ملک بٹین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

میلہ ملک بٹین گڈھی مانکپورپرتاپگڈھ تاریخ کے اوراق میں

ہرسال ماہ اگہن کے آغازپرپہلے جمعرات سے لگاتارتیسرے جمعرات تک ملک بٹین میں ایک بڑامیلہ منعقدہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اتنا بڑا میلہ راتوں رات سمیٹ لیا جاتا ہے۔ اس سال بھی یہ میلہ ماہ اگہن کی پہلی جمعرات سے منعقد ہونے والا ہے۔ آج سے تقریباً 978سال قبل 1034ء ؁ میں مانکپورکے اسی میدان بٹین میں ایک خوریزجنگ لڑی گئی تھی۔ یہ جنگ مانکپورکے زمینداروں اورعلوی فاتح لشکر کے درمیان لڑی گئی تھی۔ علوی افواج کے کمانڈر کی موت پریہ جنگ ختم ہوئی۔ اس جنگ کے اختتام کے بعدیہاں ایک تاریخی واقعہ پیش آیا۔ اس تاریخی واقعہ نے اہل مانکپوراوراطراف کے باشندوں اوران لوگوں پربھی جنھوں نے علویوں سے جنگ کی تھی نہایت پراثر اورگہرا نشان چھوڑا۔ ایک ایسا نشان جو یہاں کی عوام کے دلوں میں اترگیا۔ اتنا عرصہ گذر جانے پر بھی مانکپوراورقرب وجوارکی عوام نے انھیں یادرکھا ہے۔ یہ علوی کون تھے؟یہ کہاں سے آئے تھے؟یہ یہاں کیوں آئے تھے؟آئیے آج ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

سیدقطب حیدرعلوی شہیدؒ حکمران ریاست بلخ موجودہ مزارشریف افغانستان

ہم سبھی سلطان محمود غزنوی بن سبکتگین کے بارے میں خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اوریہ بھی جانتے ہیں کہ اس نے سترہ بارہندوستان پرحملہ کیا۔ اسی وجہ سے اسے بہت شہرت ملی۔ اس کا لقبیمین الدولہ اورکنیت ابوقاسم تھی۔ اس کے دورحکومت میں بلخ (موجودہ دورمیں افغانستان کا شہرمزارشریف)کے گورنرحضرت ملک قطب حیدرتھے۔ ملک قطب حیدر علوی حضرت سیدسالارمحمودغازی المعروف بہ سالارساہوؒ والدماجدسیدسالارمسعودغازیؒ المعروف غازی میاںؒ کے چچازادبھائی تھے۔ یہ سلطنت کڑا مانکپورکے سب سے پہلے مسلم فاتح وحکمران ہیں۔ ان کا صحیح نام قطب حیدر ہے۔ قطب غازی، ملک غازی،سالارغازی،ملک حیدر،قطب شاہ وغیرہ ان کے القاب ہیں۔ ان کی ولادت 358ھ ؁ میں افغانستان کے مشہورشہرہرات میں ہوئی۔ آپ کا نسب کتب تاریخ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت سالارغازی ملک سید قطب حیدربن غازی سید نوراللہ بن غازی سید طاہربن غازی سید طیب بن غازی سید محمد بن غازی سید عمربن غازی سید آصف بن غازی سید بطل(بطال)بن غازی سید عبد المنان بن سیدنا محمد(ابن الحنفیہ) بن امیر المومنین حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہ۔حضرت علی کرم اللہ وجہ کی غیر فاطمی اولادخودکوعلوی یااعوان کہتی ہے۔ اسی لیے انھیں علوی کہا گیا۔

ہندوستان آمداوراس کی وجہ

ملک قطب حیدر 1030ء ؁ میں سلطان محمودغزنوی کے انتقال تک شہربلخ کے حکمران تھے۔ سلطان محمودغزنوی کے بعدکچھ دن جلال الدولہ محمدبن محمودغزنی کا بادشاہ ہوا۔ اسی سال سلطان کا دوسرابیٹاشہاب الدولہ مسعودبن محمود تخت نشین ہوا۔ کہتے ہیں کہ خاندان علوی کے مخالفین نے سلطان مسعود کے دورمیں ایک بارپھرطاقت پائی۔ اس نے خواجہ حسن میمندی کوقید سے آزاد کرکے دوبارہ وزیربنا لیا۔ اسے سلطان محمودغزنوی نے قیدکر دیا تھا۔ اوراسی کی سازش پر سلطان مسعود نیملک قطب حیدر کو بلخ سے معزول کرکے اپنے پاس حاضرہونے کا حکم دیاتھا۔ تاریخ بیہقی کی ایک تحریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سلطان مسعودغزنوی نے اپنے اقتدارکومضبوط کرنے کے لیے ان سے مدد کاخواہاں تھا جب کہ اسے یقین تھا کہ وہ اس میں غیر جانبداررہنا پسند کریں گے۔ بہرحال سلطان مسعودغزنوی نے انھیں دار السلطنت حاضرہونے کافرمان بھیجا توانہوں نے اسے خارج کیا اورہندوستان کی جانب چل پڑے۔ اس وقت ہندوستان میں ان کے چچا زادبھائی حضرت سید سالار ساہواور بھتیجے حضرت سید سالارمسعودغازی ؒ المعروف غازی میاں جنگ میں مشغول تھے۔ اس جنگ کا آغازسلطان محمودغزنوی کے دورمیں ہوا تھا۔ یہ ان مقامات سے ہوتے ہوئے جوعلویوں کے زیرتسلط تھے سترکھ پہنچے۔

سلطنتِ کڑامانکپورپرعلویوں کا حملہ اورسیدملک قطب حیدرشہیدؒ

علوی لشکرسترکھ میں مقیم تھا تبھی کڑا مانکپورکے راجاؤں کی طرف سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے سید سالارمسعود غازی نے ایک لشکرجرارکوملک قطب حیدرؒ اورملک امام الدینؒ کی قیادت میں کڑا مانکپور کی جانب روانہ کیا۔ ان دونوں سرداروں نے سترکھ سے مانکپورکے راستے میں واقع ہونے والے تمام قصبات اوردیہات کوزیر کر لیا۔ یہ مقبوضہ علاقوں پراپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کڑہ مانکپورپہنچے اورفاتح ہوئے۔ مصنف آئینہ اودھ نے مرآت مسعودی کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ سید سالار ساھوؒ بذات خود کڑا مانکپورکے لیے روانہ ہوئے اورایک عظیم معرکے کے بعدوہاں کے راجاؤں کوشکست فاش دے کرگرفتار کر لیا۔ دشمنوں کا سدباب کرکے ملک سیدقطب حیدر کومانکپور کا حاکم مقررکیااورکڑا کا حاکم آپ کے بیٹے ملک عبد اللہ کوبنا کرخودجانب سترکھ روانہ ہو گئے۔ تاریخ میں مانکپورکے راجا کا نام بھوج پتراورکڑا کے راجا کا نام جے نرائن ملتاہے۔ یہ بہرقوم سے تھے۔ قوم بہرنے بہرائچ سے کالنجرتک اپنا اثرورسوخ بنا رکھا تھا۔ سید سالار ساہو کے واپس تشریف لے جانے کے بعدقطب حیدر نے اپنی قیام گاہ کے نزدیک ایک مسجد بھی تعمیر کرائی تھی۔ علوی فاتحین کواس علاقے میں استحکام حاصل نہیں ہونے پایا تھا کہ 25؍ شوال 423ھ ؁ مطابق 13 ؍ستمبر1032ء ؁کو سید سالار ساہو کا انتقال ہو گیا۔ اوردوسری جانب بہرائچ میں حملہ آورعلوی ا فوج کے سالاراعظم حضرت سید سالار مسعودغازیؒ 21؍راجاؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے 14؍رجب المرجب 424ھ ؁ بروزاتوارمطابق 17؍جون 1033ء ؁ میں قتل ہوئے۔ آپ کے بعد اورکثیرتعداد میں حملہ آور فوج کے جانی نقصان کی وجہ سے فاتحین کمزورپڑ گئے۔ انھیں غزنی سے بھی کوئی مدداورکمک نہ مل سکی۔ ان کی کمزوری اوربے سروسامانی کی خبرتمام ممالک مفتوحہ اورغیر مفتوحہ میں عام ہو گئی۔ مفتوح راجاؤں اورزمین داروں نے حملہ آوروں سے انتقام لینے کا عہد کیا۔ تمام راجاؤں نے متحدہوکرافواج غزنی سے بغاوت کی اورفاتحین پر حملہ آورہوئے۔ ایک ایک کرکے تمام علاقے فاتحین کے ہاتھوں سے نکل گئے۔ آخرمانکپورمیں بھی ایک خوریز جنگ ہوئی۔ جس میں ملک سید قطب حیدر ؒ سمیت فاتحین کی اکثریت مقتول ہوئی۔ یہ جنگ 1034ء ؁ کے آغازمیں میں لڑی گئی تھی۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ یہاں کے راجاؤں میں یہ خبرپھیلی ہوئی تھی کہ غازی میاں سلطان محمودغزنوی کے بیٹے ہیں۔ فاتح لشکرکا خوف بھی اسی وجہ سے ان میں پھیلا ہوا تھا۔ کسی طرح انھیں یہ معلوم ہو گیا کہ یہ درست نہیں۔ مسعودغزنوی کی طرف سے کوئی کمک علویوں کو نہیں آنے والی۔ غالباً یہی وجہ ان میں فاتح لشکرکے خلاف بلندمورال بنا لینے میں مددگارہوئی۔

سید ملک امام الدین ؒ کی کرامت

تاریخی حقائق واضح کرتے ہیں کہ اس جنگ کے چند ماہ بعدیہاں ایک واقعہ پیش آیا۔ وہ اس طرح کہ جب سیدسالارساہوؒ نے کڑا اورمانکپورکے حکمران مقررکردیے اورسترکھ کی جانب چلے تو ملک امام الدین بھی ان کے ہمراہ سترکھ روانہ ہو گئے۔ سترکھ میں سیدمسعودغازیؒ کی شہادت کے بعدعلوی فاتح فوج مفتوح ہو گئی۔ اس کے بچے افراداپنے بقا کی انفرادی لڑائی لڑنے لگے۔ انھیں یہاں کے نومسلموں اورمظلوم عوام کی پشت پناہی حاصل تھی۔ یہی مضبوطی ہارے ہوئے لشکرکوبھی اس علاقے سے مکمل بے دخل نہیں کرسکی۔ ملک امام الدین محفوظ مقام کی تلاش میں پھرتے ہوئے مانکپورکی طرف جا نکلے۔ وہاں پروہ اپنے جذبات پرقابونہیں رکھ سکے اورچھپ کر ملک قطب حیدرکی مزارکی زیارت کرنا چاہی۔ کسی طرح سے قوم بہر کوان کی آمد کا پتہ چل گیا۔ انھوں نے انھیں گھیرلیا۔ قوم بہرکے حکمرانوں کے یہاں یہ رواج تھا کہ ان کے علاقے میں جب کسی کی شادی ہوتی تو دلہن کو پہلی رات اس علاقے کے حکمران یا سرداروں کے ساتھ گزارنی پڑتی۔ بہرحال ملک امام الدین ؒ کے ساتھ ان کی بیٹیاں بھی تھیں۔ قوم بہرنے ان سے ان کی بیٹیوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ جس پرانہوں نے نمازپڑھ کردعا کی کہ اے اللہ توہی میرا مددگا رہے میری مدد فرما۔ اس کے بعدوہ قوم بہرپرحملہ آورہوئے اورشہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعدقوم بہران کی بیٹیوں کی طرف متوجہ ہوئے مگران کے ساتھ یہ کرامت ہوئی کہ زمین پھٹ گئی اوروہ لڑکیاں اس میں سما گئیں۔ چونکہ یہ کرامت ملک امام الدین سے ہوئی تھی اسی لیے یہ میدان ان کی اوران کی بیٹیوں کی نسبت سے مشہور ہوا۔

سید قطب حیدرشہیدؒ اورسید ملک امام الدینؒ کا مدفن

یہ لڑائی موجودہ مانکپورکے مشرقی حصے چوکاپارپورمیں ہوئی۔ یہی مقام حضرت قطب حیدرشہیدؒ اورحضرت ملک امام الدین شہیدؒ اوران کی بیٹیوں کا مدفن ہے۔ ہرقبرایک ایک روضے میں موجودہے۔ ایک اونچی ٹیکری پرتین احاطے مربع شکل میں ہیں۔ ہرایک میں ایک ایک قب رہے۔ یہ روضے بادشاہ دہلی معزالدین کیقباد ( 1286ء ؁ سے 1290ء ؁) نے تعمیر کرائے تھے۔ روضے پر گنبدبھی تھے جو اب منہدم ہو چکے ہیں۔ آج تک ان کی قبر پرماہ اگہن میں میلہ ہوتا ہے۔ جوشروع ماہ اگہن کے پہلے دوسرے اورتیسرے جمعرات کولگتا ہے۔ اس میں ہزاروں افراد شریک ہوتے ہیں۔ مردوں کے مقابلے عورتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ بلکہ یہ میلہ مخصوص عورتوں کے لیے ہی ہے۔ جہاں عورتیں ان کی قبروں پر ملیدہ اورتل چوری وغیرہ چڑھاتی ہیں۔ مصنف آئینہ اودھ کا کہنا ہے کہ بیان ثقات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے عرس کی تاریخ تھی۔ ان مزاروں پر غیر مسلم کنواری لڑکیاں تل اورچاول چڑھاتی ہیں۔ جسے عرف عام میں’’ تل چوری‘‘ کہا جاتا ہے۔ ملک امام الدین کی قبر پرکڑھی اورپھلکی چڑھائی جاتی ہے۔ ان مزاروں کے مجاورقوم دفالی کے افراد ہیں۔ جو اپنے آپ کو حضرت کے ہمراہیوں کی اولاد بتاتے ہیں۔ غیر مسلم عورتوں کی کثرت اورتمادی ایام کی وجہ سے یہ عرس’’ بیٹین کا میلہ‘‘کے نام سے مشہورہو گیا۔ انھیں موجودہ تین قبروں میں سے ایک قبر حضرت قطب حیدر علوی شہیدؒ دوسری حضرت سید ملک امام الدین فاطمی شہیدؒ کی ہے۔ تیسری قبران کی بیٹیوں کی ہے۔

قوم بہرپرایک سرسری سی نظر

جس دورمیں یہاں جنگ ہوئی تھی۔ اس وقت مانکپور میں قوم بھر کے لوگ حکمرانی کر رہے تھے۔ اہیر یا ابہرسنسکرت میں دونوں الفاظ کے معنیٰ شکاری کے ہوتے ہیں۔ یہ قوم ہندوستان کی قدیم اقوام میں سے تھی۔ غیر مہذب اوروحشی ہونے کی وجہ سے آرین انھیں اہیر کہتے تھے۔ بعد میں ان کی ایک شاخ مہذب ہو گئی۔ ان میں سے جن لوگوں نے جانور پالنا شروع کر دیا وہ گڈریاکہلائی۔ غالبًاموجودہ دور کی قوم اہیروہی ہے۔ یہ قوم اس وقت یادو بھی کہلاتی ہے۔ ان میں کی دوسری شاخ جو نہایت اجڈ اورایک دم سے جنگلی تھی انھیں بہر کہا گیا۔ بہر لفظ ابہرکی بگڑی شکل ہے۔ اب اس نام کی قوم مانکپوریا اطراف میں موجود نہیں۔ ہاں انھیں سے ملتی جلتی ایک قوم پال نام کی موجود ہے۔ ہو سکتا ہے یہی قوم بہر سے ہوں۔ اقتدارکے نشے میں یہ لوگ ظالم اورعیاش ہو چکے تھے۔ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ ان کے یہاں یہ رواج تھا کہ جب عوام میں کسی فرد کی شادی ہوتی تو دلہن کوپہلی رات اپنے شوہر کی بجائے قوم بھر کے سرداروں کے ساتھ گزارنی پڑتی تھی۔ اس کے بعد ہی وہ شوہر سے مل سکتی تھی۔ ایسا نہ کرنے والوں کو سخت بہیمانہ سزائیں دی جاتی تھیں۔ یہاں پر بھی انھوں نے حضرت ملک امام الدینؒ سے ان کی بیٹیوں کا مطالبہ کیاتو انھوں نے صاف انکار کر دیا۔ انھوں نے حضرتؒ کو شہید کر دیااوربیٹیوں سے دست درازی کرنی چاہی۔ مگراللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی تھی۔ زمین شق ہو گئی اور یہ ساری پاکیزہ بیٹیاں اسی میں دفن ہو گئیں۔ ان کی یہ کرامت دیکھ کرقوم بھر کی عوا م خود ہی ان کی معتقد ہو گئی۔ اورحضرت قطب حیدر شہیدؒ کے قریب حضرت ملک امام الدینؒ کو بھی دفن کیا گیا۔ جہاں یہ بیٹیاں مدفون ہوئیں وہاں ان کی قبر بنا دی گئی۔ عوام کا متفقہ طورپریہ کہنا ہے کہ یہ پورا میدان گنج شہیداں ہے۔ مزارقطب حیدرشہیدؒ کے ارد گرد پورا میدان شہداء کی قبروں سے بھرا پڑا ہے۔

انسانیت یادرکھتی ہے انھیں

یہ ایک آفاقی سچ ہے کہ جب بھی کوئی ظلم اورظالم کے خلاف آوازبلندکرتا ہے تواس کی مدد خالق کائنات کرتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی صورت سے ظلم پرفاتح ہوتا ہے۔ انسانیت کے تحفظ کے لیے علم بلند کرنے کا کسی کوکاپی رائٹ نہیں ہے۔ اس کی مثال دورحاضر میں ملک بٹین میں ہر سال ماہ اگہن کے آغازپرایک جم غفیر کا امنڈ پڑنا ہے۔ ان کی یاد میں منائے جانے والے اس میلے میں اہل ہنودکی اکثریت میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے۔ تاریخ اس بات کی شہادت بھی دیتی ہے کہ علویوں کا اس علاقے پرحملہ اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے نہیں تھا بلکہ انسانیت کواس کے اصل روپ میں اہل خطہ کے سامنے پیش کرنا تھا۔ جس کے لیے انھوں نے جنگ بھی کی۔ بہرحال انسانیت ہراس شخص کواحترام اورعزت دیتی ہے۔ اپنے دل میں بساتی ہے جواس کے تحفظ کے لیے کمربستہ ہوتا ہے چاہے ظاہری طورسے اسے ناکامی ملے لیکن آئندہ آنے والی نسلیں انھیں سید قطب حیدرشہیدؒ اورسیدامام ملک شہیدؒ کی طرح اپنے دلوں میں رکھتیں ہیں۔ مورخ ان کے تذکرے سے اپنی تحریر کوبابرکت بناتیہیں۔ جب کہ قوم بہر جیسے لوگوں کا تذکرہ صرف تاریخ میں ان کے برے فعل کے ساتھ انھیں کے صدقے طفیل میں زندہ رہتا ہے۔ کرامت بھی انھیں لوگوں سے سرزد ہوتی ہے جنہیں خالق کائنات عزیز رکھتا ہے۔

مراجع ؍ تاریخ آئینہ اودھ ‘تاریخ کڑہ مانکپور‘سلطان الشہداء‘مرآت مسعودی‘تاریخ بیہقی۔

سیدسلمان فاروق حسینی مانکپوری لکھنؤ