میانمار کے بنگالی لوگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
میانمار کے بنگالی لوگ
گنجان آبادی والے علاقے
 میانمار
زبانیں
بنگالی (بطور مادری زبان) اور میانماری زبانیں۔
مذہب
ہندو مت، بدھ مت اور اسلام
متعلقہ نسلی گروہ
بنگالی اور میانماری لوگ

میانمار کسی زمانے میں برطانوی ہند کا حصہ تھا۔ اس دور میں ہندوستان کا کوئی بھی شخص میانمار کا سفر اور میانمار کا کوئی بھی شہر بھارت کا سفر بڑی آسانی عملًا ایک ہی ملک کے سفر کی طرح کر سکتا تھا۔ کئی ہندوستانی اس دور میں میانمار میں جا کر بس چکے تھے، جسے برطانوی حکمران برما کا نام دے چکے تھے۔ بھارت سے برما میں جا کر بسنے والوں عام شہری بھی تھے، ماہرین تعلیم بھی تھے اور اس میں حلقہ مجاہدین آزادی کا تھا جو میانمار کے راستے ہندوستان کو برطانوی حکمرانوں سے نجات دلانا چاہتا تھا۔ ان ہی دانشوروں میں بنگالی زبان کے بولنے والے بھی تھے، جو جدید دور میں میانمار میں پائے جاتے ہیں۔

محل وقوع[ترمیم]

میانمار کے دار الحکومت میں ایک اندازے کے مطابق 300 سے 400 بنگالی ہندو موجود ہیں۔ مگر زیادہ بنگالی ہندو راکھین میں آباد ہیں جو میانمار میں کثیر مسلمان آبادی والا صوبہ ہے۔ غالبًا مقامی روہینگیا کے ان ہی لوگوں کے ربط کی وجہ سے بنگالی گو سمجھا جاتا ہے، حالاںکہ ان کی روہینگیا زبان میں اگر چیکہ کچھ بنگالی الفاظ شامل ہیں، مگر اس زبان کی مجموعی ساخت مختلف ہے۔[1]

تاریخی یادگاریں[ترمیم]

  • برطانوی ہند کے دور میں یانگون میں ٹیگو کالج واقع تھا، جس کے بیش تر معلمین بنگالی تھے۔ اس کالج کا الحاق بھی کولکاتا یونیورسٹی سے تھا۔ اب یہ کالج نہیں ہے۔ اس کی عمارت میں میانمار کی فوج اپنے کچھ محکمہ جات قائم کر چکے ہے۔
  • شرت چندر چٹوپادھیائے، جو عظیم بنگالی مصنف تھے، اصل یانگون شہر کے بوتاتاؤنگ علاقے میں رہا کرتے تھے۔ ٹیگو کالج کی طرح اس علاقے کو بھی بدل کر ایک فوجی کیمپ بنایا گیا۔
  • اسی میانمار میں ہندوستان کے مجاہد آزادی نیتاجی سبھاش چندر بوس اور آزاد ہند فوج کا ورثہ بھی رہا ہے۔ 1944ء میں یانگون شہر ہی سے نیتاجی نے نعرہ لگایا تھا: “تم مجھے خون دو، میں تمھیں آزادی دوں گا۔” اس دور میں یانگون جاپان کے قبضے میں تھا۔آزاد ہند فوج نے صورت حال سے فائدہ اٹھا کر کئی کیمپ پورے میانمار میں اور خاص طور پر یانگون میں بنائے تھے۔ بعد میں وہ منی پور کے راستے ہندوستان میں داخل ہو کر اسے آزاد کرانا چاہتے تھے، مگر وہ اس میں ناکام ہو گئے تھے۔
  • یانگون ہی میں ہاؤز آف میموریز ریستوران ہے۔ تمام قدیم یادگاروں میں یہ واحد جدید دور میں بھی موجود ہے۔ یہیں پر نیتاجی میانمار کے قومی ہیرو جنرل آنگ سان سے ملے تھے، جو نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سو چی کے والد تھے۔ [1]

بنگالیوں کے ملک سے فرار ہونے کی وجہ[ترمیم]

بھارت اور میانمار کی آزادی کے بعد بنگالیوں میں خوف کا ماحول طاری ہوا۔ اس کی وجہ سے بیش تر لوگ بھارت آ گئے۔ میانمار سے بھارت کا رخ کرنے والوں صرف بنگالی لوگ ہی نہیں تھے بلکہ اس میں کئی عام ہندوستانی بھی تھے جن کی مادری زبان مختلف تھی۔ ان لوگوں میں بھارت کی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی بھی رہے ہیں۔ ان کی پیدائش بھی یانگون کے ایک گجراتی جین خاندان میں ہوئی تھی جو 1960ء ملک میں افراتفری اور عدم استحکام کی وجہ سے بھارت آگئے تھے اور ابتدائی طور پر ریاست گجرات کے علاقہ راجکوٹ میں قیام پزیر ہو گئے تھے۔ اس طرح سے کئی لوگ کئی دیگر لسانی پس منظر کے ساتھ بھارت آ گئے تھے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب "For Bengalis in Yangon, memories of a long-gone era"۔ دی ہندو بزنس لائن۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2018