مطیع الرحمان
مطیع الرحمان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 29 اکتوبر 1941ء ڈھاکہ |
وفات | 20 اگست 1971ء (30 سال)[1] ٹھٹہ |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | پی اے ایف پبلک اسکول سرگودھا |
پیشہ | فوجی افسر |
عسکری خدمات | |
عہدہ | فلائیٹ پائلٹ |
لڑائیاں اور جنگیں | جنگ آزادی بنگلہ دیش |
درستی - ترمیم |
مطیع الرحمان(انگریزی: Mati ur Rehman بنگلہ: মুতি-উর-রহমান)(29اکتوبر 1941۔ 20 اگست 1971) متحدہ پاکستان کی فورج میں فلائٹ لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز تھا جس نے پاکستان کے ساتھ غداری کی کوشش کی اور مارا گیا۔(مطیع الرحمان کو پاکستان میں غدار اور بنگلہ دیش میں قومی ہیرو قرار دیا جاتا ہے)یہ بنگلہ دیش کی آزادی سے چار ماہ قبل کی بات ہے جب پاکستانی فضائیہ میں لڑاکا طیاروں کے پائلٹوں کو تربیت دینے والے فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمٰن نے 1971 کی جنگ میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے خلاف بغاوت کی۔مطیع الرحمن نے سنہ 1971 کی جنگ کے دوران کراچی سے پاکستانی فضائیہ کا لڑاکا طیارہ اغوا کر کے انڈیا لے جانے کی کوشش کی مگر وہ اس کوشش میں ناکام رہا اور طیارہ انڈیا کی سرحد کے قریب گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں وہ اپنے زیرِ تربیت پائلٹ راشد منہاس شہید ہوئے اور مطیع الرحمان بھی اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ ہلاک ہو گیا۔اس واقعے کے بعد پاکستان نے راشد منہاس کو ملک کے سب سے بڑے فوجی اعزاز ’نشان حیدر‘ سے نوازا جبکہ دوسری جانب بنگلہ دیش نے مطیع الرحمن کو اپنے ملک کے فوجی اعزاز ’بیر شریسترہ‘ یعنی ’بہترین بہادر ہیرو‘ سے نوازا۔
ابتدائی زندگی
[ترمیم]مطیع الرحمن کا تعلق مشرقی پاکستان کے ایک متوسط خاندان سے تھا۔ وہ 19اکتوبر 1941 کو ڈھاکہ کے قریب رمنا نگر میں پیدا ہوئے اور وہیں کے پرائمری سکول میں تعلیم حاصل کی جس کے بعد انھیں مغربی پاکستان میں سرگودھا کے پی اے ایف پبلک سکول میں داخل کروایا گیا۔12ویں جماعت کے بعد انھوں نے اگست 1961 میں پاکستانی ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی۔ انھیں جون 1963 کو جنرل ڈیوٹی پائلٹ برانچ کمیشن کیا گیا اور وہ 1971 کی جنگ سے قبل پائلٹوں کو تربیت دینے کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔دوسری طرف راشد منہاس تقسیم ہند کے بعد فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے اور 1969 میں انھوں نے پی ایف اے اکیڈمی رسالپور کو جوائن کیا جہاں انھیں ہارورڈ اور ٹی 37 طیارے اڑانے کی تربیت دی گئی۔
بنگالی افسران کی نگرانی
[ترمیم]پاکستانی ایئر فورس کے تاریخ دان قیصر طفیل اپنی ایک تحریر ’بلیو برڈ 116 از ہائی جیکڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ کراچی میں تعینات بنگالی افسروں کو احساس ہو گیا تھا کہ پاکستانی انٹیلیجنس اُن پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ان بنگالی افسران نے طے کیا کہ وہ ایئر بیس پر موجود افسران کے ساتھ دوستانہ تعلقات جاری رکھیں گے اور کھلے بندوں آپس میں کبھی ایک ساتھ نہیں ملیں گے لیکن اندر ہی اندر یہ منصوبہ بنا کہ وہ پاکستانی جنگی طیارے کو ہائی جیک کر کے انڈیا لے جائیں گے۔ شروع میں ایک یا دو ایف 86 ہائی جیک کرنے کا منصوبہ بنا مگر انھوں نے اسے ترک کر دیا کیونکہ زیادہ لوگوں کی موجودگی سے شک پیدا ہو سکتا تھا۔[2]اس تحریر میں قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ یہ طے ہوا کہ سولو مشن پر جانے والے ٹی 33 کو ہائی جیک کرنا آسان ہو گا۔ 20 اگست کو راشد منہاس نے سکواڈرن کریو روم میں ناشتہ گرم کروایا، انھیں اس روز اڑان پر نہیں جانا تھا کیونکہ تنہا جانے کے لیے کراچی کے آس پاس موسم خراب تھا لیکن اچانک موسم بہتر ہوا اور راشد منہاس سے کہا گیا کہ وہ اُڑنے کی تیاری کریں۔قیصر طفیل کے مطابق راشد منہاس اپنا ناشتہ بیچ میں چھوڑ کر فلائٹ لیفٹیننٹ حسن اختر سے پرواز کی بریفننگ لینے گئے۔ انھوں نے اڑان کے کپڑے پہنے، جلدی سے دو گلاب جامن کھائے اور کوکا کولا کے دو، تین گھونٹ لیے۔
پاکستانی طیارہ کا اغوا
[ترمیم]مطیع الرحمٰن کے متعلق پاکستانی حکام کا دعویٰ رہا ہے کہ 20 اگست کو جب راشد منہاس مطیع الرحمن کے ساتھ تربیتی پرواز پر تھے، تو مطیع الرحمن نے انھیں طیارے میں خرابی کا اشارہ کیا اور انھیں ’کلوروفام‘ سنگھا کر نیم بے ہوش کر دیا۔اسی دوران مطیع الرحمٰن نے زمین پر موجود اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ ان کے اہلخانہ کو کراچی میں انڈین ہائی کمیشن پہنچائیں کیونکہ وہ پاکستانی ایئرفورس کا طیارہ انڈیا لے کر جا رہے ہیں۔پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے شائع کردہ کتاب ’مون گلیڈ‘ کے مطابق 20 اگست 1971 کو راشد منہاس تنہا ٹی 33 کی دوسری پرواز کے ٹیک آف کے لیے تیار تھے۔ انھوں نے انجن چلایا اور تمام حفاظتی تدابیر کی یقین دہانی کی۔ گراؤنڈ پر عملے نے انھیں ’تھمبز اپ‘ کا اشارہ کیا، یعنی وہ اڑان بھر سکتے تھے۔جیسے ہی انھوں نے اڑان بھرنے کی تیاری پکڑی تو ’ایک بنگالی انسٹرکٹر پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن نے انھیں رُکنے کا اشارہ کیا۔’(راشد منہاس کو) لگا کہ شاید انھیں آخری لمحے پر کچھ اضافی ہدایات ملنے جا رہی ہیں۔ انھوں نے طیارہ روک لیا۔مون گلیڈ میں مزید لکھا ہے کہ ’مطیع (کھلی ہوئی کینوپی کے ذریعے) پچھلے کاکپٹ سے زبردستی اندر داخل ہوئے، طیارے کا کنٹرول چھین لیا اور اڑان بھر کے طیارے کا رخُ انڈیا کی طرف کر لیا۔[3]اس سے پہلے کہ راشد منہاس کچھ سمجھ پاتے، طیارہ رن وے پر دوڑنے لگا۔ قیصر طفیل لکھتے ہیں کہ ’منہاس صرف اتنا کر پائے کہ انھوں نے 11 بج کر 28 منٹ پر ایئر ٹریفک کنٹرول کو پیغام بھیجا کہ ان کے طیارے کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے۔ان کے مطابق مطیع الرحمان نے ممکنہ طور پر راشد منہاس پر دباؤ ڈالنے کے لیے پستول کا سہارا لیا ورنہ خطرہ دیکھتے ہی انجن کو آف بھی کیا جا سکتا تھا۔بنگالی افسر کیپٹن فرید نے اخبار ڈیلی سٹار کے لیے 2006 کی ایک تحریر میں لکھا کہ ’میں دیکھ سکتا تھا کہ دونوں پائلٹ طیارے کے کنٹرول کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں۔مجھے اسی وقت معلوم ہوگیا تھا کہ مطیع الرحمن انڈیا جانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ انھوں نے نہ پیراشوٹ پہن رکھا تھا نہ ہیلمٹ۔طیارے کی ہائی جیکنگ پر ایئر بیس میں الرٹ جاری کیا گیا۔پاکستانی پائلٹ سجاد حیدر نے اپنی کتاب ’فلائٹ آف دی فیلکن‘ میں لکھا ہے کہ راشد کے پاس ٹیک آف روکنے کے لیے متعدد آپشن موجود تھے تاہم وہ ایسا نہیں کر سکے۔مطیع الرحمٰن خاصے تجربہ کار پائلٹ تھے اور انھوں نے ریڈار سے بچنے کے لیے نچلی سطح پر پرواز کی جس کی بدولت پیچھے روانہ کیے گئے طیارے انھیں تلاش نہ کر سکے۔
طیارہ حادثہ
[ترمیم]تاہم بعد ازاں دوپہر کے وقت مقامی پولیس سٹیشن سے فون موصول ہوا کہ ایک طیارہ حادثے کا شکار ہوا ہے۔ایئر انویسٹیگیشن بورڈ کی تحقیقات میں کہا گیا کہ پرواز کے دوران کینوپی کو لاک نہیں کیا گیا تھا۔ وہ باہری ہوا کے دباؤ میں کچھ دیر اپنی جگہ رہی پھر پرواز کے دوران اڑ گئی اور یہ طیارے کے پچھلے حصے سے ٹکرائی جس سے طیارہ ناک کے بل نیچے گرا۔شاید اسی وجہ سے مطیع الرحمان کاکپٹ سے باہر جا گرے کیونکہ انھیں سیفٹی بیلٹ باندھنے کا وقت نہیں مل سکا تھا۔اس حادثے کی جانچ کرنے والی ٹیم کو حادثے کے مقام سے ایک کھلونا پستول ملی۔ راشد منہاس کی لاش طیارے کے اندر سے ہی ملی ۔پاکستانی حکام کا دعویٰ رہا ہے کہ راشد منہاس نے مطیع الرحمن سے طیارے کا کنٹرول واپس لینے کی کوشش کی اور اس لڑائی کے دوران طیارہ انڈین سرحد کے قریب گِر کر تباہ ہو گیا۔ ’راشد منہاس نے جان بوجھ کر طیارے کو نیچے گرایا اور ٹھٹھہ کے قریب حادثہ ہوا۔
راشد منہاس کا طیارہ گرنے کی تحقیق
[ترمیم]پاکستانی تفتیش کاروں نے بعد ازاں اپنی تحقیقات کے بعد بتایا کہ مطیع الرحمن طیارے کے ساتھ انڈیا جانا چاہتے تھے تاکہ وہ بنگلہ دیش میں اپنے ساتھیوں کی حمایت کر سکیں۔ایئر انویسٹیگیشن بورڈ کے سربراہ گروپ کیپٹن ظہیر حسین کا بھی ماننا تھا کہ نوجوان اور کم تجربہ کار راشد منہاس کاکپٹ میں فریز ہو گئے ہوں گے۔جب اس وقت کے فوجی صدر یحییٰ خان کو پوری کہانی سنائی گئی تو انھوں نے کہا کہ یہ لڑکا نشان حیدر سے کم کا حقدار نہیں۔ بعد میں حکومت پاکستان نے راشد منہاس کو اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’نشان حیدر‘ سے نوازا۔راشد منہاس پی اے ایف کے واحد رکن اور سب سے کم عمر شخص ہیں جنھیں پاکستان میں اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔بنگلہ دیش کی تاریخ پر لکھنے والے مصنف رفیع العالم اپنی تحریر ’ان فارگیٹ ایبل ہیروز آف بنگلہ دیش‘ میں لکھتے ہیں کہ مطیع الرحمن یہ برداشت نہیں کر پا رہے تھے کہ وہ ’اپنی ہی سرزمین پر بطور پائلٹ بمباری کریں گے تاہم خاندان کی طرف رکاوٹ کے باعث اس وقت جنگ آزادی میں ان کے لیے شمولیت بھی ناممکن تھی۔رفیع العالم کے مطابق مطیع الرحمن نے مغربی پاکستان کے خلاف بغاونت کے لیے خفیہ مشن ’کوڈ نیم بلیو برڈ‘ کا فیصلہ کیا۔’کوئی بھی ریڈار (ہائی جیک کیے گئے) ٹی 33 طیارے کو ٹریک نہ کر سکا کیونکہ انھوں نے اسے بہت کم بلندی پر اڑایا۔ مطیع الرحمن اسے گجرات کی ایئر فیلڈ تک لے جانا چاہتے تھے‘مگر وہ اس میں ناکام رہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ’مطیع الرحمن کی لاش حادثے کے مقام کے قریب سے ملی تھی۔رفیع العالم نے مزید لکھا کہ انھیں مسرور ایئر بیس میں ’فورتھ کلاس ملازمین کے قبرستان میں دفنایا گیا۔ ایئرفورس نے ایک ماہ کے لیے ان کی اہلیہ اور دو بیٹیوں کو قید رکھا اور 29 ستمبر 1971 کو رہا کیا۔بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد مطیع الرحمن کو بیر شریسترہ کا اعزاز دیا گیا [4]جبکہ جیسور میں بنگلہ دیش ایئر فورس کا فضائی اڈہ ان کے نام کیا گیا۔مطیع کی باقیات کو ابتدا کو پاکستان کے شہر کراچی میں سپرد خاک کیا گیا تھا تاہم بنگلہ دیش کی حکومت کے مطالبے پر سنہ 2006 میں پاکستان نے مطیع الرحمن کی باقیات بنگلہ دیش کو واپس کیں اور بنگلہ دیش کے قیام کے 35 سال بعد انھیں ڈھاکہ میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔[5] راشد منہاس نشان حیدر پانے والے سب سے کم عمر فوجی ہیں اور پاک فضائیہ میں بھی واحد شہید ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں۔[6]
- ↑ ربط: فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ — اخذ شدہ بتاریخ: 14 نومبر 2024
- ↑ "1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیا"
- ↑ "1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیا"
- ↑ "1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد مہناس کا طیارہ ہائی جیک کیا"
- ↑ "1971 کی جنگ: وہ پائلٹ جس نے راشد منہاس کا طیارہ ہائی جیک کیا"
- ↑ "ایک مطیع الرحمان اور بھی تھا"