میاں احمد دین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
میاں احمد دین عالی سرکار موضع بینکہ چیمہ کے ایک زمیندار تھے۔ تلاش مرشد نے میں آپ کی ملاقات پیر احمد دین صدیقی سے ہوئی۔ ان سے بیعت کے سلسلے میں سب کچھ چھوڑ کر گجرانوالہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ آپ پیر احمد دین صدیقی کے خلیفہ اعظم تھے۔ آپ 22 سال تک احمد دین صدیقی کے خلفیہ کے حثیت سے ان کی خلافت کا کام کرتے رہے۔ آپ کے جانشین آپ کے بڑے بیٹے میاں محمد عبد اللہ ہوئے۔

ولادت[ترمیم]

آپ کا اسم گرامی احمد دین اور لقب میاں جی تھا۔ آپ میاں جی احمد دین عالی سرکار سے مشہور تھے۔ آپ کے والد گرامی کا نام میاں جی تھا۔ آپ ذات کے لحاظ سے سندھو جاٹ تھے اور آبائی پیشہ کاشتکاری تھا۔ آپ موضع بینکہ چیمہ کے زمیندار تھے۔

  • میاں احمد دین عالی سرکار کی ولادت موضع بینکہ چیمہ میں 1850ء کو ہوئی۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

میاں احمد دین کے والد چونکہ ایک زمیندار تھے اس لیے جب آپ تھوڑے بڑے ہوئے تو آباء و اجداد کے پیشے سے منسلک ہو گئے اور خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے مالی طور پر کافی خوش حال ہو گئے۔ اپنے علاقے کے بڑے زمینداروں میں شمار ہونے لگے۔ دولت کی فراوانی کی وجہ سے مشغلوں میں مشغول رہنے لگے۔ وہیں ایک جوگی ان دنوں میں اقامت پزیر تھا۔ میاں احمد دین نے اس جوگی کے پاس آنا جانا شروع کر دیا۔ آپ اکثر اس کی خدمت میں حاضر رہنے لگے۔ جوگی نے آپ کی خدمت سے خوش ہو کر آپ کو جوگ عطا کیا۔ اس جوگ کا سب سے ادنی کرشمہ یہ تھا کہ دنیا بھر کے سانپ آپ کے مطیع و فرماں بردار ہو گئے تھے اور ہر طرح کے سانپ آپ کے پاس ہر وقت حاضر رہتے تھے۔ آپ ان سانپوں کو ہاتھوں اور جیبوں میں لیے پھرتے تھے۔ لوگ دور دور سے سانپوں کے ڈسے کا علاج کرانے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔

تلاشِ مرشد کمال[ترمیم]

میاں احمد دین کے دل میں جوگی سے جوگ لینے کے بعد دنیا سے بے رغبتی بڑھنے لگی اور ہر وقت تلاش مرشد میں مصروف رہنے لگے۔ اسی تلاش کے دوران آپ کی ملاقات گوجرانوالہ کے بزرگ حضرت احمد دین صدیقی سے ہوئی۔ آپ نے بیعت کی درخواست کی مگر حضرت نے یہ کہتے ہوئے درخواست رد کر دی کہ آپ زمیندار ہو۔ فقیری بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ آپ اس سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ آپ کے دماغ میں حکمرانی کا خمار ہے۔ اس کے لیے سخت مجاہدہ کرنا پڑے گا۔ اگر بیعت ہونا چاہتے ہو تو کچھ شرائط ماننا پڑیں گئیں۔ آپ نے کہا کہ مرشد آپ جتنی شرائط کہیں مجھے منظور ہیں۔

شرائط بیعت[ترمیم]

پیر احمد دین صدیقی نے میاں احمد دین سے بیعت کے لیے تین شرائط رکھی جو درج ذیل ہیں۔

  1. پیر احمد دین نے کہا جو کچھ زمینداری، گھر بار، کھوہ وغیرہ جو آپ کی ملکیت میں ہے سب کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دو۔
  2. گاؤں کو چھوڑ کر مستقل سکونت گجرانوالہ میں رکھنی ہوگی۔
  3. آپ کے دماغ میں زمینداری کا خمار ہے اس لیے دو سال تک بھیک مانگ کر گذر بسر کرنی ہوگی۔

میاں احمد دین نے اپنے مرشد کی تمام شرائط قبول کر لی۔ پہلے اپنے گاؤں جا کر تمام جائداد اپنے قربت داروں میں تقسیم کر دی۔ اپنی ضرورت کا سامان لے کر ہمیشہ کے لیے گجرانوالہ سکونت اختیار کر لی اور کامل دو سال تک بھیک مانگ کر زندگی گزاری۔

بیعت[ترمیم]

جب میاں احمد دین نے تمام شرائط مکمل کر لی تو آپ کے مرشد پیر احمد دین صدیقی نے آپ کو خوش دل سے بیعت کیا اور ساتھ میں اسم ذات تلقین قادری عطا فرمایا۔ شیخ نے میاں احمد دین سے بھیک چھڑا کر ان کو محنت مزدوری کا حکم دیا۔

خرقہ خلافت[ترمیم]

میاں احمد دین کچھ زیاد علم دین پڑھے ہوئے نہیں تھے۔ اس لیے بحکم شیخ دینی علوم کی طرف رجوع فرمایا اورکامل آٹھ سال میں تمام علوم دینی میں کمال حاصل کیا۔ جب آپ کی روحانی تربیت بھی مکمل ہو گئی اور دینی تعلیم کا بھی خاطر خواہ انتظام ہو گیا تو آپ کے شیخ پیر احمد دین صدیقی نے آپ کوخرقہ خلافت سے نوازا۔ آپ اپنے شیخ کے خلیفہ اول و خلیفہ اعظم تھے۔

خدمت شیخ[ترمیم]

میاں احمد دین نے ساری عمر خدمت شیخ کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اس لیے ان کی زندگی میں کسی اور کام کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ شیخ نے وصال فرمایا۔ شیخ کی تجہیز و تکفین اور غسل کے سب انتظامات آپ نے ادا کیے اور لحد میں بھی اتارا۔ شیخ کے وصال کے بعد بھی آپ نے ان کی ہم نشینی کو ترک نہیں کیا۔ آپ نے شیخ کی تربت کے پاس موجود جگہ کو مسجد کی شکل دے دی اور خود اس کے امام مقرر ہوئے۔ آپ تادم صحت یہ فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ آج کل اس مسجد کا نام جامع مسجد فاروقیہ رضوی المعروف دارے والی مسجد ہے۔

حج بیت اللہ[ترمیم]

1927ء کو میاں احمد دین اپنی شریک حیات اور ایک خادم کے ساتھ حج بیت الله کو روانہ ہوئے۔ آپ حج کے لیے براستہ عراق تشریف لے گئے۔ بغداد میں حضرت غوث اعظم کے مزار اقدس پر حاضری کی سعادت حاصل کی اور وہاں چلہ کشی کی۔ دوران حج آپ کا زادراہ چوری ہو گیا اور آپ اس کی وجہ سے مدینہ منورہ نہ جا سکے۔ اس صدمہ سے دل گرفتہ رہتے اور آنکھیں ہر وقت اشک بار رہتی۔ دوبارہ 1932ء میں آپ حج کے لیے بیت اللہ شریف تشریف لے گئے اور مدینہ منورہ میں بھی حاضری دی۔ مدینہ منورہ میں چھ ماہ کا عرصہ گزارا۔

مجلس نبوی میں حاضری[ترمیم]

میاں احمد دین کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ کامل 40 سال مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کی حاضری رہی۔ آپ جس کے لیے دعا فرماتے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہو جاتی۔


وصال[ترمیم]

میاں احمد دین عالی سرکار کا وصال 18 شوال 1948ء کو تقریباً 98 سال کی عمر میں ہوا۔ آپ کی تدفین قبرستان کلاں میں کی گئی۔


اولاد[ترمیم]

میاں احمد دین عالی سرکار نے اپنے پیچھے دو بیٹے چھوڑے جو دونوں ولی کامل ہوئے۔

  1. میاں محمد عبد اللہ
  2. میاں برکت علی [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اولیائے گجرانوالہ مرتب میاں علی رضا صفحہ 47 تا 50