ناروے میں اردو
| اردو بلحاظ ملک و علاقہ جات |
|---|
| باب اردو زبان |

ناروے میں 2011ء کے محتاط اعداد و شمار کے مطابق جو بھارت کے ایک مشہور اخبار ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہوئے ہیں، 32،000 سے زائد اردو داں اصحاب موجود ہیں۔ یہ تقریباً سبھی پاکستانی نژاد ناروی شہری ہیں۔
یہ آبادی ناروے کی کل آبادی کا تقریباً 12 فی صد بنتی ہے اور ناروے آنے والے تارکین وطن میں تیسرے نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ ناروے میں بسنے والے نو واردین میں سب سے بڑی تعداد پولینڈ سے ہے جن کی تعداد لگ بھگ 60،000 ہے۔ اس کے بعد سویڈن کے باشندے ہیں جن کی تعداد تقریباً 34،000 ہے۔ جب کہ تیسرے نمبر پر پاکستانی نژاد افراد آتے ہیں جن کی تعداد تقریباً 32،000 ہے۔
یہاں ایک قابلِ غور بات جس کا اسی ٹائمز آف انڈیا اخبار نے اشارہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستانی تارکین وطن کی یہ تعداد کسی بھی جنوبی ایشیائی ملک سے آ کر بسنے والوں کہیں زیادہ ہے۔ ناروے میں آکر بسنے والے بھارتی تارکین وطن کی کل تعداد 10،000 ہے۔[1] اس کے علاوہ یہ بھی تاثر ہے کہ بھارت سے ناروے آ کر بسنے والوں میں ایک کثیر تعداد تمل لوگوں کی ہے[2] جو ایک اپنی زبان اور ثقافت کے ساتھ کافی فعال ہیں۔ اس کی ایک زندہ مثال ناروے تمل فلم فیسٹیول ایوارڈز جو سال در سال ناروے میں منعقد ہوتے رہتا ہے[3] اور اس کی مقبولیت صرف ملک ناروے میں نہیں بلکہ بھارت کے انگریزی اور تمل ذرائع و ابلاغ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس فلمی میلے کے چرچے سری لنکا، سنگاپور، انڈونیشیا اور ملیشیا کے تمل دانوں میں بھی کافی ہے اور ان جغرافیائی حدود میں بھی لوگ دلچسپی سے اس فلمی میلے کا وہاں کے ذرائع و ابلاغ میں ذکر ہوتا رہتا ہے۔[4][5][6][7][8] ایک اور بات جس کی وجہ سے بھارتیوں میں تمل اہل زبان کی قوی موجودگی چھلکتی ہے، وہ ماضی میں سری لنکا حکومت اور ایل ٹی ٹی ای کا تصادم ہے۔[9] یہ ثانی الذکر ایک تمل دہشت گرد گروپ تھا، جس کا مقصد سری لنکا میں الگ تمل ایلم یا تمل ملک کا قیام تھا۔ جب ناروے نے مصالحت کی کوشش کی تو سری لنکا کے اکثریتی سِنہالی زبان داں لوگوں نے ناروے پر اعتراض کیا تھا کہ چونکہ وہاں تمل لوگ کثرت سے آباد ہیں، اس لیے ناروے کا جھکاؤ اس انتہا پسند تنظیم اور نسلی تملوں کی طرف کہیں زیادہ ہوگا۔[10] بہر حال، اس تمہید سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ناروے میں اردو داں طبقے کی موجودگی عملًا پاکستانی نژاد ہے جبکہ بیش تر یا اکثریتی بھارتی تمل ہی ہیں اور اپنی زبان اور ثقافت کا کافی پاس و لحاظ رکھتے ہیں۔ تاہم اردو گو عوام کی جانب سے کوئی غیر معمولی ثقافتی سرگرمی سننے میں نہیں آئی، جیسے کہ اردو فلموں کا کوئی میلہ ہو یا اردو کتابوں کی کوئی نمائش۔ نجی طور پر کوئی مشاعروں کے بارے میں بھی خبریں سننے میں نہیں آتی ہیں۔ البتہ وقفے وقفے سے ناروے میں موجود پاکستانی سفارت خاتے کی جانب سے کچھ مشاعروں کا اہتمام ہوتا آیا ہے، جس میں شرکت کے لیے غیر ملکی شعرا بھی یہاں آتے رہے ہیں اور محدود اردو سامعین و ناظرین کو محظوظ بھی کرتے آئے ہیں۔ ان محفلوں کی خبریں پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ پر عام ہیں اور اس سلسلے کے کئی ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہیں۔
اردو کی معروف افسانہ اور ناول نگار قرۃ العين حيدر ناروے میں اردو کے بارے میں فرماتی ہیں:
اب سوچنے کی بات ہے کہ کہاں ناروے، آدھی رات کے سورج کا ملک اور کہاں اُردو افسانہ؟ لیکن ناروے جایے تو ایسا لگتا ہے جیسے اردو اسی ملک کی زبان ہو۔ بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کسی نے نوحؔ ناروی کا نام سن کر کہا تھا۔ ”اچھا، کیا ناروے میں بھی اردو شاعری ہونے لگی۔“ تو حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ واقعی اب ناروے میں نہ صرف اردو شاعری ہوتی ہے بلکہ بلکہ بڑے بڑے مشاعرے منعقد کیے جاتے ہیں۔ کم از کم اس پیڑھی تک تو اردو کی یہ گہما گہمی بر قرار رہے گی اور بہت ممکن ہے کہ آنے والی صدی بھی اس کے لیے سازگار ثابت ہو، کیونکہ جن مغربی ممالک میں اہل ہند و پاکستان آباد ہوئے ہیں، وہاں کی حکومتیں اپنی نئی اقلیتوں کے تہذیبی تقاضوں کو نظر انداز نہیں کر رہی ہیں۔۔۔[11]
ماہانہ رسالہ ایوان اردو میں نشر ہونے والے مضمون میں ناروے میں اردو کے بارے میں لکھا ہے:
دو اسکینڈی نیوین ممالک ناروے اور ڈنمارک میں بھی اردو والے خاصی تعداد میں جا بسے ہیں اور وہاں کی حکومتوں نے اردو کے حوالے سے خاص فراخدلی بھی دکھائی ہے۔ کوئی بھی سرکاری اسکول جہاں اردو پڑھنے کے خواہش مند طلبہ موجود ہوں، اردو کلاس کا انتظام کر دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں اردو والے اپنے بچوں کو نجی طور پر بھی اردو پڑھانے کا انتظام کرتے ہیں اور بہت کی جگہوں پر شنبہ کلاسیں بھی چلائی جاتی ہیں۔[12]
آبادیات
[ترمیم]جوشوا پراجیکٹ ریاستہائے متحدہ امریکا کے کولوراڈو سپرنگز میں قائم ایک مسیحی تبلیغی تنظیم ہے جو اپنے اپنے مذہب کے فروغ کے لیے کوشاں تنظیموں کے کام کو مربوط کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس منصوبے کے مطالعے اور تجزیے کی رو سے ناروے کے اردو دانوں یا پاکستانی نژاد شہریوں کی خصوصیات میں یہ ہے کہ زیادہ تر پاکستانی جو ناروے میں رہتے ہیں، پنجابی زبان بولتے ہیں لیکن ان میں سے کئی ایسے بھی (غالبًا اکثریت یا سبھی) ہیں جو اردو کو آپسی گفتگو اور ربط و تعلق کے لیے ترجیح دیتے ہیں۔ ابتدا میں اردو بولنے والے پاکستانی 1970ء کی دہائی میں بطور مہمان مزدور ناروے آئے تھے۔ ان میں زیادہ تر نوجوان مرد تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ناروے نے ان نوجوان مردوں کے خاندانوں کو ان کے ساتھ شامل ہونے کی اجازت دے دی، کیونکہ اس ملک میں رہنا ان تارکین وطن کو وہ استحکام فراہم کرتا ہے جس کی انھیں ضرورت ہے اور وہ چاہتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستانیوں میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنی بیوی کو پرانے وطن یا اپنے پیدائشی مقام سے ہی لاتے تھے لیکن یہ رواج ہر سال کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ آج بہت سی پاکستانی خواتین بھی ملازمت کرتی ہیں، خاص طور پر وہ جو ایک نسل سے وہاں مقیم ہیں۔ پاکستانیوں کو ناروے کی ملازمتوں کی منڈی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی ناموں والے افراد کو انٹرویو کے مواقع کم دیے جاتے ہیں۔ اردو بولنے والے والدین اپنے بچوں پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور وکیل، ڈاکٹر یا انجینئر بنیں جو ملازمت کے حصول میں کافی معاون و مدد گار ہیں۔ ناروے میں مقیم پاکستانی عموماً کالج کی ڈگریاں رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ پڑھے لکھے اور با صلاحیت ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، دوسری نسل ان والدین کے درمیان جڑاؤ کے معاملات میں پھنس جاتی ہے اور کشیدگی کا شکار ہوتی ہے۔ یہ تناؤ کا سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ جواں نسل کو والدین پرانے وطن کی اقدار کے ساتھ پرورش دیتے ہیں اور نئے وطن کی زیادہ آزاد خیالی اقدار کے درمیان ایک کشمکش واقع ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو ناروے میں پیدا ہوئے اور پروان چڑھے، مذہبی اقدار سے جڑے رہتے ہیں جو اسلامی ہیں، حالانکہ ان کے سیاسی نظریات بہت متنوع ہوتے ہیں۔ اگرچہ اردو بولنے والے تقریبًا سبھی کے سبھی مسلمان ہیں، لیکن وہ مکمل طور پر متحد نہیں ہیں۔ مختلف اسلامی فرقوں (حنفی، شافعی اور اثنا عشری) کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔[13]
نجیب الرحمن ناز ناروے کے دار الحکومت اوسلو میں واقع سنٹرل جامع مسجد ورلڈ اسلامک مشن میں امام اور مدرس ہیں۔ سنٹرل جامع مسجد ورلڈ اسلامک مشن ناروے میں مسلمانوں کی ایک مرکزی مسجد ہے اور پاکستان نژاد لوگوں کی ملاقات ایک اہم مرکز بھی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ملی اور قومی خدمات سے امام مسجد وابستہ ہیں، جس کی وجہ سے جنوری 2015ء میں انھیں ناروے کی مسلح افواج کا پہلا مسلم مشیر مقرر کیا گیا اور جنوری 2017ء میں انھیں ناروے کے پہلے ”فیلڈ امام“ کے طور پر سرکاری فوجی حیثیت میں شامل کیا گیا۔ امام ناز کئی اسلامی کتب کا نارویجین زبان میں ترجمہ بھی کر چکے ہیں۔ اسلامک کونسل آف ناروے (آئی آر این) کی امام کمیٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ یہ تنظیم ناروے میں موجود 52 اسلامی اداروں اور مساجد کی نمائندہ تنظیم ہے جن کے 60،000 سے زائد ارکان ہیں۔[14]
اہلِ پاکستان کی سرگرمیاں
[ترمیم]ناروے میں موجود پاکستانی عوام کی زور آور حیثیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی نژاد اختر چودھری اور افشاں رفیق ناروے کے پارلیمانی ارکان بنے ہیں۔ ان میں سے اختر چودھری ناروے کی پارلیمان میں نائب صدر (Vice President) کے عہدے پر 8 اکتوبر 2009 سے 30 ستمبر 2013 تک فائز رہے۔ افشاں بائیں محاذ سے نہیں بلکہ کنزرویٹیو پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور اسی وابستگی کے سہارے وہ ناروے کی پارلیمان کی رکن بنی۔ ان کے شوہر عامر جے شیخ بھی سیاسی طور پر فعال ہیں اور اپنی کوششوں اور کاوشوں سے وہ اوسلو شہری کونسل (سٹی کونسل) کے رکن کے عہدے پر پہنچے۔ اسی طرح ناروے میں کئی پاکستانی اینکر / اناؤنسر اور فلم ساز بھی اچھا خاصا نام کما چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانیوں نے کئی اور شعبہ ہائے حیات میں نمایاں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
ناروے میں جدید اعداد و شمار کی رو سے ملک میں پاکستانی کمیونٹی کی موجودگی اور بڑھتا ہوا کردار ایک نمایاں حقیقت ہے۔ اس وقت ناروے میں پاکستانی تارکین وطن کی تعداد تقریباً 40,000 ہے، جو اس ملک کی مجموعی آبادی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ کمیونٹی 1960 کی دہائی میں محنت کشوں کی صورت میں ناروے پہنچی تھی اور اب یہ معاشرتی، ثقافتی اور اقتصادی زندگی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستانی نژاد ناروے کے سیاست دان، جیسے اختر چوہدری اور افشاں رفیق، پارلیمنٹ اور مقامی کونسلوں میں منتخب ہو چکے ہیں، جو اس کمیونٹی کی سیاسی اثر و رسوخ اور اثر انگیزی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں، اوسلو میں واقع "سنٹرل جماعت اہل سنت" مسجد جو 2,500 نمازیوں کی گنجائش رکھتی ہے، پاکستانی کمیونٹی کا عملًا قومی، مذہبی اور ثقافتی مرکز ہے۔ پاکستانی پکوان، موسیقی اور پاکستانی تہوار جیسے کہ عید الفطر اور عید الاضحٰی ناروے میں کافی مقبول ہیں، جو دونوں ثقافتوں اور رہن سہن کے درمیان پل کا کام کرتے ہیں۔ یہ کمیونٹی ناروے کی معاشرتی ہم آہنگی اور قومی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے اور ملک موجود کریئر کے مواقع سے بہ خوبی استفادہ بھی کر رہی ہے۔[1]
پاکستان ناروے یونین (Pakistan Union Norway - PUN) ناروے میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی ایک اہم غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور غیر امدادی تنظیم ہے، جو 1995ء میں قائم ہوئی۔ اس تنظیم کا مقصد ناروے اور پاکستان کے درمیان ثقافتی، سماجی اور تعلیمی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔
- سرگرمیاں
- یوم آزادی تقریب
پاکستان ناروے یونین ہر سال 14 اگست کو یوم آزادی پاکستان کی تقریب اوسلو میں منعقد کرتی ہے۔ اس موقع پر ناروے اور پاکستان کی اہم سماجی، ادبی، ثقافتی اور سیاسی شخصیات شرکت کرتی ہیں۔ [15]
- ثقافتی و سماجی پروگرام
تنظیم مختلف مواقع پر ثقافتی میلوں، مشاعروں اور سماجی تقریبات کا انعقاد کرتی ہے تاکہ ناروے میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو ایک دوسرے سے جوڑا جا سکے۔
- تعلیمی و فلاحی خدمات
پاکستان ناروے یونین تعلیم کے فروغ اور کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد منصوبوں پر کام کرتی ہے، خصوصاً نوجوانوں کے لیے۔
- قیادت
- چئیرمین : قمر اقبال
- جنرل سیکریٹری : منشا خان
- ڈپٹی چئیرمین : عتیف محمود
- فنانس سیکریٹری : غلام سرور
- میڈیا، کلچر و سیاحت کوآرڈینیٹر : مبینہ الرحمن
- پروگرام کوآرڈینیٹر (پاکستان) : محمد عباس فالکی
- سینئر نائب صدر : شاہد حسین
- جنرل مینیجر : طاہر محمود
- اعزازات
پاکستان ناروے یونین کے چیئرمین قمر اقبال کو 2018ء میں "انٹرنیشنل کمنڈیشن ایوارڈ" سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز برطانیہ کے گریٹر مانچسٹر کی ہائی شیرف ڈاکٹر روبینہ شاہ نے اوسلو میں ایک تقریب کے دوران پیش کیا۔ [16]
اردو و ناروی زبان کا تقابل نیز اردو کی سہل کاری
[ترمیم]ناروے کے شہر اوسلو کی دو ماہرین لسانیات خواتین جو نارویجین یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (این ٹی این یو) کے شعبہ زبان و ادب اور لسانی تحصیل اور زبان کا تجزیہ کرتے ہوئے کرتی ہیں، عمارہ فرخ (Ammara Farukh) اور ملا وولچانووا (Mila Vulchanova) اردو زبان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں:
... compared with European languages (e.g. Norwegian and English), Urdu has a richer and complex sound system with 44 consonants, eight long oral vowels, seven long nasal vowels, three short vowels and numerous diphthongs
یعنی یورپی زبانوں (مثلاً نارویجین اور انگریزی) کے مقابلے میں، اُردو کا صوتی نظام زیادہ بھرپور اور پیچیدہ ہے، جس میں 44 صوامت (consonants)، آٹھ طویل زبانی مصوتے (long oral vowels)، سات طویل ناک سے نکلنے والے مصوتے (long nasal vowels)، تین مختصر مصوتے (short vowels) اور متعدد دو مصوتی آوازیں (diphthongs) شامل ہیں۔ان خواتین کے مطابق اس تقابل اور کئی خوشنما پہلوؤں کی وجہ سے ردو ایک خوبصورت اور وسیع پیمانے پر بولی جانے والی زبان ہے، لیکن اس کے رسم الخط اور تعلیمی نظام میں موجود پیچیدگیاں اسے سیکھنے اور پڑھنے کے لحاظ سے ایک چیلنج بناتی ہیں، خاص طور پر بچوں کے لیے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق، اردو میں روانی اور درستی سے پڑھنے کی صلاحیت پر کئی عوامل اثرانداز ہوتے ہیں، جن میں سب سے اہم تیز رفتار تسمیہ Rapid Automatized Naming (RAN) اور غیر لفظی تکرار Non-Word Repetition (NWR) جیسے امتحانات شامل ہیں۔ اردو کا رسم الخط نہ صرف دائرہ نما اور جُڑا ہوا (cursive) ہوتا ہے بلکہ اس میں اکثر حرکات (diacritics) استعمال نہیں کی جاتیں، جو الفاظ کے درست تلفظ کے لیے ضروری ہیں۔ مزید برآں، اردو میں اکثر حروفِ علت (vowel letters) غائب ہوتے ہیں، جس سے پڑھنے والے کو لفظ کے صحیح تلفظ کا اندازہ لگانے میں دشواری ہوتی ہے۔ یہ تمام عناصر اردو کو ایک ’غیر شفاف‘ (opaque) رسم الخط بناتے ہیں، جیسا کہ عبرانی یا عربی میں دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نظام کثیر لسانی (multilingual) ہے۔ بچے گھروں میں عام طور پر پنجابی جیسی علاقائی زبان بولتے ہیں، جب کہ اسکول میں انھیں اردو اور انگریزی جیسی نئی زبانوں کا سامنا ہوتا ہے۔ اکثر بچوں کے لیے اردو بھی ایک اجنبی زبان ہوتی ہے اور جب وہ اس کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی سیکھتے ہیں، تو ان کی زبان دانی اور پڑھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان میں فی الحال اردو میں پڑھنے کے مسائل کی تشخیص کے لیے کوئی معیاری یا سائنسی بنیاد پر تیار کردہ امتحان دستیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی مشکلات کی شناخت زیادہ تر اساتذہ کی رائے پر مبنی ہوتی ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ RAN اور NWR جیسے امتحانات اردو پڑھنے کی صلاحیت کی جانچ کے لیے مؤثر ہو سکتے ہیں اور انھیں ایک قابلِ اعتماد اسکریننگ ٹول (چھانٹنے والے آلے) کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ RAN تیزی سے نام لینے کی صلاحیت کو جانچتا ہے (مثلاً رنگ، اشیاء، اعداد، حروف وغیرہ) اور یہ پڑھنے کی روانی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بر عکس NWR غیر معروف الفاظ دہرانے کی صلاحیت کو جانچتا ہے، جو بچوں کی صوتیاتی رسائی (phonological processing) کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ٹیسٹ پڑھنے کی درستی کو پرکھنے کے لیے نہایت مفید ہے۔اردو رسم الخط کی نوعیت کی وجہ سے phonological awareness (آوازوں سے آگاہی) پر مبنی کئی امتحان مؤثر ثابت نہیں ہوتے، جیسے کہ تُک بندی (rhyming) یا phoneme deletion (کسی آواز کے حرف کو ہٹانا) کے امحان۔ اردو میں حرف علت کی کمی اور حرکات کا غیر موجود ہونا، آوازوں کی سطح پر لفظوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کو مشکل بنا دیتا ہے۔ عمارہ فرخ اور ملا وولچانووا کے مطابق کثیر اردو گو جغرافیہ جیسے کہ پاکستان میں ان زبان سیکھنے کے مسائل کی یکسوئی ناروے جیسے ملکوں میں بھی اردو سیکھنے اور پڑھنے میں معاون ہو سکتے ہیں اور زبان کو اور زیادہ قبولیت کا درجہ فراہم کر سکتے ہیں۔[17]
قومی ترانے کو اردو میں گانے کی مانگ
[ترمیم]ناروے میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد، جس میں پاکستانی نژاد لوگوں کا کافی بڑھا ہوا تناسب ہے اورا سی کے ساتھ ساتھ اردو کی وسعت انگیزی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک نام نہاد دانشور فیورڈ اپنے ایک طعنہ انگیز انشائیہ میں یوں تبصرہ کرتے ہیں:
Before Norway's Constitution Day, May 17th, in 2006, the Multicultural lobby in the country
wanted to celebrate the day by singing the Norwegian national anthem - in Urdu. The idea was that an Urdu version of the anthem would allow many immigrants from Pakistan, for example, to more easily express their love for Norway. The title of Norway's national anthem is "Ja vi elsker," which in English translates to "Yes we love (this country)." It may sound ridiculous to sing Urdu in Norway, but the capital city of Oslo in particular has a significant and fast-growing Pakistani community. In fact, it is expected that native Norwegians will be a minority in their own capital city within a generation. American writer Bruce Bawer, who lives in Norway, has pointed out in his book While Europe Slept : How Radical Islam is Destroying the West from Within, that there are now more direct flights from Norway to Pakistan than from Norway to the USA.
یعنی یہ کہ 2006 میں ناروے کے یومِ آئین (17 مئی) سے قبل ملک میں موجود کثیرالثقافتی لابی نے تجویز دی کہ اس موقع پر ناروے کا قومی ترانہ اردو میں گایا جائے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اردو بولنے والے، خصوصاً پاکستانی نژاد باشندے، ناروے سے اپنی محبت کا اظہار بہتر انداز میں کر سکیں۔ ناروے کے قومی ترانے کا عنوان "Ja, vi elsker" ہے، جس کا مطلب ہے "ہاں، ہم (اس ملک سے) محبت کرتے ہیں"۔ اگرچہ اردو میں قومی ترانہ گانا بعض لوگوں کو عجیب لگ سکتا ہے، لیکن خاص طور پر اوسلو میں پاکستانی کمیونٹی کی بڑی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی موجودگی اس تجویز کی بنیاد تھی۔ اندازہ ہے کہ آنے والی نسل میں دار الحکومت اوسلو میں مقامی نارویجین اقلیت میں ہوں گے۔ امریکی مصنف بروس باؤر جو ناروے میں مقیم ہیں، اپنی کتاب While Europe Slept : How Radical Islam is Destroying the West from Within ("جب یورپ محو خواب تھا: کس طرح انتہا پسند اسلام مغرب کو اندر سے تباہ کر رہا ہے") میں نشان دہی کرتے ہیں کہ اب ناروے سے پاکستان کے لیے براہِ راست پروازیں ریاستہائے متحدہ امریکا سے زیادہ ہو چکی ہیں، جو اس گہرے اور تیزی سے ابھرتے تعلق کی ایک اور علامت ہے۔[18]
مسلمان یا پاکستانیوں کی تعداد کا ناروے کی اکثریت سے زیادہ ہو جانا مستقبل قریب میں غالبًا ممکن نہ ہو اور اس طرح کے دعوے اسلاموفوبیا اور نفرت انگیز حملوں اور انتہا پسندی کو ہوا دینے کے لیے ہو سکتا ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں خاص طور پاکستانی نژاد لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس وجہ اردو کے چلن کے نئے مواقع مل سکتے ہیں، جن میں سرکاری اور قومی پہچان کو بھی باہمی طور پر مربوط کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اردو گو عوام سیاسی، ثقافتی، لسانی اور متحدہ طور پر اپنی فعالیت اور اثر انگیزی کا مظاہرہ کرے۔
مشاعروں کا انعقاد
[ترمیم]ناروے میں موجود پاکستانی سفارت خانہ وقفے وقفے سے مشاعروں کا اہتمام کرتا آیا ہے۔ ان مشاعروں میں کئی مشہور شعرا اپنا کلام پیش کر چکے ہیں۔ ناروے میں پاکستان کا سفارت خانہ ہی نہیں بلکہ دوسری تنظمیں بھی حتی المقدور مشاعرے منعقد کرتی ہیں[19]۔
اردو ذرائع و ابلاغ
[ترمیم]ٹرینڈس ڈاٹ بِلْڈ ویتھ ڈاٹ کام کے مطابق حسب ذیل ناروے کی ویب سائٹیں اردو میں دست یاب ہیں:
- ur.insa.no
- vonu.no
- urdu.hussaini.no
- eritasadvokat.no[20]
- karwan.news ، کاروان کا سنہ 1981ء میں اوسلو سے ایک ماہنامہ کی صورت میں آغاز ہوا تھا اب کاروان ایک آن لائن پوٹل کی حیثیت سے برقرار ہے۔[21]
یہ فہرست نامکمل ہے۔
پہلی اردو فلم
[ترمیم]2017ء میں پاکستانی نژاد خاتون ارم حق نے لوگ کیا کہیں گے / What Will People Say یا Hva vil folk si کے عنوان سے ایک نیم خود سوانحی فلم بنائی۔ یہ پہلی اردو نارویجین فلم، ایک دل کو چھو لینے والی کہانی ہے جو ناروے میں پرورش پانے والی پاکستانی نژاد لڑکی نشا کی زندگی کے گرد گھومتی ہے۔ ہدایتکارہ نے اپنی ذاتی زندگی سے متاثر ہو کر اس فلم کو تخلیق کیا، جس میں مشرقی اقدار اور مغربی آزادیوں کے بیچ پھنسے نوجوانوں کے جذبات، خوف اور بغاوت کو بڑی حقیقت پسندی سے پیش کیا گیا ہے۔ فلم اردو اور نارویجین دونوں زبانوں میں ہے، جو نہ صرف دو ثقافتوں کے تصادم کو آشکارہ اور تسلیم کرنے کی کوشش ہے، بلکہ ان کے بیچ پُل بنانے کی کوشش بھی ہے۔ "لوگ کیا کہیں گے" نہ صرف ایک سماجی موضوع پر مبنی فلم ہے، بلکہ ایک طاقتور بیان ہے کہ نوجوانوں کی آواز کو سننا، ان کی شناخت کو سمجھنا اور ان کے خوابوں کو اہمیت دینا کتنا ضروری ہے۔ یہ فلم سماجی روایات، خاندان کے دباؤ اور فرد کی آزادی کے درمیان ایک پیچیدہ تعلق کو کھولتی ہے۔ اس نے ناروے میں پاکستانی کمیونٹی کی حقیقی زندگیوں کو ایک نئی روشنی میں پیش کیا ہے اور بین الثقافتی مسائل پر عالمی سطح پر گفتگو کو فروغ دیا ہے۔ یہ ایک ایسی فلم ہے جو نہ صرف فلمی صنعت میں ایک سنگ میل ہے بلکہ یہ ان کہی کہانیوں کو دنیا کے سامنے لانے کا ایک نیا طریقہ بھی ہے۔
بھارت کی تقاریب : بولی وڈ فیسٹیول ناروے 2024
[ترمیم]ناروے میں محدود تعداد مین بھارتی نژاد اردو داں ہونے کی وجہ سے بھارتی نژاد برادری کے اردو پروگرام کم ہیں۔ تاہم گاہے بہ گاہے یہ بھی منظر پر آتے رہتے ہیں۔ انھی میں سے ایک بولی وڈ فیسٹیول ناروے 2024 کے ایک اہم پروگرام کے طور پر 29 ستمبر 2024 کو لورینسکگ کینو، ناروے میں ایک مشاعرہ اور فلم اسکریننگ کا انعقاد کیا گیا۔ یہ پروگرام بولی وڈ فیسٹیول ناروے کی جانب سے پیش کیا گیا، جو نوردک خطے میں بھارتی سنیما، موسیقی، رقص اور ادب کے فروغ کے لیے معروف ہے۔
پروگرام کی تفصیلات
[ترمیم]تاریخ: 29 ستمبر 2024
مقام: لورینسکگ کینو، فیسٹپلیسن 1، لورینسکگ، کیجلر، ناروے
منتظم: بولی وڈ فیسٹیول ناروے
پروگرام کی نوعیت: مشاعرہ اور فلم اسکریننگ کا امتزاج
اس پروگرام میں اردو شاعری کی محفل (مشاعرہ) کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف زبانوں میں اشعار پیش کیے گئے۔ اس کے علاوہ، بھارتی موسیقی کے معروف گلوکار سوریش وڈکار اور پدما وڈکار کی لائیو پرفارمنس بھی شامل تھی، جس میں دیگر فنکاروں نے بھی حصہ لیا۔ اس پروگرام کا مقصد جنوب ایشیائی ثقافت کی ترویج اور ناروے میں مقیم کمیونٹی کے لیے ثقافتی پل کا کردار ادا کرنا تھا۔
اسی دن کے دیگر پروگرامز
[ترمیم]اسی دن، بولی وڈ فیسٹیول ناروے نے دیگر اہم پروگرامز بھی منعقد کیے:
"لئیرز آف لائیز" – ایرانی فلم کی ناروے میں پہلی بار اسکریننگ کی گئی۔
"ریٹرن بیک ٹو پونڈچیری" – پناہ گزینوں کے لیے فلم اسکریننگ، جس سے پہلے رقص کا مظاہرہ بھی پیش کیا گیا۔[22]
نوجوانوں کی کشمکش اور اردو
[ترمیم]تحقیقی مقالہ "Norwegian-Pakistani Adolescents: Negotiating Religion, Gender, Ethnicity and Social Boundaries" در حقیقت ناروے میں پاکستانی نوجوانوں کے مذہبی، نسلی، جنس پر مبنی، سماجی و لسانی حد بندیوں کا جائزہ لیتا ہے۔ اس مقالے کو اوسلو یونیورسٹی میں فیکلٹی ایجوکیشن کے اسوسی ایٹ پروفیسر SISSEL ØSTBERG (سیسیلل اوسٹبرگ) نے تحقیق کرکے شائع کیا۔ مقالہ ناروے میں مقیم پاکستانی نژاد نوعمروں کے تجربات کا مطالعہ کرتا ہے، جہاں وہ مذہب، زبان، جنس، نسلی شناخت اور سماجی حدود کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نوجوان نہ صرف اپنے خاندان کی روایات سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ ناروے کی اکثریتی ثقافت سے بھی اثر لیتے ہیں اور ان دونوں کے بیچ "تیسری جگہ" پیدا کرتے ہیں جہاں نئی شناختیں ابھرتی ہیں۔ یہ عمل مختلف سطحوں پر مذاکرات کے ذریعے ہوتا ہے، جیسے گھر، دوستوں، اسکول اور معاشرتی اداروں میں، جو ان کی ذاتی اور اجتماعی شناخت کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
اردو زبان کے بارے میں مضمون میں کیا کہا گیا ہے:
- لسانی شناخت کا حصہ: اردو زبان کو پاکستانی نژاد نوجوانوں کی نسلی اور ثقافتی شناخت کا ایک اہم جزو قرار دیا گیا ہے۔ زبان صرف رابطے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ اپنی جڑوں، مذہب، خاندان اور برادری سے وابستگی کا مظہر بھی ہے۔
- نسل اور "دوسرا پن" (otherness): بعض مواقع پر اردو بولنا ناروے کے معاشرتی دائرے میں نوجوانوں کو "غیر " (outsider) بنا سکتا ہے۔ اسکول یا دوستوں کے گروپ میں اردو بولنے سے کچھ نوجوانوں کو احساس ہوتا ہے کہ وہ نارویجین معاشرے کے مکمل رکن نہیں سمجھے جاتے۔
- دوہری زبان اور شناخت: نوجوان اکثر دوہری زبان (اردو اور نارویجین) بولتے ہیں اور مختلف سیاق و سباق میں زبان کا انتخاب ان کی شناخت کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً، گھر میں اردو جبکہ اسکول یا عوامی مقامات پر نارویجین زبان۔
- نسلی دائرہ بندی: مضمون میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ بعض اوقات نارویجین اکثریتی افراد اردو زبان کو "اجنبی" یا "کم تر" زبان کے طور پر دیکھتے ہیں، جو اردو بولنے والوں کے ساتھ تعصب یا نسلی درجہ بندی کو جنم دے سکتا ہے۔[23]
یہی مصنف اپنے ایک اور مقالے میں لکھتے ہیں: اردو پاکستانی مسلم خاندانوں میں ثقافتی اور مذہبی شناخت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جبکہ بزرگ نسلیں اردو کو مذہبی روایات اور طریقوں کو منتقل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، نوجوان بچے جو نارویجین معاشرت میں زیادہ ضم ہو چکے ہیں، وہ اس زبان میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ اردو مذہبی تعلیمات میں اہم ہے، خاص طور پر قرآن اور اسلامی رسومات کو سمجھنے کے لیے، لیکن نوجوان نسل کے نارویجن زبان میں ماہر ہونے کے ساتھ اس کا استعمال کم ہو رہا ہے۔ اس سے اردو کو ثقافتی شناخت کو برقرار رکھنے اور نارویجن معاشرت میں مکمل ضم ہونے کے درمیان کشمکش پیدا ہوتی ہے اور یہ زبان ایک طرف ثقافتی پل کا کام دیتی ہے تو دوسری طرف مکمل سماجی انضمام میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔[24]
الیکٹرونک میڈیا اور ہفتہ واری اسکولوں کا فقدان
[ترمیم]ناروے میں تمل دانوں نے اپنا ایک الگ ریڈیو اسٹیشن بنایا ہے جہاں مختلف خبری، مباحثہ پر مبنی اور تفریح و ناٹک پر مبنی پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ اردو والوں میں اس کی کمی دیکھی گئی ہے، حالانکہ ان کی تعداد تملوں سے تین سے چار گنا زیادہ ہے۔ [25] اس کے علاوہ 1995ء سے تمل لوگ بچوں کو تمل سکھانے کے لیے مقامی طور پر درسی کتابیں شائع کرتے آئے ہیں، جس سے ناروے میں پیدا یا یہاں پرورش پا رہے بچے بھی اپنی زبان سیکھ سکیں۔ [26] ایک عام تمل گھرانے کا یہ معمولی ہے کہ ناروے میں تمل شناخت سے متعلق سرگرمیوں میں سب سے اہم تمل اسکولوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ تمل اسکول اضافی تعلیمی ادارے ہیں جو سنیچر کے دنوں میں چلتے ہیں، جنہیں والدین اپنے بچوں کے لیے ایک غیر نصابی سرگرمی کے طور پر منتخب کر سکتے ہیں۔ اگرچہ تمل والدین یہ یقین نہیں رکھتے کہ وہ یا ان کے بچے بھارت یا سری لنکا واپس جائیں گے، لیکن ناروے میں دوسری نسل کے تمل بچوں کی شناخت والدین کے لیے ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ تمل زبان، تاریخ اور ثقافتی سرگرمیوں پر توجہ دیتے ہوئے ان اسکولوں میں بے شمار وسائل، وقت، پیسہ اور رضاکارانہ محنت صرف کی جاتی ہے۔برگن اور اوسلو اور ناروے کے دیگر ایسے علاقوں میں جہاں تمل لوگ آباد ہیں، تمل اسکول قائم کیے گئے ہیں۔ ان اسکولوں کو کبھی کبھی ظلی مدارس یا شیڈو اسکول بھی کہا جاتا ہے۔ [27] اردو اہل زبان کے لیے زبان اور ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے اس طرح کی سرگرمیوں کی باضابطہ طور پر کرنے کی سخت ضرورت ہے، بھلے ہی نوجوان اپنے وطن لوٹیں یا نہیں۔[2]
تاہم یہ غور طلب ہے کہ برآں، ریڈیو اوسلو نے اپنی نشریات کے دو سال مکمل ہونے پر ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا تھا، جس میں پاکستان کی سفیر سعدیہ الطاف قاضی نے شرکت کی۔ ریڈیو اوسلو اردو سمیت چار مختلف زبانوں میں نشریات پیش کرتا ہے اور اوسلو میں اردو بولنے والوں کے لیے ایک اہم معلوماتی اور ثقافتی پلیٹ فارم کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ ادارہ مقامی کمیونٹی کو خبروں، انٹرویوز، ثقافتی پروگراموں اور سماجی مسائل سے متعلق آگاہی فراہم کرتا ہے۔
اسکول میں اختتام ہفتہ کی کلاسز کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں اردو پڑھنے، لکھنے، بولنے اور گرامر کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں کے اساتذہ عموماً اردو زبان میں مہارت رکھنے والے افراد ہوتے ہیں جنہیں کثیر لسانی تعلیم کا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ [28]
اردو اسکول میں نہ صرف زبان کی تدریس پر توجہ دی جاتی ہے بلکہ ثقافتی سرگرمیوں جیسے مشاعرہ، کہانی گوئی اور یومِ اردو جیسے مواقع بھی منعقد کیے جاتے ہیں، جن کا مقصد طلبہ کو اردو ادب اور جنوب ایشیائی ثقافت سے روشناس کرانا ہے۔ [29]
یہ ادارہ مقامی اسکولوں اور کمیونٹی سینٹرز کے ساتھ اشتراک کے ذریعے اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھتا ہے اور اس کا نصاب نارویجن تعلیمی معیار کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔
ہمہ لسانی کتب خانہ
[ترمیم]دی ملٹی لِنگوئل لائبریری (ہمہ لسانی کتب خانہ) اوسلو، ناروے میں واقع ایک اہم ادارہ ہے جو کثیر الثقافتی لائبریری خدمات فراہم کرتا ہے اور مہاجرین، پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے لیے علمی، ادبی اور ثقافتی معاونت کا مرکز ہے۔ اس لائبریری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ 40 سے زائد زبانوں میں مواد فراہم کرتی ہے جن میں اردو بھی نمایاں طور پر شامل ہے۔ اردو زبان کے لیے یہ ادارہ ایک نعمت سے کم نہیں کیونکہ ناروے میں پاکستانی مہاجرین کی آمد کے ابتدائی دنوں سے ہی لائبریری نے اردو کتابوں کی خریداری شروع کی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو کو ابتدا سے ہی اہمیت دی گئی۔ اردو زبان میں نہ صرف کتابیں، آڈیو بکس اور فلمیں دستیاب ہیں بلکہ بچوں کے لیے دو لسانی (اردو اور ناروے کی قومی زبان) کتابوں کی اشاعت کا خصوصی حق بھی اس لائبریری کے پاس ہے، جن میں "علی بابا اور چالیس چور"، "بیوولف" اور "اسلامی فنون کا دورہ" جیسی کتابیں شامل ہیں۔ یہ کتابیں نہ صرف اردو بولنے والے بچوں کے لیے زبان سیکھنے اور اپنی شناخت برقرار رکھنے کا ذریعہ ہیں بلکہ ناروے کے معاشرے میں اردو زبان اور ثقافت کو متعارف کرانے کا بھی ذریعہ بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ، لائبریری کی خدمات میں اردو زبان کے صارفین کو فاصلاتی قرضہ، تعلیمی مواد اور ادارہ جاتی تعاون بھی شامل ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دی ملٹی لِنگوئل لائبریری ناروے میں اردو زبان کے فروغ، بقا اور نئی نسل تک اس کی منتقلی میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
بین الثقافتی عجائب خانہ
[ترمیم]بین الثقافتی عجائب خانہ یا ین الثقافتی میوزیم، اوسلو ناروے میں واقع ایک ہجرتی عجائب خانہ ہے جو ناروے کی امیگریشن اور ثقافتی تنوع کی تاریخ کو جمع کرنے، محفوظ رکھنے اور عام کرنے پر مرکوز ہے۔ یہ 1990 میں بینٹے گورو مولر نے قائم کیا اور 2006 سے اوسلو عجائب خانہ کا حصہ ہے۔ میوزیم گرون لینڈ کے ایک سابقہ پولیس اسٹیشن میں واقع ہے، جو معروف معمار بالتھازر لانگے کے ڈیزائن کے تحت 1900 سے 1902 کے دوران تعمیر ہوا۔ 1970 کی دہائی میں پاکستانی محنت کشوں کی آمد کے بعد ناروے میں بڑھتی ہوئی ہجرت کے رجحان کے جواب میں یہ میوزیم قائم کیا گیا، جسے 2006 میں "سال کا میوزیم" قرار دیا گیا۔ یہ میوزیم پیر کے علاوہ روزانہ کھلا رہتا ہے اور اپنی نمائشوں اور رہنمایانہ دوروں (گائیڈڈ ٹورز) کے ذریعے اوسلو کے ثقافتی تنوع کو اجاگر کرتا ہے۔ اس کی حالیہ نمائش جو 2024ء میں ہوئی۔ اس کا عنوان "Cooking, Time?" یا "پکوان کا وقت؟" تھا، جو پاکستانی محنت کشوں کے اثرات کو کھانے کے کلچر کے ذریعے پیش کرتی ہے، جس میں فنکار سارہ قاضی اور نور بھنگو نے مختلف آرٹ فارمز کے ذریعے حصہ لیا۔ [30] [31] [32]
اردو برادری کو جوڑنے کی کاوشیں
[ترمیم]اہل ناروے، وہاں کی حکومت اور خود کئی پاکستانی نژاد شخصیات نے اپنی برادری کو ملک کی اکثریت سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کوششوں میں حسب ذیل اقدامات شامل ہیں:
- یوم پاکستان تقاریب: ہر سال اوسلو میں یومِ پاکستان کی شاندار تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں سفیر پاکستان اور ناروے کی برسر آوردہ شخصیات جیسے کہ وہاں کے اسٹیٹ سیکریٹری کا خطاب ہوتا ہے۔ اس موقع پر پاک ناروے تعلقات میں رو نما ہونے والی نئی جہتوں کا بھی تذکرہ ہوتا ہے۔ تقاریب میں موسیقی، نغموں، رقص اور کھانے پینے کا انتظام ہوتا اور شرکاء میں پاکستان اور ناروے، دونوں ملکوں کے لوگ ہوتے ہیں۔[33]
- ناروے میں نظام صحت وقتًا فوقتاً نارویجن کے علاوہ دیگر زبانوں میں ورقیے اور معلومات مواد جاری کرتا رہتا ہے، جس میں اردو بھی شامل ہے۔[34]
- ناروے کے اساتذہ کو ہمہ لسانی طرز تعلیم کے لیے مثبت رویہ کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔[35]
- ناروے اور اردو زبان پر مبنی مشترکہ تھیٹر پروڈکشنز:
- کافے تار (Kaffetår) : کافے تار ناروے میں پاکستانی نژاد برادری کی پچاس سالہ تاریخ پر مبنی ایک مشترکہ تھیٹر پروڈکشن ہے جسے ٹونی عثمان نے تحریر کیا اور اس کی ہدایت دی۔ اس ڈرامے میں دو مرکزی کردار صادق اور شفیق کی کہانی بیان کی گئی ہے جو 1970ء کی دہائی میں ناروے آئے تھے۔ پروڈکشن میں اردو شاعری، خصوصاً احمد فراز کی نظم خواب مرتے نہیں کا نارویجن ترجمہ شامل ہے اور پاکستانی سنیما کے عناصر بھی استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کا مقصد نارویجن اور پاکستانی نژاد نارویجن افراد کے درمیان باہمی فہم اور ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔[36]
- گڑیا کا گھر: گڑیا کا گھر نارویجن ڈراما نگار و شاعر ہينرک ابسن کا مشہور ڈراما ہے جسے پاکستانی تھیٹر گروپ تحریکِ نسواں نے اردو زبان میں پیش کیا۔ یہ اردو ورژن دہلی ابسن فیسٹیول 2012ء میں پیش کیا گیا، جس نے ابسن کے سماجی اور صنفی موضوعات کو پاکستانی معاشرتی تناظر میں اجاگر کیا۔ اگرچہ اس پروڈکشن میں نارویجن اداکار شامل نہیں تھے، تاہم یہ اردو بولنے والے فنکاروں کی جانب سے نارویجن ادب کی تخلیقی تشریح کی عمدہ مثال تھی۔[37]
- آئی ڈی – شناختِ روح (Id – Identity of the Soul):آئی ڈی – شناختِ روح ایک بین الاقوامی پرفارمنس آرٹ پروجیکٹ ہے، جس کی پروڈیوسر مارٹین روڈ اور ہدایت کار تھامس ہوگھ تھے۔ اس پروڈکشن میں نارویجن شاعر ہینرک ابن کی نظم "ترئیے ویگن" اور فلسطینی شاعر محمود درویش کی نظم "ایک سپاہی سفید کنولوں کے خواب دیکھتا ہے" کو یکجا کیا گیا۔ یہ پرفارمنس مختلف زبانوں بشمول نارویجن، اردو اور عربی میں پیش کی گئی اور اس میں موسیقی، شاعری اور فلم کے ذریعے شناخت، ہجرت اور وابستگی کے موضوعات کو اجاگر کیا گیا۔[38]
- ناروے میں کئی تنظیمیں ہمہ نسلیت، ہمہ لسانیت اور مختلف پس منظری لوگوں کو قریب لانے کے لیے کوشاں ہیں، جن کی مثالین اس طرح ہیں:
1.Diversify (ڈائیورسیفائی): ناروے میں ایک معروف تنظیم ہے جو تنوع اور شمولیت (Diversity and Inclusion) کے موضوع پر تربیتی پروگرامز پیش کرتی ہے۔ ان کی ورکشاپس میں ثقافتی مواصلات، غیر شعوری تعصبات اور شمولیتی حکمت عملیوں پر زور دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اپریل 2024 میں کام کی جگہ پر تنوع اور شمولیت: بین الثقافت مواصلات ("Diversity and Inclusion in the Workplace: Cross-Cultural Communication") کے عنوان سے ایک مفت آن لائن ایونٹ منعقد کیا گیا تھا، جس میں مختلف ثقافتوں کے درمیان مؤثر موضوعات پر بات چیت کی گئی۔ [39]
2. The Knowledge Academy (دی نالج اکیڈمی) ناروے کے شہر ستاوانگیر میں ایک دن کے تربیتی کورس پیش کرتی ہے جو دفاتر میں میں تنوع اور شمولیت کے موضوعات پر مرکوز ہے۔ ان کورسوں میں غیر شعوری تعصبات، شمولیتی حکمت عملیوں اور قانونی پہلوؤں پر توجہ دی جاتی ہے، جو اردو بولنے والے ملازمین کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔[40]
3.Norwegian Centre Against Racism (نسل پرستی کے مد مقابل ناروے کا مرکز): ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو ناروے میں نسلی، لسانی اور ثقافتی تنوع کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔ ان کا جاب بی ایکس "JobbX" پروگرام نوجوان اقلیتی پس منظر رکھنے والے افراد کے لیے تربیتی کورسز پیش کرتا ہے، جس میں ملازمت کی تلاش، سی وی بنانے اور انٹرویو کی مہارتوں پر توجہ دی جاتی ہے۔ [41]
اردو میں تاریخِ ناروے
[ترمیم]خالد محمود، جو ناروے کی لیبر پارٹی کے سیاست دان ہیں، نے ناروے کی پہلی اردو زبان میں تاریخ شائع کی۔ یہ کتاب پاکستانی نژاد ناروے کے تارکین وطن کے لیے ان کے نئے وطن کو بہتر سمجھنے کے لیے ایک اہم قدم کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ محمود کی اس کتاب میں جو برفانی دور سے 1970ء تک کی تاریخ پر مبنی ہے۔ اس میں ناروے کے مشہور رہنماؤں جیسے جو بینکاؤ (Jo Benkow)، یوہان نیگاردسوالڈ (Johan Nygaardsvold) اور اینار گیرہارڈسن (Einar Gerhardsen) کی سوانحات حیات شامل ہیں۔ کتاب کا ترجمہ لاہور کے ناشرین کے ساتھ مل کر کیا گیا تھا اور اس میں اردو زبان کی خصوصیت کو دھیان میں رکھتے ہوئے زبان کے پیچیدہ مسائل پر توجہ دی گئی۔ محمود نے مذہب کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی نمائندگی میں احتیاطی تدابیر پر زور دیا تاکہ غلط فہمیوں سے بچا جا سکے۔ یہ کتاب پاکستان میں فروری 2014ء میں شائع ہوئی اور اس کا دوسرا حصہ بھی چھپنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا، جیسا کہ ناروے کی ویب گاہ لوکل ڈاٹ این او نے اطلاع دی۔ اس مجوزہ دوسرے حصے میں پاکستانی تارکین وطن کے ناروے میں 1970ء کے دہے میں آمد کے بعد کے تجربات پر روشنی ڈالنے پر زور دیا گیا تھا۔[42]
اگرچہ کتاب کے مخصوص جائزے کم ملتے ہیں، لیکن اس کے بارے میں کچھ اہم نکات اور رد عمل ہیں جو اس کے اثرات کو ظاہر کرتے ہیں:
- ثقافتی اہمیت: یہ کتاب اردو بولنے والے تارکین وطن، خاص طور پر پاکستان اور بھارت سے آنے والے افراد کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس نے ناروے کی تاریخ کو ان کے لیے قابل فہم بنایا۔ اس کتاب کو ان افراد کے لیے ایک قیمتی تحفہ سمجھا گیا جو اپنے نئے وطن کی تاریخ اور ثقافت کو سمجھنا چاہتے ہیں اور اس سے ان کی وطن سے وابستگی کو گہرا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
- تعلیمی اہمیت: کتاب میں ناروے کی تاریخ کو برفانی دور سے لے کر 1970ء تک اردو میں پیش کیا گیا، جو نہ صرف تارکین وطن کے لیے بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی ایک تعلیمی ذریعہ ہے جو ناروے کی تاریخ جاننا چاہتے ہیں۔ اس میں ناروے کی تاریخ کے اہم شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے، جو قارئین کو ناروے کے ثقافتی اور سیاسی ارتقا کو بہتر طریقے سے سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
- ترجمے میں مشکلات: خالد محمود نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ناروے کی پیچیدہ تاریخ کو اردو میں ترجمہ کرنے میں کئی مشکلات آئیں، خاص طور پر ان اصطلاحات کے حوالے سے جن کے اردو میں براہ راست متبادل موجود نہیں تھے۔ زبان کے ان پیچیدہ پہلوؤں پر دھیان دینا اس کتاب کے ترجمے کی درستی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تھا۔
- مذہب کی حساس نمائندگی: محمود نے کتاب میں مذہب کے حوالے سے حساسیت کے بارے میں اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا۔ انھوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ مذہبی موضوعات کو احتیاط کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ کسی بھی غلط فہمی یا توہین سے بچا جا سکے، جو کتاب کے ثقافتی سیاق و سباق اور قارئین کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
- مستقبل کے منصوبے: جہاں اس کتاب کی ابتدائی اشاعت کو ایک سنگ میل سمجھا گیا تھا اور محمود نے دوسرے حصے کی اشاعت کے ارادے کا ذکر کیا جس میں 1970ء کے بعد ناروے میں پاکستانی تارکین وطن کے تجربات پر روشنی ڈالی جائے گی۔ یہ کتاب ایک طویل مدتی منصوبے کا حصہ نظر آتی ہے جس سے ناروے اور اس کے تارکین وطن کے درمیان تعلقات کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملے گا۔
مشاہیر پاکستانی نژاد اردو داں
[ترمیم]ناروے میں پاکستانی لوگوں کا ذکر عموماً اردو بولنے والوں کا بھی ذکر ہوتا ہے، کیونکہ پاکستان کی اکثریتی آبادی اردو زبان بولتی ہے۔ جب ناروے میں پاکستانی کمیونٹی کی بات کی جاتی ہے، تو اس میں اردو بولنے والے افراد کا ذکر بھی ضروری طور پر شامل ہوتا ہے۔ پاکستان سے ہجرت کرنے والے افراد کی بڑی تعداد اردو زبان کے ساتھ ناروے آئی اور انھوں نے اپنے ثقافتی ورثے کو، جس میں اردو ادب، شاعری اور زبان شامل ہے، ناروے میں زندہ رکھا۔ یہ لوگ نہ صرف اپنی مادری زبان اردو کو اپنانے میں کامیاب ہوئے، بلکہ ناروے میں مقیم دوسرے افراد کو بھی اردو کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں۔ اردو زبان بولنے والی کمیونٹی نے نہ صرف اپنے ثقافتی رابطوں کو مضبوط کیا بلکہ ناروے کی متنوع زبانوں اور ثقافتوں کے درمیان پل کا کردار بھی ادا کیا۔ اس طرح جب بھی ناروے میں پاکستانی کمیونٹی کا ذکر ہوتا ہے، اردو بولنے والوں کی اہمیت اور ان کے ثقافتی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ان میں چند مشاہیر اس طرح ہیں:
- سعید انجم: سعید انجم (1946-2000) ایک معروف اردو و ناروی مصنف، افسانہ نگار اور فلم منظر نویس تھے جن کی ادبی خدمات اور سیاسی سرگرمیاں دونوں ممالک، پاکستان اور ناروے، میں اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ شاید اولین اردو داں ادبی شخصیت تھے ناروے میں جاکر آباد ہو گئے تھے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھارت میں حاصل کی اور پھر اوسلو منتقل ہو گئے، جہاں تدریس اور ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ انجم نے ترقی پسند تحریکوں میں فعال کردار ادا کیا اور اپنے افسانوں میں انسانیت، عزم اور سماجی حقیقتوں کی عکاسی کی۔ ان کی مشہور تصانیف میں جاگتے خواب اور ہاتھوں ٹوٹتی تند شامل ہیں، جبکہ ان کا نارویجن فلم Bak sju hav بھی عالمی سطح پر کامیاب رہی۔ وہ ایک محنتی اور ثقافتی پل کا کردار ادا کرنے والے مصنف تھے۔
- شگفتہ شاہ: شگفتہ شاہ ایک معروف اردو مترجمہ اور ادبی شخصیت ہیں جو ناروے میں مقیم ہیں اور ناروے کی مقامی زبان کے ادب کو اردو میں منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کے تراجم پاکستان اور ناروے کے درمیان ادبی اور ثقافتی پل کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ شگفتہ شاہ نے 2022 میں ناروے کی نوبل انعام یافتہ مصنفہ سگرید اُندسیت کے ناول ینی کا اردو ترجمہ کیا، جسے بہت سراہا گیا۔ ان کی دوسری اہم تصنیف ناروے کی لوک کہانیاں ہے، جس میں 19ویں صدی کی 24 نارووین لوک کہانیاں اردو میں ترجمہ کی گئی ہیں۔ ان کے تراجم میں نارویجین ثقافت کی جھلک اور اردو زبان کی سلاست نمایاں ہے، جس کے ذریعے اردو قارئین عالمی ادب سے بہتر طور پر آشنا ہو رہے ہیں۔ ان کی کتاب ناروے کی لوک کہانیاں کو نارویجین لٹریچر ابراڈ یا ماوائے وطن ناروے کا ادب (NORLA) تنظیم کی مالی معاونت حاصل ہوئی، جو ان کی عالمی ادبی خدمات کا اعتراف ہے۔
- شاہد احمد (کرکٹر): پاکستان میں پیدا ہونے والا ناروے کا کرکٹ کھلاڑی ہے جس نے 2008ء کے آئی سی سی ورلڈ کرکٹ لیگ ڈویژن فائیو ٹورنامنٹ میں ٹیم کی کپتانی کی۔ وہ بائیں ہاتھ کے بلے باز اور دائیں ہاتھ کے آف بریک بولر ہیں۔

- اسلم احسن: ایک پاکستانی نژاد نارویجین سیاست دان ہیں، جو لیبر پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
- اطہر علی (سیاست دان): یک پاکستانی نژاد نارویجین سیاست دان ہیں، جنھوں نے ناروے کی بائیں بازو کی ریڈ پارٹی (Red Party) کی نمائندگی کی ہے۔
- جاوید اقبال اسلم: ایک نارویجین باکسر ہیں جن کا تعلق پاکستانی نژاد سے ہے۔ وہ فیصل آباد، پنجاب (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔

- حق نواز اختر چودھری: ایک پاکستانی نژاد نارویجین سیاست دان ہیں، جو سوشلسٹ لیفٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ 2009 سے 2013 تک نارویجین پارلیمنٹ کے چوتھے نائب صدر (ڈپٹی اسپیکر) کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ 1982 میں پاکستان سے ناروے منتقل ہوئے تھے۔
- شبانہ رحمان گارڈر: ک پاکستانی نژاد نارویجین اسٹینڈ اپ کامیڈین، مصنفہ اور کالم نگار تھیں۔ اپنے اسٹیج شوز اور اخباروں میں کالمز کے ذریعے وہ چونکا دینے والے طنز و مزاح کی وجہ سے جانی جاتی تھیں۔ ناروے میں مسلمانوں کی ہجرت اور انضمام کے موضوعات پر ان کے بیانات نے انھیں ایک متنازع شخصیت بنا دیا، جس کی بنیاد پر "شبانہ مباحثہ" جیسی اصطلاح بھی سامنے آئی۔
- سفیر حیات: ایک پاکستانی نژاد ناروے کے کرکٹ کھلاڑی ہیں جو 2015ء آئی سی سی ورلڈ کرکٹ لیگ ڈویژن 6 ٹورنامنٹ میں کھیلے تھے۔
- خالد حسین: ایک نارویجینا-اپاکستانی مصنف اور فلم ساز ہیں۔ وہ 1975 میں بغیر والدین کے ناروے منتقل ہوئے۔ خالد حسین نے 1986 میں اپنی کتاب Pakkis (پکّیس) لکھ کر شہرت حاصل کی، جس میں انھوں نے ایک نوجوان تارک وطن کی حیثیت سے اپنے تجربات بیان کیے۔
- خالد محمود (ناروے کے سیاست دان): ایک پاکستانی نژاد نارویجین سیاست دان ہیں جو لیبر پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔
- داؤد مرزا: ایک پاکستانی-نارویجین اداکار تھے۔

- ٹینا شگفتہ منیر: ایک نارویجین معالجہ اور سیاست دان ہیں جو لبرل پارٹی کے لیے کام کرتی ہیں۔ وہ 2017 سے 2021 تک ناروے کے پارلیمنٹ میں اوسلو سے نائب نمائندہ کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔
- قلب رضی نقوی: یک برطانوی پاکستانی - نارویجین طبیعیات دان ہیں، جو 1977 سے ناروے میں مقیم ہیں اور ناروے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NTNU) میں بایوفزکس کے پروفیسر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ انھوں نے جون 2014 کے آخر میں ریٹائرمنٹ لی اور اب وہ اس جامعہ میں پروفیسر ایمیریٹس کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
- ربینہ رانا: ایک پاکستانی نژاد نارویجین سیاست دان تھیں جو لیبر پارٹی سے تعلق رکھتی تھیں۔
- فقرہ سلیمی: ایک پاکستانی نژاد نارویجن انسانی حقوق کی کارکن، نسائیت پسند، صحافی اور مدیرہ ہیں۔ وہ ایم آئی آر اے ریسورس سینٹر کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں جو سیاہ فام، مہاجر اور پناہ گزین خواتین کے لیے کام کرتا ہے۔ اس سینٹر کو اقوام متحدہ کے اقتصادی و سماجی کونسل سے مشاورتی حیثیت حاصل ہے اور یہ ناروے کی ملکہ سونیا کے شاہی سرپرستی میں کام کرتا ہے۔
- خالد سلیمی: ایک معروف انسانی حقوق کے کارکن، ثقافت و فنون کے نقاد، سابق موسیقی کے کالم نگار (ہفت روزہ مورگن بلڈٹ) اور نوردک کلچر فنڈ کے ثقافتی اور فنون سے متعلق مشیر ہیں۔ وہ ملامیلا فیسٹیول کے فنون لطیفہ کے فنی ہدایت کار ہیں جو ہر سال اوسلو، ناروے میں ملامیلا فاؤنڈیشن کے تحت منعقد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ سمورا فورم میگزین کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں اور فی الحال میلا ہاؤس کے ڈائریکٹر ہیں، جو ایک آزاد ثقافتی کمیونٹی سینٹر ہے۔

- عامر جے شیخ: ایک نارویجین - پاکستانی مقامی سیاست دان ہیں۔ وہ 1995 سے 2011 تک اوسلو سٹی کونسل کے رکن رہے اور ناروے کی ہویری (Høyre) پارٹی سے وابستہ تھے۔
- ذیشان صدیقی: ایک پاکستانی نژاد ناروے کے کرکٹ کھلاڑی ہیں۔ انھوں نے 2015ء آئی سی سی ورلڈ کرکٹ لیگ ڈویژن سکس ٹورنامنٹ میں کھیلا۔
- شہباز طارق: ناروے کی لیبر پارٹی کے ایک سیاست دان ہیں۔ ان کی پیدائش پاکستان میں ہوئی، تاہم ان کا خاندان 1950 میں جب وہ صرف دو سال کے تھے، اوسلو منتقل ہو گیا تھا۔

- جمشید مسرور: جمشید مسرور، جن کا اصل نام جمشید اقبال رانا ہے، اردو زبان و ادب کے ایک ممتاز نمائندہ اور ناروے میں مقیم پاکستانی نژاد شاعر، ادیب، تمثیل نگار، مترجم اور استاد ہیں، جنھوں نے اردو ادب کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سترہ سال کی عمر میں ان کی غزل ادبی مجلے اوراق میں شائع ہوئی، جس کے بعد وہ لاہور آ کر ریڈیو پاکستان اور مختلف ادبی حلقوں سے وابستہ ہو گئے، جہاں ان کی شاعری کو مقبولیت حاصل ہوئی اور ان کی غزلوں کو کئی گلوکاروں نے بھی گایا۔ بعد ازاں وہ ناروے منتقل ہوئے جہاں انھوں نے ادبی، تعلیمی اور ثقافتی سطح پر بھرپور خدمات انجام دیں۔ اوسلو یونیورسٹی میں پندرہ سال سے اردو تعلیم دیتے رہے اور اردو کے فروغ کے لیے مختلف تربیتی پروگراموں میں کلیدی کردار ادا کیا، جن میں اردو بولنے والی خواتین کی تعلیم و تربیت بھی شامل ہے۔ جمشید مسرور نے نارویجین اور اردو کے کئی شعرا و ادبا کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لیے ترجمہ نگاری کو بطور ذریعہ اپنایا، جیسا کہ لارس سابیے کرسٹین سین اور ایرلنگ کیٹیل سن کی شاعری اور فکشن کو اردو میں ڈھالا، جب کہ مرزا ہادی رسوا کے کلاسک ناول امراؤ جان ادا کا نارویجین ترجمہ بھی ان کی ادبی بصیرت کا شاہکار ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ شاخِ منظر 1989 میں لاہور سے شائع ہوا اور بعد ازاں ان کے اردو اور نارویجین زبان میں کئی دو لسانی مجموعے چھپے جنہیں ناروے کے بڑے اشاعتی اداروں نے شائع کیا۔ ان کا کلام ناروے کے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کی ٹریمنگ گاڑیوں میں نارویجین اور اردو میں آویزاں کیا گیا اور وہ ناروے کے پہلے پاکستانی مصنف بنے جنہیں نارویجین رائٹرز یونین کا رکن منتخب کیا گیا۔ جمشید کو 1999 میں نارویجین فنکار ایوارڈ اور ثقافتی وظیفہ بھی عطا ہوا۔ وہ نہ صرف 33 بین الاقوامی مشاعرے منعقد کر چکے ہیں، بلکہ گذشتہ 15 سال سے اردو ماہنامہ بازگشت/Ekko کے مدیر بھی ہیں جو اردو ادب اور عالمی ادبیات کے سنگم کا درجہ رکھتا ہے۔ ان کے دو ڈرامے اوسلو میں پیش کیے گئے جن میں اردو، پنجابی اور نارویجین زبانوں کا امتزاج کیا گیا اور ان میں نارویجین و پاکستانی فنکاروں نے شرکت کی۔ ان کی عالمی ادبی پزیرائی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکا کی ووڈبرگ یونیورسٹی نے ان کے کلام کا انگریزی ترجمہ کروایا اور انھیں امریکا میں مشاعروں کے لیے مدعو کیا گیا۔ جمشید نہ صرف ناروے بلکہ پورے اسکینڈینیویا میں اردو کے ترجمان کے طور پر جانے جاتے ہیں اور 2015 میں انھیں پاکستان کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز "تمغۂ امتیاز" سے نوازا گیا، جو ان کے ہمہ جہت، کثیراللسانی اور بین الثقافتی ادبی خدمات کا اعتراف ہے۔ ان کی شخصیت اردو ادب کے ایک ایسے سفیر کی ہے جنھوں نے مہجرت کے باوجود اپنی زبان، ثقافت اور شناخت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ نئی نسلوں تک کامیابی سے منتقل کیا۔
- فیصل ہاشمی: فیصل ہاشمی ایک نارویجین اردو شاعر اور ادیب ہیں جو اوسلو، ناروے میں مقیم ہیں۔ وہ اردو ادب میں اہم خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کا شمار ناروے میں اردو زبان کے فروغ دینے والے ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے۔
- مظفر ممتاز: مظفّر ممتاز ایک معروف پاکستانی اردو شاعر اور ادیب ہیں۔ ان کا شمار اردو کے جدید لب و لہجے کے شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں فکر کی گہرائی، وجودی سوالات، داخلی کرب، خودی، تنہائی اور انسانی جذبات کی پیچیدگیوں کو نہایت حساس انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ وہ ناروے میں مقیم ہیں۔
اس طرح سے ناروے میں مقیم پاکستانی کمیونٹی، خاص طور پر اردو بولنے والے افراد کے طور پر نہ صرف اپنی زبان و ثقافت کو زندہ رکھا بلکہ ناروے کی کثیرالثقافتی شناخت میں اہم کردار ادا کیا۔ اردو بولنے والوں نے ادب، شاعری اور زبان کے فروغ کے ساتھ ساتھ مقامی معاشرے میں بھی اپنی پہچان بنائی۔ اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کئی نمایاں افراد نے سیاست، کھیل، صحافت، ادب، فنون اور انسانی حقوق کے شعبوں میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔ ان میں اسلم احسن، شبانہ رحمان، خالد حسین، نواز اختر چودھری، فقرہ سلیمی اور خالد سلیمی جیسے افراد شامل ہیں، جنھوں نے نارویجین معاشرے میں اپنی محنت اور قابلیت سے ایک نمایاں مقام بنایا۔ یہ تمام شخصیات ناروے میں نہ صرف پاکستانی کمیونٹی کی نمائندگی کرتی ہیں بلکہ بین الثقافتی ہم آہنگی اور شمولیت کی علامت بھی ہیں۔ انھوں نے حسب ضرورت نارویجین اور انگریزی زبانوں کا استعمال تو کیا، مگر اردو زبان کو زندہ رکھا اور حسب ضرورت اس کا استعمال بھی کیا۔
پاکستان میں یادگاریں
[ترمیم]حالیہ برسوں میں ناروے میں اردو بولنے والی کمیونٹی کی سرگرمیاں نمایاں طور پر بڑھ رہی ہیں۔ ایک اہم پیش رفت 2024ء میں "اوہسلو چوک" (Oslo Chowk) کا قیام ہے، جو پاکستانی تارکین وطن کی ناروے آمد کی 55 ویں سالگرہ کے موقع پر کھاریاں شہر میں قائم کیا گیا۔ اس چوک کا افتتاح ناروے کے سفیر پر البرٹ ایلسیاس نے کیا، جو اس مقام کے قریب واقع ہے جہاں سے 1970ء کی دہائی میں پاکستانی محنت کش یورپ روانہ ہوتے تھے۔ اس موقع پر یونیورسٹی آف گجرات میں ایک سیمینار بھی منعقد ہوا، جس میں نارویجن حکام اور مقامی تعلیمی و سماجی رہنماؤں نے شرکت کی۔[43]
یہ یاد رکھنے لائق ہے کہ کھاریاں کو عرف عام ناروے خورد یا چھوٹا ناروے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ 70 فی صد پاکستانی جو ناروے میں جا کر بسے وہ اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ [44][45]
اسی طرح سے یہی جگہ ناروے مین پاکستان نژاد لوگوں کے گاؤں کے طور پر ایک جگہ مشہور ہے۔ جی ٹی روڈ کو ضلع گجرات کے قصبے کھاریاں کے وسط میں سے چھوڑ دیں اور ایک تنگ روڈ کے ذریعے آگے بڑھیں جو ایک مصروف بازار سے گزرتا ہوا بالآخر ایسی جگہ لے جائے گا، جہاں ایکڑوں پر پھیلے ہوئے وسیع مناظر اور ایکڑوں پر پھیلا ہوا گھنا سرسبز و شاداب جنگل آپ کا استقبال کرے گا۔ گاؤں عالم پور گوندلاں میں رہنے والے تقریباً دو ہزار افراد میں سے چار سو ناروے میں جابسے ہیں (یعنی ہر پانچ میں سے ایک شخص)۔ دوسرے برطانیہ، اسپین، یونان، کینیڈا، اٹلی اور خلیج کے ملکوں میں اپنا رزق تلاش کرنے چلے گئے ہیں۔ مکمل علاقہ ویران ہو چکا ہے مگر یہاں سے زیادہ تر لوگ اگر کسی ایک ملک میں آباد ہوئے ہیں تو وہ ناروے میں جاکر آ بسے ہیں۔ [46]
اسی نام سے یعنی اوسلو چوک جے نام سے اوسلو میں ایک بھارتیوں کا بھی ریستوران کھلا ہے۔ [47]
مشاہیر بھارتی نژاد اردو داں
[ترمیم]
- زیادہ تر اردو داں جو ناروے میں جا کر آباد ہوئے ہیں، وہ پاکستانی نژاد ہیں۔ تاہم کچھ لوگ بھارت سے بھی جاکر ناروے میں آباد ہوئے ہیں اور لسان و ادب کے اپنے پرچم بلند کیے ہیں۔ ان میں ایک معروف نام سریش چندر شکلا کا ہے۔ سریش چندر شکلا 1954ء کو لکھنؤ، بھارت میں پیدا ہوئے۔ تعلیمی مدارج یہیں طے کیے اور پھر 1988ء سے ناروے کے شہر اوسلو میں قیام پزیر ہیں۔سریش چندر شکلا نے اوسلو میں بھی ایک چھوٹا سا لکھنؤ آباد کررکھا ہے، جیسا کہ ان کے شناسا اردو داں حلقے سے عیاں ہوتا ہے۔ ۔ وہاں کی ادبی اور سماجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہاں کی تعلیمی زندگی کے بھی وہ ایک بے حد فعال رکن کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ لکھنو یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد سریش چندر شکلا اوسلو یونیورسٹی، ناروے سے پہلے وہاں کی زبان سیکھی اس کے بعد وہاں کا ادب سیکھا۔وہیں سے صحافت کا دو سالہ کورس بھی مکمل کیا۔یہ پہلے بھارتی ہیں جو وہاں صحافت کی تعلیم حاصل کیے اور اس ملک کی صحافت کا بہ غور تعلیمی تجزیہ و مطالعہ کیا۔ شکل وہاں کے مقامی اخبار میں صحافی ہیں اور وہاں کی صحافتی یونین کے ایک فعال رکن بھی ہیں۔ وہ نارویجین جرنلسٹ یونین کے چار دہائیوں سے ممبر ہیں۔شکلا وہاں کے شہری کونسل کے بھی ممبر رہ چکے ہیں۔لسانی جستجو شکلا کو اولًا ہندی ادب کی طرف مائل کر چکی تھی۔ اب تک ہندی میں کہانیوں کی تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔اردھ راتری کا سورج (آدھی رات میں رو نما کا سورج)، سرحدوں سے دور، میری پرواسی کہانیاں (میری تارکین وطن پر مبنی کہانیاں)۔ اور ایک مصنف و لکھاری کے ساتھ ساتھ ایک شاعر اور کوی بھی ہیں۔ ان کی آزاد نظموں کا مجموعہ جن من کے گاندھی (عوام الناس کے گاندھی) کے عنوانوں سے شائع ہو چکے ہیں۔ جہاں تک اردو ادب سے ان کی رغبت اور وابستگی کا تعلق ہے، اب تک اردو میں ان کی کہانیوں کے دو مجموعے تعارفی خط اور ناروے کی اردو کہانیاں شائع ہو چکی ہیں۔ متصلًا ”ناروے کی اردو کہانیاں‘ کے نام سے ان کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ شائع ہو گیا۔اس ثانی الذکر کتاب کے لیے ایک تقریب دلی میں ایک اہل قلم کملیشور کے یہاں ہوئی تھی۔انھوں نے سریش چندر شکلا کی اس کوشش کو بہت پسند کیا تھا اور سراہا بھی تھا اس طرح سریش چندر شکلا ایک سہ لسانی یا تین زبانوں کی شخصیت بن چکے ہیں جو نارویجین، ہندی اور اردو سے باقاعدگی سے جڑے ہیں اور اسی طرح بھارت اور ناروے کے بیچ ایک جڑنے والے عدیم النظیر دانشورانہ اور زبانی پل کا بھی وہ کام کر رہے ہیں۔[48]
- اسی طرح ہرچرن داس چاولہ ایک معروف اردو ادیب، ناول نگار اور مترجم تھے جن کی پیدائش 4 نومبر، 1926ء کو میانوالی (اس وقت برطانوی ہندوستان، اب پاکستان) میں ہوئی۔ وہ ایک پنجابی ہندو خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور 1947ء کی تقسیم ہند کے بعد دہلی، بھارت ہجرت کر گئے۔ ان کی ابتدائی زندگی کا یہ صدمہ ان کے ادبی کام پر گہرے اثرات مرتب کرتا رہا اور ہجرت، شناخت اور ثقافتی بدلاؤ ان کے افسانوں اور ناولوں کے اہم موضوعات بنے۔ انھوں نے 1956ء میں پنجاب یونیورسٹی، چندی گڑھ سے تعلیم حاصل کی اور انڈین ریلوے میں ملازمت اختیار کی، لیکن بعد ازاں 1971ء میں یورپ چلے گئے، پہلے جرمنی اور پھر 1974ء میں ناروے کے دار الحکومت اوسلو منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے مستقل سکونت اختیار کی۔ وہ ناروے کی کمیون لائبریری میں اردو، ہندی اور پنجابی کے مشیر تھے، سبکدوشی کے بعد چھ مہینے ناروے میں رہتے تھے اور چھ مہینے بھارت میں۔[49] ناروے میں انھوں نے اردو، ہندی اور نارویجین زبانوں میں ترجمے کے ذریعے جنوب ایشیائی اور یورپی ادب کے درمیان ادبی پل قائم کیا، جس میں ان کی بیوی پورنیما چاولہ بھی شریک تھیں۔ ان کے نمایاں کاموں میں اردو، ہندی، پنجابی اور انگریزی میں افسانوی مجموعے اور ناول شامل ہیں، جیسے درندے، چراغ کے زخم، گھوڑے کا کرب اور نارویجین ناول وکٹوریا کا ترجمہ، جو انھوں نے اپنی بیوی کے انتقال کے بعد مکمل کیا۔ انھیں راجندر سنگھ بیدی ایوارڈ ، اتر پردیش اردو اکادمی ایوارڈ اور دیگر قومی و بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ وہ 5 نومبر 2001ء کو اوسلو میں وفات پا گئے۔
نارویوں کی اردو میں دلچسپی
[ترمیم]
- جارج مورگنستیئرنے کو اردو زبان اور جنوبی ایشیا کی تہذیب و ثقافت سے گہری دلچسپی تھی، جو ان کی ہندیات اور لسانیات میں مہارت کا اہم پہلو ہے۔ غالبًا 1892ء – وفات: 3 مارچ 1978ء) اس میدان میں کام کرنے والی وہ پہلی اور منفرد شخصیت تھے۔ انھوں نے اردو کو نہ صرف ہند-آریائی لسانی نظام کا ایک کلیدی جزو قرار دیا بلکہ اس کے صوتی، صرفی اور نحوی پہلوؤں کا تقابلی مطالعہ بھی کیا، خصوصاً داردی اور ایرانی زبانوں کے ساتھ۔ ان کے تحقیقی کام نے ناروے میں اردو زبان و ادب کے تعلیمی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان کے شاگرد کنوت کرسٹیانسن نے ان کے نظریات کو آگے بڑھاتے ہوئے اردو کو باقاعدہ تعلیمی مضمون کے طور پر متعارف کرایا۔ اس طرح مورگنستیئرنے کو ناروے میں اردو زبان کے علمی ارتقا کا بانی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ مورگنستیئرنے نے براہِ راست اردو زبان پر کثیر تصانیف نہیں چھوڑیں، لیکن اردو کو وہ ہند-آریائی زبانوں کے ایک اہم رکن کے طور انھوں نے باکمال انداز میں پیش کیا۔ ان کی تحقیقات میں اردو کے ساختی تجزیے، دیگر ہند-ایرانی زبانوں سے اس کا تقابلی مطالعہ اور برصغیر میں اس کے لسانی اثرات کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کے شاگردوں نے اردو زبان پر براہ راست علمی کام کو فروغ دیا، جن میں خاص طور پر کنوت کرسٹیانسن کا نام قابل ذکر ہے۔
- کنوت کرسٹیانسن (پیدائش: 16 مئی 1928ء – وفات: اوائل جولائی 1999ء) ناروے میں اردو اور جنوب ایشیائی لسانیات کے تعلیمی فروغ کے علمبرداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے جارج مورگنستیئرنے کے شاگرد کی حیثیت سے اردو، ہندی اور سنسکرت میں عمیق علمی تربیت حاصل کی اور اپنی تدریسی زندگی کے دوران ناروے میں اردو کو نہ صرف تحقیقی بلکہ تدریسی سطح پر ایک مستقل زبان کے طور پر متعارف کرایا۔ اردو سے ان کی گہری وابستگی نے انھیں اس زبان کے لسانی، ادبی اور تاریخی پہلوؤں کا نہایت باریک بینی سے مطالعہ کرنے والا ماہر بنا دیا۔ ان کی تحقیق کا دائرہ صرف زبان کی تعلیم تک محدود نہ تھا، بلکہ انھوں نے داردی زبانوں، رومانی (Romani) زبان اور برصغیر کے لسانی تنوع کو بھی اپنی علمی توجہ کا مرکز بنایا۔ ناروے میں اردو زبان کی تعلیمی بنیاد رکھنے اور اسے جنوب ایشیائی مطالعات کا حصہ بنانے میں ان کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

- فن تھیسن (Finn Thiesen) ڈنمارک میں پیدا ہونے ماہر لسانیات ہیں جنھوں نے بعد ناروے میں سکونت اختیار کی۔ وہ ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ساتھ مترجم اور ادبی محقق ہیں جنھوں نے فارسی، اردو، ہندی اور ترکی ادب پر گہری تحقیق کی۔ وہ یونیورسٹی آف اوسلو میں مشرق وسطیٰ اور مشرقی علوم کے شعبے میں وابستہ رہے اور خاص طور پر فارسی شاعر حافظ شیرازی کی شاعری اور غزل گوئی پر کام کیا۔ ان کی تحقیق کا دائرہ فارسی، اردو اور عثمانی ترک شاعری پر مرکوز رہا اور ان کا شمار مغرب میں ان چند ماہرین میں ہوتا ہے جنھوں نے اردو اور فارسی شاعری کو عالمی علمی حلقوں میں متعارف کرایا۔ ان کی اہم تصانیف میں A Manual of Classical Persian Prosody (کلاسیکی فارسی عروض کا ہدایت نامہ) اور حافظ شیرازی کی غزلوں پر متعدد تحقیقی مقالات شامل ہیں۔
- لیلٰی رتھ شمیت (Ruth Laila Schmidt): پروفیسر رتھ لیلا شمٹ (Ruth Laila Schmidt) [50] ایک ممتاز ماہر لسانیات، محقق، مترجم اور جنوبی ایشیائی زبانوں بالخصوص اردو، کشمیری، نیپالی اور شینا زبان کی بے مثل ماہر ہیں، جن کی علمی دلچسپیوں کا دائرہ زبانوں کی ساختیاتی، سماجی لسانیاتی اور وسیع النظر تاریخی پہلوؤں تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کا تحقیقی کام بنیادی طور پر پاکستان و بھارت کے پہاڑی علاقوں کی زبانوں پر مرکوز رہا ہے، خاص طور پر ہند کوہستان کی شینا زبان پر، جس پر انھوں نے رازول کوہستانی اور دیگر ماہرین کے ساتھ مل کر مختلف پہلوؤں سے تحقیق کی۔ ان کی شائع شدہ کتاب A Grammar of the Shina Language of Indus Kohistan (شینا زبان کے صرف و نحو پر کتاب) اور متعدد علمی مقالات جیسے "Nominal Inflections" (اسم سے متعلق قواعد)، "Compound Tenses" (فعل مرکب) اور "Typology of Shina Pronouns" (شینا زبان میں ضمائر کی نوعیت)۔ ان میں آخر الذکر شینا زبان کے صرف و نحو کی باریکیوں کو دنیا کے آگے آشکارا کرنے میں لیلٰی کا بہت بڑا تعاون ہے۔ انھوں نے شینا زبان کے مختلف لہجوں کا تقابلی مطالعہ بھی کیا اور کشمیری و شینا زبانوں کے لغوی اشتراکات پر بھی تحقیق کی، جو ان کی لسانی درایت کا مظہر ہے۔ ان کی دلچسپی محض ساختی زبانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ انھوں نے زبان، ثقافت اور سماج کے باہمی تعلقات پر بھی تحقیق کی، جیسا کہ "Narratives of Blood Enmity in Indus Kohistan" (وادیٔ سندھ کے کوہستان میں خونی دشمنی کی کہانیاں) اور "The Oral History of the Darma Lineages" (دھرما نسب ناموں کی زبانی تاریخ) جیسے مقالات میں واضح ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، انھوں نے لسانی ترقی، ماحولیاتی آگاہی اور تعلیمی منصوبہ بندی کے موضوعات پر بھی متعدد رپورٹیں تیار کیں، جن میں خواتین کی تعلیم، صحت اور زراعت کے شعبوں میں کردار کو اجاگر کیا گیا۔ ان کے تربیتی موادجیسے Shina Environmental Primer (شینا زبان میں ماحولیات پر ابتدائی کتاب) اور Grammar Drills for Urdu Prose (اردو نثر کے لیے قواعد کی مشقیں) نے لسانی تدریس کو عملی طور پر سہل بنایا۔ رتھ شمٹ نے متعدد ادبی تراجم بھی کیے اور ساتھ ہی انھوں نے نیپالی، اردو اور شینا میں تدریسی مواد کی تیاری کے علاوہ یو ایس ایڈ (USAID)، عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ترقیاتی منصوبوں میں کلیدی تحقیقی کردار ادا کیا۔ ان کا علمی کام زبانوں کے تحفظ، تحقیق اور ترویج میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور جنوب ایشیائی لسانیات کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی تیار کردہ چند نمایاں رپورٹیں ہیں: "Women as Providers and Beneficiaries of Health Care in Rural Pakistan" (دیہی پاکستان میں خواتین بطور صحت کی دیکھ بھال کے فراہم کنندگان اور مستفید کنندگانِ ) ،(اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوانے والے پاکستانی والدین کا ایک مختصر سروے) "Mini-Survey of Pakistani Parents Who Are Educating Their Daughters" اور "Assessment of Tasks and Needs of Women in Agriculture and Animal Husbandry" (زراعت اور مویشی پروری میں خواتین کے کاموں اور ضروریات کا جائزہ) شامل ہیں۔ لسانی تعلیم و تدریس میں ان کا اہم کام Urdu: An Essential Grammar (1999) اور Grammar Drills for Urdu Prose جیسی کتب کی صورت میں سامنے آیا جو اردو سیکھنے والوں کے لیے ایک عملی اور جامع رہنما ہے۔ نیپالی زبان کے لیے بھی ان کی خدمات لائقِ تحسین ہیں، جیسا کہ ان کی کتاب A Practical Dictionary of Modern Nepali (جدید نیپالی زبان کی ایک عملی لغت) اور Nepali Conversation Manual (نیپالی مکالماتی دستی کتاب) سے واضح ہے۔ انھوں نے مختلف زبانوں کے لیے تدریسی مواد تیار کیا، جن میں ماحولیاتی تعلیم، دیہی ترقی اور خواتین کی فلاح سے متعلق پہلو نمایاں ہیں۔ ان کے تراجم، خاص طور پر "My Heartrendingly Tragic Story" (میری دل خراش حد درجہ المناک کہانی)اور دیگر ادبی و تحقیقی متون، لسانیات اور ادب کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے مختلف ثقافتوں کے مابین پُل کا کام دیتے ہیں۔ لیلٰی رتھ شمٹ کا علمی و تحقیقی کام ان گنت تحقیقی مضامین، کتابوں اور رپورٹوں پر مشتمل ہے، جنھوں نے دَردی لسانیات، جنوب ایشیائی زبانوں کے تحفظ اور لسانی و سماجی تنوع کی تفہیم میں گراں قدر اضافہ کیا۔ ان کی شخصیت تحقیق، تدریس، ترجمے اور فیلڈ ورک کا ایک نادر امتزاج تھی۔ ان کا علمی ورثہ آج بھی لسانیات، جنوب ایشیائی مطالعہ جات اور ثقافتی تحقیق کے میدان میں ایک رہنما ستارے کی حیثیت رکھتا ہے، جو آنے والے محققین کے لیے راہنمائی کا ذریعہ بنتا رہے گا۔ اردو زبان و ادب، پاکستانی سماجی وثقافتی حالات، لسانیاتی ڈھانچوں اور خاص طور پر شینا زبان کے گہرے مطالعے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ 1994ء - 2007ء کے دور میں وہ اوسلو یونیورسٹی میں اردو کی پروفیسر کے طور پر کام کرچکی ہیں۔لیلٰی کو اور ان کے رفیقِ کار رازول کوہستانی کو شینا زبان کے ماحولیاتی ابتدائیے (environmental primer ) کے لکھنے کے لیے 1996ء میں داؤدپوترا ماحولیاتی تعلیمی انعام (Daudpota Environmental Education Prize) دیا گیا تھا۔
ناروے میں اردو کا مستقبل
[ترمیم]ناروے میں پاکستانی نژاد اردو بولنے والی کمیونٹی کی تعداد موجودہ اندازوں کے مطابق تقریباً 40,000 ہے، جو وہاں کی نمایاں اقلیتوں نسلی اور لسانی میں شامل ہے۔ یہ کمیونٹی 1960 کی دہائی سے معاشی، سیاسی اور سماجی میدانوں میں متحرک ہے اور اس کے افراد ناروے کی پارلیمان و مقامی اداروں تک بہ طور ارکان پہنچ چکے ہیں کئی بار کچھ فیصلہ ساز عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔ تاہم، اردو زبان و ثقافت کے تحفظ میں یہ کمیونٹی دیگر اقلیتوں، خصوصاً تمل برادری کے مقابلے میں کم سرگرم نظر آتی ہے، جنھوں نے ریڈیو اسٹیشنوں، ہفتہ وار اسکولوں (جنہیں ظلی مدارس یا شیڈو اسکولوں کا بھی نام دیا گیا ہے) اور فلم فیسٹیولوں جیسے اقدامات سے اپنی شناخت مضبوط کی ہے۔ اردو کا پیچیدہ رسم الخط، تعلیمی مشکلات اور معاشرتی تعصبات بھی اردو سیکھنے اور اور زبان کے روز مرہ کی زندگی اور معاملتوں میں استعمال میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اگرچہ مشاعروں اور مذہبی سرگرمیوں کے ذریعے زبان کا کچھ تسلسل قائم ہے، مگر نوجوان نسل میں اردو سے تعلق کم زور ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے زبان و شناخت کے تحفظ کے لیے منظم اقدامات کی ضرورت ہے، جیسے اردو میڈیا، تعلیمی ادارے اور ثقافتی پلیٹ فارموں کی تشکیل اور ان کی ایک فعال اور اثر انگیز حیثیت۔
اس سلسے میں ایک اہم بات ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین نے ایک تفصیلی جائزے کے بعد ناروے میں اردو زبان کے مستقبل پر باوثوق انداز میں کہی ہے۔ وہ نئی دہلی میں واقع جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر آف انڈین لینگویجز، اسکول آف لینگویج، لٹریچر اینڈ کلچر اسٹڈیز میں اردو کے پروفیسر ہیں اور اردو زبان و ادب کی خدمات کے حوالے سے وہ بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ خواجہ اکرام کی اب تک 23 کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں سے بعض کتابیں بھارت اور بیرون ممالک یونیورسٹیوں میں شامل نصاب ہیں۔ خواجہ محمد اکرام الدین کو ان کی علمی و ادبی کارکردگی کے عوض کئی ملکی اور بین الاقوامی اعزازات و انعامات سے نوازا گیا جن میں جاپان، ڈنمارک، جرمنی اور ترکی کے علاوہ بھارت کے مختلف علمی و ادبی اداروں کے اعزازات شامل ہیں۔ ان کا تبصرہ یوں ہے:
| ” | ۔۔۔۔ ناروے میں بھی اردو زبان ۔۔۔۔ 1972ء میں پاکستانی و ہندستانی تارکین وطن کے طفیل پہنچی اور اب تک وہی اس کی آبیاری کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن ناروے میں اردو کی تخم کاری میں ، سعید انجم (مرحوم) آنجہانی ہرچرن چاولہ، سید مجاہد علی، جمشید مسرور ، فیصل ہاشمی، انیس احمد ، فیصل نواز چوھدری اور خالد تھتھال بنیادی طور پر پنجابی کے شاعر و ادیب ہیں ۔ ان کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہں ۔۔ اردو میں بھی ان کا قلم روان رہتا ہے ، ان سب احباب کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔۔ ناروے میں اردو کے چھوٹے چھوٹے تشہیری پمفلٹ نما اردو اخبارات تو پاکستانیوں کے کئی دھڑوں نے اپنے اپنے پروپیگنڈے کے لیے ناروے آتے ہی شایع کرنے شروع کر دیے تھے لیکن میاں زاید صوفی نے ’’ آواز ‘‘ نام سے پہلا اخبار جاری کیا جو مسلسل شائع تو ہوتا رہا لیکن بعد میں اسے قائم نہ رکھ سکا اور بند ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح جنوری انیس سو اسی تک کم و بیش دس بارہ پندرہ رسالے شایع ہوتے رہے اور ۔۔۔۔۔ معروف شاعر و ادیب و مترجم جمشید مسرور کا ماہنامہ ۔۔۔ باز گشت ناروے کا پہلا اردو ادبی رسالہ تھا جس کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے ۔۔۔۔۔ جمشید مسرور کی اردو کے لیے خدمات کا احاطہ کرنا اس مختصر سے مضمون میں ناممکن ہے، انھوں نے جہاں بہت سے نارویجین شعرا و ادیبوں کی تخلیقات کو اردو میں ڈھالا ہے وہاں خود ان کی نظمیں نارویجیئن زبان میں متعدد’’ انتھیالوجیز ‘‘میں اور ایک درسی کتاب میں بھی شامل ہیں۔ان کی خدمات کے صلہ میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی گولڈ میڈل سے نوازا ہے ان کی شاعری کے کئی مجموعے شایع ہو چکے ہیں اور کچھ نارویجیئن زبان میں بھی ترجمہ ہوئے ہیں ۔ سنہ انیس سو اسی سے اب تک بڑی باقاعدگی سے شایع ہونے والا ماہنامہ کارواں تو سید مجاہد علی کی اردو کے لیے خدمات کا ایک مجاہدانہ کارنامہ ہے ۔۔۔۔۔ کاروان اب کچھ عرصے سے آن لائین شائع ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ سید مجاہد علی کی ایک کتاب ’’ میڈیا بر سرِ پیکار ‘‘ نے تو پاکستان کے میڈیا حلقوں میں ہلچل مچا رکھی ہے ۔ انیس احمد کے دو ناول اور فیصل نواد چوھدری کا ایک سفر نامہ اور کہانیوں کی کتابوں کے ساتھ ، ان کی یادوں پر مشتمل ایک ضخیم کتاب کا تو جواب ہی نہیں ۔ وہ نارویجیئن زبان میں بھی لکھتے ہیں۔۔۔۔۔ رسالوں میں معروف شاعر و ادیب اور محقق مسعود منور کا ’’ بوتیکا ‘‘ منصور احمد کا ’’پیام مشرق‘‘ اور محترمہ مسرت افتخار حسین کے ’’ کلچر ‘‘ کا ذکر بڑا اہم ہے ۔ ایشین کلچر اہنڈ آرٹس کونسل کے طاہر ڈار کا رسالہ ۔۔۔۔ روزن ۔۔۔ بھی بڑا منفرد تھا ۔ ۔۔۔۔۔ ناروے کے پرائمری اسکولوں میں اردو کی تعلیم کا حال ڈنمارک سے مختلف نہیں، جس کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں ۔۔۔۔۔ اردو سے گہرا شغف رکھنے والے رفیق چوھدری نے اردو برادری کی ایک بڑی مشکل اور نارویجیئن زبان کو سمجھنے کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے انیس سو اٹھہتر میں پہلی اردو نارویجیئن ڈکشنری شائع کی جس نے لسانی اعتبارسے اردو برادری کے لیے نارویجیئن سماج میں داخل ہونے کی راہیں کھول دیں ۔ ۔۔۔۔۔ اوسلو کی مرکزی لائبریری میں اردو کی کم سے کم پندرہ بیس ہزار کتابیں موجود ہیں اور ملک کے بڑے بڑے شہروں کی لائبریروں میں بے شمار اردوکتابیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اوسلو یونیورسٹی کے شعبۂ علوم شرقیہ میں اردو زبان بھی شامل ہے ۔ ۔۔۔۔۔ اور باقاعدہ پڑھائی جاتی ہے ۔۔۔۔ ناروے میں سید مجاہد علی نے اردو مشاعروں کی بنیاد رکھی اور پچھلے بیس تیس سالوں سے وہاں اردو مشاعرے منعقد کیے جا رہے ہیں جن میں ہند و پاکستان کے نامور شعرا کو مدعو کیا جاتا ہے ۔ ناروے میں اردو کی ترویج کے لیے پچھلے کچھ عرصہ سے کئی ایک ادبی و ثقافتی انجمنیں بڑی متحرک میں اور یوں کہا جا سکتا ہے کہ ناروے میں اردو زبان و ادب مستقبل میں بھی پھلتا پھولتا رہے گا[51]
۔۔۔ |
“ |
مزید دیکھیے
[ترمیم]- اردو
- پاکستان میں اردو
- بھارت میں اردو
- عالمی یوم اردو
- پاکستان کی زبانیں
- اردو ہندی تنازع
- اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات
- اردو ادب
- اردو ابجد
- اردو تحریک
- اردو زبان کے شاعروں کی فہرست
- اردو زبان کے مصنفین کی فہرست
- اردو تحریک
- فارسی اور اردو
- اردو بولنے والوں کے ذریعہ ہندوستان کی ریاستیں۔
- برطانیہ میں اردو
- اردو شاعری
- کھڑی بولی
- اردو ویکیپیڈیا
- اردو کی بورڈ
- رومن اردو
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب Chidanand Rajghatta (7 Aug 2011). "Pak 3rd largest immigrant group in Norway" [پاکستانی ناروے میں تیسرا سب سے بڑا تارکین وطن گروہ ہیں]. The Times of India (بزبان انگریزی). Retrieved 2025-05-04.
- ^ ا ب "The Tamil Diaspora in Norway" [ناروے میں بود و باش اختیار کرنے تمل]. Brown Pundits (بزبان انگریزی). 6 Oct 2018. Retrieved 2025-05-04.
- ↑ "Norway Tamil Film Festival - Tamilar Awards 2025". FilmFreeway (بزبان انگریزی). Retrieved 2025-05-04.
- ↑ "NTFF 2023: List of Awardees –Tamilar Awards -14th Norway Tamil Film Festival for – Tamil Nadu" (بزبان انگریزی). 17 Jan 2023. Archived from the original on 2023-03-05. Retrieved 2025-05-04.
- ↑ "சிறந்த இயக்குநர், இசையமைப்பாளர்,நடிகர்.. திரைப்பட விழாவில் விருதுகளை அள்ளிக்குவிக்கும் பொன்னியின் செல்வன்" [بہترین ہدایت کار، موسیقار، اداکار۔۔۔ فلمی میلے میں ایوارڈز سمیٹنے والی پونیئِن سیلون]. Kalaignar Seithigal (بزبان تمل). 14 Feb 2023. Retrieved 2025-05-04.
- ↑ "TN docu on Dalit woes wins Norway fest award" [دلتوں کے مصائب پر مبنی تمل ناڈو کی دستاویزی فلم کو ناروے کے میلے میں ایوارڈ ملا]. Press Reader (بزبان انگریزی). Retrieved 2025-05-04.
- ↑ "Norway award for documentary on Vengaivayal issue" [وینگئی وایل معاملے پر دستاویزی فلم کے لیے ناروے میں ایوارڈ]. DT Next (بزبان انگریزی). 19 Apr 2025. Retrieved 2025-05-04.
- ↑ Mohnish Singh (11 May 2023). "Do Over wins the Best Social Awareness Film Award in Norway" [فلم ڈو اوور نے ناروے میں بہترین سماجی شعور کی فلم کا ایوارڈ اپنے نام کر لیا]. Eastern Eye (بزبان برطانوی انگریزی). Retrieved 2025-05-04.
- ↑ "The Norwegian Conflict Management Approach in Sri Lanka: The Limits of Weak Mediation & Bias" [ناروے کا تنازع حل کرنے کا طریقۂ کار سری لنکا میں: کمزور ثالثی اور جانبداری کی حدود]. SDAFA (بزبان انگریزی). 5 Aug 2021. Retrieved 2025-05-04.
- ↑ John S. Moolakkattu (2005). "Peace Facilitation by Small States: Norway in Sri Lanka" [چھوٹی ریاستوں کی جانب سے امن کے قیام میں معاونت: سری لنکا میں ناروے کا کردار]. Cooperation and Conflict (بزبان انگریزی). 40 (4): 385–402. Retrieved 2025-05-04 – via JSTOR.
- ↑ نگار عظیم (2003)۔ ہرچرن چاولہ: فن اور شخصیت۔ دہلی: تخلیق کار پبلیشرز۔ ص 150۔ ISBN:81-87231-46-7
- ↑ ارتقا شیخ (انگلینڈ) (دسمبر 2002)۔ مرغوب حیدر عابدی؛ منور امروہی (مدیران)۔ "اردو کی تعلیم اور ہماری نئی نسلیں"۔ ایوانِ اردو۔ دہلی: اردو اکادمی۔ ج 16 شمارہ 8: 17
- ↑ "Urdu in Norway". Joshua Project (بزبان انگریزی). Archived from the original on 2014-07-14. Retrieved 2025-05-10.
- ↑ "First Imam of the Norwegian Armed Forces – Major Najeeb Naz". Jamia Al-Karam (بزبان برطانوی انگریزی). 6 Mar 2017. Retrieved 2025-07-27.
- ↑ (حوالہ)
- ↑ (حوالہ: جیو نیوز)
- ↑ Ammara Farukh; Mila Vulchanova (4 May 2014). "Predictors of reading in Urdu: does deep orthography have an impact?". Dyslexia (Chichester, England) (بزبان انگریزی). 20 (2): 146–166. DOI:10.1002/dys.1474. PMC:4303915. PMID:24664499. Retrieved 2025-05-04 – via PubMed.
- ↑ "FjordmanEssays" (بزبان انگریزی). Retrieved 2025-05-04 – via Internet Archive.
- ↑ News Desk (2 Mar 2018). "حلقہ ارباب ذوق کا ناروے میں مادری زبانوں میں مشاعرہ، متعدد شخصیات شریک ہوئیں". OVERSEAS TRIBUNE (بزبان امریکی انگریزی). Retrieved 2025-05-17.
{{حوالہ ویب}}:|پہلا=باسم عام (help) - ↑ "Websites using Urdu in Norway". trends.builtwith.com (بزبان انگریزی). Retrieved 2025-05-04.
- ↑ "کاروان کیوں اور کیا"۔ Karwan.no۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 2015-07-15۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-05-18
{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: BOT: original URL status unknown (link) - ↑ "بالی وڈ فیسٹیول ناروے". BollywoodFest.com (بزبان انگریزی). Bollywood Festival Norway. Retrieved 2025-05-29.
- ↑ https://journals.sagepub.com/doi/pdf/10.1177/1103308803011002004
- ↑ https://crp.leeds.ac.uk/wp-content/uploads/sites/52/2014/06/ostberg2003.pdf
- ↑ "Norway Radio Tamil - தேன் தமிழ் ஓசை"۔ Norway Radio Tamil۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مئی، 2025
{{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في:|تاریخ رسائی=(معاونت) - ↑ ""Tamil 1" – first Tamil school book published in Norway"۔ 18 جولائی، 2020۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مئی، 2025
{{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في:|تاریخ رسائی=و|تاریخ=(معاونت) - ↑ https://www.semanticscholar.org/paper/Shadow-Schools%E2%80%94Tamil-Educational-Success-in-Norway-Thomas/ee31c05e36ff53b0b2ae5479791cb6ffbcd50b41
- ↑ https://superprof.no/kurs/urdu/norge
- ↑ https://nlsnorwegian.no/language-course/urdu
- ↑ "Cooking, Time?". Oslo Museum (بزبان انگریزی). Oslo Museum. Retrieved 2025-06-03.
- ↑ "Vernissage: Cooking, Time?". Oslo Art Guide (بزبان انگریزی). Oslo Art Guide. Retrieved 2025-06-03.
- ↑ "Intercultural Museum – Visit Us". Oslo Museum (بزبان انگریزی). Oslo Museum. Retrieved 2025-06-03.
- ↑ عقیل قادر (11 اپریل 2025)۔ "Norway: Pakistan Day Celebrated with Grandeur in Oslo: Ambassador and Norwegian State Secretary Highlight Strong Bilateral Ties"۔ Pothwar News۔ Pothwar News۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-05-18
- ↑ "سر کی جوئیں" (PDF)۔ https://www.fhi.no۔ نارویجن انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ۔ 2025-08-13 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-05-18
{{حوالہ ویب}}:میں بیرونی روابط (معاونت)|ویب گاہ= - ↑
Eliane Lorenz, Anna Krulatz, Eivind Nessa Torgersen (2 Jul 2021). "Embracing linguistic and cultural diversity in multilingual EAL classrooms: The impact of professional development on teacher beliefs and practice". ScienceDirect (بزبان انگریزی). Elsevier Ltd. Retrieved 2025-05-18.
{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link) - ↑ Waqar Gillani (1 Mar 2020). "Diasporic productions: The play Kaffetår celebrates Pakistani-Norwegian community in Norway". The News International (بزبان انگریزی). The News International. Retrieved 2025-05-18.
- ↑ Arunima Mazumdar (3 Dec 2012). "Ibsen's Nora comes alive on Delhi stage". The Times of India (بزبان انگریزی). The Times of India. Retrieved 2025-05-18.
- ↑ ""Id – Identity of the Soul" (پرفارمنس آرٹ پروڈکشن)"۔ www.paulnoble.co.uk۔ Paul Noble – Radio Production, Music Consultancy, Sound Engineering۔ 2010-04-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-05-18
- ↑ Diversify (24 Apr 2024). "Diversity and Inclusion in the Workplace: Cross-Cultural Communication". HerSpace (بزبان انگریزی). HerSpace. Retrieved 2025-05-18.
- ↑ "Diversity Training". The Knowledge Academy (بزبان انگریزی). The Knowledge Academy. Retrieved 2025-05-18.
- ↑ "Norwegian Centre Against Racism". antirasistisk.no (بزبان انگریزی). Norwegian Centre Against Racism. Retrieved 2025-05-18.
- ↑ دی لوکل ناروے (10 فروری 2014)۔ "سیاست دان ناروے کی پہلی تاریخ سپرد قلم کر چکا ہے"۔ دی لوکل ناروے۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-05-18
- ↑ {{حوالہ ویب|title=‘Oslo Chowk’ in Kharian to mark 55 years of Pakistani migration to Norway |url=https://www.dawn.com/news/1893986/oslo-chowk-in-kharian |website=
- ↑ Maha Mussadaq (4 مارچ 2012)۔ "Claim to fame: A little bit of Norway lives in Kharian"۔ The Express Tribune۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-01-23
- ↑ Mirza Khurram Shahzad (26 ستمبر 2014)۔ "Footprints: Norway in Pakistan"۔ Dawn (newspaper)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2023-01-23
- ↑ "پاکستان میں ناروے | ہماری اردو پیاری اردو"۔ www.oururdu.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مئی، 2025
{{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في:|تاریخ رسائی=(معاونت) - ↑ "Oslo Chowk – Contact & Location". Oslo Chowk (بزبان بوکمول). Retrieved 2025-06-03.
- ↑ "ناروے میں اردوکا چہرہ: سریش چند شکل"۔ https://www.urdu.awazthevoice.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مئی، 2025
{{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في:|تاریخ رسائی=(معاونت) ومیں بیرونی روابط (معاونت)|ویب گاہ= - ↑ سید عاشور کاظمی (2003)۔ بیسویں صدی کے اردو نثر نگار (دوسرا ایڈیشن)۔ نئی دہلی: انجمن ترقی اردو۔ ص 94
- ↑ "Urdu: An Essential Grammar"۔ Taylor & Francis۔ 8 دسمبر، 2005۔ DOI:10.4324/9780203979280/urdu-essential-grammar-ruth-laila-schmidt۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مئی، 2025
{{حوالہ رسالہ}}: تحقق من التاريخ في:|تاریخ رسائی=و|تاریخ=(معاونت) - ↑ "اسکینڈے نیویا میں اردو زبان و ادب"۔ ورلڈ اردو ایسوسی ایسوسی ایشن۔ ورلڈ اردو ایسوسی ایسوسی ایشن۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-05-10
بیرونی روابط
[ترمیم]- ناروے کی سیر (اردو ویڈیو)
- حمایت علی شاعر کے 1985ء میں ناروے میں مشاعرے سے خطاب کا ویڈیو
- علی سردار جعفری کے 1985ء میں ناروے میں مشاعرے سے خطاب کا ویڈیو
- جمیل الدین عالی کے 1985ء میں ناروے میں مشاعرے سے خطاب کا ویڈیو
- جمشید مسرور کے 2006ء میں ناروے میں مشاعرے سے خطاب کا ویڈیو
- جاوید شیخ کے 2009ء میں ناروے میں مشاعرے سے خطاب کا ویڈیو
- عبدالمنعم ناصر کے 2013ء میں ناروے میں مشاعرے سے خطاب کا ویڈیو
- ارشد شاہین کی ناروے کے مشاعرے سے خطاب کرتے ہوئے ویڈیو
- عبد الجلیل بٹ (جموں کے اردو شاعر) کی ناروے کے مشاعرے سے خطاب کرتے ہوئے ویڈیو