مسلسل غزل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مسلسل غزل ایک قسم کی شاعری ہے جو ہو بہو غزل کی ہی طرح ہوتی ہے بلکہ یہ غزل کی ہی ایک قسم ہے۔ بس فرق ہی یہ ہے کہ غزل کا ہر شعر ایک الگ معنی لیے ہوتا ہے۔ اس لیے معنوہ اعتبار سے غزل کا ہر شعر ایک دوسرے سے جدا اور آزاد ہوتا ہے اور اپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے۔ مگر مسلسل غزل کا ہر شعر کسی ایک خاص کیفیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ ممتاز شعرا میں میر، نظیر اکبر آبادی، حسرت موہانی، حالی، جوش ملیح آبادی، کلیم عاجز ، اقبال اور فراق گورکھپوری وغیرہ نے مسلسل غزلیں کہی ہیں۔ نمونہ کے طور اقبال، مومن اور حسرت اور کیلم عاجز کی غزلیں پیش ہیں:

اقبال[ترمیم]

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں

قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں۔

مومن[ترمیم]

جو ہم میں تم میں قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

حسرت موہانی[ترمیم]

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے

بار بار اٹھنا اسی جانب نگاہ شوق کا اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے

تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بے باک ہو جانا مرا اور ترا دانتوں میں وہ انگلی دبانا یاد ہے

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے

جان کر سوتا تجھے وہ قصد پا بوسی مرا اور ترا ٹھکرا کے سر وہ مسکرانا یاد ہے

تجھ کو جب تنہا کبھی پانا تو از راہ لحاظ حال دل باتوں ہی باتوں میں جتانا یاد ہے

جب سوا میرے تمھارا کوئی دیوانہ نہ تھا سچ کہو کچھ تم کو بھی وہ کارخانا یاد ہے ۔

کلیم عاجز[ترمیم]

تم گل تھے ہم نکھار ابھی کل کی بات ہے

ہم سے تھی سب بہار ابھی کل کی بات ہے

بیگانہ کہو غیر کہو اجنبی کہو

اپنوں میں تھا شمار ابھی کل کی بات ہے

آج اپنے پاس سے ہمیں رکھتے ہو دور دور

ہم بن نہ تھا قرار ابھی کل کی بات ہے۔