مفتی محمد نعیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مفتی محمد نعیم
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1958ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 20 جون 2020ء (61–62 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی، پاکستان
وجہ وفات بندش قلب[1]  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد مولانا نعمان نعیم  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد 6
والد قاری عبد الحلیم  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن
جامعہ کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص مفتی عبدالوہاب  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم،  مفتی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مفتی محمد نعیم پاکستانی عالم دین تھے۔ مفتی محمد نعیم نے جامعہ بنوریہ کی مشترکہ بنیاد رکھی۔ وہ وفاق المدارس العربیہ، پاکستان کی مجلس شوریٰ اور عاملہ کے رکن تھے۔

خاندانی پس منظر[ترمیم]

محمد نعیم کے والد قاری عبد الحلیم جب چار برس کے تھے تو اپنے والد یعنی مفتی نعیم کے دادا کے ہمراہ پارسی سے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ ان کا تعلق بھارتی گجرات کے علاقے سورت سے تھا، تقسیم ہند سے قبل ہی پاکستان آ گئے تھے۔مفتی محمد نعیم اگست 1958 میں کراچی میں پیداہوئے۔ بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔

عصری و دینی تعلیم[ترمیم]

مفتی محمدنعیم نے کراچی بورڈسے میٹرک کی۔اس کے علاوہ جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی،آپ کے مقالے کا عنوان اسلام میں معذوروں اورمجبوروں کے مسائل وحقوق تھا۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل ہونے کیے باوجوداپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھوانا پسند نہیں کرتے تھے۔

ناظره و حفظ قرآن کریم کی تعلیم پنے والد قاری عبد الحلیمؒ اور جامعہ دار العلوم کراچی کی شاخ نانک واڑہ سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم جامعۃ العلوم الاسلامیه علامه بنوری ٹاؤن سے حاصل کی اور سنہ 1979ء میں فارغ التحصل ہوئے۔

دینی خدمات[ترمیم]

فراغت کے بعد 16 سال تک جامعہ بنوری ٹاؤن میں بطور استاد خدمات انجام دیں اور ان کا شمار جامعہ کے بہترین اساتذہ میں ہوتا تھا۔ سنہ 1979ء میں جامعہ بنوریہ عالمیہ کا قیام عمل میں لائے۔ اس میں 52 ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ جامعہ میں مجموعی طور پر تقریباً پانچ ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

تصنیفی خدمات[ترمیم]

مفتی محمد نعیم تصنیفی وتالیفی خدمات کے حوالے سے بھی معروف ہیں۔جب اہتمام کی مصروفیات اور امراض کی وجہ سے خود لکھنا مشکل ہو گیا تو اپنی نگرانی میں تالیفی وتصنیفی کاموں کا سلسلہ جاری رکھا۔اس عرصے میں ان کی نگرانی میں لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد درجنوں میں جبکہ اصلاحی کالموں،مضامین اور مقالات کی تعداد ہزاروں میں ہے۔یہ تمام کام ان کی نگرانی میں جامعہ بنوریہ عالمیہ کے شعبہ تصنیف و تحقیق سے کیے گئے۔ان کاموں میں ایک گراں قدر تفسیر روح القرآن بھی شامل ہے جس کی اب تک سات جلدیں چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں،جو 16سپاروں کی تفسیر پر مشتمل ہیں۔اس کے علاوہ جلد اول کا نظرثانی شدہ ایڈیشن بھی منظر عام پر آچکاہے۔تفسیرپرکام جاری ہے۔یہ کام مولاناغلام رسول کی سرپرستی میں ریسرچ اسکالرزکی ایک ٹیم کررہی ہے،جس میں حضرت مولانا محمد یوسف بنوری کے شاگرد مولاناحافظ محمدصادق،مولانا محمد وسیم میواتی ، جامعہ بنوریہ عالمیہ شعبہ تخصص فی التفسیر کے نگران مولاناڈاکٹرمحمد جہان یعقوب ،مولاناامان اللہ شاذلی نقشبندی،مولانامحمد داودخان، شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اس شعبے سے درج ذیل کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں:مسئلہ رویت ہلال۔زلزلہ۔نماز(سوالاجوابا)۔محمد الرسول اللہ۔میرے نبی۔150 اصلاحی کتابچے۔اوقات نماز کا دائمی نقشہ۔

علاوہ ازیں مفتی محمد نعیم کے درسی افادات پر مشتمل مقامات حریری کی شرح المواہب النعیمیہ کے نام سے ان کے شاگرد مولانا غلام رسول(ایڈمنسٹریٹرجامعہ بنوریہ عالمیہ)نے مرتب کرکے شائع کی ہے۔ان کے شرح جامی کے دروس کو کتابی شکل دینے کا کام ان کے ایک اور شاگرد مولانامحمد ارشد(ناظم جامعہ عثمانیہ احیاء العلوم سعیدآبادکراچی)کر رہے تھے،یہ کام ان کے اچانک انتقال کی وجہ سے پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔مفتی محمدنعیم کی ایماپر کئی کتب لکھی گئیں جن میں سے ایک کتاب فرق باطلہ اور صراط مستقیم کو فرق جدیدہ کے انسائیکلوپیڈیاکی حیثیت حاصل ہے۔یہ کتاب کئی مدارس میں نصابی کتاب کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔اسے بیت الاشاعت کراچی نے شائع کیاہے۔

صحافتی خدمات[ترمیم]

مفتی محمدنعیم ایک دینی رسالے البنوریہ اور مدارس دینیہ کے ترجمان اخبارالمدارس کے ایڈیٹر انچیف تھے۔

وہ پرنٹ والیکٹرانک میڈیاکے محاذپرمتحرک اوربیدارمغزشخصیات میں شمارہوتے تھے۔ان کے انٹرویوز،ٹاک شوز،اخباری بیانات کی وجہ سے عوام میں ان کی خاص شناخت تھی۔

مفتی محمدنعیم کااصلاحی کا لم ہر جمعے کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوتاتھا۔اس کے علاوہ اہم مواقع کی خصوصی اشاعتوں میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے رہے۔

مفتی محمدنعیم کی نگرانی میں متعدد اکابر وبزرگوں کی سوانح حیات پت مشرمل کتابیں شائع ہوئیں۔ان شخصیات میں حضرت جی مولانا انعام الحسن کاندهلوی، مولاناڈاکٹر نظام الدین شامزئی، حضرت مولانامفتی زین العابدین اور مفتی محمد نعیم کے ہردلعزیزاستادمولاناڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شهید شامل تھے۔

سماجی خدمات[ترمیم]

مفتی محمدنعیم ایک سماجی راہنمابھی تھے۔ کراچی بھر کے دکھی لوگ اورکاروباری افراد ان کے پاس مشورے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے آتے تھے۔انھوں نے غریبوں کی امداد کے لیے باقاعدہ بنوریہ ویلفیئرٹرسٹ کے نام سے رفاہی ادارہ بھی قائم کررکھاتھا۔ حالیہ لاک ڈاون میں بنوریہ ویلفیئرٹرسٹ کی طرف سے دو سو خاندانوں میں راشن تقسیم کیا گیا۔

وفات[ترمیم]

20 جون 2020ء کو نمازمغرکے بعدطبیعت خراب ہوئی۔ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دل کادورہ پڑااور انتقال کرگئے۔ ان کے جنازے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین لاکھ سے زائدافراد شریک ہوئے۔جنازہ مفتی محمد تقی عثمانی نے پڑھایا۔ان کی تدفین جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی کے قبرستان میں والد کے پہلو میں ہوئی۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://tribune.com.pk/story/2246856/1-renowned-religious-scholar-mufti-naeem-passes-away-karachi
  2. "جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی نعیم کو کراچی میں سپرد خاک کردیا گیا"۔ urdu.geo.tv