مغل فوج

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
Mughal Army
سلطنت مغلیہ کا پرچم
قیاماواخر پندرہویں صدی
Disbanded1805ء
قیادت
کمانڈر ان چیفمغل شہنشاہ

مغل فوجپندرہویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والی سلطنت مغلیہ کے ماتحت تشکیل دی جانے والی ایک عظیم الشان فوج تھی جس نے تقریباً ساڑھے تین سو سال تک ہندوستان پر مغلوں کی دھاک بٹھائے رکھی۔ یہ فوج متعدد حصوں میں منقسم تھی اور ہر غیر ملکی و ملکی حملہ آوروں، بغاوتوں اور تخت نشینی کی جنگوں میں اِستعمال کی جاتی رہی۔ مغل فوج کا اِبتدائی انتظام یا نظم و نسق مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے قائم کیا تھا جسے بعد کے مغل شہنشاہوں نے حسبِ سابق برقرار رکھا مگر وقت کے اعتبار سے اِس فوج میں سپاہ کی کمی اور اِضافے بھی ہوتے رہے۔ مغل فوج میں سپاہ کی بھرتی کے لیے وہ تمام قواعد نافذ نہیں ہوتے تھے جو آج کل ملکوں میں سپاہ بھرتی کرنے کے لیے رائج ہیں۔

ابتدائی ماخذِ فوج[ترمیم]

سترہویں صدی میں ایک مغل افسر کا عکس

مغل فوج کے ابتدائی ماخذوں کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی اکثریت ترک تھی یعنی وہ وسط ایشیا کے ملکوں سے بھرتی کیے گئے تھے۔ ابتدائی دور میں تنخواہ کا طریقہ کار ہر سپاہی کے درجہ اور عہدہ کے مطابق مقرر کیا گیا تھا۔ ظہیر الدین محمد بابر کی فوج کے متعلق شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابتدا میں صرف افغان سپاہیوں پر مشتمل تھی جسے ایک بڑا لشکر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ بعد میں ظہیر الدین محمد بابر نے ہندوستان پر لشکرکشی کے دوران مقامی لوگوں کو بھی مغل فوج میں بھرتی کیا جس سے مغل فوج میں اِضافہ ہوا۔ اِس طرز پر منصبداری نظام قائم ہوا جو سلطنت مغلیہ کے خاتمے تک رائج رہا۔

اقسام[ترمیم]

مغل فوج کی تین اِقسام تھیں:

  • وہ فوجیں جو مغل شہنشاہ کے ماتحت سرداروں کی ہوتی تھیں اور وہ بوقتِ ضرورت مغل شہنشاہ کو فراہم کیا کرتے تھے۔
  • مغل فوج کے اپنے دستے جو منصب داروں کے ماتحت ہوا کرتے تھے۔
  • مغل شہنشاہ شاہ جہاں کا ایک شاہی محافظ ’’سوار خان‘‘۔ (1710ء)
    وہ فوجیں جو مغل شہنشاہ کی ملازمت میں ہوا کرتے تھے اور اِن کو شاہی خزانے سے باقاعدہ تنخواہ دی جاتی تھی۔ اِن کی مزید دو اور اِقسام بھی تھیں: اَحدی اور داخلی۔ داخلی یا زائد سپاہ کی تقرری باقاعدہ طور پر سلطنت کی جانب سے ہوتی تھی اور اِسے شاہی خزانے سے تنخواہ دے کر انھیں کسی منصب دار کے ماتحت کر دیا جاتا تھا۔ اَحدی یا شریفانہ دستے‘ وہ فوجی ہوتے تھے جنہیں مغل شہنشاہ خود بھرتی کیا کرتے تھے اور یہ خالصتاً مغل شہنشاہ کی فوج میں شمولیت اِختیار کرتے تھے اور اِن سپاہیوں کو دیگر سپاہیوں کی نسبت زائد تنخواہ دِی جاتی تھی۔اَحدی دستے کی تنخواہ پانچ سو روپئے تک ہوتی تھی جبکہ عام سپاہیوں کی تنخواہ 7 یا 8 روپئے ہوا کرتی تھی۔[1]

تشکیلاتِ فوج اور دستے[ترمیم]

مغل شہنشاہوں نے مغل فوج کو دستوں کی صورت پر تشکیل دیا۔ ایک ایک دستہ کئی کئی ہزار اَفراد پر مشتمل ہوتا تھا اور اُس دستے کا سالار منصبدار کہلاتا تھا۔

مغل فوج کے خاص شعبہ جات[ترمیم]

رسالہ[ترمیم]

مغل فوج کا ایک مسلح سپاہی

مغل فوج میں جلال الدین اکبر کے عہد تک 6 اِقسام تھیں جنہیں ابو الفضل نے اکبر نامہ میں بیان کیا ہے۔

  • وہ فوج جو راجا، مہاراجا یا سردار ریاست مغل شہنشاہ کو فراہم کرتے تھے۔
  • منصب داروں کی فراہم کردہ فوج جو داغ اور چہروں کی شناخت کے ساتھ اُصول و ضوابط کو مدِنظر رکھتے ہوئے فراہم کی جاتی تھی۔
  • وہ فوجی جن کا کماندار (کمانڈر) بھی الگ اور اِن کے جتھے بھی الگ ہوتے تھے۔ یہ باقاعدہ مغل فوج کا حصہ نہیں تھے بلکہ انھیں صرف بوقتِ ضرورت ہی طلب کیا جاتا تھا۔
  • وہ سپاہی جو غربت کے باعث گھوڑے نہیں رکھ سکتے تھے، مگر سپاہی کی حیثیت سے انھیں مسلح سپاہی کی صورت میں مالیہ (ٹیکس) اکٹھا کرنے والوں اور بد کردار ملزموں یا مجرموں کے محاسبے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
  • وہ سپاہی جو منصب داروں کے ساتھ بھیجے جاتے تھے۔ یہ خود سپاہ نہیں رکھتے تھے۔ انھیں داخلی کہا جاتا تھا۔
  • وہ سپاہی جنہیں عارضی طور پر کسی منصب دار کے ساتھ روانہ کیا جاتا تھا اور یہ اُس وقت تک منصب دار کے ساتھ رہتے، جب تک ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔ انھیں کمکی رسالہ بھی کہا جاتا تھا۔[2]
مغل توپ خانہ کے توپچی سپاہی

پیادہ فوج[ترمیم]

پیادہ فوج کو کئی درجوں میں تقسیم کیا گیا تھا جن میں کچھ پیادے تو معمولی کارکن کی حیثیت رکھتے تھے، کچھ سائیس تھے، کچھ سرنگ ساز اور کچھ خیمہ ساز۔ متعدد پیادے لڑاکا سپاہیوں پر مشتمل تھے جو تیر انداز، نیزہ بازز، بندوقچی اور پہلوان ہوتے تھے۔[3] مغل سلطنت کی پیادہ فوج میں عموماً ہندو، غلام یا ادنیٰ قسم کے اشخاص بھرتی ہوتے تھے جو گھوڑوں کی اِستطاعت نہیں رکھتے تھے مگر ملازمت کے خواہش مند ہوتے تھے۔ اکثر یہ لوگ ذاتی محافظوں یا دربانوں کی حیثیت سے کام آتے تھے اور بعض اوقات اہم معاملات میں بطور مخبر یا جاسوس خبر رساں بھی ہوا کرتے تھے۔[4]

ہاتھی سوار[ترمیم]

مغل فوج کا اہم حصہ ہاتھی سوار بھی تھے جن سے بھاری لشکر کی شکست کے لیے کام لیا جاتا تھا۔ مغل فوج میں سات اِقسام کے ہاتھی سوار دستے موجود ہوا کرتے تھے جن کے وظائف مراتب و عہدوں کے فرق کے ساتھ تشکیل دیے گئے تھے۔[5]

توپ خانہ[ترمیم]

مغل توپ خانہ مغل شہنشاہ کے ماتحت ہوتا تھا جو خاص حکم شاہی کے مطابق اِستعمال کیا جاتا تھا۔مغل فوج میں توپ خانہ کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ یہ جنگ کے دوران دشمن فوج کی بھاری پیمانے پر شکست کا موجب بنتا تھا۔مغل توپ خانہ میں چھوٹی بڑی ہر قسم کی توپیں موجود تھیں۔ دراصل مغل توپ خانہ ظہیر الدین محمد بابر کا تشکیل دیا ہوا تھا جس کی بدولت اُس نے 1526ء میں پانی پت کی پہلی لڑائی میں ابراہیم لودھی کو شکست دی تھی۔مغل توپ خانہ میں کچھ توپیں وزنی اور کچھ ہلکے وزن کی ہوتی تھیں۔ ہلکی توپوں کو اُونٹوں کی مدد سے اور بھاری کو ہاتھی کی مدد سے میدانِ جنگ میں پہنچا دیا جاتا تھا۔ بھاری توپ خانے کو چلانے کے لیے جلال الدین اکبر نے یورپی فوجیوں کو بطور ملازم بھرتی کیا تھا۔ کچھ کمانڈروں کے ماتحت توپچی تھے جو بوقتِ ضرورت توپیں داغتے تھے۔ اورنگزیب عالمگیر نے قنوج کے باشندوں کو خصوصی طور پر توپ چلانے کے لیے تیار کیا تھا۔[6]

1565ء کی ایک لڑائی کا منظر جو دریائے گنگا میں کشتیوں کی مدد سے لڑی گئی۔ (ماخوذ اَز: اکبر نامہ)

بحریہ[ترمیم]

سلطنت مغلیہ میں بحری فوج کا کوئی وجود نہیں تھا اور نہ ہی مغل شہنشاہوں نے بحریہ کی تشکیل کے لیے کوئی کوشش کی۔بحریہ کا انتظام کچھ عرصے کے لیے جلال الدین اکبر کے عہدِ حکومت میں تشکیل دیا گیا مگر بعد میں اُسے ختم کر دیا گیا۔ اگرچہ ہر سال مسلمان حج کی ادائیگی کو ہندوستان کی مختلف بندرگاہوں سے جہازوں کی مدد سے سفر کرتے تھے جنہیں راستے میں قزاق تنگ کرتے تھے ۔ انگریزی قزاقوں نے خلیج بنگال میں اکثر پریشان کیے رکھا لیکن پھر بھی مغلوں نے بحری فوج کی طرف توجہ نہ دی۔[7]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. شیخ محمد اکرام: Muslim Rule in India and Pakistan، صفحہ 536۔ مطبوعہ کراچی، 1992ء
  2. سلطنت دہلی اور مغل نظم مملکت، صفحہ 301۔
  3. سلطنت دہلی اور مغل نظم مملکت، صفحہ 302۔
  4. اشتیاق حسین قریشی: سلطنتِ دہلی کا نظام حکومت، مترجم: ہلال احمد زبیری، صفحہ 152-153۔ مطبوعہ کراچی
  5. سلطنت دہلی اور مغل نظم مملکت، صفحہ 301۔
  6. سلطنت دہلی اور مغل نظم مملکت: صفحہ 302۔
  7. سلطنت دہلی اور مغل نظم مملکت: صفحہ 304۔