معرکہ عین جالوت
معرکہ عین جالوت | |||||
---|---|---|---|---|---|
سلسلہ منگول حملے اور فتوحات | |||||
عمومی معلومات | |||||
| |||||
متحارب گروہ | |||||
مصری مملوک | منگول | ||||
قائد | |||||
سیف الدین قطز بیبرس |
کتبغا | ||||
قوت | |||||
20 ہزار | 20 ہزار | ||||
نقصانات | |||||
نامعلوم | نامعلوم | ||||
درستی - ترمیم |
معرکہ عین جالوت 3 ستمبر 1260ء (658ھ) میں مملوک افواج اور منگولوں کے درمیان تاریخ کی مشہور ترین جنگ جس میں مملوک شاہ سیف الدین قطز اور اس کے مشہور جرنیل رکن الدین بیبرس نے منگول افواج کو بدترین شکست دی۔ یہ جنگ فلسطین کے مقام عین جالوت پر لڑی گئی۔ اس فتح کے نتیجے میں مصر، شام اور یورپ منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچ گئے۔ جنگ میں ایل خانی حکومت کے منگول بانی ہلاکو خان کا سپہ سالار کتبغا مارا گیا۔
سقوط بغداد
[ترمیم]تفصیلی مضمون کے لیے سقوط بغداد
ساتویں صدی ہجری میں تاتاریوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر عظیم جارحیت کا ارتکاب کیا اور نتیجتاً مسلمانوں کا خلیفہ مستعصم باللہ ہلاک ہو گیا اور دار الحکومت بغداد سمیت مسلمانوں کی تین چوتھائی سرزمین تاتاریوں کے قبضہ میں چلی گئی۔
سقوط بغداد کے بعد خلافت عباسیہ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا جس کے بعد مسلمانوں کو شکست در شکست کا سامنا کرناپڑا۔ منگولوں نے سارے عراق پر قبضہ کرنے کے بعد شام کی سرزمیں پر جارحیت کا ارتکاب کیا اور یہاں ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیا کیونکہ اس علاقے کے لوگوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔
سقوط دمشق کے بعد تاتار مصر اور مراکش کی طرف بڑھے جو مسلمانوں کے آخری مضبوط گڑھ رہ گئے تھے اور اگر یہ بھی منگولوں کے قبضے میں چلے جاتے تو تمام مسلم امہ تباہ ہوجاتی۔
خط کتابت
[ترمیم]ہلاکو خان منگو خان کی وفات کے باعث اپنے نائب کتبغا کو کمان دے کر خود وطن واپس روانہ ہو گیا۔ منگول کمانڈر کتبغا نے ایک دھمکی آمیز خط امیر مصر کو روانہ کیا۔ اس میں کچھ اس طرح سے لکھا "ہم نے زمین کو تاراج کر دیا، بچوں کو یتیم اور لوگوں کو سزا دی اور قتل کر دیا، ان کے سرداروں کی عزتوں کو خاک میں ملادیا۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم ہم سے بھاگ سکتے ہو؟ کچھ ہی دیر بعد تھمیں معلوم ہو جائے گا کہ تمھاری طرف کیا آ رہا ہے؟۔
قطز نے منگول سفیروں کو قتل کرواکر ان کی لاشیں دار الحکومت میں لٹکادیں جس سے افواج اور عوام کے حوصلے بلند ہوئے۔ جب قطز کا جواب منگولوں تک پہنچا تو انھیں معلوم ہو گیا کہ مصر میں انھیں ایک مختلف قسم کے رہنما کا سامنا ہوگا۔
فتح کے غرور میں مست منگول آگے بڑھتے چلے گئے اور عراق کو روندنے کے بعد شام، فلسطین اور مصر پر قبضے کی غرض سے آگے بڑھے اورعین جالوت میں ان کا ٹکراؤ مملوک افواج سے ہوا۔
جنگ کی تیاریاں
[ترمیم]قطز صرف جواب دے کر بھول نہیں گیا بلکہ اس کو اندازہ تھا کہ اس قسم کے واضح جواب کے بعد کس قسم کا رد عمل ہو سکتا ہے۔ لہذا اس نے تیاریاں شروع کر دیں۔
مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے اس نے منتشر مسلمان سرداروں کی طرف اپنے امیر مملکت رکن الدین بیبرس کو روانہ کیا۔ اس نے منتشر سرداروں سے اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بھلا کر متحد ہوجانے کا مطالبہ کیا تاکہ مشترکہ دشمن کو شکست دی جاسکے۔
قطز نے علما سے بھی مدد اور دعا کی درخواست کی۔ اس کے قریبی اور اہم وزراء میں علما بھی شامل تھے۔ سب سے اہم عالم جنھوں نے سلطان کی مدد کی وہ " سلطان العلماء" العز بن ابدیس سلام تھے۔ سلطان قطز نے بن ابدیس سلام سے فتویٰ طلب کیا تاکہ وہ عوام پر مزید جنگی ٹیکس عائد کرسکے اور مزید ہتھیار حاصل ہوسکیں۔ دیانت دار عالم نے سلطان پر یہ واضح کر دیا کہ حکومت کوئی نیا ٹیکس عوام پر نہیں عائد کرسکتی جب تک کہ گورنر و وزرا اپنی ذاتی دولت اور ان کے تمام رشتہ دار اپنی تمام دولت خرچ نہ کرڈالیں۔ العز نے ان غلام سرداروں کو بھی فروخت کرنے کو کہا جو حکومت کے اہم عہدہ دار تھے مگر قانونی طور پر اپنے مالکان سے آزاد شدہ نہ تھے۔
طبل جنگ
[ترمیم]حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس تنبیہ کی مدنظر رکھتے ہوئے کہ "جو لوگ اپنی زمین کے وسط میں حملہ آور کا مقابلہ کریں گے وہ بے عزت ہوں گے" قطز نے اپنی افواج کو حکم دیا کہ آگے بڑھ کر حملہ اور دشمن کا مقابلہ کریں۔ اس نے اپنا ایک ہراول دستہ بھی بیبرس کی قیادت میں غزہ، فلسطین کی طرف روانہ کیا جس نے تاتاریوں کی کچھ افواج کو وہاں مصروف کر دیا اور شکست سے دوچار کیا۔ قطز کی مرکزی افواج اسی کی قیادت میں فلسطین کے ساحل کی طرف بڑھیں جہاں صلیبیوں کا مضبوط گڑھ واقع تھا۔ یہاں قطز نے صلیبیوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ غیر جانبدار نہ رہے تو وہ منگولوں سے دو دو ہاتھ کرنے سے پہلے وہ صلیبیوں کو پیس کر رکھ سکتا ہے۔ اس وقت منگولوں نے صلیبیوں سے اتحاد کرنا چاہا لیکن صلیبی قطز کی دھمکی اور مسلمانوں کی طاقت دیکھتے ہوئے غیر جانبدار رہنے پر مجبور ہو گئے۔ اس وقت وہ تعداد میں اور طاقت میں بھی بہت کمزور تھے ۔
جب مرکزی مسلم افواج دشمن کی افواج کے نزدیک پہنچیں تو قطز نے میدان جنگ خود منتخب کیا جو ایک وادی میں تھا جس کو پہاڑوں نے گھیرا ہوا تھا۔ اس نے اپنے کچھ سپاہی پہاڑوں پر تعینات کیے تا کہ اگر صلیبی دھوکا سے یا منگول و غدار پیچھے کی طرف سے حملہ کریں تو دفاع کیا جاسکے۔
تاتاری ٹڈی دل آخر کار میدان جنگ میں پہنچ گیا جو تینوں طرف سے گھرا ہوا تھا۔ معرکہ آرائی شروع ہوئی اور توازن تاتاری افواج کی طرف جھکتا نظر آیا۔ تاتاری افواج کا دایاں بازو مسلم افواج کے بائیں بازو پر غالب آنا شروع ہو گیا۔ مسلمان افواج نے پسپا ہونا شروع کر دیا۔ قطز ایک چٹان پر چڑھ گیا اور اپنے سر سے حفاظتی خود پھینک دیا اور پکار کر اپنی افواج کو لڑتے رہنے کی تاکید کی اور تلقین کی کہ اللہ کے دشمنوں سے جنگ میں پیچھے نہیں ہٹتے۔ مایوس ہوتی ہوئی مسلم افواج کے سرداروں نے اپنے رہنما کی طرف دیکھا تو بغیر خود کے قطز دیوانہ وار تلوار چلا رہا تھا اور دشمن کی صفوں کے درمیان گھس کر کشتوں کے پشتے لگا رہاتھا۔ قطز کی جرات نے مسلم افواج کے سرداروں کو دم بخود کر دیا جہنوں نے فوراً قطز کی پیروی کی اور مسلم افواج کا حوصلہ بحال ہو گیا۔
کچھ ہی لمحوں میں پانسا مسلم افواج کے حق میں پلٹ گیا۔ تاتاری افواج منتشر ہوگئیں اور ان کی ایک قابل ذکر تعداد ہلاک ہو گئی یا گرفتار ہو گئی۔ تاتاری افواج کا سردار کتبغا مارا گیا اور اس کا بیٹا بھی گرفتار ہوا۔ تاتاری افواج کا کوئی بھی فرد قتل یا گرفتار ہونے سے نہ بچ سکا کیونکہ جو تاتاری اس میدان جنگ سے بھاگ گئے وہ شام میں مارے گئے۔
نتیجہ
[ترمیم]جب شاندار فتح کی خبر دمشق اور گرد و نواح پہنچی تو مسلمان خوشی سے سرشار ہو گئے انھوں نے تاتاریوں پر حملے شروع کردیے اور اسی سال منگولوں کو حمص سے بھی بے دخل کر دیا۔
جب تاتاریوں کو اندازہ ہوا کہ ان کی حکومت مشرقی اسلامی سرزمین پر کمزور ہو رہی ہے اور مسلمانوں نے اپنی قوت بحال کرلی ہے تو وہ اپنے وطن کی طرف بھاگے جس کی وجہ سے مملوکوں نے آسانی سے شام کو کچھ ہی ہفتوں میں آزاد کرانے میں کامیاب رہا۔
قطز نے ان مسلمان سرداروں کو جنھوں نے منگولوں کے خلاف جنگ میں مدد کی تھی نوازنا شروع کیا۔ اس نے کچھ ایوبی سرداروں کو ان کی سرزمین واپس کی اور اپنی حکومت میں انھیں قابل عزت وزرا کے طور پر شامل کیا۔
البتہ قطز کا اقتدار برقرار نہ رہ سکا۔ رکن الدین بیبرس نے اس شاندار فتح میں اپنی خدمات کے پیش نظر مطالبہ کیا کہ حلب اور اردگرد کے علاقے کی کمان اس کے حوالے کی جائے لیکن قطز نے انکار کر دیا۔ قاہرہ میں واپسی سے چند روز قبل قطز پراسرار انداز میں قتل ہو گیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیبرس نے خود یا پھر اس کے اشارے پر قتل کیا گیا۔ یوں اس شاندار فتح کے باوجود قطز فاتحانہ انداز میں واپس دار الحکومت نہ پہنچا اور یہ شرف بیبرس کو ملا جو ملک الظاہر رکن الدین بیبرس کے نام سے تختِ قاہرہ پر متمکن ہوا [1]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ جنگ عین جالوت، تاریخ ساز معرکہ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ abushamil.com (Error: unknown archive URL)، ابوشامل کے بلاگ سے