منصوربن زاذان واسطی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
منصوربن زاذان واسطی
معلومات شخصیت

منصور بن زاذان واسطیؒ تابعین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

منصور نام، ابوالمغیرہ کنیت، قبیلہ ثقیف کی غلامی میں تھے، اس نسبت سے ثقفی کہلاتے تھے۔ [1]

فضل وکمال[ترمیم]

حضرت حسن بصری کے خاص ساتھیوں میں تھے،ان کے فیض صحبت نے منصور کو علم و عمل کا جامع بنادیا تھا اور وہ واسطہ کے ممتاز علما میں شمار ہوتے تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ علما اعلام میں تھے، ثقہ، حجت، صالح، عبادت گزار اور کبیرہ الشان تھے۔ [2]

حدیث[ترمیم]

حدیث میں انھوں نے انس بن مالک، ابوالعالیہ، رفیع، عطاءبن ابی رباح ، حسن بصری ،محمد بن سیرین، میمون بن ابی شبیب، معاویہ بن قرہ ،حمید بن ہلال، قتادہ ، عمرو بن دینار، حکم بن عتیبہ، عبدالرحمن بن قاسم اور محمد بن ولید بن مسلم عنبری سے فیض اٹھایا تھا، مسلم بن سعید واسطی حبیب بن شہید، جریر بن حازم، خلف بن خلفہ، ہشم اور ابوحمزہ سکری ان کے تلامذہ میں تھے۔ [3]

عبادت وریاضت[ترمیم]

زہد وعبادت ان کے صحیفہ کمال کے زیادہ روشن ابواب ہیں، وہ بڑے عابد و زاہد تابعی تھے، ابن حبان لکھتے ہیں کہ وہ متقشفین اور متجردین میں تھے [4]ابن عماد حنبلی ان کو بصرہ کا زاہد اور شیخ لکھتے ہیں۔ [5] ان کا سارا وقت عبادت وریاضت میں گزرتا تھا،طلوع آفتاب سے لے کر عصر تک نماز اور عصر سے مغرب تک تسبیح و تہلیل میں مشغول رہتے تھے۔ [6]

قرآن کی تلاوت سے خاص شغف تھا،بہت تیز قرآن پڑھتے تھے،صبح سے دوپہر تک ایک قرآن ختم کر دیتے تھے[7] نوافل میں قرآن کا بڑا حصہ پڑھ ڈالتے تھے، ہشام بن حسان کا بیان ہے کہ میں نے مغرب اور عشا کے درمیان منصور کے پہلو میں نماز پڑ ہی ،دوسری رکعت میں وہ سورہ نحل تک پڑھ گئے۔ [8] رمضان میں عبادت زیادہ بڑھ جاتی تھی، روزانہ قرآن ختم کرتے تھے،نماز میں اس شدت کا گریہ طاری ہوتا کہ آنسو پوچھتے پوچھتے عمامہ تر ہوجاتا، بارگاہ ایزدی میں جبین سائی سے بڑا ذوق تھا، فرض نماز سے پہلے گیارہ سجدے کرتے تھے،عمر بھر میں دو راتوں کے سوا ایک مرتبہ ماں کے اور دوسری مرتبہ لڑکے انتقال کے موقع پر کبھی آرام سے رات بھر بستر استراحت پر نہ سوئے۔ [9] انھوں نے عبادت و ریاضت کو آخری حد تک پہنچا دیا تھا ہشیم کا بیان ہے کہ وہ اپنی عبادت کرتے تھے کہ اگر ان سے کہا جاتا کہ موت کا فرشتہ دروازہ پر آگیا ہے تو جتنی عبادت وہ کرتے تھے اس میں زیادتی ممکن نہ تھی۔ [10]

ایک زرین مقولہ[ترمیم]

فرماتے تھے کہ رنج و غم بھلائیوں میں اضافہ کرتے ہیں اور اتارنا اور فخر کرنا برائیوں میں ہے۔

وفات[ترمیم]

131ھ میں طاعون کی وبا میں وفات پائی۔

مقبولیت[ترمیم]

اپنے محاسنِ اخلاق کی وجہ سے وہ ہر مذہب و ملت کے آدمیوں میں اتنے مقبول تھے کہ آپ کے جنازہ میں ہر مذہب کے آدمی شریک تھے، یہود ونصاریٰ دونوں علاحدہ علاحدہ جنازہ میں ساتھ تھے اور خلق اللہ کا ہجوم تھا۔ [11]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تذکرۃ الحفاظ:1/126)
  2. (ایضاً)
  3. (تہذیب التہذیب:10/306)
  4. (ایضاً:307)
  5. (ایضاً:307)
  6. (شذرات الذہب:1/181)
  7. (ابن سعد،ج7،ق 2،ص60)
  8. (تذکرۃ الحفاظ:1/126)
  9. (حلیۃ الاولیاء ابو نعیم :3/58)
  10. (تذکرۃ الحفاظ:1/126)
  11. (ابن سعد،ج7،ق2،ص60)