موہب بن قابوس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت موہبؓ بن قابوس
معلومات شخصیت

حضرت موہبؓ بن قابوس صحابی رسول تھے۔

نام ونسب[ترمیم]

وہب نام، باپ کا نام قابوس تھا، نسلاً قبیلہ مزینہ سے تعلق رکھتے تھے اور ارص مزینہ میں رہتے تھے۔

اسلام[ترمیم]

جنگِ احد کے زمانہ میں اپنے بھتیجے حارث کے ساتھ بکریاں لے کر عدنیہ آئے،یہاں بالکل سناٹا تھا، پوچھا سب لوگ کہاں گے؟ معلوم ہوا کوہِ اُحد پر آنحضرتﷺ کے ساتھ مشرکین کے مقابلہ میں گئے ہوئے ہیں، یہ سن کر اسی وقت مشرف باسلام ہو گئے ۔

شہادت[ترمیم]

قبول اسلام کے بعد احد کی رزمگاہ میں پہنچے،ہنگامہ کار زار گرم تھا وہب مسلمانوں کے ساتھ مل کر حملہ آور ہو گئے،اسی دوران میں مشرکین میں سے خالد بن ولید اورعکرمہ بن ابی جہل پشت کی جانب سے نمودار ہوئے اورنہایت جم کر مقابلہ کیا، ابھی یہ مقابلہ جاری تھا کہ مشرکین کا ایک اور جتھا نظر آیا، آنحضرتﷺ نے فرمایا، اس سے کون نپٹے گا،وہب نے عرض کیا میں یا رسول اللہ یہ کہہ کر اس قدر تیر باری کی کہ جتھا واپس جانے پر مجبور ہو گیا، مگر ایک دوسرا جتھا نمودار ہو گیا، آنحضرتﷺ نے فرمایا ،اس کے مقابلہ میں کون آتا ہے ،وہب نے پھر اپنے کو پیش کیا، اوراس زور شور سے حملہ آور ہوئے کہ اس جتھے کا بھی منہ پھیر دیا،اس سے فارغ ہوئے تھے کہ تیسرا جتھا دکھائی دیا، آنحضرتﷺ نے پھر فرمایا،اس کے مقابلہ کے لیے کون اٹھتا ہے،اس مرتبہ بھی اس سوال کے جواب میں وہب ہی کی آواز آئی، آنحضرتﷺ نے بشارت دی جاؤ جاکر جنت لو، یہ مژدہ سن کر شاداں و فرحان یہ کہتے ہوئے کہ نہ کسی کو چھوڑوں گا اور نہ اپنے بچاؤ کی کوشش کروں گا، مشرکین کے جم غفیر میں گھس گئے اور تلوار چمکاتے ہوئے اس پار سے اس پار نکل گئے،مسلمان یہ جرأت اوربہادری دیکھ کر عش عش کرتے تھے، آنحضرتﷺ دعا فرماتے تھے کہ "خدایا اس پر رحم کر، وہب دیر تک حیرت انگیز شجاعت کے ساتھ لڑتے رہے،آخر میں مشرکین چاروں طرف سے ٹوٹ پڑے اور ہر طرف سے نرغہ میں لے کر تیروں اور تلواروں کی بارش شروع کردی،تنِ تنہا اس ہجوم کا کب تک مقابلہ کرتے، بالآخر سینکڑوں زخم کھا کر خلعت شہادت سے سرفراز ہو گئے۔ [1] شہادت کے بعد شمار کیا گیا تو بیس زخم ایسے کاری تھے کہ ان میں سے ہر ایک زخم شہادت کے لیے کافی تھا، شہید کرنے کے بعد مشرکین نے نہایت بری طرح مثلہ کیا تھا، ان کے بھتیجے حارث یہ المناک منظر دیکھ کر بے قابو ہو گئے اور بے تابانہ اٹھ کر اسی بہادری اوربے جگری سے لڑکرجام شہادت پیا، آنحضرتﷺ پر وہب کی شہادت کا نہایت سخت اثر ہوا،چچا بھتیجے دونوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر فرمایا کہ میں تم سے راضی ہوں، مشرکوں نے وہب کی لاش کا اس بری طرح مثلہ کیا تھا کہ قریب جاکر نظر ڈالنے کی ہمت نہ پڑتی تھی،آنحضرتﷺ خود تشریف لے گئے اوردفن تک ان کے پیروں کی سمت کھڑے رہے،اورقبر میں رکھنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے سرخ بوٹوں کی چادر کھینچ کر اڑ ھائی، چادر چھوٹی تھی،پاؤں کھلے رہ گئے تھے،آنحضرتﷺ نے ان پر حرملہ ڈلوائی اوراپنے ہاتھوں سے سپرد خاک کرکے واپس ہوئے ،اس حیثیت سے وہب کی شہادت بڑی قابل رشک تھی کہ قبول اسلام کے بعد ان کا ایک لمحہ بھی دنیا سے ملوث نہ ہوا اورسیدھے جنت الفردوس کو سدھارے، اس طیب وطاہر زندگی اوراس شہادت پر بڑے بڑے صحابہ رشک کرتے تھے،حضرت عمرؓ اورحضرت سعدؓ کہتے تھے کہ کاش مزنی کی شہادت ہم کو نصیب ہوئی ہوتی۔ [2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (ابن سعد،2،ق1:181)
  2. (ابن سعد،جلد4،ق1،صفحہ:181)