موہنی مایا داس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
موہنی مایا داس
 

معلومات شخصیت
مقام پیدائش فیروزپور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
مادر علمی فورمن کرسچین کالج
ماؤنٹ ہولیوک کالج  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ڈورا موہنی مایا داس ایک ہندوستانی ماہر تعلیم اور مقرر تھیں۔ وہ ورلڈ ینگ ومنز کرسچین ایسوسی ایشن (YWCA) کی ایسوسی ایٹ جنرل سیکریٹری برائے ہندوستان، برما و سیلون تھیں۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم[ترمیم]

ڈورا موہنی مایا داس فیروزپور میں[1] مسیحی ہندوستانی والدین، رائے بہادر مایا داس[2] اور موہنی چندولال[3][4] کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کی بہنوں میں سے ایک ہندوستان کے ایک کالج کی صدر، کانسٹینس پریم ناتھ داس (1886ء-1971ء) تھیں۔[5][6] ان کی ایک دوسری بہن گُنوتی مایا داس کی شادی بمبئی کے پہلے ہندوستانی گورنر راجا مہاراج سنگھ سے ہوئی تھی۔[4]

موہنی مایا داس لاہور میں واقع فورمن کرسچین کالج میں داخلہ لینے والی پہلی تین خواتین میں سے ایک تھیں۔ انھوں نے میساچوسٹس میں نارتھ فیلڈ اسکول فار گرلز سے بھی تعلیم پائی۔[7] وہ امریکی جامعہ ماؤنٹ ہولیوک کالج سے پڑھنے والی پہلی ہندوستانی طالبہ تھیں، وہ یہاں سنہ 1906ء میں آئیں اور سنہ 1909ء میں بیچلرز کی سند حاصل کی۔[8] جب وہ ماؤنٹ ہولیوک یونیورسٹی میں تھیں تو وہ ڈورا مایا داس کے نام سے مشہور تھیں اور طلبہ کے لیے کتب لکھتی تھیں۔[9][10] موہنی مایا داس کا ایک ناٹک، دی ہندو وائف آف رام لال سنہ 1909ء ماؤٹ ہولیوک ڈریمیٹک کلب میں پیش کیا گیا تھا۔[7] ان کے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے اعزاز میں ویسٹ فیلڈ، نیو یارک میں YWCA کا مایا داس کلب ان کے نام پر رکھا گیا تھا۔[11]

پیشہ ورانہ زندگی[ترمیم]

موہنی مایا داس (وہ اپنے ہندوستانی ذاتی نام کو ترجیح دیتی تھیں اور انگریزی نام ڈورا ناپسند تھا) 1920ء سے 1923ء تک YWCA کی ایسوسی ایٹ جنرل سیکریٹری برائے ہندوستان، برما اور سیلون[12] اور 1922ء سے 1923ء تک ورلڈ اسٹوڈنٹ کرسچین فیڈریشن (WSCF) کی جنرل کمیٹی کی نائب چیئرپرسن تھیں۔[13] سنہ 1922ء میں انھوں نے بیجنگ میں ورلڈ اسٹوڈنٹ کرسچین فیڈریشن کانفرنس کے موقع پر خطاب کیا تھا۔[14][15]

مایا داس ہندوستان سمیت YWCA میں کام کرنے والے سفید فام مغربی باشندوں کی نقاد تھیں، اس کا اظہار انھوں نے سنہ 1922ء میں بیجنگ میں خطاب کے دوران کیا تھا۔[16] ‘مذہبی تصوف کا ملک آپ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا؟ مشرق صرف آپ کی مصنوعات کی منڈی ہے جہاں لوگوں کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا وہ آپ کو کچھ نہیں دے سکتے، کوئی ایسی چیز جو آپ سمجھنے پر تیار ہوں؟‘ انھوں نے اپنے خطاب میں پوچھا۔ ‘میں مغرب سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ مشرق میں رہنے والے ہم لوگوں کو سمجھے، سرسری انداز سے نہیں بلکہ حقیقی علم سے۔‘[17]

موہنی نے آزادی ہند کی خواتین کے کام کی جگہ پر مہاتما گاندھی سے ملاقات کی، مگر انھوں نے گاندھی کے عدم تعاون کی حکمت کی حمایت نہیں کی۔ انھیں کلکتہ کی سوشل سروس لیگ اور دیہاتی کام کرنے والی خواتین کے لیے موسم گرما کی تربیت گاہ میں دلچسپی تھی۔[8] انھوں نے ہندوستان کی نیشنل کرسچین کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی میں کام کیا اور 1923ء میں شادی کرنے کے لیے سبکدوش ہوگئیں۔[18]

نجی زندگی[ترمیم]

موہنی مایا داس نے 1924ء کے آغاز میں جے۔ این۔ داس سے شادی کی تھی۔[12] انھوں نے 1930ء کی دہائی میں مذہبی موضوعات پر لکھنا اور درس دینا جاری رکھا۔[19]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Two East Indian Girls Seek American Schools" San Francisco Chronicle (June 9, 1904): 16. via Newspapers.comopen access publication – free to read
  2. D. J. Fleming, "Life of a Hindoo Convert" New York Observer and Chronicle (February 21, 1907): 241. via ProQuest
  3. Daniel Johnson Fleming, Building with India (Central Committee on the United Study of Foreign Missions 1922): 211.
  4. ^ ا ب Doreen Mayadas-Bawa, "A Childhood in India" The Australian Women's Weekly (May 21, 1969): 37. via Troveopen access publication – free to read
  5. Shobhana Bhattacharji, "A Christian Educator in India: Constance Prem Nath Dass (1886-1971)" paper presented at the Sixth Galway Conference on Colonialism: Education and Empire (24-26 June 2010).
  6. Nina David, Constance Prem Nath Dass: An Extraordinary History (Bloomsbury Press India 2012). آئی ایس بی این 9789382563310
  7. ^ ا ب "Men and Women" Greensboro Daily News (January 2, 1909): 4. via Newspapers.comopen access publication – free to read
  8. ^ ا ب Alice Boucher Van Doren, Lighted to Lighten the Hope of India: A study of conditions among women in India (West Medford, MA: The Central Committee on the United Study of Foreign Missions 1922): 139-142.
  9. Dora Maya Das, "In Short" The Mount Holyoke (March 1907): 296-297.
  10. Dora Maya Das, "A Hindu Mother's Lullaby" and "Shalamar", in Elizabeth Crane Porter, Frances Lester Warner, eds., A Mount Holyoke Book of Prose and Verse (Riverside Press 1912): 108-109.
  11. "Some Activities of the Young Women's Christian Association in the Country, in Chautauqua County, N. Y." Rural Manhood (November 1911): 306.
  12. ^ ا ب Elizabeth Wilson, The Story of Fifty Years of the Young Women's Christian Association Of India Burma And Ceylon (Indian National Committee of the YWCA 1925): 55-56, 109.
  13. Robert P. Wilder, "The World's Christian Students at Peking" Missionary Review of the World (July 1922): 533.
  14. Laura Rademaker, "Gender, Race, and Twentieth-Century Dissenting Traditions" in Mark P. Hutchinson, ed., The Oxford History of Protestant Dissenting Traditions, Volume V: The Twentieth Century: Themes and Variations in a Global Context (Oxford University Press 2018): 427. آئی ایس بی این 9780192518224
  15. Mohini Maya Das, "The Meaning of the Federation Conference to Orientals" The Student World (July 1922): 95-96.
  16. Karen E. Phoenix, "'Not By Might, Nor By Power, But By Spirit': The Global Reform Efforts of the Young Women's Christian Association in the United States, 1895-1939" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ideals.illinois.edu (Error: unknown archive URL) (Doctoral dissertation, University of Illinois at Urbana-Champaign 2010): 123-124.
  17. "India, its Past, Present, and Future" The Weekly Review (April 29, 1922): 342.
  18. Minutes of a Meeting of the Executive Committee of the National Christian Council[مردہ ربط], Calcutta, November 22-23, 1923.
  19. Mrs. Mohini Dass, "What Indian Womanhood Owes to Christ" The Missionary Review of the World (1936): 412.