مندرجات کا رخ کریں

مفتی رضا الحق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مفتی رضا الحق
معلومات شخصیت
پیدائش 9 ستمبر 1950ء (75 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
جنوبی افریقا   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد مولانا شمس الہادی   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
شیخ اعزاز الحق شمس ،  مولانا ظہور الحق   ویکی ڈیٹا پر (P3373) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن
دار العلوم حقانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ محمد يوسف بنوری ،  ولی حسن ٹونکی ،  مولانا شمس الہادی ،  مفتی محمد فرید   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مفتی اعظم ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مفتی رضا الحق جنوبی افریقہ کے مفتی اعظم ہے۔ دار العلوم زکریا، جنوبی افریقہ کے صدر مفتی اور شیخ الحدیث ہے۔ وہ علامہ سید محمد یوسف بنوری اور پاکستان کے سابق مفتی اعظم ولی حسن ٹونکی کے شاگرد ہیں۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ، اس نے جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں دارالفتاء کی خدمات انجام دیں اور جنوبی افریقہ جانے سے پہلے کئی سال تک جامعہ العلوم الاسلامیہ میں کتب حدیث اور فقہ کی تعلیم بھی دی۔[1]

پیدائش

[ترمیم]

مفتی صاحب 9 ستمبر 1950ء کو ضلع صوابی کے گاؤں شاہ منصور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صاحب کا نام مولانا شمس الہادی رح تھا۔ آپ نے بنوری ٹاؤن کراچی اور جامعہ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے علمی تعلیم حاصل کی۔

اساتذہ کرام

[ترمیم]
  • والد محترم مولانا شمس الہادی رح
  • مولانا فضل الہی رح
  • مولانا محمد یوسف بنوری رح
  • مفتی ولی حسن خان ٹونکی رح
  • مفتی محمد فرید رح
  • شیخ امین ګل رح
  • مولانا سید بادشاه ګل بخاری رح
  • مولانا معاذ الرحمن رح
  • مولانا نصیر احمد خان رح
  • مولانا سرفراز خان صفدر رح
  • مفتی محمود حسن ګنګوهی رح

دو مختصر واقعات

[ترمیم]
  • 1۔ مفتی اعظم افریقہ شیخ الحدیث مولانا مفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم العالیہ

1980۔جب آپ بنوری ٹاؤن میں استاد الحدیث تھے۔ سن 1971 کی بات ہے۔ صوابی کی دیہات سے ایک نوجوان کراچی کی طرف عازم سفر ہوتے ہیں وہاں پر عظیم علمی درسگاہ بنوری ٹاؤن کی طرف چل پڑھتے ہیں اسی غرض سے کہ معلوم ہوا تھا کہ حضرت بنوری رحمہ اللہ نے تخصص شروع کیا ہے۔ وہاں اساتذہ مدرسے کی اصول کے مطابق امتحان لیتے ہیں وہ عربی زبان میں مذکورہ سوالات کے جوابات دینے لگتے ہیں بات حضرت بنوری رحمہ اللہ تک پہنچتی ہیں کہ حضرت ایک تو کم سن ہے دوسرا امتحان میں دئے گئے سوالات بھی کسی سے حل کروائے ہے(اساتذہ کا یقین نہیں ہوررہا تھا)ایک تو 20 (بیس سال) کا نوجوان دوسری بات تخصص میں داخلہ اور پھر عربی میں پرچہ حل کرواتے ہیں حضرت بنوری رحمہ اللہ اور جامعہ کے دیگر اساتذہ یہ بات اپنے سامنے رکھ مشورہ کرنے لگتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے۔ آخر کار یک طے پاتا ہے کہ پرچہ تبدیل کرکے اساتذہ اور حضرت بنوری رحمہ اللہ کے سامنے بیٹھ کر یہ کم عمر طالب علم پرچہ حل کرے گا۔بس بات ہوئی پرچہ بھی تبدیل طالب علم وقت کے امام شاہ ولی اللہ حضرت بنوری رحمہ اللہ کے سامنے بیٹھ کر پرچہ حل کرنے لگتے ہیں تھوڑی دیر بعد پرچہ استاذہ کے حوالے کردیاجاتا ہے۔مگر اس بار اساتذہ دیکھ کر یقین نہیں کرتے کہ پرچہ صرف عربی میں نہیں بلکہ جوابات عربی زبان میں شاعری میں دئے گئے ہیں یہ طالب علم جو جسم سے کمزور مگر حافظہ اور ذہانت دیکھ کر امام غزالی و امام بخاری رحمہم اللہ کی یاد تازہ کردیتی ہے۔حضرت بنوری رحمہ اللہ تو اتنے متاثر ہوئے کہ صرف یہ نہیں کہ تخصص میں داخلہ دیا بلکہ ساتھ یہ درخواست بھی کی آپ پڑھائی کے ساتھ ساتھ جامعہ میں درس و تدریس کے فرائض بھی انجام دیں گے پہلے تو نوجوان نے معذرت کرکے بتایا کہ میں چاہتا ہوں صرف پڑھائی کروں مگر حضرت بنوری رحمہ اللہ کے خواہش اور محبت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیا اور ساتھ ساتھ درس و تدریس بھی جاری رہا۔یہ نوجوان کوئی اور نہیں بلکہ صوابی کے معروف گاؤں شاہ منصور کے علمی گھرانے سے تعلق رکھنے والے اور محدث کبیر شیخ المشائخ قطب العالم مولانا شمس الہادی نوراللہ مرقدہ کے بڑے صاحبزادے مفتی اعظم افریقہ شیخ مفتی رضاءالحق صاحب حفظہ اللہ ورعاہ تھے۔ حضرت بنوری رحمہ اللہ جب درس سے فارغ ہوتے تھے تو جس راستے سے آپ گھر تشریف لے جاتے تھے اسی راستے میں حضرت مفتی صاحب دامت برکاتھم العالیہ کے کلاس ہوتا۔تو حضرت بنوری رحمہ اللہ مفتی صاحب کا درس سن کر تھوڑی دیر دیوار سے تکیہ لگاکر درس سنتے اور ساتھ ساتھ یہ کہتے کہ کاش میں اسی درس میں شامل ہوتا۔اکابر کی شفقت اور عقیدت تھی ساتھ میں مفتی صاحب دامت برکاتھم العالیہ کے عظیم الشان انداز تدریس کہ بڑے بڑے اکابر آپ کے درس سے متاثر ہوتے تھے۔ درس و تدریس کا زمانہ آگے چلتا تھا۔کچھ ہی سالوں میں مفتی صاحب دامت برکاتھم العالیہ کا نام کراچی بھر میں پھیلا۔بڑے بڑے اکابر اپنے مجالس اور مشوروں میں بلاتے تھے۔حضرت ٹونکی رحمہ اللہ کے ساتھ پاکستان کے نائب مفتی اعظم بھی مقرر ہوئے۔ سن 1986 کا سال چل رہا تھا۔افریقہ کے عظیم علمی درسگاہ اور دنیا کے دس ٹاپ یونیورسٹیز می سے ایک دار العلوم زکریا لینیشیا سے ایک وفد نے کراچی کا دورہ کیا۔اور یہ خواہش ظاہر کی کہ ہمارے جامعہ کو ایک مدرس کی ضرورت ہے اسی وقت بنوری ٹاؤن کا شمار پاکستان کے بڑے مدرسے ہوتا تھا اور الحمد للہ تاحال ہے۔جامعہ کے شوری نے مشورے پر مفتی صاحب دامت برکاتھم العالیہ کا نام پیش کیا مگر اسی شرط پر کہ جب بھی ہم کو مفتی صاحب کے ضرورت پیش آئی ہم آپ سے رابطہ کرینگے کیونکہ مفتی صاحب دامت برکاتھم العالیہ کا شمار جامعہ کے عظیم و قابل مدرسین میں ہوتا تھا۔ آخر کار مفتی صاحب نے مہتمم بنوری ٹاؤن مفتی احمد الرحمن صاحب رحمہ اللہ کی اجازت سے افریقہ کا رخ کیا اور وہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا تخصص کا نگران بھی منتخب ہوئے اور کچھ ہے سالوں میں آپ کا شمار براعظم افریقہ کے سب سے بڑے مفتی میں ہوتا تھا۔ مفتی صاحب درحقیقت ایک عظیم مدرس کے ساتھ ساتھ ایک عظیم مصنف محقق،مدقق شاعر اور ایک بڑے صوفی بزرگ بھی ہے۔آپ کا شمار دنیا کے چند ایسے شخصیات میں ہوتا ہیں جن کے متوسلین و تلامذہ دنیا کے کونے کونے میں موجود ہے آپ کے درجنوں کتب مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہے آپ کے دنیا بھر میں معروف کتاب آپ کے فتاوی ہے جو دار العلوم زکریا کے نام سے منسوب ہے ادرو انگریزی عربی سمیت کئی زبانوں میں ٹرانسلیٹ(translate) ہو چکی ہے۔آپ کے تلامذہ تو دنیا بھر میں لاکھوں میں ہے مگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کرے تو بہت بڑے بڑے علما مصنفین و معروف شخصیات نے آپ سے شفا تلمذ حاصل کیا۔جس میں____ شیخ الحدیث مفتی زرولی خان صاحب رحمہ شیخ الحدیث مفتی محمد نعیم صاحب رحمہ اللہ شیخ الحدیث مولانا غازی عبد الرشید صاحب رحمہ اللہ۔لال مسجد اسلام آباد شیخ الحدیث مولانا عبد الغفار صاحب حفظہ اللہ۔اسلام آباد ناظم تعلیمات جامعہ بنوری ٹاؤن مفتی امداد اللہ صاحب حفظہ اللہ مولانا مسعود اذھر صاحب حفظہ اللہ مفتی مضل محمد صاحب حفظہ اللہ۔بنوری ٹاؤن سمیت ہزاروں تلامذہ شامل ہیں۔ ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں بہت سے اساتذہ آپ کے شاگرد ہے۔ بنگلہ دیش سری لنکا، برونائی، مزمبیق، آسٹریلیا ،امریکہ، یورپ، میں کثیر تعداد میں آپ کے تلامذہ موجود ہے۔ اللہ کریم مفتی صاحب دامت برکاتھم العالیہ کو کامل صحت مع عمر دراز عطاء فرمائے اور حضرت کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے۔ آمین۔آپ جیسے شخصیت لاکھوں میں سے ایک ہوتا ہے۔

  • 2. مفتی صاحب نے خود فرمایا کہ (((میرا اک دوست تھا وہ آسٹریلیا میں تھا اس دوست نے کہا کہ مجھے جنید جمشید رح سے کسی جگہ ملاقات ہوئی جنید جمشید رح نے فرمایا کہ میں نے ایک خواب دیکھا تھا میں کھڑا تھا اور میرے سامنے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ مجھے نعت سناؤ تو میں نے "تمنا مدتوں سے ہے جمال مصطفیٰ دیکھوں" سنایا (جو مفتی صاحب نے لکھا ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نعت بار بار پڑھنا کیونکہ یہ نعت مجھے بہت پسند ہے، سبحان اللّہ)))

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Mufti Radha ul Haq"۔ wifaqululama.co.uk۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-05-15