میر شیر محمد خان تالپور

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
میر شیر محمد خان تالپور
شیرِ سندھ
میر شیر محمد خان تالپور اور ان کا خدمتگار
حاکمِ میرپور خاص، سندھ
1836 - 1843
پیشرومیر علی مراد خان تالپور
جانشین-
نسلمیر فتح خان تالپور

میر امام بخش خان تالپور

میر نبی بخش خان تالپور
خاندانتالپور
والدمیر علی مراد خان تالپور
پیدائشمئی 17، 1810
میرپور خاص، سندھ
وفاتاگست 24، 1874(1874-80-24) (عمر  64 سال)
میرپور خاص، بمبئی پریزیڈنسی، برطانوی راج
تدفینچٹوڑی قبرستان

مير شير محمد خان تالپور میرپور خاص، سندھ کے مانکانی تالپور خاندان کے آخری حکمران تھے۔ مير شير محمد خان تالپور کو اپنی بہادری اور حب الوطنی کے لیے ”شيرِ سندھ“ کے لقب سے ياد کیا جاتا ہے۔ آپ نے حيدرآباد میں ايسٹ انڈيا کمپنی کی فوج کے قبضے کے بعد سندھ کی آزادی کی پہلی جنگ 24 مارچ 1843ء میں دُبی کے ميدان میں انگريزوں سے لڑی اور سندھ کی آزادی کے لیے جدوجہد کی بنياد رکھی۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

میر شیر محمد خان کا جنم، 17 مئی 1810ء کو میرپور خاص کے مانکانی تالپور خاندان کے حاکم میر علی مراد خان تالپور کے گھر ہوا۔

آپ کی تعلیم کے لیے ہالا کے قاضی خاندان سے، اس و قت کے بڑے عالم اور فاضل آپ کے اتالیق مقرر کیے گئے۔ میر صاحب کو اپنی مادری زبان سندھی، سرائیکی اور بلوچی کے علاوہ فارسی اور عربی کی تعلیم بھی ملی۔ میر صاحب ان زبانوں میں ماہر تھے۔

میر صاحب کا رنگ گورا، قد درمیانہ مناسب، چہرہ کشادہ تھا۔ طبیعت شوخ، گفتگو میں کم اور حشمت والے تھے۔

تخت نشینی[ترمیم]

1836ء میں میرپور خاص میں آپ کی تخت نشینی ہوئی، جس کے بعد تمام سندھ کے پیر اور سجادہ نشین، میر اور امیر اور بلوچ سردار آپ کے والد کی فاتحہ خوانی پہ آئے تھے۔ جنھوں نے آپ کو دستار پہنائی، یہ رسم نہایت شاہانہ نمونے میں منائی گئی۔

مُلکی حالات[ترمیم]

1783ء میں کلہوڑوں کی جگہ تالپوروں نے اپنی حکومت قائم کرلی۔ اس کے بعد 1784ء میں میر فتح علی خان تالپور نے سندھ کو سات حصوں میں منقسم کیا، جس میں سے چار حصے میر صاحب نے اپنے اور اپنے بھائیوں کے لیے رکھے۔ دو حصے میر سہراب خان تالپور کو دیے اور ایک حصہ میر ٹھارو خان تالپور کو دیا۔

اس طرح میر فتح علی خان حیدرآباد میں، میر سہراب خان خیرپور میں اور میر ٹھارو خان میرپور خاص میں مسند نشین ہو کر حکومت چلانے لگے۔

میر شیر محمد خان، میر ٹھارو خان کے پوتے تھے۔ میر صاحب کے دور میں میرپور خاص کی سلطنت گلزار اور سبزہ زار تھی۔ لوگ نہایت خوش اور پُرسکون ہوتے تھے۔ میر صاحب کے دور میں کبھی قحط نہیں پڑا تھا۔ چوریاں اور ڈاکے نہ ہونے کے برابر تھے۔

علم اگرچہ اتنا عام نہیں تھا لیکن لوگ جاہل بھی نہیں تھے۔ عربی، فارسی اور سندھی زبانوں میں درسگاہیں اور مکتب بہت تھے جن میں ہزاروں شاگرد دین کا علم حاصل کرتے تھے۔ ان کو میر صاحب کی طرف سے سالانہ وظیفہ ملتا تھا۔

سندھ کے مشہور عالمِ باعمل، فقیہ اور صوفی مخدوم فقیر عبد الرحیم گرھوڑی، جو میر ٹھارو خان کے استاد تھے، کا مدرسہ اس دور میں نمایاں حیثیت حاصل کر چکا تھا۔ آپ کے مدرسے میں ہزاروں طالبِ علم پڑھتے تھے، جن کا اکثر خرچ میر صاحب دیتے تھے۔

اس کے علاوہ میرپور خاص اور لاڑ میں بھی بڑے مدارس تھے، مثلاً گرھوڑ، چوٹیاریوں، بدین وغیرہ جن سے فارغ التحصیل شاگردوں کو باقاعدہ اسناد ملتی تھیں۔ یہ شاگرد فراغت کے بعد سندھ کونے کونے میں پھیل جاتے تھے اور دینی مدارس قائم کرتے تھے۔

سلطنت میں خوش حالی کا یہ عالم تھا کہ جب پُرزور بارشیں برستی تھیں، تب دریائے سندھ پر مکھن کی کشتیاں بھر کر فروخت ہوتی تھیں۔ کسی بھی اناج کی جنس کی قیمت زیادہ سے زیادہ دو روپے فی من تھی۔

شاہی لشکر[ترمیم]

تالپوروں کا مرکزی لشکر بلوچ قوم میں سے تھا، جس کے سرداروں کو لشکر کے انتظامات اور کھانے کے معاوضے میں جاگیریں ملی ہوئی تھیں۔

لشکر دو اقسام کا تھا ایک باقاعدہ اور دوسرا سرداری لشکر۔ باقاعدہ لشکر کو ایک جرمن مسٹر سئمسن تعلیم دیتے تھے۔ تربیت کے لحاظ سے، میر صاحب کا توپخانہ سندھ کے باقی تمام حکمرانوں سے بہتر تھا۔

باقاعدہ لشکر کے سوار کو خوراک سمیت تیس ہزار روپے ماہانہ ملتے تھے۔ حالانکہ یہ وہ خوش حالی کا دور تھا جب اناج فی من دو روپے میں ملتا تھا اور نمک کی ایک بوری صرف دو پائی میں ملتی تھی اور جوار کی فی من قیمت صرف چودہ آنے تھی! باقاعدہ فوج میں جس کے پاس ہتھیار نہیں ہوتے تھے، اس کو ہتھیار ملتے تھے۔ انعام، خلعتین اور روزینہ اس کے علاوہ مقرر تھا۔

انگریزوں کی سازشیں[ترمیم]

انگریز جو مکاری، سودیبازی اور باہمی اختلاف پیدا کرنے کی سازشوں سے سارے ایشیا کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ چکے تھے، وہ یہ سب ہتھیار سندھ میں بھی استعمال کر رہے تھے۔ تالپوروں کو غیروں سے اور آپس میں لڑانا، ان کا بنیادی ہتھیار تھا۔ جس کی بدولت بالآخر انگریز سندھ میں کامیاب ہوئے۔

میر شیر محمد خان یا میرپور خاص سرکار کے کسی دوسرے حکمران نے کبھی بھی افغان یا انگریز سرکار کو خراج نہیں بھرا تھا اور نہ ہی ان سے محکومی اور غلامی کا کوئی معاہدہ کیا تھا۔ اس لیے انگریز ہمیشہ ان سے نفرت کرتے تھے۔

اس نفرت کے باعث انگریزوں نے میر شیر محمد خان کے خلاف حیدرآباد کے میروں کو اُکسانے میں کامیابی حاصل کی۔ نفاق ڈالنے کی خاطر یہ مشہور کیا کہ میر شیر محمد خان خود حیدرآباد سرکار کے محکوم ہیں۔ اس جو بھی معاہدے ہم نے حیدرآباد سرکار سے کیے ہیں، وہ خود بخود میرپور خاص سرکار پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔

جب میرپور خاص سرکار نے یہ بات قبول کرنے سے انکار کیا، تب مجبوراً میرپور خاص سے ایک علاحدہ معاہدہ کیا۔ جس میں میر صاحب کی خود مختارانہ حیثیت تسلیم کی۔ ليکن پس پرده کسی موقع کی تلاش میں انگریز سازشیں رچتے رہے۔

میر صاحب ایک مدبر سیاست دان تھے، آپ کی نگاہ سمجھ چکی تھی کہ یہ سب کچھ مکاری اور چالاکی کے تحت کیا گیا ہے۔ اس انگریز سازش کو ختم کرنے کے لیے آپ نے حیدرآباد سرکار کو مشورہ دیا کہ وہ آپس میں متحد ہو کر انگریزوں کو باہر نکال دیں۔