مندرجات کا رخ کریں

مقدسہ ہیلینا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مقدسہ ہیلینا
(یونانی میں: Φλαβία Ιουλία Ελένη ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 250ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 18 اگست 330ء (79–80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قسطنطنیہ ،  نیکومیڈیا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن ویٹیکن عجائب گھر ،  لیتران   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت قدیم روم   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات قسطنطینوس کلوروس   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد قسطنطین اعظم [2][1]  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان قسطنطینی شاہی سلسلہ   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہیلینا

مقدسہ ہیلینا رومی بادشاہ قسطنطینِ اعظم کی والدہ تھیں اور ایک مقدسہ (مسیحی ولیہ) کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ [3][4][5][6]

ملکہ ہیلینا کی زندگی، ایمان اور صلیبِ مقدس کی تلاش

[ترمیم]

ہیلینا (تقریباً 250–327ء) رومی شہنشاہ قسطنطین اعظم کی والدہ اور مسیحی تاریخ کی ایک جانی پہچانی مقدس شخصیت تھیں۔ وہ شہر الرُّہا میں ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئیں اور مسیحی تعلیم و تربیت میں پرورش پائی۔ ان کی خوبصورتی اور نیک سیرتی نے قسطنطینوس ، بادشاہِ بیزنطیہ، کو متاثر کیا، جس نے ان سے شادی کی اور ان کے بطن سے قسطنطین پیدا ہوا۔

ہیلینا نے اپنے بیٹے کی پرورش بڑی حکمت اور دینی جذبے سے کی۔ جب قسطنطین کو بادشاہت ملی تو اُس نے اپنی والدہ کو سلطنت میں اعلیٰ مقام دیا۔ ملکہ ہیلینا نے مسیحیت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا اور ان کے ذریعے بیت اللحم، یروشلم اور دیگر مقامات پر کئی گرجا گھر تعمیر کیے گئے۔ روایت کے مطابق، ایک خواب میں ہیلینا کو حکم ملا کہ وہ یروشلم جا کر "صلیبِ مقدس" کی تلاش کریں۔ انھوں نے تحقیق کے بعد تین صلیبیں دریافت کیں اور معجزانہ طور پر اصل صلیب کی شناخت کی، جب ایک مردہ شخص اس صلیب کے چھونے سے زندہ ہو گیا۔ بعد ازاں، اس صلیب اور اس میں ٹھوکے گئے کیل وہ روم لے گئیں، جہاں قسطنطین نے ان کو نہایت تعظیم کے ساتھ محفوظ کیا۔

ملکہ ہیلینا نے فلاحی کاموں، گرجا گھروں کی تعمیر اور فقراء کی امداد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ 327ء میں تقریباً 80 برس کی عمر میں وفات پا گئیں اور آج بھی مسیحی دنیا میں نہایت احترام سے یاد کی جاتی ہیں۔[7]

قسطنطین بادشاہِ پارسا

[ترمیم]

قسطنطین اعظم (272–337ء) رومی سلطنت کا پہلا مسیحی بادشاہ تھا جس نے مسیحیت کو ریاستی مذہب بنایا۔ اس نے بت پرستی ختم کی، اتوار کو مذہبی دن قرار دیا، گرجا گھر بنوائے اور کلیسائی مسائل میں مداخلت کی۔ 325ء میں پہلا "مجمع نقیہ" اسی کے حکم سے منعقد ہوا۔ اگرچہ بپتسمہ زندگی کے آخری لمحے میں لیا، مگر مسیحی دنیا میں اسے نجات دہندہ حکمران مانا جاتا ہے۔[8]

ابتدائی زندگی

[ترمیم]

قسطنطین کا والد قسطنطیوس اول اور والدہ ہیلینا تھیں۔ والد رومی سلطنت کے ایک حصے، بیزنطیہ کے بادشاہ تھے، جبکہ ہیلینا مسیحی خاتون تھیں۔ قسطنطیوس نے الرُّہٰ (Edessa) میں ہیلینا سے شادی کی، مگر بعد میں اُسے وہیں چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ قسطنطین وہیں پیدا ہوا اور اپنی ماں کے زیر تربیت پرورش پائی، جس نے اُسے اخلاق، رحم دلی اور مسیحیوں سے ہمدردی کا درس دیا، مگر اپنے مذہب کا اظہار نہ کیا۔ قسطنطین جوان ہو کر ایک قابل سپاہی اور دانشمند انسان بنا اور اپنے باپ کے ساتھ سلطنت میں شریک کیا گیا۔

سلطنت کی وسعت

[ترمیم]

یوسابیس قیصری قسطنطین کی عظیم فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اس کی سلطنت اس وقت کی معلوم دنیا کے کناروں تک پھیل گئی۔ مغرب میں وہ برطانیہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں تک پہنچا، شمال میں اس نے وحشی اور بے شمار قبائل پر مشتمل سکیتیوں کی سلطنت کو زیر کیا، جنوب میں اس کی فتوحات ایتھوپیا اور بلیمیوں تک پھیل گئیں اور مشرق میں وہ ہندوستان اور اس کے نواح تک جا پہنچا۔ ہر جگہ لوگ خوشی اور فخر کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرتے تھے۔

قسطنطینوس: قسطنطینِ اعظم کا نیک سیرت والد

[ترمیم]

یوسابیس قیصری کے مطابق قسطنطینِ اعظم کی سیرت کا ذکر والد قسطنطینوس دوم کے بغیر ناممکن ہے، جو روم کی چہار امپراطوری کے ایک حصہ دار تھے۔ دیگر تین حکمران—دیقلدیانوس، مکسیمیانوس اور گالیریوس—جب مسیحیوں پر ظلم کر رہے تھے، قسطنطیوس نے ان کے نقشِ قدم پر چلنے سے انکار کیا، حالانکہ وہ خود مسیحی نہیں تھے۔
یوسابیس نے ان کی سیرت کے دو خاص واقعات درج کیے:
1. جب ایک امپراطور (شاید مکسیمیانوس) نے قسطنطیوس کو نرمی، تقویٰ اور رعایا سے ہمدردی پر ملامت کی اور کہا کہ اس کی نرمی سے خزانہ خالی ہو چکا ہے، تو قسطنطیوس نے اپنے تمام امرا سے مال طلب کیا۔ سب نے سخاوت سے مال دیا، حتیٰ کہ بادشاہ کے سفیر حیران رہ گئے۔ بعد ازاں قسطنطیوس نے وہ تمام مال لوٹا دیا اور ان کے اخلاص کا شکریہ ادا کیا۔
2. دوسرے واقعے میں اس نے اپنے درباریوں کو چُناؤ کا اختیار دیا: یا تو بتوں کے لیے قربانی دیں یا دربار چھوڑ دیں۔ کچھ نے قربانی قبول کی، کچھ نے انکار کیا۔ قسطنطیوس نے انکار کرنے والوں کو ترجیح دی، کہا کہ جو اللہ سے وفادار ہے، وہ بادشاہ کا بھی وفادار ہو گا اور جو خدا سے غداری کرے، اس پر کیا بھروسا؟ اس وفاداری کا صلہ یہ پایا کہ وہ تمام امپراطوروں پر غالب آ گیا، خوشگوار بڑھاپے تک زندہ رہا اور سلطنت اپنے بیٹے قسطنطین کے سپرد کی۔

قسطنطین جوانی میں — ذہانت، طاقت اور عزیمت کا پیکر

[ترمیم]

اپنے شباب میں قسطنطین نے دائیوکلیشن اور گالیریوس کے ساتھ کئی فوجی مہمات میں شرکت کی۔ وہ اپنی نسل کے نوجوانوں میں غیر معمولی ذہانت، حکمت اور جسمانی قوت کی بنا پر ممتاز تھا۔ اسے علم سے محبت تھی اور اس میں ایک فطری وقار و قیادت کے آثار نمایاں تھے۔ اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہو کر دیقلدیانوس نے اس پر اخلاقی الزامات لگائے تاکہ اسے راستے سے ہٹا سکے، مگر قسطنطین موقع پا کر فرار ہو گیا اور اپنے والد قسطنطینوس کے پاس جا پہنچا۔ والد موت کے قریب تھے، لیکن بیٹے کی غیر متوقع آمد پر خوشی سے اٹھ کھڑے ہوئے، اسے گلے لگایا اور سلطنت اس کے سپرد کر کے اپنی جان جانِ آفرین کے حوالے کر دی۔

ظہورِ صلیبِ مقدس

[ترمیم]
ہیلینا

قسطنطین نے والد کی وفات کے بعد سلطنت سنبھالی، عدل و انصاف کو رائج کیا اور ظلم کا خاتمہ کیا، یہاں تک کہ تمام اقوام اس کے تابع ہو گئیں اور اسے محبوب بادشاہ ماننے لگیں۔ جب رومی اشرافیہ نے مکسیمیانوس کے ظلم سے نجات کی درخواست کی تو قسطنطین اپنی فوج کے ساتھ روانہ ہوا۔ اسی مہم کے دوران دوپہر کے وقت آسمان پر ایک روشن صلیب ظاہر ہوئی ، جس پر یونانی زبان میں لکھا تھا: "بهذا تغلب" یعنی "اسی کے ذریعے تو غالب آئے گا"۔ اس کا نور سورج سے بھی زیادہ چمکدار تھا۔ قسطنطین نے یہ منظر اپنے درباریوں کو دکھایا، سب نے لکھا ہوا پڑھا لیکن اس کے مفہوم کو نہ سمجھ سکے۔

رات کو اسے خواب میں ایک فرشتہ نظر آیا جس نے کہا: "اس علامت کی مانند ایک نشان بنا، اسی کے ذریعے اپنے دشمنوں پر فتح پائے گا"۔ صبح ہوتے ہی قسطنطین نے ایک عظیم عَلَم تیار کروایا، جس پر صلیب کی وہی علامت بنائی اور اسے اپنی فوج کے تمام ہتھیاروں پر بھی کندہ کروایا۔ پھر ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی، جس میں مکسیمیانوس شکست کھا کر دریائے تیبر کا پل پار کرتے ہوئے گر کر مارا گیا اور اس کے ساتھ زیادہ تر فوج بھی ہلاک ہوئی۔ قسطنطین فاتح بن کر روم میں داخل ہوا، جہاں عوام نے صلیب کو اپنی نجات کا سبب مانتے ہوئے خوشی منائی اور سات دن تک جشن منایا۔ اسی وقت سے قسطنطین مشرق و مغرب کا واحد فرمانروا بن گیا۔[9] [10]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب عنوان : Елена святая
  2. عنوان : Константин Великий
  3. سانچہ:مرجع معجمي
  4. Marc Dubin (2009)۔ The Rough Guide To Cyprus۔ Rough Guide۔ ص 135–136
  5. full text آرکائیو شدہ 2016-08-10 بذریعہ وے بیک مشین
  6. "Colchester Town Hall:: OS grid TL9925 :: Geograph Britain and Ireland – photograph every grid square!"۔ Geograph.org.uk۔ 17 يونيو 2018 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-03-26 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |آرکائیو تاریخ= (معاونت)
  7. Eusebius, Church History, Life of Constantine, Oration in Praise of Constantine. From Philip Schaff, Nicene and Post-Nicene Fathers آرکائیو شدہ 2023-04-03 بذریعہ وے بیک مشین
  8. Marc Dubin (2009)۔ The Rough Guide To Cyprus۔ Rough Guide۔ ص 135–136۔ ISBN:9781858289939
  9. "May 21: Feast of the Holy Great Sovereigns Constantine and Helen, Equal to the Apostles"۔ Greek Orthodox Archdiocese of America۔ 7 نومبر 2007 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مارچ 2008
  10. "ЕЛЕНА РАВНОАПОСТОЛЬНАЯ – Древо". drevo-info.ru (بزبان روسی). Retrieved 2022-07-08.