معجم الصغير طبرانی
معجم الصغير طبرانی | |
---|---|
(عربی میں: المعجم الصغير) | |
مصنف | سلیمان ابن احمد ابن الطبرانی |
اصل زبان | عربی |
موضوع | حدیث |
درستی - ترمیم ![]() |
معجم صغیر :اما م طبرانی نے معجم کے نام سے تین کتابیں لکھیں (معجم کبیر،معجم اوسطمعجم صغیر) یہ ان کی مشہور و معروف تصانیف ہیں جو علم حدیث کی بلند پایہ کتابیں سمجھی جاتی ہیں، محدثین کی اصطلاح میں معجم ان کتابوں کو کہا جاتا ہے جن میں شیوخ کی ترتیب پر حدیثیں درج کی گئی ہوں۔اس کتاب میں امام طبرانی نے اپنے شیوخ کی روایات کو جمع کیا اور ان کے ناموں کو حروف معجم پر مرتب کیا۔
کتاب معجم صغیر مختصر ہونے کی وجہ سے زیادہ مقبول اور متداول ہے اس کی ترتیب شیوخ کے ناموں پر ہے اس میں انھوں نے حروف تہجی کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ شیوخ کی ایک ایک حدیث درج کی ہے آخر میں بعض خواتین محدثات کی بھی حدیثیں ہیں۔ اس میں کل احادیث کی تعداد 1197 ہے یہ ایک جلد پر مشتمل ہے اس میں تمام احادیث و راوایات مع اسناد درج ہیں۔ یہ 1311ھ میں مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئی۔[1][2]
کتاب کا تعارف اور منہج
[ترمیم]المعجم الصغیر امام طبرانی کی ان اہم کتبِ حدیث میں سے ہے جن میں احادیثِ غریبہ کو جمع کیا گیا ہے اور ان کی غرابت کی وجوہات کو واضح کیا گیا ہے۔ المعجم الصغیر اور المعجم الأوسط کے درمیان فرق یہ ہے کہ امام طبرانی نے المعجم الصغیر میں عموماً ہر شیخ سے ایک حدیث اور کبھی کبھار دو حدیثیں روایت کی ہیں، جبکہ المعجم الأوسط میں ہر شیخ سے جتنی مرویات انھوں نے سنی تھیں، وہ سب ذکر کر دی گئی ہیں۔
یہ کتاب 1198 سند کے ساتھ احادیث پر مشتمل ہے، جن میں مرفوع اور غیر مرفوع احادیث شامل ہیں۔ اس کتاب میں امام طبرانی کا منہج درج ذیل ہے: شیوخ کے ناموں کو حروفِ تہجی کے مطابق مرتب کیا۔ ہر شیخ کے تحت ایک یا دو احادیث روایت کیں اور ان کے اسناد میں انفراد کی نشان دہی کی۔ بعض رواۃ پر جرح و تعدیل کی اور بعض کنیت یا مشتبہ ناموں کی وضاحت کی۔ بعض راویوں کی وفات کی تاریخ اور بعض واقعات کے وقت کا تعین بھی کیا۔ غریب الفاظ اور مبہم عبارات کی وضاحت کی۔ بعض مواقع پر فقہی آراء بھی ذکر کیں۔ بعض نصوص کی تصحیح بھی کی۔
اہلِ علم کی توجہ
[ترمیم]علما نے اس کتاب کی بڑی قدر و قیمت پہچانی۔ اس کی سب سے نمایاں خدمت حافظ نور الدین ہیثمی نے انجام دی، جنھوں نے اس کتاب اور المعجم الأوسط کی زوائد کو جمع کر کے ’’مجمع البحرين‘‘ کے نام سے مرتب کیا اور ان زوائد کو صحاحِ ستہ (چھ صحیح کتب) سے الگ کیا۔ پھر انہی زوائد کو اسانید سے مجرد کر کے ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد‘‘ میں شامل کیا۔
علامہ البانی نے اس کتاب پر ایک تخریج مرتب کی جس کا نام ’’الروض الداني‘‘ رکھا، تاہم یہ تاحال مخطوطہ کی صورت میں ہے۔ اہلِ علم نے اس کتاب سے کثرت سے استفادہ کیا ہے، خصوصاً کتبِ تخریج میں۔ حافظ منذری نے ’’الترغيب والترهيب‘‘ میں 95 سے زائد مقامات پر اس سے نقل کی۔ حافظ ابن حجر نے ’’فتح الباري‘‘ میں 51 سے زائد جگہوں پر اس کا حوالہ دیا۔ امام مناوی نے ’’فيض القدير‘‘ میں 67 سے زائد مقامات پر اس سے استفادہ کیا۔[3] ،[4] [5] [6] [7]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ ذہبی تذکرۃ الحفاظ۔ شاہ عبد اللہ العزیز محدث دہلوی بستان المحدثین
- ↑ الرسالہ المستطرفہ ،مؤلف: ابو عبد الله جعفر الكتانی، ناشر: دار البشائر الإسلامیہ
- ↑ تاريخ الإسلام للذهبي.
- ↑ سير أعلام النبلاء للذهبي (16/119-130).
- ↑ Siyar A'lam an-Nubala', v. 12, p. 268
- ↑ "Religious Services Of Imam Tabarani"۔ www.dawateislami.net۔ 2024-07-20 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-06-10
- ↑ Tazkirah al-Huffaz, v. 3, p. 85