میر رفعت بیگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

میر رفعت بیگ مجدد الف ثانی کے سجادہ نشین خواجہ محمد معصوم سرہندی کے خلیفہ خاص تھے۔

ارادت[ترمیم]

میر رفعت بیگ مغل بادشاہ شاہجہان (متوفی 1076ھ بمطابق 1666ء) کے طلائی گز بردار تھے۔ خواجہ محمد معصوم (متوفی 1079ھ بمطابق 1668ء) کے خاص و مخلص ارادت مند تھے۔ خواجہ محمد معصوم کی دعاؤں کے صدقے الله تعالی نے آپ کو تعلقات کی پستی سے نکالا اور حقائق کی بلندی سے ہمکنار فرمایا۔ نیز ظاہری تنگی سے خلاصی عطا فرمائی اور باطن کی وسعت سے سرفراز فرمایا۔

تربیت باطنی[ترمیم]

میر رفعت بیگ خواجہ محمد معصوم کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے تو بعد ازاں خواجہ محمد معصوم نے درج ذیل نصیحت آمیز مکتوب آپ کوتحریرفرمایا: الحمد لله وسلام على عباده الذين اصطفی

مصلحت دید من آنست کہ یاران ہمہ کار بگزارند و سر طره یارے گیرند

(میں مصلحت اس میں دیکھتا ہوں کہ دوست سب کام چھوڑ دیں اور ایک دوست کی زلف کے خیال میں گم ہو جائیں) اے شفقت کے آثار والے! عمر عزیز گذری جارہی ہے اور مقررہ سماعت قریب آرہی ہے۔ اس طرح زندگی بسرکریں کہ وقت عزیز باطن کی اصلاح میں گذرے اور دل کی تعمیر میں صرف ہو جو مولی تعالی کی نظر (عنایت) کا مقام ہے۔ قبر و قیامت کے لیے تیاری کی کوشش کریں۔ اندھیری رات کو اذکار کی پابندی کے ساتھ منور کریں۔ صبح کے رونے اور استغفار کو غنیمت سمجھیں۔ دن رات میں ایک دو وقت تنہائی کے لیے مقرر کرنے چاہیں تا کہ کوئی دوسرا شخص اس وقت میں دخل انداز نہ ہو اورکلمہ لا الہ الا اللہ سے اپنے مقاصد کے لیے ارادوں کی نفی کریں، تا کہ دل کی وسعت میں حق سبحانہ و تعالی کے سوا کوئی مراد و مقصود نہ ہے۔

این کاردولت است کنوں تا کراد ہند (ترجمہ) یہ نصیب کی بات ہے، دیکھئے اب کسے عطا کرتے ہیں

عنایات مرشد[ترمیم]

خواجہ محمد معصوم نے اپنے ایک اور مکتوب میں آپ کو حقیقت فنا کی بشارت سے نوازتے ہوئے اس طرح تحریر فرمایا

  • آپ نے احوال باطن کے بارے میں ظل سے کلی طور پر روگردانی اور اس کے زوال و نیستی کی طرف رخ کرنے اورظل سے اصل کی طرف مائل ہونے کی بابت لکھا تھا۔ نیز لکھا تھا کہ اکثر اوقات اس عجیب کیفیت کے سرور کے باعث روح چاہتی ہے کہ قالب سے پرواز کر جائے۔ اس وقت میں بے خودی و نیستی کی ایک عجیب حالت حاصل ہوتی ہے کہ شرح بیان سے باہر ہے۔ اس کے مطالعہ نے محظوظ و لطف اندوز کیا۔ (یہ) احوال درست و معقول ہیں اور حقیقت فنا کے حاصل ہونے کی بشارت دینے والے ہیں۔ اس نعمت سے جو درجہ بھی میسر ہو جائے مبارک ہے۔ اس نسبت کی نگا ہداشت میں سعی فرمائیں اور اس کی کیفیت کے زیادہ ہونے میں دل و جان سے کوشش کریں۔

وصال[ترمیم]

میر رفعت بیگ کا وصال قضائے الہی سے ہوا۔ صاحب مقامات معصومی لکھتے ہے کہ میر رفعت بیگ کا دفن مجھے معلوم نہیں لیکن زیادہ گمان ہے کہ دہلی میں ہوگا۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ و تذکرہ خانقاہ سرھند شریف مولف محمد نذیر رانجھا صفحہ 731 تا 733