکتا ہے۔ مہم کی تحقیق تجویز دیتی ہے کہ اس طرح سے کرۂ فضائی کا استعمال رابرٹ زبرین کے مریخ راست تجویز اور ناسا کے ڈیزائن ریفرنس مشن کی تحقیق میں بھی شامل ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو استعمال کرنے کے دو اہم کیمیائی راستوں میں سیبیٹیر رد عمل ہے جس میں ماحولیاتی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اضافی ہائیڈروجن کے ساتھ تبدیل کر کے میتھین اور آکسیجن پیدا کی جائے گی اور دوسرا طریقہ برقی پاشیدگی زرکونیا کی ٹھوس تکسید ہے جس میں برق پاش کا استعمال کر کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن اور کاربن مونو آکسائیڈ میں توڑ سکتے ہیں۔

تاریخ [ترمیم]

مریخ کا کرۂ فضائی سیارے کی زندگی کے دوران میں تبدیل ہوتا رہا ہے، جس میں ایسے ثبوت بھی موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ مریخ میں کچھ ارب ہا برس پہلے بڑے سمندر موجود ہوتے تھے۔[72] جیسا کہ مریخ کے سمندروں کے قیاس میں کہا جاتا ہے، عصر حاضر کے مریخ پر سطح پر کرۂ فضائی کا دباؤ صرف پانی کے تہرے نقطے (6.11 ہیکٹو پاسکل)میں پست بلندی میں کچھ زیادہ ہے؛ بلندی ارتفاع پر پانی صرف ٹھوس بخارات کی صورت میں ہی رہ سکتا ہے۔ سطح پر سالانہ اوسط درجہ حرارت فی الوقت 210K سے کم ہے، یہ درجہ حرارت اس سے بہت کم ہے جو مائع پانی کو قائم رکھنے کے لیے درکار ہے۔ بہرحال، مریخ کی ابتدائی تاریخ میں اس طرح کی شرائط موجود ہو سکتی ہیں جس میں سطح پر مائع پانی قائم رہ سکتا ہے۔ 2013ء میں سائنس دانوں نے شایع کیا کہ ارب ہا برس پہلے مریخ میں آکسیجن سے بھرپور کرۂ فضائی موجود ہو سکتا ہے۔[73][74]

پچھلی موٹی مریخی کرۂ فضائی کے تیز تر خاتمے کی ممکنہ وجوہات میں شامل ہیں:

  • شمسی ہوا سے کرۂ فضائی کا بتدریج کٹاؤ جس کو ممکنہ طور پر مریخ کی مقناطیسی بے قاعدگی سے مدد ملی۔ 5 نومبر 2015ء کو ناسا نے اعلان کیا کہ ماوین سے حاصل کردہ اطلاعات بتاتی ہیں کہ مریخ کے کرۂ فضائی کا کٹاؤ شمسی طوفان کے دوران میں بڑھ جاتی ہے۔ یہ منتقلی لگ بھگ 4.2 ارب برس سے لے کر 3.7 ارب برس کے درمیان میں اس وقت ہوئی جب سیاروی مقناطیسی میدان  کی حفاظتی چھتری  سیارے کے اندرونی مکون  برق کے ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گئی تھی۔[75][76]
  •  ایک ایسے بڑے جسم سے ہونے والا تباہ کن تصادم جس نے مریخ کے کرۂ فضائی کی خاصی مقدار کو اڑا ڈالا؛ [77]
  • مریخ کی کم قوّت ثقل نے کرۂ فضائی کو خلا میں پھونک دیا۔[78]
مریخ کی فرار ہوتی کرۂ فضائی —کاربن، آکسیجن، ہائیڈروجن—ماوین کے بالائے بنفشی - بسری طیف پیما سے بنائی گئی۔[79]

تصاویر[ترمیم]

گوسف شہابی گڑھے پرمریخی غروب آفتاب کا منظر ازاسپرٹ جہاں گرد (مئی 2005ء)۔
اریس وادی میں مریخی غروب آفتاب کا منظر از مریخ خضر راہ (جولائی 1997ء)۔

</gallery>

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ کیوریوسٹی جہاں گرد سے معلوم شدہ مریخی ماحول میں گیسوں کی فرا وانی اور بناوٹ۔ (Sciencemag.org (2013-07-19۔ اخذ کردہ 5 اکتوبر 2013ء۔۔
  2. روبنز، اسٹورٹ جے؛ و دیگر (14 ستمبر 2006ء)۔ "مریخ کے کرۂ فضائی کی عنصری بناوٹ"۔ کیس ویسٹرن ریزرو یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹ آف ایسٹرو نامی۔ اوریجنل سے حاصل کردہ دستاویزات بروز 15 جون 2011ء۔ اخذ کردہ 5 اپریل 2012ء۔
  3. سیف، اے؛ کرک، ڈی (1977ء)۔"موسم گرما میں وسطی ارض البلد میں مریخ کے کرۂ فضائی کی ساخت"۔ جرنل آف جیو فزیکل ریسرچ 82 (28): 4364–4378۔ Bibcode:1977JGR۔۔۔82۔4364S doi:10۔1029/js082i028p04364۔
  4. بین السیاروی اسرار – مریخ پر میتھین، ڈیوڈ ٹینی بوم، ایسٹرو بائیولوجیکل میگزین، ناسا، جولائی 20، 2005ء۔ (نوٹ:چار سلسلوں میں سے حصہ اول)۔
  5. موما، ایم جے؛ نوواک، آر ای؛ ڈی سینٹی، ایم اے؛ بونوف، بی پی، "مریخ پر میتھین کی تلاش کے لیے کی جانے والی ایک حساس چھان بین"(صرف خلاصہ)۔ امریکن ایسٹرو نومیکل سوسائٹی، ڈی پی ایس اجلاس نمبر #35، #14۔
  6. "مریخ کی میتھین کی فہم (جون 2008ء)"۔ 23 ستمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 نومبر 2015 
  7. لیمون و دیگر، "مریخی کھوجی جہاں گرد سے حاصل کردہ کرۂ فضائی کے تصویری نتائج: اسپرٹ اور آپرچونیٹی"
  8. ویبسٹر، گائے؛ جونز، نینسی نیل؛ براؤن، ڈیوائینی (16 دسمبر 2014ء)۔ "ناسا جہاں گرد نے مریخ پر سرگرم اور قدیم نامیاتی کیمیائی مادّوں کو پایا"۔ ناسا۔ اخذ کردہ 16 دسمبر 2014ء۔
  9. چانگ، کینتھ (16 دسمبر 2014ء)۔ایک عظیم لمحہ : جہاں گرد نے شاید اس کا سراغ لگا لیا کہ مریخ حیات کو پال سکتا ہے"۔ نیویارک ٹائمز۔ اخذ کردہ 16 دسمبر 2014ء۔
  10. مہافی، پی آر؛ و دیگر (16 دسمبر 2014ء)۔" مریخ کا کرۂ فضائی – مریخ پر ڈی/ایچ ہیس پیرین معدنی مٹی کے ارتقا میں پائے جانے والے نقش پا"۔ سائنس 347: 412–414۔ Bibcode:2015Sci۔۔۔347۔۔412M doi:10۔1126/science۔1260291۔ اخذ کردہ 16 دسمبر 2014ء۔
  11. براؤن، ڈیوائینی؛ نیل -جونز، نینسی؛ اسٹیجر والڈ، بل؛ اسکوئیٹ، جم (18 مارچ 2015ء)۔ "ریلیز 15-045 ناسا کے خلائی جہاز نے مریخ پر پراسرار قطبی روشنیاں اور دھول کے بادل دیکھے ہیں"۔[مردہ ربط] اخذ کردہ 18 مارچ 2015ء۔
  12. براؤن، ڈیوائینی؛ نیل -جونز، نینسی (31 مارچ 2015ء)۔ "ریلیز 15-055 کیوریوسٹی نے مریخ کے کرۂ فضائی کی تاریخ کی سن گن لی"۔[مردہ ربط] ناسا۔ اخذ کردہ 4 اپریل 2015ء۔
  13. چانگ، کینتھ (نومبر 5، 2015ء)۔ "شمسی طوفان مریخ سے ہوا کو اتار رہے ہیں"، ناسا کہتی ہے"۔ نیویارک ٹائمز۔ اخذ کردہ نومبر 5،2015ء۔
  14. اسٹاف (نومبر 5،2015ء)۔ "ویڈیو (51:58) – ماون مریخ کے کرۂ فضائی کے ضائع ہونے کی پیمائش کر رہا ہے"۔ ناسا۔ اخذ کردہ نومبر 5، 2015ء۔
  15. ویسٹ، جان بی (1 مارچ 1999ء)۔ " ماؤنٹ۔ ایورسٹ پر ہوائی دباؤ کی پیمائش: نئے اعداد و شمار اور فعلیاتی اہمیت" Jap.physiology.org۔ اخذ کردہ 2012-05-15۔
  16. ای ایس اے – مریخی روانی کرہ سے متعلق نئے افکار
  17. ای ایس اے –مریخ کے جنوبی کرہ کے اوپر ایک موسمی اوزون کی تہ
  18. مہافی، پی آر؛ بینا، ایم؛ ایلروڈ، ایم؛ بوغر، ایس ڈبلیو (2015ء)۔ جکوسکی، بی، ایڈیشن۔ بالائی مریخ کے کرۂ فضائی کی ابتدائی بناوٹ، ساخت اور ہم جاؤں کی پیمائش بذریعہ ماوین کے آلہ تعدیلہ گیس اور برق پاروں کا کمیتی طیف پیما (این جی آئی ایم ایس)۔ (پی ڈی ایف)۔ 46ویں لونر اینڈ پلانٹری سائنس کانفرنس۔
  19. ڈاؤز، ڈبلیوآر (1865ء)۔" 1864ء میں مریخ کا اس وقت کیا جانے والا طبیعی مشاہدہ جب زمین سورج اور اس کے درمیان میں تھی"۔ ایسٹرو نامیکل رجسٹر۔
  20. کمپبل، ڈبلیوڈبلیو (1894ء)۔" مریخ پر کرۂ فضائی سے متعلق"۔ ایسٹرونامیکل سوسائٹی آف پیسفک کا شایع کردہ 6: 273۔ Bibcode:1894PAS P۔۔۔6۔۔273 C doi:10۔1086/120876۔
  21. جینسن، ہوگنز، سیچی، ووجل اور ماؤنڈر
  22. رائٹ، ڈبلیو ایچ (1925ء)۔"روشنی کے مختلف رنگوں سے بنائی گئی مریخ کی تصاویر"۔ لک آبزر ویٹری بلیٹن۔
  23. مینزل، ڈی ایچ (1926ء)۔"مریخ کا ماحول"۔ ایسٹرو فزیکل جریدہ 61: 48۔ Bibcode:1926Ap J۔۔۔63۔۔۔48M doi:10۔1086/142949۔
  24. ویبسٹر، گائے (8 اپریل 2013ء)۔"مریخی باقی بچا ہو کرۂ فضائی اب بھی سرگرم ہے"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ mars.jpl.nasa.gov (Error: unknown archive URL) ناسا۔ اخذ کردہ 9 اپریل 2013ء۔
  25. وال، مائیک (8 اپریل 2013ء)۔"مریخ کا زیادہ تر کرۂ فضائی خلا میں کھو گیا ہے"۔ Space.com۔ اخذ کردہ 9 اپریل 2013ء۔
  26. فارگوٹ، فرانکوئس۔"مریخ کے قطبین پر اجنبی موسم" (پی ڈی ایف)۔ سائنس۔ اخذ کردہ 25 فروری 2007ء۔
  27. بادل – دسمبر 13، 2004ء ناسا پریس ریلیز۔ یو آر ایل کی رسائی مارچ 17، 2006ء۔
  28. نائی، رابرٹ (28 ستمبر 2004ء)۔ "مریخ پر موجود میتھین نے حیات کے مواقع کو بڑھا دیا"۔ اسکائی اینڈ ٹیلی اسکوپ۔ اخذ کردہ 20 دسمبر 2014۔
  29. کراسنوپول اسکایا، وی اے؛ میلارڈ، جے پی؛ او وین، ٹی سی (2004ء)۔"مریخی ماحول میں میتھین کا سراغ: حیات کا ثبوت؟۔ ایکارس 172 (2): 537–547۔ Bibcode:2004Icar۔۔172۔۔537 K doi:10۔1016/j۔icarus۔2004۔07۔004۔
  30. فورمیسانو، وی؛ اٹریا، ایس؛ انکریناز، ٹی؛ اگناٹیف، این؛ گررانا، ایم (2004ء)۔ " مریخ کے ماحول میں میتھین کا سراغ"۔ سائنس 306 (5702): 1758–1761۔ Bibcode:2004Sci۔۔۔306۔1758F doi:10۔1126/science۔1101732۔ پی آئی ایم ڈی 15514118۔
  31. ای ایس اے پریس ریلیز۔ "مریخ ایکسپریس نے مریخی ماحول میں میتھین کی تصدیق کر دی"۔ ای ایس اے۔ اوریجنل سے حاصل کردہ دستاویزات بروز 24 فروری 2006ء۔ اخذ کردہ 17 مارچ 2006ء۔
  32. ارق ہارٹ، جیمز (5 اگست 2009ء)۔"مریخی میتھین نے اصول توڑ ڈالے"۔ رائل سوسائٹی آف کیمسٹری۔ اخذ کردہ 20 دسمبر 2014ء۔
  33. برنس، جوڈتھ (5 اگست 2009ء)۔"مریخی میتھین کا راز اور بھی گہرا ہو گیا"۔ بی بی سی نیوز۔ اخذ کردہ 20 دسمبر 2014ء۔
  34. کیپلر، فرینک؛ ویگانو، آئیون؛ میک لیوڈ، اینڈی؛ اوٹ، الرچ؛ فروچٹل، ماریون؛ راک مین، تھامس (جون 2012ء)۔"بالائے بنفشی اشعاع شہابیوں اور مریخی ماحول سے میتھین کے اخراج کا سبب"۔ نیچر 486 (7401): 93–6۔ Bibcode:2012Natur۔486۔۔۔93 K doi:10۔1038/nature11203۔ پی آئی ایم ڈی 22678286۔ اخذ کردہ 8 جون 2012ء۔ آن لائن اشاعت بروز 30 مئی 2012ء
  35. کورٹ، رچرڈ؛ سیفٹن، مارک (8 دسمبر 2009ء)۔ "مریخ پر حیات کے قیاس کو میتھین کی تحقیق سے مضبوطی ملی ہے"۔ امپیریل کالج لندن۔ اخذ کردہ 9 دسمبر 2009ء۔
  36. موما، مائیکل جے؛ و دیگر (10 فروری 2009ء)۔"مریخ پر شمالی گرمیوں میں میتھین کا زبردست اخراج 2003ء" (پی ڈی ایف)۔ سائنس 323 (5917): pp۔ 1041–1045۔ Bibcode:2009Sci۔۔۔323۔1041M doi:10۔1126/science۔1165243۔ پی آئی ایم ڈی 19150811۔
  37. فرینک، لیفورے؛ فارگیٹ، فرانکویس (6 اگست 2009ء)۔ "معلوم ماحولیاتی کیمیا و طبیعیات مریخ پر میتھین میں مشاہداتی تغیر کی توجیہ پیش کرنے میں ناکام"۔ نیچر 460 (7256): 720–723۔ Bibcode:2009Natur۔460۔۔720L doi:10۔1038/nature08228۔ پی آئی ایم ڈی 19661912۔ اخذ کردہ 23 اکتوبر 2009ء۔
  38. برنس، جوڈتھ (5 اگست 2009ء)۔ "مریخی میتھین کا اسرار اور گہرا ہو گیا"۔ بی بی سی نیوز۔ اوریجنل سے حاصل کردہ دستاویزات بروز 6 اگست 2009ء۔ اخذ کردہ 7 اگست 2009ء۔
  39. اوکی، شوهی؛ گورانا، مارکو؛ کسابا، یاسوماسا؛ ناکاگاوا، ہیرومو؛ سندونی، گسپے (1 جنوری 2015ء)۔ " مریخ ایکسپریس پر لگے ہوئے آلے پلانٹری فورئر طیف پیما سے مریخی ماحول میں ہائیڈروجن پیرا آکسائیڈ کی تلاش "۔ ایکارس 245: 177–183۔ Bibcode:2015Icar۔۔245۔۔177 A doi:10۔1016/j۔icarus۔2014۔09۔034۔ اخذ کردہ 2015-04-15۔
  40. زہنلی، کیون؛ فریڈمین، رچرڈ؛ کیٹلنگ، ڈیوڈ (2010ء)۔ "کیا مریخ پر میتھین ہے؟ - 41ویں لونر اینڈ پلانٹری سائنس کانفرنس"(پی ڈی ایف)۔ اخذ کردہ 26 جولائی 2010ء۔
  41. جینسن، سوینڈ جے کناک؛ سکبسٹڈ، جورجن؛ جکوبسن، ہانس جے؛ کیٹ، انجی ایل ٹین؛ گن لوسن، ہرالڈ ور پی؛ مریسن، جوناتھن پی؛ فنسٹر، کائی؛ بیک، ایبی؛ ایور سن، جینس جے؛ کونڈرپ، جینس سی؛ نورنبرگ، پر (2014ء)۔ "مریخ پر میتھین کے ڈوبنے کی جگہ؟ اس کا جواب چلنے والی ہوا میں اڑھ گیا ہے"۔ ایکارس 236: 24–27۔ Bibcode:2014Icar۔۔236۔۔۔24 K doi:10۔1016/j۔icarus۔2014۔03۔036۔ اخذ کردہ 2014-05-01۔
  42. موما، مائیکل؛ و دیگر (2010ء)۔"مریخ کی فلکی حیاتیات: میتھین اور دوسری حیات پیدا کرنے والی گیسیں اور زمین و مریخ پر بین مضامین کی متعلقہ تحقیق" (پی ڈی ایف)۔ فلکی حیاتیات سائنس کانفرنس 2010ء۔ ایسٹرو فزکس ڈیٹا سسٹم(گرین بیلٹ، ایم ڈی: گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر)۔ اخذ کردہ 24 جولائی 2010ء۔
  43. اوزی، سی؛ شرما، ایم (2005ء)۔"کیا زبرجد گیس میں بدل جائے گی؟ مریخ پر سرپینٹینازیشن اور غیر حیاتیاتی میتھین کی پیداوار"۔ جیوفز۔ ریز۔ لیٹ۔ 32 (10): L10203۔ Bibcode:2005GeoRL۔3210203 O doi:10۔1029/2005GL022691۔
  44. رینکن، پال (26 مارچ 2009ء)۔"مریخ کے گنبد کیچڑ کے آتش فشاں ہو سکتے ہیں"۔ بی بی سی نیوز۔ اوریجنل سے حاصل کردہ دستاویزات بروز 29 مارچ 2009ء۔ اخذ کردہ 2 اپریل 2009ء۔
  45. "ٹیم نے مریخی قشر میں حیات کے لیے نئی امید پائی"۔ Astrobiology.com۔ ویسٹرن یونیورسٹی۔ جون 16، 2014ء۔
  46. ایٹیوپی، گسپے؛ ایہلمانک، بیتھانے ایل؛ شول، مارٹن۔ "زمین پر موجود سرپینٹین چٹان سے کم درجہ حرارت اور میتھین کا اخراج: مریخ پر میتھین کی پیداوار کا ایک ممکنہ امید وار"۔ ایکارس 224: 276–285۔ Bibcode:2013Icar۔۔224۔۔276 E doi:10۔1016/j۔icarus۔2012۔05۔009۔ اخذ کردہ 8 جون 2012ء۔ آن لائن 14 مئی 2012ء
  47. تھامس، کیرولن؛ و دیگر (جنوری 2009ء)۔"مریخی زیر زمین مشبک آبید میں پھنسی ہوئی میتھین میں تغیر"۔[مردہ ربط] پلانٹری اینڈ اسپیس سائنس 57 (1): 42–47۔ arXiv:0810۔4359۔ Bibcode:2009P&SS۔۔57۔۔۔42 T doi:10۔1016/j۔pss۔2008۔10۔003۔ اخذ کردہ 2 اگست 2009ء۔
  48. لاسو، جیریمی؛ کوئزنیل، یوان؛ لنگلیس، بینوئٹ؛ چاسیفئیر، ایرک (1 نومبر 2015ء)۔ "ابتدائی برفیلے کرہ کی میتھین کو ذخیرہ کرنے کی قابلیت"۔ ایکارس 260: 205–214۔ doi:10۔1016/j۔icarus۔2015۔07۔010۔ اخذ کردہ 2015-09-18۔
  49. http://www.universetoday.com/97280/could-dust-devils-create-methane-in-mars-atmosphere/
  50. روبلڈو مارٹینز، اے؛ سوبرال، ایچ؛ روز-میزا، اے (2012ء)۔"مریخ پر میتھین کا ممکنہ ماخذ برقی اخراج: تجربہ گاہ نقل"۔ جیوفز۔ ریز۔ لیٹ۔ 39: L17202۔ Bibcode:2012GeoRL۔3917202R doi:10۔1029/2012gl053255۔
  51. ڈوک سائی، رک (جولائی 2011ء)۔"مریخ کی کیمیائی مہم"۔ سی بی ایس اخذ کردہ 5 اگست 2011ء۔
  52. کراس نوپولسکی، ولادیمیر اے (2012ء)۔"میتھین کی تلاش اور ایتھین اور SO2 کی اوپری حد"۔ ایکارس 217: 144–152۔ Bibcode:2012Icar۔۔217۔۔144 K doi:10۔1016/j۔icarus۔2011۔10۔019۔
  53. انکریناز، ٹی؛ گریٹ ہاؤس، ٹی کے ؛ رچٹر، ایم جے؛ لاسی، جے ایچ؛ فوچٹ، ٹی؛ بزارڈ، بی؛ لیفورے، ایف؛ فارگیٹ، ایف؛ اٹریا، ایس کے (2011ء)۔"مریخ میں پائی جانے والی SO2 کی ایک کڑی اوپری حد"۔ اے اینڈ اے 530: 37۔ Bibcode:2011A&A۔۔530 A۔37 E doi:10۔1051/0004-6361/201116820۔
  54. ولانیوا، جی ایل؛ موما، ایم جے؛ نوواک، آر ای؛ رادیوا، وائی ایل؛ کوفل، ایچ یو؛ اسمیٹی، اے؛ ٹوکناگا، اے؛ خیاط، اے؛ انکریناز، ٹی؛ ہارٹو، پی (2013ء)۔"زمینی اعلیٰ درجہ کی زیریں سرخ اشعاع طیف پیما کا استعمال کرکے مریخ پر نامیاتی مرکبات کی حساس تلاش (CH4، CH3OH، H2CO، C2H6، C2H2، C2H4)، ہائیڈروپرآکسائل (HO2)، نائٹروجن مرکبات (N2O، NH3، HCN) اور کلورین کی نوع (HCl، CH3Cl)"۔ ایکارس 223 (1): 11–27۔ Bibcode:2013Icar۔۔223۔۔۔11 V doi:10۔1016/j۔icarus۔2012۔11۔013۔
  55. ٹینی بوم، ڈیوڈ (9 جون 2008ء)۔"مریخ پر میتھین کی تلاش"۔ فلکی حیاتیات میگزین۔ اوریجنل سے حاصل کردہ دستاویزات بروز 23 ستمبر 2008ء۔ اخذ کردہ 8 اکتوبر 2008ء۔
  56. کیلون، وینڈی؛ و دیگر (2007ء)۔"مریخ سائنس مدار گرد (ایم ایس او) سے حاصل کردہ 2013ء کی رپورٹ – دوسری سائنسی تجزیہ کی جماعت"(پی ڈی ایف)۔ مریخ کھوجی مہم تجزیہ جماعت (ایم ای پی اے جی)۔ صفحہ۔ 16۔ اخذ کردہ 9 نومبر 2009ء۔
  57. "مریخ کیورسٹی جہاں گرد نیوزٹیلی کون -نومبر 2، 2012ء"۔
  58. کر، رچرڈ اے (2 نومبر 2012ء)۔ "کیوریوسٹی نے مریخ پر میتھین کو تلاش کیا یا نہیں"۔ آرکائیو شدہ 2012-12-09 بذریعہ archive.today سائنس(جریدہ)۔ اخذ کردہ 3 نومبر 2012ء۔
  59. وال، مائیک (2 نومبر 2012ء)۔ "کیوریوسٹی جہاں گرد نے مریخ پر ابھی تک میتھین کو نہیں دیکھا"۔ Space.com۔ اخذ کردہ 3 نومبر 2012ء۔
  60. چانگ، کینتھ (2 نومبر 2012ء)۔"مریخ پر میتھین کی امید ناکام "۔ نیویارک ٹائمز۔ اخذ کردہ 3 نومبر 2012ء۔
  61. مین، ایڈم (18 جولائی 2013ء)۔"مریخ جہاں گرد نے ماضی کی حیات کے بارے میں اچھی جبکہ حال کی حیات کے بارے میں بری خبر دی"۔ وائرڈ (میگزین)۔ اخذ کردہ 19 جولائی 2013ء۔
  62. ویبسٹر، کرسٹوفر آر؛ مہافی، پال آر؛ اٹریا، سوشل کے ؛ فلیسچ، گریگوری جے؛ فارلے، کینتھ اے (19 ستمبر 2013ء)۔"مریخ پر میتھین کی فراوانی کی اوپری اور نچلی حد"۔ سائنس 342: 355–357۔ Bibcode:2013Sci۔۔۔342۔۔355W doi:10۔1126/science۔1242902۔ اخذ کردہ 19 ستمبر 2013ء۔
  63. چاؤ، ایڈرین (19 ستمبر 2013ء)۔"مریخ جہاں گرد نے ڈکار اور اخراج کے ثبوت پائے"۔ آرکائیو شدہ 2013-09-20 بذریعہ archive.today سائنس (جریدہ)۔ اخذ کردہ 19 ستمبر 2013ء۔
  64. چانگ، کینتھ (19 ستمبر2013ء)۔"مریخ جہاں گرد کو میتھین کی تلاش میں خالی ہاتھ آنا پڑا"۔ نیویارک ٹائمز۔ اخذ کردہ 19 ستمبر 2013ء۔
  65. ویبسٹر، کرسٹوفر آر (23 جنوری 2015ء)۔"گیل شہابی گڑھے میں مریخ کی میتھین کی تلاش و تغیر"۔ سائنس 347 (6220): 415–417۔ Bibcode:2015Sci۔۔۔347۔۔415W doi:10۔1126/science۔1261713۔ اخذ کردہ 2015-04-15۔
  66. گوسوامی، جیتندرا ناتھ (2013ء)۔ ہندوستانی مریخ کی مہم (پی ڈی ایف)۔ 44ویں لونر اینڈ پلانٹری سائنس کانفرنس۔ اخذ کردہ 20 دسمبر 2014ء۔
  67. لکڈا والا، ایمیلی (4 مارچ 2015ء)۔ "مریخ مدار گرد مشن کا میتھین حساسیہ برائے مریخ اپنے کام میں مصروف"۔ پلانٹری سوسائٹی۔ اخذ کردہ 7 مارچ 2015ء۔
  68. رینکن، پال (9 جولائی 2009ء)۔"ایجنسیوں نے مریخ کی طرف پیش قدمی کا خاکہ بنا دیا"۔ بی بی سی نیوز۔ اخذ کردہ 26 جولائی 2009ء۔
  69. "ناسا مدار گرد مریخی میتھین کے ماخذ کی تلاش کے لیے 2016ء میں جائے گا"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ thaindian.com (Error: unknown archive URL) تھائی انڈین نیوز۔ 6 مارچ 2009ء۔ اخذ کردہ 26 جولائی 2009ء۔
  70. انسائڈ ایکزو مارس – سہ ماہی نیوز لیٹر (مئی 2012ء)
  71. مک ایڈم، اے سی؛ فرانز، ایچ؛ آرچر، پی ڈی؛ فریسنٹ، سی؛ سوٹر، بی؛ گلوین، ڈی پی؛ ایجین بروڈی، جے ایل؛ بوور، ایچ؛ اسٹرن، جے؛ مہافی، پی آر؛ موریس، آر وی؛ منگ، ڈی ڈبلیو؛ ریمپ، ای؛ برونر، اے ای؛ اسٹیلی، اے؛ ناوارو-گونزالیز، آر؛ بش، ڈی ایل؛ بلیک، ڈی؛ رے، جے؛ گروٹزنگر، جے؛ ایم ایس ایل سائنس ٹیم۔ "راک نیسٹ گیل شہابی گڑھے میں مریخی مٹی کی معدنی گندھک کی اندرونی جھانک"، قابل از ارتقائی گیس تجزیہ [1]
  72. "گیما اشعاع کے ثبوت بتاتے ہیں کہ قدیم مریخ میں عظیم سمندر تھے"۔ سائنس ڈیلی۔ یونیورسٹی آف ایریزونا۔ اوریجنل سے حاصل کردہ دستاویزات بروز 14 دسمبر 2009ء۔ اخذ کردہ 31 اکتوبر 2009ء۔
  73. "4 ارب برس پہلے مریخ کا کرۂ فضائی آکسیجن سے بھر پور تھا"، Astrobio.net، 28 جون 2013ء
  74. ٹف، جے؛ ویڈ، جے؛ ووڈ، بی جے (20 جون 2013ء)۔"مریخ پر آتش فشاں کو اوپری غلاف میں ہونے والی قدیمی تکسید منضبط کرتی تھی"۔ نیچر – خطوط 498 (7454): 342–345۔ Bibcode:2013Natur۔498۔۔342 T doi:10۔1038/nature12225۔ اخذ کردہ 2014-10-21۔
  75. نورتھون، کیرن (نومبر 5، 2015ء)۔ "ناسا مشن نے مریخی کرۂ فضائی کو اتارنے والی شمسی ہواؤں کو بے نقاب کیا"۔ ناسا۔ اخذ کردہ نومبر5، 2015ء۔
  76. وال، مائیک (نومبر 5، 2015ء)۔ "جب زمین پر حیات قدم جما رہی تھی اس وقت مریخ اپنا کرۂ فضائی خلا میں کھو رہا تھا"۔ Space.com۔ اخذ کردہ نومبر6، 2015ء۔
  77. "شمسی ہوا مریخ کے کرۂ فضائی کو اتار رہا ہے"۔ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ science.nasa.gov (Error: unknown archive URL) ناسا کی شہ سرخی۔ ناسا۔ اخذ کردہ 31 اکتوبر 2009ء۔
  78. پلانٹری سائنس۔ Astronomynotes.com۔ اخذ کردہ 19 اگست 2013ء۔
  79. جونز، نینسی؛ اسٹیجر والڈ، بل؛ براؤن، ڈیوائینی؛ ویبسٹر، گائے (14 اکتوبر 2014ء)۔ "ناسا کی مہم نے مریخی اوپری کرۂ فضائی کا پہلا نظارہ کروایا"۔ ناسا۔ اخذ کردہ 15 اکتوبر 2014ء۔

مزید پڑھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

ویکی میڈیا کامنز پر مریخ کے ماحول سے متعلق ابلاغ