مندرجات کا رخ کریں

معرکہ شقحب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
معركة شقحب
جزء من غزوات المغول على فلسطين
وغزوات المغول للشام
حيطوم الثاني، ملك أرمنيا (يسار) وغازان يرافقهم الأمراء في 1303م
معلومات عامة
تاریخ بدأت يوم السبت 2 رمضان سنة 702 هـ الموافق 20 ابريل 1303 م
مقام سهل شقحب الذي يشرف على جبل غباغِب جنوب دمشق بحوالي 25 ميل
33°21′39″N 36°14′53″E / 33.36084°N 36.248177°E / 33.36084; 36.248177   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
النتيجة انتصار المسلمين وهزيمة ساحقة للمغول
المتحاربون
سلطنت مملوک

طيء

دولت خانیہ
القادة
السلطان ناصر محمد بن قلاوون
ركن الدين بيبرس الجاشنكير
شيخ الاسلام ابن تيميہ
سيف الدين سلار
سيف الدين كرای
مہنا بن عیسی
بدر الدین موسی بن ابی بکر ازکشی
قتلغ نويان (قطلوشاه)
مولاي
هيثوم الثاني ملك أرمينيا
القوة
نحو 200 ألف مقاتل [1] أكثر من 200 الف مقاتل
الخسائر
الأمراء: 217 [1] / الباقى غير معروف غير معروف ولكن بالآلاف
نقشہ

شقحب کی جنگ یا مرج الصفر کی جنگ ایک معرکہ تھا جو 2 رمضان 702 ہجری بمطابق 20 اپریل 1303ء کو شروع ہوا اور تین دن تک جاری رہا۔ یہ معرکہ دمشق کے قریب شقحب کے میدان میں پیش آیا۔ یہ جنگ ممالیک اور منگولوں کے درمیان ہوئی: ممالیک کی قیادت الناصر محمد بن قلاوون (مصر و شام کے سلطان) کر رہے تھے۔ منگولوں کی قیادت قتلغ شاہ نویان (قطلو شاہ) کر رہا تھا، جو محمود غازان (ایلخانی منگول حکمران فارس) کا نائب اور سپہ سالار تھا۔

منگولوں کا شام پر حملہ

[ترمیم]

رجب 702 ہجری / 1303ء میں حلب سے قاصد قاہرہ پہنچا اور اطلاع دی کہ غازان شام پر حملہ کرنے والا ہے۔ اس پر سلطان مصر الناصر محمد بن قلاوون نے امیر بیبرس جاشنكیر کو چند امرا کے ساتھ تین ہزار سپاہیوں کی فوج لے کر دمشق روانہ کیا۔ بیبرس شعبان میں دمشق پہنچ گیا۔ حلب اور حماة کے لوگ گھبرا کر دمشق کی طرف بھاگے اور دمشق کے لوگ بھی فرار کی تیاری کرنے لگے۔ اس پر منادی کرا دی گئی کہ "جو شخص دمشق سے نکلے گا، اس کا مال اور جان مباح ہوگی"۔[2]

بیبرس نے قاہرہ پیغام بھیجا کہ الناصر محمد فوراً شام آئیں۔ دوسری طرف غازان نے اپنے نائب قطلوشاه کو 80 ہزار سپاہیوں کے ساتھ شام روانہ کیا۔ قطلوشاه کو جب معلوم ہوا کہ ناصر ابھی مصر سے نہیں نکلا اور شام میں صرف مقامی شامی فوج ہے، تو وہ سیدھا حماة کی طرف بڑھا۔ حماة کی فوج نے اسے دیکھ کر دمشق کی طرف راہ فرار اختیار کی اور اپنے ساتھ سلطان العادل كتبغا کو بھی ایک اسٹریچر پر اٹھا کر لے گئے کیونکہ وہ کمزور تھے۔

دمشق میں اضطراب پھیل گیا اور لوگ شہر چھوڑنے لگے۔ رمضان کی پہلی رات لوگ جامع مسجد میں رات گزارنے لگے اور اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعائیں کرنے لگے۔[3]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب ابن إياس 1/ 413
  2. المقريزى، السلوك 2/ 355
  3. المقريزى، السلوك 2/ 365-355

کتابیات

[ترمیم]
  • ابن إياس: بدائع الزهور في وقائع الدهور، تحقيق محمد مصطفى، الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة 1982
  • ابن إياس: بدائع الزهور في وقائع الدهور، مدحت الجيار (دكتور)، الهيئة المصرية العامة للكتاب، القاهرة 2007.
  • ابن تغرى: النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة، الحياة المصرية، القاهرة 1968.
  • أبو الفداء: المختصر في أخبار البشر، القاهرة 1325هـ.
  • جمال الدين الشيال (أستاذ التاريخ الإسلامي): تاريخ مصر الإسلامية، دار المعارف، القاهرة 1966.
  • بسام العسلي: الظاهر بيبرس ونهاية الحروب الصليبية القديمة، دار النفائس، بيروت 1981
  • حمدى السعداوى: صراع الحضارات - المماليك، المركز العربي للنشر، الأسكندرية
  • شفيق مهدى (دكتور): مماليك مصر والشام، الدار العربية للموسوعات، بيروت 2008.
  • علاء طه رزق (دكتور): دراسات في تاريخ عصر سلاطين المماليك، عين للدراسات والبحوث الإنسانية والاجتماعية، القاهرة 2008.
  • عبد الله بن أيبك الدواداري: كنز الدرر وجامع الغرر، المعهد الألماني للأثار الإسلامية، القاهرة 1971.
  • المقريزى: السلوك لمعرفة دول الملوك، دار الكتب، القاهرة 1996.
  • المقريزى: المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والأثار، مطبعة الأدب، القاهرة 1968.
  • قاسم عبده قاسم (دكتور): عصر سلاطين المماليك - التاريخ السياسى والاجتماعى، عين للدراسات الإنسانية والاجتماعية، القاهرة 2007.