معاذ بن معاذ عنبری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت معاذ بن معاذ عنبریؒ
معلومات شخصیت
رہائش بصرہ  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث،  منصف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حضرت معاذ بن معاذ عنبریؒ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔

نام ونسب[ترمیم]

معاذ نام اورابو المثنی کنیت تھی [1]پورا نسب نامہ یہ ہے،معاذ بن معاذ بن نصر بن حسان بن الحر بن مالک بن الخشخاش بن جناب بن حارث بن خلف بن الحارث بن مجفر بن کعب بن العنبر بن عمرو بن تمیم بن مر بن اوبن طابختہ بن الیاس بن نصر[2]عنبری اور تمیمی خاندانی نسبتیں ہیں۔

وطن اورولادت[ترمیم]

ابوالمثنیٰ 119ھ کے اواخر میں متولد ہوئے اس وقت بغداد کے تختِ سلطنت پر خلیفہ ہشام بن عبد الملک دادِ حکمرانی دے رہا تھا [3]یحیی بن سعید القطان کہتے ہیں کہ "ابو المثنیٰ مجھ سے عمر میں دوماہ بڑے تھے؛کیونکہ وہ ابوالمثنیٰ 119ھ کے آخر میں پیدا ہوئے اورمیری ولادت 120ھ کے آغاز میں ہوئی۔

فضل وکمال[ترمیم]

وسعتِ علم کے لحاظ سے وہ نہایت بلند مرتبت تھے حدیث اورفقہ کے جامع اوردونوں پر یکساں قدرت رکھتے تھے،اس فضل وکمال کی بنا پر اکابر حفاظِ حدیث اورمشاہیر تبع تابعین میں ان کا شمار ہوتا ہے،کمالاتِ فنی کے ساتھ ذکاوت وفطانت،عقل و فرزانگی اور تواضع وانکسار ان کے خاص اوصاف ہیں علما نے ان کی جلالتِ شان کو بالا تفاق تسلیم کیا ہے،حافظ ذہبی کان احد الحفاظ اور "الامام الحافظ العلامۃ" لکھتے ہیں۔[4]

حدیث[ترمیم]

حدیث میں انھیں خصوصی درک حاصل تھا،امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ علم حدیث ابو المثنیٰ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا[5]یعنی وہ اس کی روایت وتدریس میں غایت درجہ دلچسپی اورشغف رکھتے تھے اوراس میں انھیں ایک خاص سرور وکیف حاصل ہوتا تھا ،جن محدثین سے وہ مستفید ہوئے ان میں سلیمان التیمی ،عبد اللہ بن عون سعید بن عروبہ،شعبہ بن الحجاج،سفیان الثوری،حمید الطویل،حاتم بن ابی صغیرہ،عاصم بن محمد،قرہ بن خالد، ورفاء بن عمرو،وغیرہ کے نام لائق ذکر ہیں۔[6]

تلامذہ[ترمیم]

ان کے معدنِ علم سے اکتسابِ فیض کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے؛کیونکہ ابو المثنیٰ نے بصرہ کے علاوہ بغداد اوردوسرے مقامات پر بھی اپنے فیض سے تشنگانِ علم کو شاد کام کیا تھا،ممتاز تلامذہ کی فہرست میں ان کے صاحبزادگان عبید اللہ اورمثنیٰ کے علاوہ چند نام یہ ہیں: علی بن المدینی،احمد بن حنبل،یحییٰ بن معین،ا بو خثیمہ ،ابوبکر بن شیبہ،حکم بن موسیٰ ،قتیبہ ،بندار،محمد بن حاتم، عبد الرحمن بن ابی الزناد،عثمان بن ابی شیبہ،ابراہیم بن محمد۔[7]

فقہ[ترمیم]

حدیث ہی کی طرح فقہ میں بھی انھیں کمال حاصل تھا،ابن حبان کا بیان ہے،کان فقیھا عالماً متقناً[8]

تثبت واتقان[ترمیم]

روایت حدیث میں ان کے تثبت اوراتقان کا پایہ غایت درجہ بلند تھا،ناقدین فن نے اس خصوصیت میں ان کو عدیم النظیر قرار دیا ہے؛چنانچہ یحیی بن سعید القطان،جیسے عبقری وقت نے برملا اعتراف کیا ہے کہ:ما بالبصرۃ ولا بالکوفۃ ولا بلحجاز اثبت من معاذ بن معاذ [9]بصرہ،کوفہ اورحجاز میں کہیں بھی معاذ بن معاذ سے زیادہ تثبت رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ امام احمدؒ کا بیان ہے۔ الیہ المنتھیٰ فی التثبت بالبصرۃ [10] بصرہ میں تثبت فی الحدیث ان پر ختم تھا۔

ثقاہت[ترمیم]

اسی طرح نہایت ثقہ اورعدول تھے، جس کی سند یہ ہے کہ ان کی مرویات کو ائمہ صحاح اورعلمائے امت نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے،امام نسائیؒ کا قول ہے: "ثقۃ ثبت"ابن سعد رقمطراز ہیں "کان ثقۃ" [11] علاوہ ازیں ابو حاتم، امام بخاریؒ اورابن حبان وغیرہ نے بھی بصراحت ان کی ثقاہت کی تصدیق کی ہے۔

قضاءت[ترمیم]

ابو المثنیٰ اپنے کمال تفقہ کی بنا پر دوبارہ بصرہ کے قاضی مقرر ہوئے،پہلی مرتبہ 172ھ میں اس منصب کو عزت بخشی۔ [12] لیکن صرف ایک ہی سال فرائض منصبی ادا کرپائے تھے کہ بعض لوگوں کی شکایت پر حاکم محمد بن سلیمان نے ان کو معزول کرکے عبد الرحمن بن محمد المخزومی کو قاضی مقرر کر دیا۔ [13] پھر رجب 181ھ میں قاضی بصرہ عمر بن حبیب العدوی کی معزولی کے بعد دوسری مرتبہ اس عہدہ پر فائز ہوئے اورایک طویل عرصہ تک بحسن وخوبی اپنے فرائض انجام دیتے رہے حتیٰ کہ وفات سے پانچ سال قبل رجب 191ھ میں خلیفہ ہارون الرشید نے ان کے خلاف علما اورعوام کی مسلسل شکایتوں سے مجبور ہوکر انھیں عہدہ سے برطرف کر دیا۔ [14]

معزولی کے اسباب[ترمیم]

قاضی معاذ کے خلاف ناراضی اورشکایات کے متعدد اسباب تھے،انھوں نے اپنے عہدِ قضا میں بہت جرأت ،حق گوئی اوربیباکی کے ساتھ عدالتی فیصلے نافذ کیے،اس میں وہ عام وخاص کی کوئی تفریق روانہ رکھتے تھے؛چنانچہ اعیانِ دولت اپنی مرضی کے خلاف فیصلوں کے بنا پر انھیں سخت ناپسند کرنے لگے تھے۔علاوہ ازیں کبر سنی کی وجہ سے وہ گونا گوں جسمانی عوارض واعذار کا شکار ہو گئے تھے،آخر عمر میں انھوں نے بصرہ کے چند علما کو اپنا مقرب خاص بنالیا تھا؛چنانچہ جب قاضی موصوف ایوانِ عدالت میں بیٹھتے تو یہ لوگ بھی وہاں موجود رہتے اوربعض اوقات اپنی مرضی کے مطابق امورِ قضا طے کرالیتے تھے، اس بدنما صورتِ حال سے ایک عام ناراضی پھیلنے لگی،شعرا نے معاذ بن معاذ کی طویل ہجویں کہیں اور فقہا و علما نے خلیفہ وقت سے مل کر اپنی بے اعتمادی کا اظہار کیا،جب شکایتوں کی کثرت ہو گئی تو ہارون الرشید نے انھیں معزول کر دیا۔

کثرتِ دیانت[ترمیم]

دیانت وتقویٰ میں ان کے علو مرتبت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ عہدۂ قضا کے زمانہ میں ایک دن سخت بارش ہورہی تھی،لیکن اپنے صاحبزادے سے فرمایا: بیٹے!اب میں ایوانِ عدالت میں جارہا ہوں،لڑکے نے عرض کیا:"ابا آج تو اتنی بارش ہورہی ہے لوگ کہا آئیں گے؟ کمال دیانت سے فرمایا: اس سے کیا ہوتا ہے،اجلاس کرنا تو ضروری ہے ورنہ پھر ہمارے لیے کس طرح جائز ہوگا کہ ہم یومیہ اتنے درہم کا مشاہرہ لیتے رہیں اور پھر اسی زور دار بارش میں جاکر ایوانِ عدالت میں بیٹھے۔[15]

سادگی[ترمیم]

بایں ہمہ جلالت علم وفن اورعہدہ منصب کے ان کی زندگی نہایت سادہ اور صولت وشوکت سے عاری تھی،جب انھیں بصرہ کا قاضی مقرر کیا گیا تو معتمر بن سلیمان ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اوربہت معنی خیز انداز میں کہا:"ابوالمثنی!اب تو آپ قاضی ہو گئے ہیں،قاضی معاذ فوراً الفاظ کی تہ کو پہنچ گئے اوربجائے کچھ جواب دینے کے ان کو اپنے مکان میں لے گئے وہاں ابن سلیمان نے جو گردوپیش کا جائز لیا تو دھوپ میں بستر کی جگہ ایک چٹائی پڑی تھی،قاضی معاذ اپنے بالائی جسم پر کرتے وغیرہ کی بجائے ایک بہت پرانی روئی دار چادر لپیٹے ہوئے تھے، اس منظر کو دیکھ کر ابن سلیمان ضبط نہ کرسکے اوربادیدہ نم خاموشی کے ساتھ وہاں سے نکل آئے۔[16]

عقل وفرزانگی[ترمیم]

فیض قدرت نے دیگر فضائل ومناقب کے ساتھ ان کو عقل وفہم سے بھی بہرہ وافر عطا کیا تھا،امام احمد جنہیں ان سے تلمذ خاص حاصل تھا،بیان کرتے ہیں کہ میں نے معاذ بن معاذ سے زیادہ دانشمند کسی کو نہیں دیکھا مارأیت اعقل منہ [17]

عقائد میں تشدد[ترمیم]

ان کے عقائد تمام مبتدعانہ خیالات کی آمیزش سے پاک صاف تھے،خلقِ قرآن کا فتنہ گو ان کی وفات کے بعد بہت گرم ہوا،لیکن متکلمین کے اس متنازع فیہ مسئلہ میں ان کا مسلک بہت دوٹوک تھا کہ قرآن خدا کا کلام اورغیر مخلوق ہے اوراس بارے میں وہ اتنا زیادہ متشدد تھے کہ قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھنے والے کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے تھے؛چنانچہ خود ان کا قول ہے کہ: من قال القرآن مخلوق فھو واللہ زندیق [18] جو شخص خلق قرآن کا قائل ہو وہ بخدا زندیق ہے۔

وفات[ترمیم]

خلیفہ امین کے عہدِ حکومت میں 29 ربیع الآخر 196 ھ کو بمقامِ بصرہ علم وعمل کا یہ روشن چراغ گل ہو گیا [19] نماز جنازہ بصرہ کے امام محمد بن عباد الہبلی نے پڑھائی،وفات کے وقت 77 سال کی عمر تھی۔ [20]


حوالہ جات[ترمیم]

  1. (المعارف لا بن قتیبہ :223)
  2. (اخبار القضاۃ:2/137)
  3. (طبقات ابن سعد:7/74)
  4. (العبر:1/230،وتذکرۃ الحفاظ:1/297)
  5. (تہذیب التہذیب:10/194)
  6. (تذکرہ:1/297وتاریخ بغداد:13/131)
  7. (تاریخ بغداد:13/131)
  8. (تہذیب التہذیب:10/195)
  9. (العبر فی خبر من غبر:1/320)
  10. (تذکرۃ الحفاظ:1/297)
  11. (ابن سعد:7/47)
  12. (تاریخ بغداد:13/132)
  13. (اخبارالقضاۃ:2/138)
  14. (اخبار القضاۃ:2/154)
  15. (اخبار القضاۃ:2/139)
  16. (اخبار القضاۃ:129)
  17. (العبر نی خبر من غبر:1/320)
  18. (تذکرۃ الحفاظ:1/297)
  19. (تہذیب التہذیب:10/195 والمعارف:223)
  20. (طبقات ابن سعد:7/48)