مقتدی حسن ازہری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مقتدی حسن ازہری
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 8 اگست 1939ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 18 اکتوبر 2009ء (70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ الازہر
علی گڑھ یونیورسٹی  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فلسفی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات

ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہریؒ : ایک ممتاز علمی شخصیت

"جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا"

وہ کوئی جسم نہیں، کوئی آواز نہیں، ایک احساس ہے جو زندہ و پائندہ ہے، نگہۂ شوق میں تابندہ ہے۔

ملت اسلامیہ ہند ہی نہیں بل کہ عالم اسلام کے ایک عظیم فرد ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری صاحب (1939 تا 2009) تھے۔ آپ عظیم دانشور، ممتاز مصنف و مولف اور مترجم، عربی اور اردو ادب کے بلند پایہ ادیب، کہنہ مشق انشائیہ پرداز، علم و عمل کے پیکر اور جامع الصفات انسان تھے۔ بچپن سے ہی وہ اسلامی ہندی تعلیم گاہوں سے وابستہ رہے اور پھر عالم اسلام کی عظیم درس گاہ جامعہ ازہر سے فارغ التحصیل بھی۔ ان دونوں کی تعلیم و تربیت اور پھر جدید ہند کی عظیم ترین گہوارۂ علم و ادب علی گڑھ مسلم یونی ور سٹی نے آپ کے فن و کمال کو جلا بخشی اور علم و فضل کے ساتھ ساتھ وسعت نظر اور صلابت بھی پیدا کردی۔

جنوں کی آگ میں برسوں لہو جلایا ہے

نشو و نما اور تعلیم[ترمیم]

آپ کی پیدائش مئو ناتھ بھنجن کے محلہ ڈومن پورہ (حبہ) میں 8 اگست 1939 کو ہوئی۔ یہ شہر بحیثیت دینی تعلیم ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کا گھرانہ دین دار گھرانوں میں سے تھا۔ نانا مولانا محمد نعمان مشہور عالم سید نذیر حسین دہلوی کے شاگرد رشید تھے۔ مسلم خاندان کے بچوں کی طرح اپنی تعلیم کا آغاز مدرسہ سے کیا اور قرآن کریم کے حفظ کے ساتھ ساتھ علوم اسلامیہ میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ مدرسوں کے ماحول سے مستفید ہو کر اور تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے 1963 میں مزید تعلیم و مطالعہ کے لیے عالم اسلام کی عظیم درس گاہ جامعہ ازہر پہنچے۔ مصر میں آپ نے اپنے قیمتی اوقات تعلیم و مطالعہ اور مصری اساتذہ سے بھر پور استفادہ میں گزارا اور عربی زبان و ادب اور علوم اسلامیہ میں بھر پور مہارت حاصل کی۔ قیام مصر کے دوران قاہرہ اردو ریڈیو سے بھی وابستہ رہے۔ 1966 میں جامعہ ازہر سے ایم۔ اے کرنے کے بعد کچھ عرصہ وہاں گزار کر وطن لوٹ آئے۔

مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ ( بنارس ) سے وابستگی[ترمیم]

مرکزی دار العلوم کی تعمیر و ترقی میں آپ کا کردار قائدانہ، عالمانہ اور مجددانہ تھا۔ دوسرے علما و بزرگوں اور معماروں کی عطایا و خدمات اور محنت و لگن سے انکار ہے اور نہ ہی ان کی کاوشوں کو صرف نظر کیا جا سکتا ہے، مگر آپ کی خدمات کا باب اس عظیم اسلامی درس گاہ جامعہ سلفیہ کا سب سے تاب ناک باب ہے۔ جامعہ سلفیہ آپ کی فکر و نظر، عمل و تحریر، تعلیم و تدریس، محبت و عقیدت اور تعمق نظر کا مرکز و محور تھا۔ یہ آپ ہی کی عطایا و خدمات کا صلہ ہے کہ ایک مقامی درس گاہ کو قومی سطح کا ادارہ بنایا اور پھر اسے عالم اسلام کا نمائندہ بنا دیا۔

علی گڑھ مسلم یونی ور سٹی (شعبۂ عربی) سے ایم۔ فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی[ترمیم]

ازہری صاحب نے جامعہ سلفیہ کے دوران ہی شہرۂ آفاق درس گاہ علی گڑھ مسلم یونی ور سٹی کے شعبۂ عربی سے پہلے ایم۔ فل کیا اور لطف یہ کہ 1971-72 میں یونی ور سٹی کے قواعد و ضوابط کی تکمیل کے لیے ہائی اسکول اور انٹر (انگلش) علی گڑھ سے ہی پاس کیا۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کے مقالہ سے پہلے ایم۔ فل کے لیے ایک رسالہ تالیف کیا جس کا نام 'منصور الفقہ: حیاتہ و شعرہ' ہے۔ ایم۔ فل کا یہ مقالہ رسالہ "مجلہ المجمع الہندی" (علی گڑھ 1977) میں شائع ہو چکا ہے۔ 'کتاب بہجتہ المجالس لابن البر (تحقیق نصف آخر مع فہارس کاملہ لکتاب من اولہ و آخرہ)'، یہ ازہری صاحب کے پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ تھا۔ علی گڑھ مسلم یونی ور سٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لفظ 'ڈاکٹر' آپ کے نام کا جزو لاینفک بن گیا۔ جب کہ اس سے پہلے آپ 'حافظ جی' کے نام سے مشہور تھے۔ ڈاکٹر مختار الدین آرزو ( صدر شعبۂ عربی، علی گڑھ) بڑے مردم شناس آدمی تھے۔ ازہری صاحب کی تعلیمی لیاقت و صلاحیت اور تعمق نظری کا انھیں اندازہ ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ازہری صاحب کا بھر پور تعاون کیا اور اپنے بعض مسودات کی نظر ثانی آپ سے ہی کروائی۔ وقتی طور پر لیکچرر شپ بھی دی اور بعد میں مستقل لیکچرر کی پوسٹ پیش کی۔ لیکن بعض وجوہات کی بنا پر ازہری صاحب حاضر نہ ہو سکے۔ جس کا اظہار خود پروفیسر مختارالدین آرزو نے اپنے ایک خط میں کیا ہے۔

"مقتدیٰ ! تم لیکچرر کے انٹرویو میں میرے نہایت اصرار کے بعد بھی نہیں آئے، لہٰذا اس پوسٹ پہ تمھارے بعد جس کا تقرر ہونا تھا، ہو گیا"۔

ازہری صاحب کے خلوص اور ملت شناسی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے مرکزی یونی ور سٹی کی اعلا ملازمت کو بالائے طاق رکھ کر ایک مدرسے میں تدریسی فریضہ کی ادائیگی کو ترجیح دیا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی ایسی بیش بہا قربانی تھی جس کی مثال شاذو نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ بہر حال ڈاکٹر مختار الدین آرزو نے ازہری صاحب کے ذریعے ہی "مجلہ المجمع العلمی الہندی" کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔ اردو کے مقالات کو عربی میں منتقل کرنے نیز اسے چھپوانے کی ساری ذمہ داریاں ڈاکٹر صاحب نے ہی اٹھائیں۔

علی گڑھ میں قیام کے دوران بہت سے لوگوں سے ازہری صاحب کے علمی و ادبی تعلقات رہے۔ مولانا تقی امینی صاحب کے تبحر علمی کی قائل اس وقت پوری یونی ور سٹی برادری تھی۔ لیکن ایسی لائق مرتبت شخصیت بھی ازہری صاحب کی قائل اور گرویدہ تھی۔ چناں چہ وہ اپنے پندرہ روزہ رسالہ "احتساب" میں ازہری صاحب کے تعارف میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

"یونی ور سٹی میں بڑے بڑے پروفیسر کو وہ مرتبہ و عزت اور مقام حاصل نہیں ہے جو مقتدیٰ حسن ازہری کو ایک دینی مدرسہ میں حاصل ہے"

چناں چہ مولانا تقی امینی صاحب سے علی گڑھ چھوڑ دینے کے بعد ازہری صاحب کا رشتہ اتنا مضبوط رہا کہ انھوں نے امینی صاحب کی کتابوں کو عربی قالب عطا کیا، اس طرح سے ایک ہندستانی مفکر اسلام کی فکر عرب ممالک تک جا پہنچی اور لوگ ان سے روشناس و فیض یاب بھی ہوئے۔

ڈاکٹر صاحب کی دینی، دعوتی، تعلیمی اور تصنیفی خدمات[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب کا شمار ان نامور شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے علم و ادب کے تقریباً ہر میدان میں کا رہائے نمایاں انجام دیے۔ عربی، اردو، فارسی اور علوم و فنون پر انھیں پوری دست رس حاصل تھی۔ ماہ نامہ "صوت الامہ" (عربی، جامعہ سلفیہ بنارس) 1969 میں آپ ہی کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا، جس کے اداریے وہ تا وفات لکھتے رہے اور جب جامعہ کا اردو رسالہ "محدث" شائع ہونا شروع ہوا تو ابتدا سے ہی آپ کی مشارکت رہی اور ہمیشہ مختلف موضوعات پر مضامین لکھتے رہے۔ عنفوان شباب سے ہی ازہری صاحب کو لکھنے، پڑھنے اور ترجمہ کا ذوق و شوق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مصر میں عربی زبان و ادب میں استعداد پیدا کرنے کے ساتھ مصر ریڈیو کے شعبۂ اردو میں خبروں کو اردو میں ترجمہ کرکے ریڈیو پر نشر کرنے کا کام کیا۔ جس سے آپ کی صلاحیتوں کو پختگی حاصل ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بہت سی کتابیں تالیف کیں نیز اردو سے عربی اور عربی سے اردو میں مفید کتابیں بھی منتقل کیں، فارسی سے بھی کئی مفید کتابیں عربی میں منتقل کیں۔ ذیل میں ڈاکٹر صاحب کے تصنیفی، تحقیقی اور تالیفی کارناموں کو پیش کیا جا رہا ہے۔

تحقیق و تعلیق[ترمیم]

1- بہجتہ المجالس تالیف ابن عبد البر اندلسی جزء ثانی، اس پر تحقیق و تخریج کا کام خود آپ نے ہی انجام دیا۔ یہ آپ کے پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ ہے۔

2- حصول المامون من علم الاصول، نواب صدیق حسن خاں قنوجی، تعلیق و تقدیم و تلخیص۔

3- فتح المنان بتسہیل کتاب الاتقان، اس میں مناہل العرفان وغیرہ سے بعض مفید مباحث کا اضافہ اور ضمیمہ میں کتب تفسیر کا تعارف شامل ہے۔

4- رحمۃ للعالمین اردو تالیف علامہ سید سلیمان منصور پوری، تعلیق و تحشیہ۔

تعریب[ترمیم]

1- حرکتہ الانطلاق الفکری و جہود الشاہ ولی اللہ فی التجدید، یہ کتاب مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ کی کتاب 'تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی' کا عربی ترجمہ ہے۔

2- مسئلہ حیاتہ النبی فی ضو ء الادلتہ الشرعیہ، یہ بھی مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ کی کتاب کا عربی ترجمہ ہے۔

3- زیارۃ القبور و حکمہا، تالیف مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ۔

4- حجیۃ الحدیث النبوی، یہ بھی مولانا محمد اسماعیل کا عربی ترجمہ ہے۔

5- رحمۃ للعالمین، تالیف علامہ سلیمان سلمان منصور پوری۔

6- الاکسیر فی اصول التفسیر، یہ کتاب نواب صدیق حسن خاں قنوجی کی فارسی تصنیف کا عربی ترجمہ ہے۔

7- قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین، یہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی فارسی تصنیف ہے۔

8- قضایا کتابۃ التاریخ الاسلامی و حلولہا، تالیف ڈاکٹر پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی۔

9- الاسلام تشکیل جدید للحضارۃ، تالیف مولانا محمد تقی امینی۔

10- بین الانسان الطبعی والانسان الصناعی، مولانا محمد تقی امینی۔

11- عصر الالحاد خلقیۃ التاریخیہ و بدایہ نہایتہ، مولانا محمد تقی امینی۔

12- النظام الالہی لترقی والانحطاط، مولانا محمد تقی امینی۔

13- النصرانیۃ الحاضرۃ فی ضوء التاریخ والبحث العلمی،تالیف ڈاکٹر مصلح الدین اعظمی۔

14- الشیوعیۃ والاسلام فی میزان العقل،تالیف ڈاکٹر مصلح الدین اعظمی۔

15- تاریخ المجاہدین،یہ مولانا غلام رسول مہر کی کتاب " سر گذشت مجاہدین" کا عربی ترجمہ ہے۔

عربی سے اردو ترجمہ[ترمیم]

1- آپ بیتی، عباس محمود عقاد کی خود نوشت سوانح " انا " کا ترجمہ ہے۔

2- راہ حق کے تقاضے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب "اقتضا ء الصراط المستقیم" کی تلخیص ڈاکٹر عبد الرحمان پریوائی نے کی ہے، اسی تلخیص کا یہ سلیس ترجمہ ہے۔

3- مختصر زادالمعاد فی ہدیٰ خیر العباد، تالیف شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب نجدی۔

4- اصلاح المساجد من البدع العوائد، شام کے مشہور سلفی عالم علامہ شیخ محمد جمال الدین کی معرکہ آرا تصنیف کا ترجمہ ہے۔

5- عظمت رفتہ، ڈاکٹر عبد العلیم عویس، مصری کی کتاب "سقوط ثلاثین دولۃ" کا ترجمہ ہے۔

6- رسالت کے سائے میں، یہ کتاب بھی عبد العلیم عویس مصری کی کتاب "فی ضلال الرسولﷺ" کا ترجمہ ہے۔

7- خادم حرمین شریفین شاہ فہد بن عبد العزیز اور ان کے ولی عہد کے حقیقت افروز بیانات۔

8- اعضا کی پیوند کاری اسلامی شریعت میں، تالیف جماعۃ من العلما۔

9- امیت کا شرعی و لغوی مفہوم، یہ کتاب شیخ عبد الرحمان عقیل الظاہری کی کتاب "اللغۃ العربیہ بین القاعدۃ المثال" کے ایک حصہ کا اردو ترجمہ ہے ۔

اردو سے عربی میں ترجمہ[ترمیم]

1- رحمۃ اللعالمین، تالیف علامہ سلیمان سلمان منصور پوری

2- حرکۃ الالنطلاق الفکری و جہود الشاہ ولی اللہ الدہلوی فی التجدید (مقالات محمد اسماعیل سلفی)۔

3- الاسلام تشکیل جدید للحضارۃ، تالیف مولانا محمد تقی امینی۔

4- عصر الالحاد: خلقیۃ التاریخیہ و بدایہ و نہایہ، تالیف مولانا محمد تقی امینی۔

5- النظام الالہی لترقی والانحطاط، مولانا محمد تقی امینی۔

6- بین الانسان الطبعی والانسان الصناعی، مولانا محمد تقی امینی۔

7- مسئلہ حیاتہ النبی فی ضو ء الادلتہ الشرعیہ، تالیف مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ۔

8- حجیۃ الحدیث الشریف، تالیف مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ۔

9- زیارۃ القبور و حکمہا، تالیف مولانا محمد اسماعیل گوجرانوالہ۔

10- النصرانیۃ الحاضرۃ فی ضوء التاریخ والبحث العلمی،تالیف ڈاکٹر مصلح الدین اعظمی۔

11- الشیوعیۃ والاسلام فی میزان العقل، تالیف ڈاکٹر مصلح الدین اعظمی۔

فارسی سے عربی میں ترجمہ[ترمیم]

1- قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین، تالیف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔

2- الاکسیر فی اصول التفسیر، تالیف نواب صدیق حسن خاں بھوپالی۔

٭ اردو مولفات:

1- تاریخ ادب عربی (یہ کتاب پانچ جلدوں پر مشتمل ہے)۔

2- خاتون اسلام۔

3- مسلمان اوراسلامی ثقافت۔

4- دور حاظر میں مسلم نوجوانوں کی ذمہ داری۔

5- عصر حاظر میں مسلمانوں کو سائنس و ٹکنالوجی کی ضرورت۔

6- تحریک اہل حدیث: مفہوم اور تقاضے (یہ ایک مقالہ ہے جسے کتابی شکل دے دی گئی ہے)۔

7- روزہ اور عید الفطر تربیتی نقطۂ نظر سے ۔

8- قرآن مجید میں تدبر ایک دینی فریضہ۔

9- معاصر تحریروں اور تاریخ کی روشنی میں بابری مسجد کا سانحہ۔

10- ہم کیا پڑھیں؟

11- شاہ عبد العزیز آل سعود اور حکومت توحید۔

12- اسلامی تعلیمات سے متعلق انصاف پسند غیر مسلموں کے تاثرات۔

13- اسلام اور انسانی سماج (ہندی)۔

عربی مولفات[ترمیم]

1- نظرۃ الیٰ مواقف المسلمین من احداث الخلیخ۔

2- منصور الفقیہ حیاتہ و شعرہ۔

3- مشکلۃ المسجد البابری فی ضوء التاریخ و الکتابات المعاصرۃ۔

4- حقیقۃ الادب وظیفتہ۔

5- قراَۃ فی کتاب الحالۃ الخلقیۃ للعالم الاسلامی من تالیف الاستاذ اسرار عالم۔

6- القادنیہ۔

مناصب[ترمیم]

ڈاکٹر صاحب اپنی تعلیمی صلاحیت و لیاقت اور دور اندیشی کی وجہ سے بہت سی علمی مجلسوں اور متعدد ادبی و ثقافتی اداروں کے رکن بھی رہے۔ تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

1- مجلس منتظمہ و مشاورتی کمیٹی ،مسلم یونی ور سٹی علی گڑھ۔

2- مسلم پرسنل لابورڈ ہند۔

3- رابطہ ادب اسلامی ہند۔

4- دینی تعلیمی کونسل۔

5- جمعیۃ المثقفین للتوعیہ الاسلامیۃ۔

6- تعلیمی بورڈ، جامعہ محمدیہ منصورہ، مالیگاؤں۔

7- رابطہ عالم اسلامی میں مساجد کے لیے اسلامی عالمی کمیٹی۔

8- ادارہ اصلاح المساجد ممبئی۔

9- مجلس شوریٰ و مجلس عاملہ مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند۔

10- ڈائرکٹر، ادارۃ للبحوث الاسلامیہ جامعہ سلفیہ بنارس۔

11- وکیل الجامعہ، جامعہ سلفیہ بنارس۔

12- چیف اڈیٹر ،مجلہ صوت الامۃ (عربی)۔

13- صدر مجلس منتظمہ، جامعہ سلفیہ بنارس۔

14- مجلس مشاورت، سہ ماہی مجلہ افکار عالیہ، مئو۔

اعزاز[ترمیم]

عربی زبان و ادب پر مہارت و قدرت اور مکمل عبور کی وجہ سے ازہری صاحب کو 1992 میں حکومت ہند کی طرف سے عربی زبان و ادب میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں "صدر جمہوریہ ایوارڈ" سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند جناب شنکر دیال شرما کے ہاتھوں عطا کیا گیا۔ اس کے علاوہ 2002 میں دین اسلام اور اسلامى علوم کی خدمات کے صلہ میں "فریوائی ایوارڈ" سے بھی نوازا گیا۔

مرض و وفات[ترمیم]

ازہری صاحب 18 اکتوبر 2009 علاج كى غرض سے دہلی لائے گئے۔ انھیں جسم کے بائیں جانب اوپر کے حصے میں تکلیف کی شکایت تھی۔ جس کی وجہ سے انھیں چلنے پھرنے اور سونے میں بھی پریشانی تھی۔ دہلی کے بترا اسپتال میں انھیں داخل کیا گیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے مختلف قسم کی جانچ کے بعد بیماری کی زیادتی کی وجہ سے گھر لے جانے کا مشورہ دیا۔ آپ اپنے مادر وطن (مئو) کے لیے روانہ ہوئے اور راستے میں ہی وقت موعود آپہنچا اور 30 اکتوبر 2009 بروز جمعہ کان پور کے قریب علم و ادب کا یہ چراغ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی !

اللہ رب العزت آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کی خدمات کو قبول کرکے اعلا علیین میں جگہ دے، آمین۔

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہ بانی کرے

حوالہ جات[ترمیم]