مسجد وزیر خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مسجد وزیر خان
مسجد وزیر خان کا ایک منظر
بنیادی معلومات
مذہبی انتساباسلام
ضلعلاہور، پنجاب، پاکستان
صوبہپنجاب، پاکستان
ملکپاکستان
مذہبی یا تنظیمی حالتمسجد
تعمیراتی تفصیلات
نوعیتِ تعمیرمسجد و مزار
طرز تعمیرہند/ اسلامی طرز تعمیر
سنگ بنیاد1634ء
سنہ تکمیل3 دسمبر 1641ء
تفصیلات
گنبد5
گنبد کی اونچائی (خارجی)21 فٹ
گنبد کی اونچائی (داخلی)32 فٹ
گنبد کا قطر (خارجی)19 فٹ
گنبد کا قطر (داخلی)23 فٹ
مینار4
مینار کی بلندی107 فٹ

مسجد وزیر خان شہر لاہور میں دہلی دروازہ، چوک رنگ محل اور موچی دروازہ سے تقریباً ایک فرلانگ کی دوری پر واقع ہے۔ یہ مسجد نقش ونگار میں کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ علم الدین انصاری جو عام طور پر نواب وزیر خان کے نام سے جانے جاتے ہیں سلطنت مغلیہ کے عہد شاہجہانی میں لاہور شہر کے گورنر تھے اور یہ مسجد انہی کے نام سے منسوب ہے۔ مسجد کی بیرونی جانب ایک وسیع سرائے ہے جسے چوک وزیر خان کہا جاتا ہے۔ چوک کے تین محرابی دروازے ہیں۔ اول مشرقی جانب چٹا دروازہ، دوم شمالی جانب راجا دینا ناتھ کی حویلی سے منسلک دروازہ، سوم شمالی زینے کا نزدیکی دروازہ-مسجد کے مینار 107 فٹ اونچے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر دسمبر 1641ء میں سات سال کی طویل مدت کے بعد پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ مسجد وزیر خان سلطنت مغلیہ کے عہد میں تعمیر کی جانے والی اب تک کی نفیس کاشی کار و کانسی کار خوبصورت مسجد ہے جو بادشاہی مسجد کی تعمیر سے 32 سال قبل (یعنی 1641ء میں) تکمیل کو پہنچی۔

مسجد کا محل وقوع[ترمیم]

مسجد وزیر خان کا موجودہ محل وقوع یوں ہے کہ:

دہلی دروازہ سے براستہ شاہی گزرگاہ سیدھے چلتے جائیں تو تقریباً 300 میٹر (984.25 فٹ) کے فاصلہ پر مسجد وزیر خان نظر آنے لگتی ہے۔ مسجد سے قبل وزیر خان چوک واقع ہے جہاں سے ایک سڑک شمال میں چوہٹہ قاضی محلہ کی جانب، دوسری سڑک (جو دہلی دروازہ کی سمت سے چلی آ رہی ہے) وہ مسجد وزیر خان سے متصل شاہی گزرگاہ کہلاتی ہے اور دہلی دروازہ سے شروع ہوتی ہے اور مسجد وزیر خان کے جنوب سے ہوتی ہوئی قلعہ لاہور تک پہنچتی ہے۔ مغرب میں (جدھر مسجد وزیر خان کی سمت قبلہ واقع ہے) لکڑمنڈی بازار واقع ہے جبکہ جنوب کی جانب گنجان آبادی اور بازارِ خطاطی واقع ہیں۔ چوک وزیر خان سے مسجد کے جنوبی داخلی دروازہ (جو رائج الوقت داخلی دروازہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے) کا فاصلہ 43.75 میٹر (143.54 فٹ) ہے۔ مسجد سے مغربی راستہ جو لکڑمنڈی بازار کی جانب جاتا ہے، اِسی راستہ پر مسجد وزیر خان کے عقب میں چینیاں والی مسجد واقع ہے۔ مسجد کا شمال مشرقی حصہ  کوچہ حسین شاہ کہلاتا ہے جو گنجان آبادی میں واقع ہے۔ شاہی گزرگاہ والے راستہ پر مسجد وزیر خان کے متصل چلتے جائیں تو کوتوالی چوک آتا ہے۔ مسجد کے جنوبی داخلی دروازہ سے کوتوالی چوک تک کا فاصلہ  79.55 میٹر (260.99 فٹ) ہے۔ مسجد وزیر خان کے جنوب مغربی چوک یعنی کوتوالی چوک سے دو راستے قلعہ لاہور تک پہنچتی ہیں، ایک راستہ بشکل سڑک کے عین مغرب میں کشمیری بازار سے براستہ رنگ محل، ہٹہ بازار، پانی والا تالاب سے ہوتا ہوا بازار بارود خانہ تک پہنچتا ہے جہاں سے قلعہ روڈ یعنی قلعہ لاہور سے متصل ہے۔ دوسرا راستہ مسجد وزیر خان کے عین جنوب مغربی سمت میں واقع کوتوالی چوک سے کوتوالی والا بازار سے ہوتا ہوا چونا منڈی بازار سے ہوتا ہوا قلعہ لاہور کے اکبری دروازہ تک جا پہنچتا ہے۔ اِسی راستہ پر مریم زمانی بیگم مسجد واقع ہے جو قلعہ لاہور کے عین اکبری دروازہ کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر موجود ہے۔

مسجد کی بنیاد و تاریخ[ترمیم]

مسجد وزیر خان، نماز والے دالان سے صدر دروازہ کا ایک منظر

مسجد وزیر خان کی بنیاد شیخ علم الدین انصاری نے رکھی جو وزیر خان کے خطاب سے مشہور تھے۔ وزیر خان مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے طبیبِ خاص بھی تھے، اِس سے قبل وہ مغل شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نورجہاں کے طبیب خاص بھی رہ چکے تھے۔ شیخ علم الدین انصاری چنیوٹ شہر میں پیشۂ طبابت سے منسلک تھے۔ ماہِ صفر 1030ھ/ جنوری 1621ء میں تلاش معاش کی خاطر مغل دار الحکومت آگرہ پہنچے اور مغل دربار تک مشکل سے رسائی ممکن ہوپائی۔ اُن دنوں ملکہ نورجہاں علیل تھیں، شیخ نے اُن کا علاج کیا اور ملکہ رو بہ صحت یاب ہوئیں۔ اِسی صلہ میں شیخ علم الدین انصاری منصبِ ہفت ہزاری پر فائز کیے گئے اور اُن کا خطاب وزیر خان طے پایا۔ شاہی انعامات کی بھرمار کو مسجد کے مصرف میں لائے اور اِسی خطہ کو تجویز کیا۔ عہد شاہجہانی میں وزیر خان امرا الامراء کے خطاب سے نوازے گئے اور جب شہنشاہ شاہ جہاں لاہور آیا تو انھیں ناظم لاہور مقرر کرگیا تھا۔ وزیر خان 1632ء سے 1639ء تک حاکم لاہور کے عہدے پر فائز رہے۔

مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے عہد میں وزیر خان نے 1045ھ/ 1635ء میں اِس مسجد کی بنیاد رکھی اور بازار دہلی دروازہ کو آباد کیا اور مزار سید محمد اسحاق گاذرونی المشہور بہ میراں بادشاہ کا پختہ حجرہ جو زیارت گاہِ عام تھا، کو داخل مسجد کر لیا۔ تقریباً سات سال کی طویل مدت کے بعد یہ مسجد اختتام ماہِ شعبان 1051ھ/ 3 دسمبر 1641ء کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ [1] تکمیل و تعمیر کے بعد وزیر خان نے ایک وصیت نامہ تحریر کروایا جو اُن کے بعد اُن کی اولاد میں بدستور چلتا رہا جس کی تاریخ یکم ماہِ رمضان 1045ھ/ 3 دسمبر 1641ء ہے اور یہی تاریخ مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کی بھی ہے۔ وصیت نامہ کو نور احمد چشتی نے تحقیقات چشتی میں تفصیل سے تحریر کر دیا ہے۔ [2] 1864ء میں جب نور احمد چشتی صاحب تحقیقات چشتی نے مسجد کے متولیان کی تحقیق کی تو اُس وقت مرزا اِیزد بخش اِس مسجد کے متولی و سربراہ تھے۔ [3]

سکھ شاہی دور میں[ترمیم]

مہاراجا رنجیت سنگھ نے اپنے عہدِ حکومت 1801ء تا 1839ء میں لاہور کی تقریباً سبھی تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچایا، متعدد تاریخی عمارات سے سنگ سرخ اور سنگ مرمر اُتروا لیا اور بعض مقامات کو منہدم کروا دیا۔ مسجد وزیر خان بھی رنجیت سنگھ کے نقصان سے اِس لیے بچ گئی کہ وزیر خان کے گورو ارجن سے تعلقات نہایت ارادت مندانہ تھے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ باوجود بیگانگت مذہبی و خام طبعی معہودہ خود اِس مسجد کی جانب چنداں بھی متوجہ نہ ہوا بلکہ سرائے مشمولہ میں چندے توپ خانہ سرکاری ڈیرہ فگن ہو تو کرایہ ماہواری اِس سرائے اور دوکانوں کا وزیر خان کی اولاد کو دیتا رہا۔ [4]

کنہیا لال نے اپنی کتاب تاریخ لاہور میں مسجد کے سکھوں کے عتاب سے بچنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ مہاراجا رنجیت سنگھ موراں طوائف کے ہمراہ اس مسجد کے مینار پر آیا اور دن بھر اوپر رہ کر عیش و نشاط میں سرگرم رہا اور اسی شب وہ بیمار پڑ گیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ آثار بزرگ اسحاق گازرونی کے غضب کے ہیں جو اس مسجد کے احاطے میں دفن ہیں۔ دوسرے روز مہاراجا مزار پر آیا اور پانچ سو روپے نذر کیَ اور آئندہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کر لی۔ [5]

سلطنت مغلیہ کے عہد میں اِس مسجد کی دیکھ بھال حاکمانِ لاہور کی تحویل میں رہی۔ لاہور میں سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد عہد سکھ شاہی کا آغاز ہوا تو اِس مسجد کی توجہ یا بحالی و مرمت نہ ہوئی، محض اس قدر کہ ایک مہتمم نور ایمان والا نے مسجد کے چاروں میناروں کی اوپر کی بلند برجیوں کے دو دو دَر بند کروادیے تھے اور صرف دو دو دَر کھلے رکھے، صرف اِس خیال سے کہ درمیانی ستون نازک ہیں مبادا زلزلہ کے صدمہ سے گر ہی نہ جائیں۔ بعد ازاں اس مسجد کو کسی مرمت یا بحالی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔

مسجد وزیر خان، صحن سے ایک منظر - مسجد کا صحنِ خاص جس میں پانچ محرابیں اور دو مینار دیکھے جاسکتے ہیں۔

مسجد کی عمارت اور دروازے[ترمیم]

مسجد کے تین جانب موجودہ حجرے

مسجد کی عمارت پختہ اینٹوں (خشتی) سے تعمیر کی گئی ہے اور سنگ سرخ کا استعمال جا بجا کیا گیا ہے۔ مسجد میں داخلہ کے دو دروازے موجود ہیں، ایک صدر دروازہ جو مشرق میں واقع ہے، دوسرا شمال مشرق کی سمت میں واقع ہے جسے صدر دروازے کی تزئین و آرائش کے وقت داخلہ کے لیے کھولا جاتا ہے۔   مسجد کا صحن وسیع ہے جس میں سرخ چھوٹی اینٹ کا فرش لگایا گیا ہے،  صحن کے مرکز میں وضو کرنے کے لیے حوض بنا ہوا ہے۔ مسجد کے مشرقی، جنوبی اور شمالی سمت حجرہ نما کمرے بنے ہوئے ہیں جن کی تعداد 32 ہے۔

مسجد وزیر خان لاہور کی قدیم عالیشان اور لاثانی عمارت ہے جس کی شہرت اور تذکرہ یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔ فی الحقیقت یہ خشتی کانسی کار عمدہ عمارت اپنی مثال میں ایسی نادر ہے کہ اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ مؤرخین لاہور نے اِسے لاہور کا فخر و اقتدار کہا ہے۔ عمارتِ مسجد میں ہر کام خوش اسلوبی سے کیا گیا ہے۔ عمارتِ مسجد ایسی پختہ چونا کار مستحکم تعمیر ہوئی ہے کہ باوجود پونے چار سو سال گزرنے کے بھی بغیر کسی نقص کے دکھائی دیتی ہے۔ مسجد کی دیواروں پر کانسی کار نقاشی ایسی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے نقاش نقاشی کا سبق لینے اِس مسجد آتے ہیں اور اِن طاقچوں کی نقول اُتار کر لے جاتے ہیں۔ کتبوں پر عربی و فارسی کے حروف کی خوشخطی ایسی نادر ہے کہ بڑے بڑے خوشنویس حضرات کو دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں۔ مقطع ایسا ہے کہ اِس قطع کی دوسری مسجد دیکھنے میں نہیں آتی۔ یہ مسجد دیواروں کی کاشی کاری اور منبت کاری کے لیے مشہور ہے۔ [6] انگریزوں کے ابتدائی عہد سے لے کر مدت مدید تک میو اسکول آف آرٹس لاہور کے طلبہ کو یہاں تزئین کا کام سکھانے کے لیے یہاں لایا جاتا تھا۔ 1890ء میں اِس درسگاہ کے پرنسپل مسٹر جان لاکووڈ کپلنگ نے سرکاری رپورٹ میں لکھا تھا کہ: یہ خوبصورت عمارت بذات خود تزئین کی ایک درسگاہ ہے، لیکن سال بہ سال اِس کی نگہداشت کی طرف توجہ کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے اور اِس کے نقش و نگار عدم توجہی کی وجہ سے خراب ہو رہے ہیں۔ اِن حالات میں یہ نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اِن کے چربے یا نقول نہایت احتیاط سے اُتار کر عجائب گھر اور اسکول میں محفوظ کردیے جائیں، ہمارے نوجوان مصوروں کے لیے اِس سے بہتر اور کہیں تربیت نہیں ہو سکتی۔ [7][8]

صدر دروازہ/ مشرقی دروازہ کلاں[ترمیم]

مسجد وزیر خان کا منقش صدر دروازہ
مسجد کے صدر درازہ کی محراب کلاں کے عین بالائی سطح پر حدیث مبارکہ کندہ ہے۔

چوک وزیر خان سے کھڑے ہوکر دیکھیں تو مسجد کا دروازہ کلاں (مشرقی منقش دروازہ) نظر آتا ہے۔ مسجد کا موجودہ چبوترا پانچ سیڑھیوں کا باقی رہ گیا ہے جو سنگ سرخ کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ مسجد ہذا کا سب سے بڑا دروازہ ہے جسے بطور داخلہ کے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دروازہ کلاں کے درمیان میں دو منزلہ محراب موجود ہے جس کے دائیں اور بائیں جانب خطاطی اور کاشی کاری کا نفیس کام کیا گیا ہے۔ صدر دروازہ کے باہر سے مسجد کے دو بڑے مینار جنوبی و شمالی نظر آتے ہیں۔ دروازہ کلاں کی دوسری منزل میں دو منقش کاشی کاری کھڑکیاں واقع ہیں جن کے اوپر خطاطی کے پارچے موجود ہیں۔ موجودہ صدر دروازہ آہنی جنگلا نما دروازہ ہے جسے عموماً کھلا رکھا جاتا ہے اور وقت تعمیر صدر دروازے کو بند کرکے شمال مشرق میں واقع متبادل دروازے کو کھول دیا جاتا ہے۔ صدر دروازے کے دائیں جانب کھڑکی سے اوپر کے اشعار یہ ہیں:

صدر دروازہ کے دائیں جانب کا بالائی کتبہ جو کھڑکی سے اوپر کی جانب واقع ہے۔
در عہدِ ابو المظفر صاحبقرانِ ثانیشاہ جہاں بادشاہ غازی اتمام یافت

اِس کے نیچے یہ شعر ہے:

بانی بیت اللہ فدوی با خلاصمرید خاص الخاص قدیم الخدمت وزیر خان

اِن اشعار کے نیچے کاشی کاری سے مزین نفیس کھڑکی موجود ہے۔ کھڑکی کے نیچے والے بڑے کتبے میں یہ اشعار کندہ ہیں:

ھو الجامع

ایں خانہ کہ ہست چون فلک مظہر فیضدارد چون حریم کعبہ سر در سر فیض
ہر چہرہ ایل قبلہ ایں در بمرادتا حشر کشادہ باد ہمچو در فیض

دروازہ کلاں کے جنوبی طرف یعنی بائیں جانب میں اشعار کی ترتیب یوں ہے:

سال تاریخ بنای مسجد عالی مقاماز خرد جستم سجدہ گاہ اہل فضل

اِس کے نیچے ایک کتبہ میں یہ شعر ہے:

تاریخ ایں بنای چو پرسیدم از خردگفتا بگو کہ بانی مسجد وزیر خان
1044ھ

اِس شعر کے نیچے سنہ ہجری 1044ھ تحریر ہے۔ اِس شعری کتبہ کے نیچے بائیں جانب کی کاشی کاری سے مزین نفیس کھڑکی واقع ہے جبکہ کھڑکی سے نیچے کے کتبہ میں یہ اشعار ہیں:

مسجد کے صدر دروازہ کے دائیں جانب کھڑکی کے نیچے کا کتبہ جس میں فارسی اشعار کندہ ہیں۔

ھو

دھقان درود بحشر ای نیک سرشتدر مزرعہ جہان ہر آن چیز کہ کشت
در باب عمل بنای خیری بگزارکاخر ہمہ را رہست زین دربہ بہشت

صدر دروازہ کی درمیانی محراب (جو درمیان میں واقع ہے)کے عین اوپر حدیث مبارکہ کندہ ہے:

افضل الذکر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ

متن حدیث کے زیریں سال 1045ھ تحریر کیا گیا ہے۔

اِس درمیانی محراب کلاں میں تین چھوٹے دروازے محرابی ہیں جبکہ اِسی محراب کلاں میں نیچے کی جانب داخلی دروازہ چھوٹا واقع ہے۔ محراب کلاں کاشی کاری سے مزین ہے جو دور سے دیکھنے پر خوشنما نظر آتی ہے۔ جبکہ اس سے ملحقہ دو چھوٹی کھڑکیاں جو دائیں اور بائیں جانب ہیں، چھوٹی سرخ اینٹ سے تعمیر کی گئیں اور اِن پر کاشی کاری و گلکاری کام موجود ہے جو نہایت دیدہ زیب ہے۔

ڈیوڑھی نما داخلی دروازہ[ترمیم]

مسجد وزیر خان میں ڈیوڑھی نما حصہ میں واقع دکانیں- مسجد کے شمال مشرقی دروازہ کا رخ اِنہی دکانوں کی جانب ہے۔
مسجد کا اندرونی دروازہ جو مغرب کی جانب کھلتا ہے، پر فارسی شعر کندہ ہے۔

مسجد کے صدر دروازے سے داخل ہوں تو ایک طویل ڈیوڑھی نما راستہ (جو شمالاً جنوباً واقع ہے) میں ایک قدِ آدم بلند دروازہ ہے جس سے مسجد کے صحن میں داخلہ ممکن ہوتا ہے۔ اِس ڈیوڑھی نما حصہ میں چہار جانب بلند محرابی دروازے واقع ہیں اور درمیان میں ایک بلند گنبد موجود ہے جس میں زنجیر سے ایک  خوبصورت فانوس لٹکا ہوا ہے۔ سطح زمین سے صدر دروازہ کی پانچ سیڑھیاں بلند ہیں۔ صدر دروازے سے ڈیوڑھی نما حصہ میں آنے سے مسجد کے صحن میں داخلے کے لیے مزید تین سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں، گویا مسجد کا صحن موجودہ سطح زمین سے 8 سیڑھیاں بلند ہے۔ یہ ڈیوڑھی نما عمارت ہشت پہلو ہے۔ اِس ڈیوڑھی نما عمارت جو ہشت پہلو محرابوں والے حصہ سے متصل ہے، میں 22 دکانیں موجود ہیں جو ہنوز مسجد کا حصہ سے ملحقہ ہیں۔ اِس چھوٹے دروازے سے جو مغرب کی جانب ہے اور مسجد کے صحن میں کھلتا ہے،   اندر کو داخل ہوں تو اِس ڈیوڑھی نما حصہ کے اوپر کی جانب ایک سیاہ گنبد نظر آتا ہے جس کے ساتھ کاشی کاری سے مزین دو چھوٹی برجیاں موجود ہیں اور اِن کے بالکل نیچے کی جانب اور صحنِ مسجد میں کھلنے والے دروازہ کے بالکل اوپر کی جانب فارسی کا ایک شعر لکھا ہوا ہے:

محمد عربی کابروی ہر دو سراستکسی کہ خاک درش نیست خاک برسر او
مسجد کے شمال مشرقی گوشہ کا مینار

مسجد کا صحنِ خاص[ترمیم]

مسجد کے صحنِ عام سے مغرب کی جانب کا فرش کچھ بلند ہے جو صحنِ خاص کہلاتا ہے۔ یہ صحن خاص نمازیوں کے لیے ہے۔ اِس صحن میں پانچ محرابیں ہیں جن میں درمیانی محراب کلاں یعنی بڑی ہے اور دائیں بائیں جانب کی محرابیں چھوٹی ہیں۔ محرابیں کاشی کار ہیں جن میں ابھی تک نفیس کاشی کار کانسی کا کام دیکھا جا سکتا ہے جبکہ صحنِ خاص کے بیرونی جانب کی طرف کتبات کی شکل میں طاقچے بنے ہوئے ہیں جن میں خطاطی میں آیت الکرسی سمیت متعدد آیات کندہ ہے۔ بیرونی جانب کے زیریں طاقچوں میں حدیث مبارکہ، اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم مع اسمائے خلفاء کندہ کیے گئے ہیں جو مغل طرزِ تعمیر کا خاصہ ہیں۔ درمیانی محراب کلاں کی طاق میں دونوں اطراف حدیث مبارکہ کندہ کی گئی ہے۔ محراب کلاں کے بیرونی جانب بلند کتبہ پر آیت الکرسی کندہ ہے۔

محراب کلاں میں چوبی منبر ہے جو قدیمی ہے۔ منبر کے تین زینے ہیں جبکہ اِس کے بائیں جانب کتاب یا قرآن کریم رکھنے کے لیے لکڑی کا سہارا نما حصہ بنا ہوا ہے۔

صحنِ خاص کی محراب کلاں کی طاق جس میں نقاشی و منبت کاری نظر آرہی ہے۔
صحنِ خاص میں محراب کلاں جس میں منبر موجود ہے،  نقاشی و کانسی کار کام سے مزین ہے۔

مسجد کا صحن عام[ترمیم]

مسجد کا صحنِ خاص- مسجد کے صحن عام میں واقع حوض اور سامنے مسجد کے نماز والا دالان جس میں منبر و محراب موجود ہیں۔

مسجد کا صحن خشتی ہے، چھوٹی سرخ اینٹ کا فرش خوش اسلوبی سے بنا ہوا ہے۔ فرش مرمت کی توجہ کے قابل رہا ہے۔ سکھ شاہی عہد میں فرش اور صحن کی مرمت نہیں ہوئی۔ موجودہ فرش چھوٹی اینٹ سرخ کا بنا ہوا ہے مگر کھردرا نہیں ہے۔ صحن عام کا فرش صحنِ خاص کے فرش سے پست ہے۔ صحنِ خاص میں محراب و منبر والا دالان موجود ہے۔ صحنِ مسجد میں مرکز میں حوض بنا ہوا ہے جو خاص وضو کے لیے بنایا گیا ہے۔ صحن خاص کچھ ارتفاع پر مغرب کی جانب والا دالان کہلاتا ہے جہاں امام مسجد ادائیگی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ صحن مسجد کا رقبہ 148.5 فٹ 3 انچ طول اور 117 فٹ عرض کا ہے جس میں نماز والے دالان کا حصہ (جس کا طول 131 فٹ 3 انچ طول اور 42 فٹ عرض ہے) شامل نہیں ہے۔ مسجد کے تینوں اطراف کے حجروں کے دروازے صحن میں کھلتے ہیں۔

صحنِ خاص میں جنوب مغرب سمت کی چھوٹی محراب۔

مسجد کے مینار[ترمیم]

مسجد کے چار مینار ہیں جن کی بلندی 107 فٹ (32.6136 میٹر) ہے۔ چاروں مینار پشت پہلو ہیں اور چھوٹی سرخ اینٹ سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ دو بڑے مینار صدر دروازہ (جو مشرق میں واقع ہے) سے نظر آتے ہیں اور یہ شمال مشرقی گوشہ، جنوب مغربی گوشہ پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ دو مینار مسجد کے پانچ گنبدوں والے حصہ میں تعمیر کیے گئے ہیں، یہ دونوں مینار شمال مغربی گوشہ اور جنوب مغربی گوشہ پر واقع ہیں۔ میناروں پر اشعار یا خطاطی نہیں بلکہ گلکاری و نقاشی کا نفیس اور دیدہ زیب کام کیا گیا ہے جو ہنوز مدتِ مدید کے بعد بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ میناروں کے ہشت پہلو اطراف میں گلکاری و نقاشی کے کتبے موجود ہیں۔ امتدادِ زمانہ کے باعث گلکاری و نقاشی مدہم پڑ گئی تھی جس کی دوبارہ سے آرائش و زیبائش کی گئی ہے۔ میناروں کے چھجے کھلے ہیں جس میں آٹھ تا دس آدمی باآسانی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ میناروں کے بالائی حصوں پر چھوٹی دائروی گبندیاں موجود ہیں جن پر کلس لگائے گئے ہیں جو دھوپ پڑنے سے چمکتے ہیں۔

محراب کلاں میں موجود چوبی منبر۔

مسجد کے گنبد[ترمیم]

مسجد کے کل گنبد 6 ہیں۔ مسجد کے اندرونی ڈیوڑھی نما عمارت پر واقع ایک گنبد ہے اور جبکہ صحنِ خاص والی عمارت پر دو میناروں کے ہمراہ 5 گنبد ہیں۔ تمام گنبدوں کی بلندی بیرونی جانب سے 6.4008 میٹر (21 فٹ)،  اندرونی جانب سے 9.7536 میٹر (32 فٹ) ہے۔ گنبدوں کا قطر بیرونی جانب سے 5.7912 میٹر (19 فٹ) اور اندرونی جانب سے قطر 7.0104 میٹر (23 فٹ) ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جب مسجد تعمیر ہوئی ہوگی تب یہ گنبد کانسی کی کاشی کاری سے مزین ہوں گے مگر امتدادِ زمانہ کے سبب سے یہ گنبد اب محض کانسی کار یا نقاشی کے کام سے خالی نظر آتے ہیں اور چونا جو زمانہ گزرنے پر سیاہ رنگت اختیار کرگیا ہے، اِس کی بنا پر گنبد سیاہ رنگ نظر آتے ہیں لیکن قطر میں کسی عام گنبد سے بڑے ہیں۔

مزار حضرت میراں بادشاہ[ترمیم]

مسجد وزیر خان کے صحن میں واقع حضرت سید محمد اسحاق گاذرونی المعروف بہ میراں بادشاہ کا مزار
مسجد کے اندرونی داخلی دروازہ پر تعمیر شدہ گنبدیاں جن پر کانسی کی نقاشی کی گئی ہے۔

مسجد وزیر خان کے صحن میں حضرت سید محمد اسحاق گاذرونی المشہور بہ میراں بادشاہ کا مزار ہے۔ اِن کا تعلق گاذرون سے تھا۔ آپ 786ھ/ 1384ء میں فیروز شاہ تغلق کے عہدِ حکومت میں فوت ہوئے اور اِن کی تدفین اِسی مقام پر کی گئی تھی۔ حضرت کی قبر زمین دوز تہ خانہ نما ایک مربع کمرے میں ہے جس کے لیے مسجد کے صحن سے آٹھ سیڑھیاں نیچے کی جانب کو اُترنا پڑتا ہے۔ قبر کے تعویز کی سمت میں عین بالائی سطح صحنِ مسجد میں خیالی تعویز ہے۔ زمین دوز تہ خانے کی جانب اُترنے والی سیڑھیوں پر ایک چھوٹی بارہ دری بنائی گئی جس کی چھت منقش ہے۔ بارہ دری والے دالان کا طول پانچ گز اور عرض اڑھائی گز ہے۔ شمالاً جنوباً پانچ پانچ محرابی دروازے بنے ہیں اور مشرقی و مغربی سمت ایک ایک دو دو دروازے ہیں۔ زمین دوز تہ خانہ نما کمرے کا طول سات گز اور عرض پانچ گز ہے جس کے درمیان میں قبر موجود ہے۔ کمرے کی چاردیواری پختہ ہے اور قبر پر چادر چڑھی رہتی ہے۔ وزیر خان نے مزار کی بالائی سطح پر ہی مسجد کی بنیاد رکھی اور اِس مزار کو مع عمارت کے مسجد میں شامل کر لیا تھا۔

مرمت و بحالی[ترمیم]

مسجد کی مرمت و بحالی کا کام 2004ء میں شروع ہوا جبکہ 2012ء میں حکومت پنجاب اور آغا خان ٹرسٹ کے تعاون سے ایک منصوبہ بحالی بنام Pilot Urban Conservation and Infrastructure Improvement Project—the Shahi Guzargah شروع کیا گیا۔ یہ منصوبہ 2015ء میں تکمیل کو پہنچا۔ اِس منصوبہ کے تحت دہلی دروازہ سے مسجد وزیر خان تک یعنی شاہی گزرگاہ میں واقع تمام تاریخی عمارات کی مرمت و بحالی کا کام کیا جانا طے پایا تھا۔ اِس منصوبہ میں ریاستہائے متحدہ امریکا اور ناروے کی حکومتوں کی سرپرستی بھی رہی۔

اوقافِ مسجد[ترمیم]

مسجد کا انتظام بانی مسجد ہذا نواب وزیر خان کی وصیت کے مطابق متولیوں کے ہاتھ میں تھا، جو نواب وزیر خان کی اولاد سے تھے۔ وصیت نامہ جسے نور احمد چشتی نے تحقیقاتِ چشتی میں اور سید محمد لطیف نے تاریخ لاہور میں تحریر کیا ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب وزیر خان اُن تمام مکانوں اور دکانوں کے مالک تھے جو دہلی دروازہ سے لے کر بازار کے دونوں اطراف میں موجود تھیں۔ اِس تمام جائدادکی آمدنی مسجد کے لیے وقف تھی لیکن رفتہ رفتہ مسجد کے نیچے کی دکانوں کے سواء باقی تمام جائداد پر ناجائز تصرف کے ذریعہ سے لوگوں نے قبضہ کر لیا۔ مسجد کی تولیت کے نزاع سے متعلق ایک مقدمہ انگریزی عہد حکومت میں چلتا رہا، لیکن بالآخر 2 مئی 1951ء کو لاہور ہائیکورٹ نے یہ تولیت مرزا افتخار علی کے سپرد کردی لیکن اب انتظام محکمہ اقاف کے زیر انتظام ہے۔ 1953ء کے کرفیو کے زمانہ میں اِس مسجد کی جائداد پر بنی ہوئی بھدی اور بدنما عمارت کو منہدم کر دیا گیا لیکن آہستہ آہستہ پھر لوگوں نے اُس زمین پر قبضہ کرکے مسجد کے صدر دروازے کو بدنما کر دیا تھا۔ مسجد ہنوز محکمہ اوقاف پنجاب، پاکستان کے زیر انتظام ہے۔

مسجد وزیر خان کی یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں شمولیت[ترمیم]

پاکستان نیشنل کمیشن فار یونیسکو، منسٹری آف ایجوکیشن کی جانب سے 1993ء میں مسجد وزیر خان کو یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کرنے کے لیے درخواست دی گئی تھی۔ یہ درخواست 14 دسمبر 1993ء کو ادارہ یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ نے منظور کرلی جس کے تحت مسجد وزیر خان یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ کا حصہ بن گئی۔ مسجد وزیر خان یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں حوالہ نمبر 1278 کے تحت شامل ہے۔

پیمائش[ترمیم]

مسجد کا کل رقبہ[ترمیم]

مسجد کا کل رقبہ عرض میں 279.5 فٹ (85.1916 میٹر) اور طول 159 فٹ (48.4632 میٹر)ہے۔

صحن مسجد[ترمیم]

صحن مسجد کا رقبہ 148.5 فٹ 3 انچ طول اور 117 فٹ عرض ہے۔

نماز والے دالان یعنی صحنِ خاص کا رقبہ[ترمیم]

نماز والے دالان یعنی صحنِ خاص کا رقبہ  کا طول 131 فٹ 3 انچ (40.005 میٹر) اور عرض 42 فٹ (12.8016 میٹر) ہے۔

مسجد کا حوض[ترمیم]

مسجد کے صحن کے مرکز میں واقع حوض کا طول 35 فٹ  3 انچ ہے اور عرض 35 فٹ 9 انچ ہے جبکہ صحن کا کل رقبہ 1260.1875 مربع فٹ (181467 مربع انچ) ہے۔

حجرے[ترمیم]

مسجد کی تینوں سمت مشرقی، جنوبی و شمالی میں حجروں کی تعداد 32 ہے۔

مینار[ترمیم]

مسجد کے چار مینار ہیں جن کی بلندی 107 فٹ (32.6136 میٹر) ہے۔

گنبد[ترمیم]

مسجد کے کل گنبد 6 ہیں۔ مسجد کے اندرونی ڈیوڑھی نما عمارت پر واقع ایک گنبد ہے اور جبکہ صحنِ خاص والی عمارت پر دو میناروں کے ہمراہ 5 گنبد ہیں۔ تمام گنبدوں کی بلندی بیرونی جانب سے 6.4008 میٹر (21 فٹ)،  اندرونی جانب سے 9.7536 میٹر (32 فٹ) ہے۔ گنبدوں کا قطر بیرونی جانب سے 5.7912 میٹر (19 فٹ) اور اندرونی جانب سے قطر 7.0104 میٹر (23 فٹ) ہے۔

نگار خانہ[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. نور احمد چشتی: تحقیقات چشتی، ص 770۔ مطبوعہ 2014ء،  لاہور۔
  2. نور احمد چشتی: تحقیقات چشتی، ص 772/773۔ مطبوعہ 2014ء،  لاہور
  3. نور احمد چشتی: تحقیقات چشتی، ص 774۔ مطبوعہ 2014ء،  لاہور۔
  4. نور احمد چشتی: تحقیقات چشتی، ص 783۔ مطبوعہ 2014ء،  لاہور۔
  5. تاریخ لاہور از کنہیا لال۔ صفحہ168
  6. کنہیا لال: تاریخ لاہور، ص 138 تا 143۔ مطبوعہ لاہور 2009ء۔
  7. جے ایل کپلنگ:  رپورٹ لاہور 1889ء- 1890ء، ص 6۔
  8. دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 18، ص 19۔ مقالہ: لاہور، تذکرہ مسجد وزیر خان تحت مقالہ لاہور۔ مطبوعہ 1405ھ۔

صفحہ ماڈیول:Coordinates/styles.css میں کوئی مواد نہیں ہے۔31°34′59″N 74°19′24″E / 31.58306°N 74.32333°E / 31.58306; 74.32333