مغل اعظم (کتاب)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ممبئی میں مرحوم کے۔ آصف کی معروف فلم مغل اعظم کے یادگار مکالموں پر مشتمل کتاب لانچ کی گئی۔ کتاب کی رونمائی نامور نغمہ نگار اوراسکرپٹ رائٹر جاوید اختر کے ہاتھوں ممبئی کے جوہو کراس ورڈ میں ہوئی۔ اس کتاب کا نام The Immortal Dialogue Of K Asif’s Mughal-e-Azam ہے۔ چار زبانوں میں فلم کے یادگار مکالموں کو لکھا گیا ہے۔ فلم میں مکالمے دراصل اردو زبان میں لکھے گئے تھے اس لیے غیر اردوداں کے لیے اسے ہندی رسمِ خط میں بھی لکھا گیا ہے اور ساتھ ہی ان افراد کے لیے جو ان دونوں زبانوں سے ناواقف ہیں، اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی ہے۔ اس کتاب کی ایک اور خاصیت ہے کہ ان مکالموں کو رومن اردو میں بھی لکھا گیا ہے کیونکہ وہ لوگ جو زبان کی چاشنی اور مکالموں کی روح کو کھونا نہیں چاہتے وہ اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

اس کتاب کو یہ نیا انداز نسرین منی کبیر اور سہیل اختر نے دیا ہے، جسے دونوں نے ڈیڑھ برس میں مکمل کیا۔ کتاب کی رونمائی کے موقع پر نغمہ نگار اوراسکرپٹ رائٹر جاوید اختر نے اردو زبان کی افادیت، شیرینی اور اس کی مقبولیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ زبان مر رہی ہے لیکن یہ ایک زندہ جاوید زبان ہے جو اس طرح لوگوں کے دلوں میں محفوظ ہے۔

جاوید اختر کا کہنا تھا کہ مغل اعظم ایک کلاسیکل فلم ہے، اس کا ہر ایکٹ اس کے مناظر، اس کے اداکار، اس کے مکالمے سب زندہ جاوید ہیں اور اسی لیے آج ان مکالموں کو دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ جاوید اختر کے مطابق فلم کے مکالموں نے کئی لوگوں کو اردو زبان سے روشناس کرایا اور کئی نے صرف ان مکالموں کو سمجھنے کے لیے اردو سیکھی۔ ان کے خیال میں یہ کتاب لندن امریکا میں کافی مقبول ہو گی۔

فلم میں مکالمے تین نامور مکالمہ نویسوں کی عرق ریزی کا نتیجہ تھے۔ اس فلم کے مکالمے اتنے مقبول ہوئے تھے کہ آج بھی لوگ انھیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں ادا کرتے ہیں۔ کیسے فلم میں بادشاہ اکبر انار کلی سے کہتے ہیں کہ ’سلیم تمھیں مرنے نہیں دے گا اور ہم انارکلی تمھیں جینے نہیں دیں گے‘ یا فلم میں مصور بادشاہ کی نعمتیں ملنے کے بعد اس کا مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ ’خوشی کا اظہار کم ظرف کیا کرتے ہیں‘۔