حفظ الرحمن سیوہاروی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تحریک آزادی کے عظیم لیڈر

مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی
پیدائش30 جولائی 1901(1901-07-30)ء
سیوہارا، برطانوی ہند
وفات12 اگست 1962(1962-08-12)ء
نئی دہلی، بھارت
آخری آرام گاہمقبرہ مہدویان، دہلی، بھارت
قلمی نامحفظ الرحمن
پیشہمجاہد آزادی، محقق، مصنف، رکن جمعیت
زباناردو
قومیت بھارت بھارتی
نمایاں کامقصص القرآن

1901ء 1962ء

ولادت اور تعلیم[ترمیم]

مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ 1318ھ/1901 میں اپنے وطن سیوہارہ ضلع بجنور کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے آپ کے والد شمس الدین صاحب بھوپال اور پھر بیکانیر کی ریاستوں میں اسسٹنٹ انجنیئرکے عہدے پر فائز تھے زیادہ تر تعلیم سیوہارہ کے مدرسہ فیض عام ار مدرسہ شاہی مراد آباد میں ہوئی 1341ھ کو دار العلوم دیوبند میں داخل ہوئے 1342 میں دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی۔

درس و تدریس[ترمیم]

س وتدریس

دار العلوم کی جانب سے آپ کو مدراس کے ایک مدرسہ میں تدریس کے لیے بھیجا گیا ایک سال تدریس میں گزارا ساتھ ہی تصنیف و تالیف کا کام بھی شروع کیا اسی زمانہ میں حجاز مقدس حج کے لیے تشریف لے گئے واپسی پر دار العلوم دیوبند میں درس و تدریس شروع کی بعد ازاں حضرت علامہ انور شاہ کشمیر ی کے ساتھ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سے وابستہ ہو گئے پانچ سال وہاں درس و تدریس میں مشغول رہے۔

ندوۃ المصنفین میں قیام[ترمیم]

1352/1937 میں جب دہلی میں ندوۃ المصفنین کا قیام عمل میں آیا تو آپ اپنے دیرینہ رفیق حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے ساتھ دہلی چلے آئے ۔ یہاں آپ نے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ اسلام کا اقتصادی نظام ، اخلاق اور فلسفہ اخلاق اور قصص القرآن جیسی بلندپائی اور محققانہ کتابیں نصنیف فر مائیں اس سے قبل ڈسٹرکٹ جیل میں سیرۃ نبوی پر بلاغ مبین لکھ چکے تھے ۔

جمعیت علما ہند کا ادارہ حربیہ۔[ترمیم]

تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس موقع پر یہ بات خاص طور سے نوٹ کرلینی چاہیے کہ جمعیتہ علما ہند نے جب 1929ء میں جنگ آزادی میں شرکت طے کی تھی تو ساتھ ہی یہ بھی طے کر لیا تھا کہ اس کا پلیٹ فارم علاحدہ ہوگا۔ اس کے رضا کاروں کا نظام بھی علاحدہ رہے گا۔ گرفتاریوں کا پروگرام بھی جمعیتہ علما ہند اپنے ارکان اور کارکنوں کے لیے علاحدہ بنائے گی اور اگر مقدمات وغیرہ کے سلسلے میں مصارف کی ضرورت ہوگی تو ان کا انتظام بھی جمعیتہ علما اپنے طور پر کرے گی ۔ کانگریس یا کسی اور پارٹی کی طرف نظر نہیں اٹھائے گی۔ اب 1932ء میں جب تحریک میں دوبارہ جان پڑی تو اس کو زندہ رکھنے کے لیے غذا کی ضرورت تھی۔ پروگرام کے مطابق رسول نافرمانی کرتے ہوئے گرفتار ہو جانا تحریک کی غذا تھی۔

مگر اس مرتبہ اس غذا کا فراہم کرنا کانگریس اور’’ جمعیتہ علما‘‘ دونوں کے لیے مشکل ہورہا تھا۔ کیونکہ اول تو مسلسل تین سال گذر جانے کے بعد کارکنوں کے جوش عمل میں اضمحلال پیدا ہوجانا ایک قدرتی امر تھا اس کے علاوہ ولنگڈن گورنمنٹ نے اس مرتبہ تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی صف اول کے تمام لیڈروں کوگرفتار کر لیا تھا۔ مزید برآں ضبطی جائیدا د اور گرفتاریوںکے سلسلے میں بھی حکومت کی پالیسی پہلے سے زیادہ سخت ہو گئی تھی۔ ان تمام حالات کی بنا پر اگرچہ کام بہت مشکل ہو گیا تھا مگر ان حالات کاتقاضایہ بھی تھا کہ تحریک کی رگوں اور پھٹوںمیں تقویت کے انجکشن اس پردہ داری کے ساتھ لگائے جائیں کی سی آئی ڈی کی نظر تفتیش ان ڈاکٹروں تک نہ پہنچ سکے جو انجکش کی موئیاں ہاتھ میں لیے ہوں ۔

عام طور پر پروگرام یہ ہوا کر تا تھا کہ ہفتے میں ایک یا دو مرتبہ رضا کاروں کے جتھے بھیجے جاتے تھے جو برسر عام قانون کی خلاف ورزی کرتے تھے اور گرفتاری کرلئے جاتے تھے ۔ عام طور پر دفعہ 144/ 88 کی خلاف وزری بھی ہو جاتی تھی پولیس کی کوشش یہ رہتی تھی کہ وہ یہ معلوم کرے کہ رضاکاروں کا جتھا کہاں سے روانہ ہوگا۔ تاکہ روانگی سے پہلے ہی ان کو گرفتار کر لے اور یہ نہ ہو سکے تو جیسے ہی جتھا روانہ ہو فوراً گرفتار کرلے تاکہ شہر میں خلاف قانون اقدام کا مظاہرہ نہ ہو سکے ۔

پورے ملک میں سول نافرنی اور خلاف ورزی قانون کے اس کے اس نظام کو زندہ رکھنے کے لیے ایک مستقل نظام کی ضرورت تھی چنانچہ کانگریس نے جنگی کونسل قائم کردی تھی اور جمعیتہ علما ہند نے اپنے اس نظام کے لیے عربی کا لفظ ادارہ حربیہ منتخب کیا تھا۔

جمیعتہ علما ہند کے صدر مفتی اعظم حضرت مولانا محمد کفایت اللہ صاحب اور ناظم اعلیٰ سبحان الہند حضرت مولانا احمد سعید صاحب تھے مگر وہ ڈاکٹر جس کو بہت سے انجکشن دے گئے تھے ۔ ابوالمحاسن مولانا سجاد صاحب ( نائب امیر شریعت صوبہ بہار) تھے ۔ رحمہم اللہ ادارہ حربیہ کے کلید بردار یہی حضرت تھی۔

جمیعتہ علما ہند کے دفتر سے علاحدہ محلہ بلی ماران کی ایک تاریک گلی میں ایک مکان لے لیا گیا تھا۔ حضرت مولانا سجا د صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا قیام اسی مکان میں رہتا تھا۔ جس کا علم دفتر کے لوگوں میں سے بھی غالباً صرف قاضی اکرام الحق صاحب کو تھا۔ جماعت کے جو حضرات اسی ادارہ کی ضرورت سے حضرت موصوف سے ملاقات کرنا چاہتے تھے تو قاضی اکرام الحق صاحب ہی ان کے رہبر بنتے تھے ۔

ہمیں یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ حضرت مولاناسجاد صاحب کے دست راست اور نفس ناطقہ یہی رفیق محترم مجاہد ملت رحمۃ اللہ علیہ تھے۔جن کو نظام رضا کاران کا ناظم اعلیٰ یا کمانڈر بنایاگیا تھا۔اور ان کاکام یہ تھاکہ ملک میں گھوم پھر کر تحریک کا جائزہ لیں اور اس نظام کو کامیاب بنائیں۔

وہ وقت یاد آتا ہے ۔ احقر مدرسہ شاہی میں ملازم تھا اور فاضل وقت اور بسا اوقات رخصت لے کر مدرسہ کا بھی وقت اسی تماشے میں صرف کیا کرتا تھا۔

مرادآباد میں خفیہ طریقہ سے مجاہد ملت کی تشریف آوری کا پروگرام پہنچا۔ چند ساتھیوں کے ساتھ احقر استقبال کے لیے اسٹیشن پر حاضر ہوا ۔

آج کل دہلی جنکشن سے ایک پاسنجر دس بن کر دس منٹ پر مرادآباد جاتا ہے۔ یہی پاسنجر اس زمانے میں بھی تقریباً ساڑھے تین بجے مرادآباد پہنچا کر تاتھا۔ مجاہد ملت اسی ٹرین سے مرادا ٓباد پہنچنے والے تھے۔ چنانچہ ٹھیک وقت پر پہو نچے ۔ مگر حسب معمول سادہ لباس میں ملبوس کھدر کی شیروانی بھی کسی قدر بوسیدہ تھی۔ کچھ ظرافت پسند دوستوں نے عرض بھی کیا کہ کمانڈر صاحب کو تو فوجی لباس میں ملبوس ہوناچاہیے ۔ مجاہد ملت رحمۃ اللہ علیہ کا خاموش تبسم اس کا جواب تھا۔ مگر اس زمانے میں ایسے عہدوں کی عمر بہت کم ہوتی تھی ۔

اگر ماند شبے ماند شبے دیگر نمی ماند

چنانچہ چند روز بعد ہی مجاہد ملت گرفتار کرلیے گئے۔ مقدمہ چلا۔ لیکن مقدمہ کا میاب نہیں ہوا ۔ یعنی حضرت مجاہد ملت پر جرم ثابت نہ ہو سکا۔ اس مرتبہ مجاہد ملت رہا ہو گئے ۔ التبہ اس اثنا میں احقر گرفتار ہو گیا۔[1]

مولانا کی سیاسی بصیرت[ترمیم]

1930ء میں جمعیت علما ہند نے امروہہ میں اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ امروہہ میں احمد رضابریلوی کے پروکاروں نے جمعیت کے اجلاس کو ناکام بنانے کے لیے انہی تاریخوں میں مولانا محمد علی کی بنائی ہوئی اس نئی جمعیت علما کا نپور کا اجلاس بھی امروہہ میں ہی رکھ دیا جو کچھ ہی دنوں پہلے جمعیت علما ہند کی مخالفت میں بنائی گئی تھی اور جمعیت علما ہند کے خلاف پرواپیگنڈہ شروع کیا کہ یہ صرف وہابیوں دیوبندیوں کی اور معاذ اللہ دشمنان رسول کی جماعت ہے مولانا محمد منظور نعمانی تحریر فرماتے ہیں کہ مولانا حفیظ الرحمان صاحب جو اس وقت جمعیت کے اکابرین یا اس کے ہائی کمانڈ میں تو نہیں تھے مگر اپنے سیاسی ذہن اور جرات و فعالیت کی وجہ سے اپنے ا قران میں سب سے زیادہ ممتاز تھے گانگریس کی جنگ آزادی میں شرکت کے متعلق ایک ریزولیوشن اجلاس کی تاریخ سے کافی دنوں پہلے ہی دفتر کو بھیج دیا اور ساتھ ہی اشاعت کے لیے اخبارات کو بھی دے دیا اس وقت خود جمعیت کے اندر اس مسئلے پر خاصا اختلاف رائے تھا بلکہ اجلاس شروع ہونے کے دن تک جمعیت کے جو ارکان مختلف مقامات سے امروہہ پہنچے تھے ان سب کی نجی گفتگو کا خاص موضوع مولانا حفظ الرحمان صاحب کا یہ ریزولیوشن ہی بنا ہوا تھا ان کی باتوں سے ہم لوگو ں یہ اندازہ کر لیا تھا کہ یہ ریزولیشن پاس نہ ہو سکے گا بہرحال اجلاس شروع ہوا سب سے پہلے دستور کے مطابق صدر استقبالیہ ( سید ابوالنظر رضوی مرحوم) نے اپنا خطبہ استقبالیہ پڑھا اس کے بعد اجلاس کے صدر حضرت مولانا شاہ معین الدین اجمیری کا خطبہ صدارت پڑھا گیا ان دونوں خطبوں میں شدو مد کے ساتھ اور خاص کر خطبہ استقبالیہ میں استدال کے پورے زور کے ساتھ مولانا حفظ الرحمان کی اس تجویز کو چار نہایت اہم اور باوزن شخصیتوں کی حمایت اور تائیدحاصل ہو گئی ایک جمعیت علما ہند کے اس وقت کے مستقل صدر حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دوسرے حضرت مولانا سید سلمان ندوی تیسرے حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی اور چوتھے سید عطاء اللہ شاہ بخاری مرحوم یہ ناچیز( مولانا منظور نعمانی) سبجیکٹ کمیٹی میں شریک تھا جب اس ریزرولیوشن پر بحث شروع ہوئی تو ایک دو موافقانہ اور مخالفانہ تقریروں کے بعد حضرت مفتی صاحب اور سید صاحب نے علی الترتیب بڑی مددلل اور بصیرت افروز تقریریں ریزولیوشن کی حمایت میں کیں اس کے بعد حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے ایمانی جذبہ و جوش اور درد سے بھری ہوئی ایک تقریر فرمائی جس میں ہندوستان کی آزادی کے مسئلے کی اہمیت حاصل کر مسلمانوں کے لیے اس کی ضرورت پر روشنی ڈالنے کے علاوہ حضرت ممدوح نے ماضی قریب اور ماضی بعید کے تاریخی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انگریزوں نے عالم اسلام کے ساتھ کیاکیا ہے؟اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی تباہی و بربادی میں انگریزوں کا کتنا حصہ ہے ؟ اس لیے مسلمانوں کے دشمن نمبر ایک انگریز اور صرف انگریز ہیں لہذا انگریزی اقتدار کے خلاف جو جنگ کسی کی طر ف سے شروع ہو ہمیں بلا شرط اس میں شریک ہو کر اس کو تقویت پہنچانا چاہیے حضرت مولانا کی ذاتی عظمت کے ساتھ ان کی اس دردمندانہ اور جذبات سے بھرپور تقریر نے شرکاء اجلاس میں سے بہت سوں کی رائے بدل دی اس کے بعد جو کمی کسر رہی وہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی ساحرانہ خطابت نے پوری کردی نتیجہ یہ ہوا کہ تجویز نہ صرف یہ کہ پاس ہوئی بلکہ تقریبا بالاتفاق پاس ہوئی جن چند حضرات کو اس سے اتفاق نہیں تھا انھوں نے بھی خاموشی مناسب سمجھی سوائے ایک دو صاحبوں کے یہ واقعہ ہے کہ مولانا حفظ الرحمان صاحب نے جس ناموافق ماحول میں اپنی یہ تجویز پیش کرنے کی جرات کی تھی اور اخبارات میں اعلان کیا تھا اور پھر جس شان کے ساتھ وہ پاس ہوئی اس نے مولانا کو اس نو عمری ہی میں سیاسی دنیا میں خاص اہمیت دے دی اس کے بعد سے وہ برابر اس میدان میں اپنی صلاحیتوں اور قربانیوں کی وجہ سے آگے ہی بڑھتے رہے۔[2]

دہلی میں جمعیت کا اجلاس[ترمیم]


مجلس عاملہ جمعیت علما کا اجلاس[ترمیم]

دہلی چند روز کے واسطے آپ کے لیے پناہ گاہ بن سکتی تھی ۔ کیونکہ آپ کا وارنٹ گرفتاری پوپی گورنمنٹ نے جاری کیا تھا۔ جب تک وارنٹ پوپی سے منتقل ہو کر دہلی پہنچے آپ دہلی میں گرفتاری سے محفوظ تھے ۔ اس فرصت سے آپ نے فائدہ اٹھا یا دہلی پہنچتے ہی مجلس عاملہ ج جمعیتہ علما ہند کی ہنگامی میٹنگ طلب کرائی ۔ 27۔28 اگست 1942ء 3 شعبان 1361ھ کو دہلی میں مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا۔ صدر جمعیتہ علما ہند یعنی شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی اس سے تقریبا دو ماہ پہلے 25 جون 1942 ء کو گرفتار ہو چکے تھے۔ آپ کی غیر موجودگی کے باعث اس اجلاس کی صدارت سحبان الہند حضرت مولانا احمد سید صاحب دہلوی نائب صدر جمعیت علما ہند نے فرمائی ۔ [3]

وزارتی مشن کہ آمد[ترمیم]

ابھی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات تمام ہندوستان میں مکمل نہیں ہوئے تھے کہ 23 مارچ 1946ء کو وزارتی مشن کراچی پہنچ گیا۔ لارڈ پیتھک لارنس وزیر ہند ۔ سر اسٹیفورڈ کرپس اور جنرل الیگز ینڈ روفد کے ارکان تھے۔ ایک ہفتہ آرام کرنے کے بعد یاتازہ حالات کے پورے مطالعے کے بعد یکم اپریل سے مشن نے ہندوستانی لیڈروں سے ملاقات شروع کی ۔ کل ہند مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے صدر کے حیثیت سے شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد صاحب مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو دعوت دی گئی تھی ۔ اور چونکہ مسلم پارلیمنٹری بورڈ کے ساتھ دوسری جماعتیں بھی اشتراک عمل کیے ہوئے تھیں لہذا جناب صدر کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ مزید تین افراد کو اپنے ساتھ لے آئیں۔ چنانچہ عبد المجید صاحب خواجہ مرحوم صدر آل انڈیا مسلم مجلس شیخ حسام الدین صاحب صدر آل انڈیا مجلس احرار اسلام، شیخ ظہیر الدین صاحب صدر آل انڈیا مومن کانفرنس ان تینوں جماعتوں کے سرابرہوں کی حیثیت سے اور جناب حافظ ابراہیم صاحب(مرکزی وزیر برقیات) ترجمان کی حیثیت سے حضرت شیخ الاسلام کے ساتھ تشریف لے گئے ۔

اس نمائندہ جماعت کو ایسے صاحب بصیرت سیاسی کھلاڑی کی بھی ضرورت تھی جو نمائندگان پریس کی شوخیوں کا جواب بھی دے سکے ۔ اس کی حاضر جوابی دوسری پارٹیوں کے نکتہ چینوں کو خاموش کرسکے ۔ پر مغز و مدلل خطابت ہر ایک دل کو مٹھی میں لے سکے ۔ ایسی شخصیت جوان اوصاف کی حامل ہو مولانا محمد حفظ الرحمن صاحب کی شخصیت تھی۔ لہذآپ کو بھی اس نمائندہ وفد میں شریک کیا گیا۔

12 اپریل 1946ء کو 4 بجے شام سے سوا پانچ بجے تک مشن سے ملاقات ہوئی ۔ جمعیتہ علما ہند کا فارمولا وزارتی مشن کے سامنے پیش کیا گیا وزارتی مشن نے اس فارمولے سے یہاں تک دلچسپی لی کہ مقررہ وقت یعنی نصف گھنٹہ سے زائد 45 منٹ فارمولے کے مضمرات اور اس کے مفادات کو سمجھانے پر صرف کر دیے ۔[4]

جمعیت علما ہند اور مسئلۂ تقسیم[ترمیم]


لیکن تاریخی نوشتوں میں یہ صداقت اور اصول پسندی سنہری حرفوں سے درخشاں رہنی چاہیے کہ اس بدترین بحرانی دور میں جب کہ مولانا ابوالکلام آزاد جیسا سنجید ہ اور دانش مند مدیر بھی ہر ایک دماغ کو مجبور پارہا تھا۔ جو پلیٹ فارم اس مجبوری سے مستثنیٰ رہا وہ جمعیتہ علما ہند کا پلیٹ فارم تھا۔ اور ارکان کانگریس میں جو رہنما اس مجبوری سے محفوظ رہا وہ مجاہد ملت حفظ الرحمن تھا۔

ابھی تقسیم ہند کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ صرف ارباب بصیرت اراکین جمعیتہ علما ہند نے اس کے آثار سیاسی فضا میں محسوس کیے تھے کہ اسی احساس کی جمعیتہ علما ہند نے اپنے اجلاس لکھنؤ مورخہ 10 مئی 1947ء میں تقسیم کی مضرتیں ظاہر کرتے ہوئے اس سے بیزاری کا اظہار کیا اور جب 3 جون کو تقسیم ہند کا باضابط اعلان کر دیا گیا تو 24جون1947 ء کو جمعیتہ علما ہند کی مجلس عاملہ نے دوبارہ بیزاری کا اظہار کیا اور سختی سے تقسیم ہند کی مخالفت کی ۔ [5]

اکابرین جمعیت پر گاندھی کا اعتماد[ترمیم]

تقسیم ہند کے بعد مسلم کش فسادات کو روکنے کے لیے مہاتماگاندھی نے برت (ہڑتال کر)رکھا تھا انہی دنوںکی بات ہے جب بابوراجندرپرشادصدر کانگریس اور دوسرے رہنما موجود تھے اور مہاتما گاندھی سے برت کھولنے کا اصرارکر رہے تھے گاندھی جی نے لیٹے لیٹے رخ پھیر کر کہا جمعیت علما کے مولانا صاحبان کہاں ہے ؟جب تک وہ نہ کہیں گے میں برت نہ توڑوںگا۔تب مولانا احمدسعید دہلوی صاحب ،حافظ نسیم صاحب،جعفری صاحب (ارکان جمعیت)کی طرف سے تر جمانی کرتے ہوئے حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی نے فرمایامہاتماجی گوحالات ابھی پوری طرح درست نہیں ہوئے تاہم آپ کی عظیم الشان قربانی سے روبہ اصلاح ہو چکے ہیںاور فسادی عنصرکے مقابلہ میںصلح پسند عنصرابھر آئے ہیں اور غلبہ پا رہے ہیں لہذا آپ’’ برت‘‘ کھولدیں کیونکہ آپ جان عزیز ہم سب کے لیے بہت قیمتی ہے یہ سن کر مہاتما گاندھی نے کہا میں آپ لوگوں کے بیان پر اعتماد کرتا ہوں لیکن اگر بعد میں ثابت ہوا کہ مجھ کو دھوکا دیا گیا تھا توپھر میں ’’مرن برت‘‘ رکھ لوںگا اور پھر کسی کی نہ سنوں گا میں یقین کرلوںگا کہ میں زمین پر ایک بار ہوں جس کو جلد ختم ہوناچاہئے[6]

بیماری اور وفات[ترمیم]

غیر معمولی مصروفیات کی وجہ سے آپ کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا ہندوستان میں علاج کرایا گیا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی بالآخر آپ کو علاج کے لیے امریکا لے جایا گیا ۔ وہاں ڈھائی مہینہ علاج کے بعد واپس تشریف لائے اور یکم ربیع الاول 12؍ اگست 1962 کو ملت اسلامیہ کا جانباز مجاہد اپنے رب کے حضور حاضر ہو گیا نئی دہلی مشہور شاہ ولی اللہ کے قبرستان مہندیوں میں ابدی نیند سو گیا آپ بہت سارے دینی مدارس اسکولوں اور کالجوں کے سرپرست تھے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی ایگزیکٹیوں کونسل اور کورٹ کے ارکان دار العلوم دیوبند کی شوری کے رکن اور بھارتی پارلیمنٹ کے ارکان تھے ۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ139
  2. مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمان ایک سیاسی مطالعہ 58
  3. مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ156
  4. (مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ170)
  5. مجاہدملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ایک سیاسی مطالعہ174
  6. علمائے حق کے مجاہدانہ کارنامے: 558/2