منیر حسین (گلوکار)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
منیر حسین (گلوکار)

منیر حسین (انگریزی: Munir Hussain) کی تعارف پلے بیک گلوکار کے طور پر 1957ء میں فلم سات لاکھ سے ایک میگا ہٹ گانے سے ہوا تھا۔ اس دور میں مہدی حسن نے بطور ایکسٹرا گلوکار منیر حسین کے ساتھ کورس گیتوں میں شرکت بھی کی تھی۔ منیر حسین نے اپنے 38 سالہ فلمی کیرئیر میں منیر حسین نے اپنے چار عشروں پر مشتمل طویل فلمی کیرئیر میں 163 فلموں کے لیے 217 گیت گائے جن میں’’سات لاکھ‘‘، ’’عشق لیلی‘‘، ’’نوراں‘‘، ’’ہیر‘‘، ’’مکھڑا‘‘ ، ’’نیازمانہ‘‘، ’’بودی شاہ‘‘، ’’عالم آراء‘‘، ’’بچہ جمورا‘‘، ’’ناجی‘‘، ’’جھومر‘‘، ’’ساتھی‘‘ ، ’’شمع‘‘ ، ’’سوہنی کمہارن‘‘ ، ’’سچے موتی‘‘ ، ’’گلفام‘‘ ، ’’گلبدن‘‘، ’’ سلمی ‘‘ ، ’’آنچل‘‘ ، ’’ شہید‘‘ ، ’’اولاد‘‘، ’’ دامن‘‘ ، ’’چوڑیاں‘‘ ، ’’آشیانہ‘‘ فلمیں شامل ان فلموں میں گائے گئے ان کے بعض گیت ناقابل فراموش اور سدا بہار ہیں۔ وہ پاکستان کے پہلے گلوکار تھے جنھیں بیک وقت اردو اور پنجابی فلموں میں کامیابی ملی تھی۔

ایک موسیقار گھرانے سے تعلق رکھنے والے منیر حسین کے سگے ماموں رشید عطرے پاکستان کے عظیم ترین موسیقار تھے جب کہ ان کے خالہ زاد بھائی صفدر حسین بھی ایک اعلی پائے کے موسیقار ثابت ہوئے تھے ۔ اس طرح پاکستان میں سب سے زیادہ فلموں میں موسیقی دینے والے موسیقار وجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی تھے۔ منیر حسین کو اپنی پہلی ہی نغماتی فلم سات لاکھ کے مشہور زمانہ سدا بہار گیت ’’قرار لوٹنے والے ، تو پیار کو ترسے ‘‘ کی ریکارڈنگ کے لیے ان کے ماموں رشید عطرے نے بڑی تیاری کروائی تھی اور کا آغاز ہی بڑا دھماکا خیز ثابت ہوا تھا۔ محبوب کو بڑے مہذب انداز میں بددعائیں دینے والے اس منفرد گیت کو سیف الدین سیف نے لکھا تھا اور یہ گیت سنتوش کمار پر فلمایا گیا تھا۔ لیکن ریلیز کے اعتبار سے پنجابی فلم ’’نوراں‘‘ منیر حسین کی پہلی فلم بنتی ہے جو مئی 1957ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔ اس فلم کے موسیقار ان کے خالہ زاد بھائی صفدر حسین موسیقار تھے جو اس سے قبل فلم ’’ہیر ‘‘ اور ’’عشق لیلی‘‘ کے شاہکار گیتوں کی وجہ سے صف اول کے موسیقار بن چکے تھے ۔

فلم ’’نوراں‘‘ نغمات کے لحاظ سے ایک بہت بڑی اور یادگار فلم تھی جس میں اداکارہ اور گلوکار ملکہ ترنم نورجہاں تھیں۔ منیر حسین کو اس فلم میں پانچ گیت گانے کو ملے تھے جو ان کے فلمی کیرئیر کا واحد موقع تھا۔ ان میں چار دوگانے تھے جو سبھی ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ تھے۔ منیر حسین نے اپنے پہلے ہی سال یعنی 1957ء کی تین فلموں میں کل سات گیت گائے تھے جن میں ایک پنجابی فلم کے پانچ اور دو اردو فلموں میں دوگیت تھے۔ ’’دلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے ‘‘ منیر حسین کے فلمی کیرئیر کا سب سے مقبول ترین فلمی گیت تھا جو ان کی پہچان بن گیا تھا۔ اسے زبیدہ خانم نے بھی گایا تھا لیکن منیر حسین کا گیت مقبولیت کی سبھی حدیں پھلانگ گیا تھا۔ یہ سریلا گیت بھی ماموں بھانجے رشید عطرے اور منیر حسین کی مشترکہ پیشکش تھی جسے وارث لدھیانوی نے لکھا تھا۔ 1976ء میں منیر حسین کے حصے میں پانچ فلموں میں پانچ ہی گیت آئے تھے اور ان میں کوئی ایک بھی سولو گیت نہیں تھا۔

سب سے بڑی زیادتی یہ تھی کہ فلم ’’ثریا بھوپالی‘‘ میں ایک قوالی تھی جو مہدی حسن، ناہید اختر اور ساتھیوں کی آوازوں میں تھی لیکن اس کا انترا اور دیگر تانیں لگانے کے لیے موسیقار اے حمید کو منیر حسین کی خدمات حاصل کرنا پڑی تھیں کیونکہ اونچی تان لگانا مہدی حسن کے بس کی بات نہیں تھی اور نہ ہی وہ غزل کے سوا دیگر اصناف کی گائیکی کے لیے موزوں گائیک تھے لیکن اس وقت وہ مقبولیت کے سوا نیزے پر تھے اور ہر فلمساز کی خواہش ہوتی تھی کہ اردو فلموں میں مہدی حسن کی مقبولیت کو کیش کروایا جائے ۔ ایسے میں موسیقاروں کو بہت سے پاپڑ بیلنا پڑتے تھے۔ منیر حسین، سلیم رضا اور مہدی حسن کی طرح کلاسیکل موسیقی پر عبور رکھتے تھے لیکن ان دونوں سے زیادہ ورسٹائل فلمی گلوکار تھے۔ منیر حسین نے اپنے چار عشروں پر مشتمل طویل فلمی کیرئیر میں 163 فلموں کے لیے 217 گیت گائے تھے جن میں سے 122 اردو گیت 91 فلموں سے تھے جب کہ 95 پنجابی گیت 72 فلموں میں تھے۔ منیر حسین کے سولو گیتوں کی تعداد 70 ہے جب کہ ان کے دوگانوں کی تعداد 161 ہے جو 74 فیصد بنتی ہے۔ غیر ریلیز شدہ فلموں اور غیر فلمی گیتوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ یہ ورسٹائل گلوکار 27 ستمبر 1995ء کو انتقال کرگیا۔

بیرونی روابطہ[ترمیم]