ناروے میں اردو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ناروے میں 32,000 سے زائد اردو داں اصحاب موجود ہیں۔ یہ تقریباً سبھی پاکستانی نژاد نارویجین شہری ہیں۔ یہ اس ملک کی کل آبادی کا 12 فی صد حصہ ہے۔ ناروے آکر بسنے والوں میں یہ آبادی تیسرے نمبر پر ہے جیسا کہ اس جدول میں دیکھا جا سکتا ہے (2011 کے اعدادوشمار):

ملک جس سے تارکین وطن کا تعلق ہے تعداد
پولینڈ 60,000
سویڈن 34,000
پاکستان 32,000

یہاں ایک قابلِ غور بات یہ ہے کہ پاکستانی تارکین وطن کی یہ تعداد کسی بھی جنوبی ایشیائ ملک سے کہیں زیادہ ہے۔ ناروے میں آکر بسنے والے بھارتی تارکین وطن کی کل تعداد 20,000 ہے۔[1]

شعبہ ہائے حیات جہاں پاکستانی سرگرم ہیں[ترمیم]

ناروے میں موجود پاکستانی عوام کی زورآور حیثیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی نژاد اختر چودھری اور افشاں رفیق ناروے کے پارلیمانی ارکان ہیں۔ افشاں کے شوہر عامر شیخ اوسلو سٹی کونسل کے رکن ہیں۔ اسی طرح ناروے میں کئی پاکستانی معلن (اینکر / اناؤنسر) اور فلم ساز نام کما چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانیوں نے کئی اور شعبہ ہائے حیات میں نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔[1]

ناروے کے قومی ترانے کو اردو میں گانے کی مانگ[ترمیم]

2007 میں ناروے کے وزیر انصاف کنوت اسٹاربرگٹ (Knut Storberget) نے کہا کہ 17/ ستمبر جو یہاں کا یوم دستور ہے، وہ سب کے لیے ہے اور اسے سبھی تہذیبوں کے ساتھ منانا چاہیے۔ چونکہ پاکستانی یہاں آکر بسنے والے تارکین وطن کی ایک نمایاں تعداد پیش کرتے ہیں، اس لیے کچھ گوشوں سے کنوت کے بیان کی روشنی میں ناروے کے قومی ترانے کو اردو میں بھی گانے کی مانگ زور پکڑنے لگی تھی۔[2]

ناروے میں مشاعروں کا انعقاد[ترمیم]

ناروے میں موجود پاکستانی سفارت خانہ وقفے وقفے سے مشاعروں کا اہتمام کرتا آیا ہے۔ ان ہی مشاعروں میں عزیر احمد بھی خطاب کرچکے ہیں جنھوں نے بعد میں اپنا ایک مجموعہ کلام بھی شائع کیا تھا۔[3]

ناروے کی تاریخ اردو زبان میں[ترمیم]

ناروے کے ایک پارلیمانی رکن خالد محمود نے ناروے کی تفصیلی تاریخ کو اردو زبان میں لکھا ہے۔ اس کتاب میں ملک کی مکمل تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ تاہم یہ تاریخ 1970 تک آکر رک جاتی ہے کیونکہ یہیں سے تارکین وطن کا یہاں آنا شروع ہوا تھا۔[4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب Pak 3rd largest immigrant group in Norway | India News - Times of India
  2. Full text of "FjordmanEssays"
  3. http://archives.dailytimes.com.pk/editorial/22-Jul-2010/book-review-of-love-and-affection-by-dr-amjad-parvez[مردہ ربط]
  4. "Norway's history to be published in Urdu"۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مئی 2015 

بیرونی روابط[ترمیم]