جنگ یرموک

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(معرکہ یرموک سے رجوع مکرر)


جنگ یرموک
سلسلہ اسلامی فتح شام   ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
میدان یرموک کی ایک تصویر
عمومی معلومات
آغاز 15 اگست 636  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 20 اگست 636  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام دریائے یرموک   ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صفحہ ماڈیول:Coordinates/styles.css میں کوئی مواد نہیں ہے۔32°48′51″N 35°57′17″E / 32.814166666667°N 35.954722222222°E / 32.814166666667; 35.954722222222   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
بازنطینی سلطنت،
غساسنہ
خلافت راشدہ
قائد
ہرقل
ثیوڈور ٹریتھاریس عرف دائرجان[1]
وہان یا ماهان g[›]
جبلہ بن الایہم
قناطير
گریگوری[2]
خالد بن ولید ؓ
ابوعبیدہ ابن الجراح ؓ
عمرو بن العاص ؓ
شرحبیل بن حسنہ ؓ
یزید بن ابی سفیان ؓ
قوت
15,000 سے 100,000
(جدید تخمینہ)a[›]

100,000 سے 400,000
(ابتدائی مآخذ)b[›]c[›]

24,000 سے 40,000 d[›]e[›]
نقصانات
45% مارے گئے
(جدید تخمینہ)[3]
70,000 سے 120,000 مارے گئے
(ابتدائی مآخذ)f[›]
4,000 شہید ہوئے[3]
Map

جنگ یرموک 15 ہجری میں خلافت اسلامیہ اوربازنطینی سلطنت کے درمیان لڑی گئی ایک جنگ ہے۔جس میں مسلمانوں کو فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی۔اور پورا بلاد الشام، خلافتِ راشدہ کا حصہ بن گیا۔

پس منظر[ترمیم]

اردن میں یرموک نام کا ایک دریا ہے جہاں پر مسلمانوں اور رومی فوجوں کے درمیان میں شدید جنگ چھڑ گئی تھی، رومیوں نے چونکہ مسلمانوں کے ہاتھوں لگاتار شکستیں کھائیں تھی اور شامات سے ہٹنے کے لیے مجبور ہو‎ئے تھے اس لیے اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک عظیم جنگ لڑ کر انتقام لیں اور اس بار آٹھ لاکھ فوجی قوت کو اکٹھا کر کے اور ایک روایت کے مطابق دس لاکھ نفوس پر مشتمل لشکر کو یرموک کی میدان میں مسلمانوں کے مد مقابل لا کھڑا کیا۔

تاریخ[ترمیم]

یرموک کی جنگ عمر بن خطاب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی خلافت کے دور میں 5 رجب سن 15 ہجری کو واقع ہوئی۔

میدان جنگ[ترمیم]

جنگ یرموک کی ایک خیالی تصویر

یرموک کا میدان ہے رومیوں کا بہت بڑا لشکر سامنے ہے ابو عبیدہ کو اطلاح ملی کے رومیوں کا ساٹھ ہزار نصرانی عرب کا لشکر جنگ کے لیے آ گیا ہے ابو عبید ہ بن جراح نے لشکر کو تیاری کا حکم دیا پر خالد بن ولید نے پکارا اے مسلمانوں ٹھہر جاو توقف کرو رومیوں نے ساٹھ ہزار عرب بھیجے ہیں میں آج ان کی ناک خاک آلود کروں گا میں تیس 30 آدمیوں کے ساتھ اس کا مقابلہ کروں گا یہ بات سن کر سب مجاہد تعجب میں پڑ گئے کہ شاید خالد خوش طبعی کے طور پر بات کر رہے ہیں ابو سفیان نے پوچھا کیا واقعی آپ 30 آدمی لے کر جائیں گے تو خالد نے کہا ہاں واقعی میرا یہی ارادہ ہے ابو سفیان نے کہا مجاہدوں سے میری محبت کی وجہ سے میری درخواست ہے تم 30 کی بجائے 60 آدمی لے جا ابو عبید ہ نے بھی تائید کی تو خالد مان گئے اب یہ 60 کا لشکر 60000 کے لشکر سے جنگ کرنے جا رہا ہے جبلہ بن ایہم غسانی نے جب دیکھا کے مسلمانوں کا ایک گروہ آ رہا ہے تو سمجھا مسلمان ڈر کے صلح کرنے آ رہے ہیں اور خالد بن ولیدسے کہتا ہے کہ میں اپنی شرائط پر صلح کروں گا مگر خالد نے جواب دیا ہم تجھ سے جنگ کرنے آے ہیں صلح نہیں جبلہ بن ایہم بولا جا اپنا لشکر لے کر آ خالد نے مجاہدوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ ہے میرا 60 افراد کا لشکر جبلہ بن ایہم نے کہا میں نہیں چاہتا عرب کی مائیں طعنہ دیں کہ جبلہ بن ایہم نے 60000 کے لشکر سے 60 آدمیوں پر چڑھائی کر دی خالد بن ولید نے کہا ہمارا ایک مرد تیرے ایک ہزار کے برابر ہے تو حملہ کر پھر دیکھ تیراکیا حشر ہوگا۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے یہ بات سن کر جبلہ آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے لشکر کو حملے کا حکم دیا 60000 کا لشکر 60 افراد پر ٹوٹ پڑا اور چاروں طرف سے گھیر لیا لگتا تھا یہ سمندر ان کو بہا کر لے جائے گا لیکن اسلام کے یہ شیر دل بہادر مجاہد اس سیلاب کے سامنے ڈٹے رہے اور تیز رفتار تلوار زنی کر کے دشمن کو پاس نہ آنے دیا مجاہدین نعرہِ تکبیر بلند کر کے ساتھیوں کو جوش دلاتے مگر اس رومی لشکر کے شور میں یہ آواز دب جاتی خالد بن ولید اور ان کے ساتھیوں ضرار بن ازور۔ زبیر بن عوام۔ عبد اللہ بن عمر۔ عبد الرحمٰن بن ابی بکر۔ فضل ابن عباس نے حصار کی صورت گھوڑے ملا لیے اس طرح ایک دوسری کی حفاظت کرتے خود کو اور اپنے ساتھی کو دشمن کے وار سے بچاتے اور دشمن کو قتل کرتے رہے صبح سے شام ہو گئی رومی سپاہی نڈھال ہو گئے مگر مجاہدین تازہ دم لگ رہے تھے جب شام تک ابو عبید ہ کو کچھ خبر نہ آئی تو لشکر کو حملے کا حکم دینے لگے تو ابو سفیان نے کہا اے ابو عبید ہ اب رک جا اور اللہ کے فیصلے کا انتظار کر ان شا اللہ وہ دشمن پر غلبہ پا لیں گے تھوڑی دیر بعد جبلہ کا لشکر پیٹھ دیکھا کر بھاگا اور مجاہدین نے آواز بلند کی لاَ إِلهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یہ لشکر یوں ڈر کے بھاگا گویا کسی آسمانی مخلوق نے ڈرایا ہو اور جبلہ بن ایہم سب سے آگے تھا اس معرکے میں 10 مسلمان شہید ہوئے 5 مسلمان قیدی ہوئے رومیوں کے 5000 لوگ قتل ہوئے حوالہ جات مردانِ عرب جلد 2 صحفہ 56 فتوح الشام از علامہ واقدی صحفہ 209

یرموک میں مسلمانوں کی قیادت ابوعبیدہ ابن الجراح ؓ کر رہے تھے، جس نے مسلمانوں کی پہلی فوجی دستے کو یرموک روانہ کیا تھا اس کے بعد سعید بن عامر کی قیادت میں مسلمان مجاہدین کا دوسرا دستہ ان کی مدد کے لیے روانہ کیا، دونوں فوجوں میں شدید جنگ چھڑ گئی، رومی فوج  ہزاروں میں ہلاک ہوئے یا قیدی بنائے گئے اور کامیابی مسلمانوں کو حاصل ہوئی اور رومی فوج پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی، جب اس کی خبر رومی بادشاہ ہرقل کو دی گئی جو انطاکیہ کے شہر میں بیٹھ کر اپنی فوج کی سربراہی کر رہا تھا، خبر سنتے ہی وہ وہاں سے بھاگ کر قسطنطنیہ (استنبول، ترکی) چلا گیا اور بڑی حسرت کے ساتھ کہا:

علیک یا سوریہ السلام و نعم البلد ھذا للعدوا
ترجمہ: الوداع اے سر زمین شام، کتنی خوبصورت سر زمین دشمنوں کے ہاتھ لگ گئی۔

نتیجہ[ترمیم]

تاریخ دانوں کے مطابق اس میں عيسائيوں کو بے انتہا جانی و مالی نقصان ہوا اور واضع فتح مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔ اس جنگ میں عمرو بن سعید، ابان بن سعید، عکرمہ بن ابوجہل، عبداللہ بن سفیان، سعید بن حارث، سہیل بن عمرو، ہشام بن العاص ( عمرو بن العاص کا بھائی) جیسے مسلمان شہيد ہو گئے۔[4][5][6][7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. کینیڈی 2006, p. 45
  2. Nicolle 1994, pp. 64–65
  3. ^ ا ب Akram 2004, p. 425
  4. تاریخ ابن خلدون۔ 1۔ صفحہ: 489 
  5. عصفری۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط۔ صفحہ: 88 
  6. فتح الشام از علامہ واقدی صفحہ 209
  7. مردانِ عرب جلد 2 صفحہ 56