مہر محمد میانوالولی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مہر محمد میانوالولی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام مہر محمد
پیدائش 1945ء
بمقام ضلع میانوالی، برطانوی ہند (موجودہ ضلع میانوالی، پنجاب، پاکستان)
وفات 9نومبر 2013ء
بمقام ضلع میانوالی
قومیت  برطانوی ہند
 پاکستان
عرفیت محقق اہلسنت مولانا مہر محمد میانوالولی
مذہب اسلام
رشتے دار میاں محمد (والد)،شیر محمد (بھائی)، محمد عمر فاروق(بیٹا)
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی ، جامعہ نصرۃ العلوم گجرانوالہ
پیشہ تدریس وخطابت،تحقیق، تصنیف وتالیف
کارہائے نمایاں دفاع صحابہ واہلبیت
باب ادب

مہر محمد میانوالولی پاکستانی سنی عالم دین،مدرس و شیخ الحدیث، مبلغ وخطیب، محقق اور مصنف تھے۔ آپ پاکستان شریعت کونسل کے نائب امیر تھے۔ آپ نے اشاعت دین، نفاذشریعت اور دفاع صحابہ واہل بیت کے لیے تدریسی،تحقیقی اور تصنیفی کردار ادا کیا۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

مہر محمد میانوالوی 1945ء میں میاں محمد کے ہاں ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے۔

خاندان[ترمیم]

آپ کے والد کا نام میاں محمد اور بھائی کا نام شیر محمد تھا۔آپ کی اولاد میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔

وطن[ترمیم]

آپ کا تعلق ضلع میانوالی کے گاؤں بن حافظ جی سے تھا۔ تعلیم وتدریس اور خطابت وادارت کی خاطر کراچی،گجرانوالہ اور راولپنڈی میں بھی مقیم رہے۔

تعلیم[ترمیم]

آپ نے ناظرہ و حفظ کی تعلیم اپنے نانا خیرمحمد اور محمد رمضان سے پائی۔ پرائمری اور مڈل تک عصری تعلیم اپنے علاقہ میں رہ کر حاصل کی۔ اس کے بعد درس نظامی کی ابتدائی تعلیم غلام رسول سے حاصل کی ۔ اس کے بعد 1966ء میں نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے دورہ حدیث مکمل کیا اور تخصص کے لیے محمد یوسف بنوری کے ادارہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا اور تخصص کی تعمیل پر حضرت بنوری کے حکم سے الکوفة و علم الحدیث کے موضوع پر عربی میں عمدہ و جاندار مقالہ لکھا۔[1]

عملی زندگی[ترمیم]

فراغت کے بعد کچھ عرصہ کراچی میں قیام پزیر رہے، مختلف مساجد میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دیے۔ کچھ عرصہ تاج کمپنی میں پروف ریڈر رہے ۔ فوج میں بھی بطور امام و خطیب خدمات سر انجام دیں، حق گوئی و بے باکی کی بنا پر فوج میں نہ رہ سکے۔گوجرانوالہ کے محلہ نور باوا کی ایک مسجد میں کئی برس خطابت و امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور اس دوران مختلف دینی تحریکوں میں شریک رہے۔ انھوں نے گوجرانوالہ میں تنظیم اہل سنت پاکستان کا حلقہ قائم کرنے کے لیے کچھ عرصہ کام کیا مگر تنظیمی مزاج کے نہیں تھے، اس لیے زیادہ مصروفیات تحقیق وتصنیف کے دائرہ میں ہی رہیں۔[2]غلام اللہ خان کے ادارہ میں ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی کے تین سال تک مدیر و مضمون نگار رہے۔[3] اس کے بعد اہل علاقہ کو دین سے وابستہ کرنے اور جوڑنے کے لیے 1991ء میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی ، جہاں بنات کے لیے دورہ حدیث تک اور بنین کے لیے حفظ و ناظرہ کا انتظام کیا۔ آپ نے افغانستان اور ہندوستان کا کئی بار سفر کیا۔ حرمین شریفین میں بھی دو بار حاضری دی ، پہلی مرتبہ 1975ء میں حج کی ادائیگی کے لیے اور دوسری بار 2001ء میں عمرہ کے لیے تشریف لے گئے۔ درس قرآن کا بے حد شوق تھا ، اس بنا پر آپ نے تین بار قرآن کا درس مکمل کیا۔

پاکستان شریعت کونسل میں کردار[ترمیم]

پاکستان شریعت کونسل کے قیام کے وقت سے اس میں شریک تھے۔ ضعف و علالت اور مصروفیات کے باوجود کونسل کے اجلاسوں میں اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے تھے وفات کے وقت مرکزی نائب امیر تھے۔ انھوں نے پاکستان شریعت کونسل کے عنوان کے ساتھ بہت سے مضامین اور پمفلٹ شائع کیے جن کا بنیادی موضوع ملک میں خلافتِ راشدہ کے نظام کا قیام اور حضرات صحابہ کرام کے ناموس و وقار کا تحفظ و دفاع تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً مطبوعہ خطوط کے ذریعہ حکمرانوں ، ارکان اسمبلی اور علما کرام کو ان امور کی طرف توجہ دلاتے رہے۔[4]

مشہور اساتذہ[ترمیم]

آپ کے مشہور اساتذہ درج ذیل ہیں:

تصانیف[ترمیم]

آپ کے قلم سے کئی تحقیقی کتب منصہ شہود پر آئیں، جن کی اجمالی فہرست مندرجہ ذیل ہے:

  • الکوفة و علم الحدیث
  • عدالت حضرات صحابہ کرام
  • تحفہ امامیہ
  • سیف اسلام
  • ہم سنی کیوں ہیں؟
  • اہل سنت مذہب سچا ہے
  • حرمت ماتم و تعلیمات اہل بیت
  • مسلمان کسے کہتے ہیں؟
  • معراج صحابیت
  • اہل بیت کی نورانی تعلیمات
  • تحفۃ الاخیار
  • شیعہ سے سو سوالات
  • محرم میں امن کیسے ہو؟
  • حضرت عمار بن یاسرکی شہادت
  • شیعہ اور عقیدہ ختم نبوت
  • کلمہ طیبہ اور خلفاء راشدین
  • تلخیص نهج البلاغة
  • ایمانی دستاویز
  • خوشبوئے نبوت واہل بیت
  • عقائدالشیعہ
  • رمضان اور روزوں کے مسائل
  • پاکستان میں اسلام کیسے قائم ہو؟[5]

سفر آخرت[ترمیم]

وفات سے پندرہ بیس دن پہلے بخار ونزلہ وغیرہ محسوس ہوا جو بڑھتے بڑھتے ٹائیفائیڈ کی شکل اختیار کر گیا، جس سے کمزور ہوتے چلے گئے۔ اپنی وفات سے پانچ دن پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اب میرے اگلے سفر کی تیاری ہے۔ آخری دنوں میں قرآن کریم کی آیت تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَالْحِقْنِي بِالصَّالِحِيْنَ اور درود شریف کا کثرت سے ورد کرتے رہے ۔

وصیت[ترمیم]

وفات سے ایک دن قبل جمعہ کے دن گیارہ بجے جمعہ کی تیاری کی غسل کر کے صاف کپڑے پہن کر مندجہ ذیل وصیت لکھوائی: "صحابہ واہل بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو مانے والے تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ میں تو تائید اہل سنت اور رد رفض میں ایک عرصہ گزار کر ، کتا ہیں لکھ کر اس دنیا سے جارہا ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں ۔ اللہ تعالیٰ یہی مغفرت کا ذریعہ بنائے، آمین۔ آپ سے گزارش ہے کہ تمام مکاتب فکر انصاف سے یہ کتابیں پڑھیں ، دلیل کا جواب نہیں ہوتا ، دلیل کا تو ڑ نہیں ہوتا۔ دلیل قرآن ہے یا حدیث ہے یا اہل بیت کے افادات اور تاریخ وغیرہ کی کتابیں ہیں۔ اس کو تو زیادہ سے زیادہ اخلاص کی شکل میں ، امن عامہ کی شکل میں جھگڑا کیے بغیر سنی شیعہ کا مسئلہ کیے بغیر آگے پھیلائیں اور ان لوگوں تک پہنچا ئیں جن پر ظلم ہوتا ہے یا وہ مقہور دکمزور سمجھے جاتے ہیں اور لوگ ان سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، ان تک یہ لٹریچر پہنچے اور وہ اس کو پڑھیں اور پڑھ کر اپنے ایمان کو تازہ کریں کہ: اللہ سچے ہیں، وحدہ لاشریک۔ حضرت محمد پاک صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ آپ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ایسا امام مہدی جس کا ماننا ضروری ہو اور اختلاف کرنے والا کافر ہو جائے۔ کیونکہ اسلام میں اختلاف و انتشار کی راہ غیر مسلموں نے پھیلائی ہے۔ آپ حضرات نماز پر ثابت قدم رہیں، حلال خوری پر اور حرام سے اجتناب پر اور سچ بولنے پر اور جھوٹ بولنے سے پر ہیز کریں۔ اللہ کے دین کو آگے پھیلائے رکھیں اور یہی میری آپ سے آخری گزارش ہے۔علمائے دین سے میری گزارش ہے کہ وہ لٹریچر کو اپنے حلقہ احباب میں زیادہ سے زیادہ چلانے ، پھیلانے کی کوشش کریں اور اپنی عوام کو درست فرما ئیں اور لوگوں کو رفض کی بیماری سے بچائیں۔وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين"۔[6]

وفات[ترمیم]

9نومبر2013ء بمطابق 4محرم الحرام بروز ہفتہ دن ایک بجے 68 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

نماز جنازہ[ترمیم]

آپ کی نماز جنازہ محمد الیاس چنیوٹی نے پڑھائی ۔ آپ نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا کہ میری نماز جنازہ محمد عمر شاہ پڑھا ئیں، جو موسیٰ زئی گدی سے تعلق رکھتے ہیں اور بزرگ شخصیت ہیں۔ وہ آپ کے جنازہ میں موجود تھے، مگر کمزوری کی وجہ سے قیام نہ کر سکتے تھے ، اس لیے وہ نماز جنازہ نہ پڑھا سکے۔[7]

  1. محمد اعجاز مصطفی۔ ماہنامہ بینات ،صفر المظفر ١٤٣٥، صفحہ 52۔ بنوری ٹاؤن کراچی: جامعہ العلوم الاسلامیہ 
  2. "تنظیم کا حلقہ اور تحقیقی مزاج" 
  3. "ماہنامہ تعلیم القرآن کی ادارت" 
  4. "شریعت کونسل میں کردار" 
  5. محمد اعجاز مصطفی۔ ماہنامہ بینات ،صفر المظفر ١٤٣٥، صفحہ 52۔ کراچی: جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن 
  6. ماہنامہ بینات ،صفر المظفر ١٤٣٥، صفحہ 53
  7. ماہنامہ بینات ،صفر المظفر ١٤٣٥، صفحہ 54