ملتان کی لڑائی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ملتان کی لڑائی
سلسلہ افغان سکھ جنگیں
مقامملتان سے قلعہ ملتان
30°11′54″N 71°28′13″E / 30.198247°N 71.470311°E / 30.198247; 71.470311
نتیجہ فیصلہ کن سکھ فتح
مُحارِب
سکھ سلطنت درانی بادشاہی
کمان دار اور رہنما
کھڑک سنگھ[nb 1]
دیوان مول راج
ہری سنگھ نلوہ
نواب مظفر خان سجودائی

ملتان کی لڑائی درانی سلطنت کے وزیر اورسکھ سلطنت کے مابین ہوئی تھی۔

پس منظر[ترمیم]

ستمبر، 1844 میں اپنے باپ کی  موت کے  بعد، دیوان مول راج کو ملتان کا گورنر بنایا گیا تھا۔ 1846 میں انگریزوں کے لاہور دربار پر قبضے کے بعد، لال سنگھ کی سازشوں کے سبب، اس کا معاملہ 25% بڑھا دیا گیا تھا۔ اس نے بنا کسی شکایت کے اس کو منظور کر لیا۔ یہ بات 29 اکتوبر، 1846 کی ہے۔ لال سنگھ نے یہیں بس نہیں کی ۔ اب اس نے مول راج کے کئی حقوق چھین لیے پر اس کا اجارہ نہ گھٹایا۔ مول راج ک عدالتی طاقتیں بھی گھٹا دی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ معاملہ نہ دینے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتا تھا۔ بالآخر، تنگ آ کر اس نے دسمبر، 1847 میں استعفٰی دے دیا۔ ریزیڈینٹ نے اس کا استعفٰی منظور کر لیا اور نئے صوبیدار کے آؤن تک کام جاری رکھنے اورمارچ، 1848 تک ملتان مین ہی رکنے کے لیے کہہ دیا۔ اب فریڈرک کری لاہور میں نیا ریزیڈینٹ بن کے آ گیا تھا۔ اس نے کاہن سنگھ مان کو ملتان کا نیا صوبیدار مقرر کر دیا اور وینس ایگنیو کو اس کا سیاسی صلاح کار اور لیفٹینینٹ ایاڈرسن کو اس کا اسسٹینٹ بنا دیا | 19 اپریل، 1848 کے دن کاہن سنگھ مان ملتان پہنچا۔ دیوان مولراج نے صوبیداری کا چارج اس کے حوالے کر دیا۔

 چارج لینے کے بعد جب کاہن سنگھ اور  دونوں انگریز باہر نکل رہے تھے ایک فوجی افسر گودڑ سنگھ مذہبی نے ایاڈرسن اور ایگنیو پر حملہ کر کے ان دونوں کو  قتل کر دیا۔ اور یہ حادثہ کوئی وقتی غصہ یا اچانک سانحہ نہیں تھا۔ سکھ فوجوں میں انگریزوں کی طرف سے  پنجابپر قبضہ، رانی جنداں کی بے عزتی اور قید، سکھ جرنیلوں اور افسروں کے اختیارات  چھیننا، غداروں کو عہدے اور پزیرائی بخشنا جیسی  خبریں پہنچتی رہتی تھین اور وہ اندر ہی اندر غصے میں بھرے بیٹھے تھے ۔ دیوان مول راج کی جگہ کاہن سنگھ مان،اور وہ بھی دو دو انگریز افسروں کی نگرانی میں، لایا جانا اس وقتی ایکشن کی وجہ بنا۔

جب دو انگریز افسروں کے مرنے کی خبر فریڈرک کری ریزیڈینٹ کے پاس پہنچی تو اس نے پہلے تو فوجوں کو ملتان جانے کا حکم دیا مگر بعد میں ارادہ بدل دیا ۔ اور اس کو سکھوں کے سر تھوپنے کی ترکیب ڈھونڈنی شروع کر دی۔یہ سوچ کے اس نے ہربرٹ ایڈورڈزکو خط بھیج کے کہا کہ وہ کاہن سنگھ مان سے کہے کہ وہ دیوان مول راج کو ہی صوبیدار رہنے دے۔ مئی، 1848 میں ریزیڈینٹ نے ایڈورڈز کو فوج لے کے ملتان جانے کے واسطے کہہ دیا۔ اس وقت تک (ہیرا سنگھ ڈوگرا کی طرف سے 1845 میں شہید کیے گئے بابا بیر سنگھ نورنگ آباد کے وارث) بھائی مہاراج سنگھ وی ملتان پہنچ چکے تھے۔ انھوں نے وہاں پہنچ کر سکھ فوجوں کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔

جب مول راج کو ایڈورڈز کے آنے کا  پتہ لگا تو اس نے امن سمجھوتے کی پیش کش کی۔ ایڈورڈز نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور ملتان پر حملہ کر دیا۔ پہلے تو چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں پر 18 جون، 1848 کو ایک بڑی لڑائی ہوئی جس میں ایڈورڈزکوفتح  حاصل ہوئی۔ آخری لڑائی یکم جولائی کے دن ہوئی جس میں دیوان مول راج کا ہاتھی مارا گیااوراس کے ساتھ  ہی اس کی موت کی افواہ بھی پھیل گئی۔ اس کی وجہ سے اس کے ساتھیوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ اس نے اپنے آپ کو قلعے میں بند کر لیا۔ انگریزی فوجوں نے قلعے کو ساری اطراف سے گھیر لیا۔ یہ محاصرہ چار ہفتے جاری رہا۔ دیوان مول راج، کابل سے امیر دوست محمد خان دی مدد کی آس بھی رکھ رہا تھا۔ پر نہ تو کابل سے اورنہ  ہی اٹاری والوں سے کوئی مدد پہنچ سکی۔ 17 دسمبر، 1848 کو انگریز فوجوں نے قلعے پر ایک زبردست حملہ کیا اور اندر داخل ہو گئیں۔ آخر کار  مول راج نے ہتھیار پھینک دئے۔ دیوان مول راج پرقتل، جنگ کرنے اور غداری کا مقدمہ چلا کے اس کو موت کی سزا سنائی گئی (جو گورنر جنرل نے عمر قید میں بدل دی)۔ جنوری، 1850 تک اسکولاہور قلعہ میں رکھ کے بعد میں فورٹ ولیئمز (کلکتہ) بھیج دیا گیا۔ پر خراب صحتَ کی بنا پر  اس کو بنارس لے آیا گیا اور کھانے میں ہلکی زہر دے کے اس کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔ آخر، 11 اگست، 1851 کے دن، 36 سال کی عمرمیں وہ چڑھائی کر گیا۔ دیوان مول راج  کے بارے لارڈ ڈلہوزی کا خیال تھا کہ مول راج کے پاس  بغاوت کی قیادت کرنے کے واسطے نہ تو ہمت تھی نہ ہی خواہش۔ یہ تو ایڈوارڈیز کی زیادتیاں تھیں جس نے سکھوں کے قومی جذبات اس کے حق میں کر دیے تھے۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Chopra 1928, p. 17
  2. , https://pnb.wikipedia.org/wiki/ملتان_دی_لڑائیملتان[مردہ ربط] دی لڑائی