می ٹو تحریک (ایران)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ایران کی دو خواتین کی ایک علامتی تصویر دکھانے والا ویڈیو۔ ویڈیو میں اگرچیکہ خواتین کی کمر دکھائی جا رہی ہے، تاہم اس میں ان کا برسر حجاب ہونا عیاں ہیں۔ اس میں یہ لوگ ایک مرد کے ساتھ دکھتی ہیں، تاہم روایات کی رو سے یہ لوگ مردوں کے شانہ بہ شانہ نہیں چل سکتی ہیں۔ خواتین آیت اللہ خمینی کے 1979ء میں لائے گئے انقلابی تبدیلیوں کے بعد بہت سے حقوق سے محروم ہو چکی تھیں، جس کا بعد کے دہوں میں آجرین اور بااثر مردوں نے جنسی استحصال کے لیے استعمال کیا۔ 2020ء شروع ہونے والی ملک کی می ٹو تحریک اور حکومت کے مجوزہ قانون سازی سے یہ کوشش کی جا رہی کہ خواتین کو بھی ان کے مستحقہ حقوق اور دفاتر اور عوامی مقامات پر ہراسانی اور تشدد سے بچایا جا سکے۔

می ٹو تحریک (انگریزی: Me Too movement، لفظی معنے: میں بھی) جس کے کئی مقامی اور بین الاقوامی متبادلات موجود ہیں، جنسی ہراسانی اور عورتوں پر جنسی دست درازی کے خلاف ایک تحریک رہی ہے [1][2] جس کی ایک ہیئت اسلامی جمہوریہ ایران میں بھی دیکھی گئی۔ اس تحریک کا آغاز اگست 2020ء میں ایک گم نام مرد کی وجہ سے شروع ہو جس نے کافی اعتماد کے ساتھ اپنے ٹویٹر کھاتے سے ایسے مشورے دینے شروع کیے کہ کس طرح ایک عورت کو اپنی پہلی ہی عشقیہ ملاقات میں جنسی سرگرمی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ مشورے میں یہ تفصیلات شامل تھی کہ ایک عورت کو اس کے حسن سے مغلوب ہونے کا بہانہ کر کے اس کی اجازت کے بغیر اس کے ساتھ بوسے بازی شروع کی جا سکتی ہے۔ اس کے کچھ ہی گھنٹوں میں ایک ایرانی خاتون (@Yegooneh) نے ٹویٹر پر ایک کڑی شروع کی جس میں اس نے اس آدمی سے حقیقی زندگی میں ملاقات کے اپنے تجربے کو بیان کیا۔ یہ ٹویٹر پر فعال مرد نے اسے دیکھ کر کافی غیر مطلوبہ حرکتیں شروع کر دی اور اسے نازیبا انداز میں چھونے لگا۔ اس کے بعد کئی اور خواتین نے اس آدمی کو لے کر اپنی بِپتاؤں کو سنانا شروع کیا۔ بہت جلد اس آدمی کی شناخت مرتضٰی سعیدی کے طور پر کی گئی جو کئی ادبی تخلیقات کا فارسی مترجم تھا۔ ٹویٹر پر اس کے خلاف منفی رد عمل کی ایسی آندھی دیکھی گئی کہ اسے جلد ہی اپنے کھاتے کو چھوڑنا پڑا۔[3] یہ ایران میں می ٹو تحریک کا پہلا واقعہ تھا، جس کے بعد وہاں کی خواتین نے جنسی تشدد اور جنسی ہراسانی کو خاموشی سے نہیں سہنے کا فیصلہ کیا۔

مزید واقعات[ترمیم]

تمہیدی پیرا میں بیان کردہ واقعے کے بعد ایران کی کئی خواتین جنسی ہراسانی کے اپنے تجربوں پر ٹویٹ کرنا شروع کیا۔ ایک ایسے ہی معاملے میں ایک سابق صحافیہ سارہ امت علی نے ایک مشہور فن کے دست درازانہ حملے کا ذکر کیا۔ یہ واقعہ 2006ء کے گرما کا تھا۔ اس سے یہ بات بھی آشکارا ہوئی کہ فضا میں ظلم کے اظہار کا موقع جو مناسب لگا تب کئی خواتین کئی کئی سال پرانے واقعات بیان کرنے لگے۔ 2020ء کے 25 اگست کو تہران کے پولیس سربراہ نے ایک آدمی کو جس کے نام کے شروع کے دو حروف انگریزی کے حروف کے اور ای ہیں، ان کے قبضے میں ہے جس پر کئی خواتین نے دست درازی کا الزام عائد کیا تھا۔ سربراہ نے کئی خواتین کو اس ضمن میں اپنی شکایات دینے کے لیے عمومی دعوت دی۔ اس کے نتیجے میں کئی ایرانی خواتین باہر بھی آئیں۔ ایک ایسی خاتون نے اپنے انسٹا گرام کھاتے پر یہ واضح کیا کہ پولیس شکایتی خواتین سے کافی عزت کے ساتھ پیش آئی اور ان کی ذاتی زندگیوں کو کریدنے کی کوشش نہیں کی۔[4]

مجوزہ قانون سازی[ترمیم]

2021ء کے اوائل میں ایرانی کابینہ نے ایک بل کو منظور کیا جو بنیادی طور پر جنسی ہراسانی اور جنسی تشدد کو مجرمانہ افعال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ حالاں کہ اس بل کا مسودہ فوری طور پر دست یاب نہیں ہے، تاہم سرکاری طور پر جاری اس کے خلاصے کے مطابق یہ "ہر اس فعل کو جو جسمانی یا جذباتی یا عزت و ناموس کی رو سے نقصان" کسی عورت کو پہنچاتا ہے یا اس کی آزادی اور سماجی حقوق میں مانع بنتا ہے، وہ ایک جرم کی تعریف میں آتا ہے۔ کئی ماہرین قانون اور خواتین کے حقوق کے فعالیت پسندوں نے اس پہل کا خیر مقدم کیا ہے، حالاں کہ نیو یارک میں مقیم انسانی حقوق کی ایک محقق سہ پہری فر نے اس کے مسودے پر یہ کہ کر تنقید کی کہ یہ بل بین الاقوامی معیارات کو پورا نہیں کرتا اور وہ تشدد کی ان سبھی اقسام پر محیط نہیں ہے جنہیں خواتین روز مرہ جھیلتی ہیں۔ یہ بہ طور خاص کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کے مسئلے اور ازدواجی آبروریزی جیسے معاملوں پر خاموش ہے اور گھریلو تشدد کی کوئی مناسب تعریف نہیں پیش کرتا۔[5]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "From Politics to Policy: Turning the Corner on Sexual Harassment - Center for American Progress"۔ Center for American Progress (بزبان انگریزی)۔ January 31, 2018۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ اپریل 14، 2018ء  الوسيط |archiveurl= و |archive-url= تكرر أكثر من مرة (معاونت); الوسيط |archivedate= و |archive-date= تكرر أكثر من مرة (معاونت);
  2. Stephanie Zacharek, Eliana Dockterman, Haley Sweetland Edwards۔ "TIME Person of the Year 2018: The Silence Breakers"۔ Time (بزبان انگریزی)۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ April 14, 2018 
  3. Iran’s #MeToo opens long-overdue discussion on sexual abuse
  4. Iran is Having its #MeToo Moment
  5. Iran Moves to Outlaw Sexual Violence and Harassment of Women