مندرجات کا رخ کریں

ناروے میں اسلام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ناروے میں مسلمان
کل تعداد
182,607
(آبادی کا 3.4% حصہ)
گنجان آبادی والے علاقے
اوسلو and ویکن
World Islamic Mission mosque in اوسلو.

ناروے میں اسلام (انگریزی: Islam in Norway) مسیحیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔ سنہ 2020ء تک کے جائزے کے بعد ناروے میں مسلمانوں کی تعداد 1,82,607 تھی، جو کل آبادی کا 3.4 فیصد بنتی ہے۔[1][2][3] ناروے میں زیادہ تر مسلمان سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم ایک قابلِ ذکر تعداد شیعہ مسلمانوں کی بھی ہے۔ تقریباً 55 فیصد مسلمان اوسلو اور ویکن کے علاقوں میں رہائش پزیر ہیں۔ ناروے میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق تارکینِ وطن (امیگرنٹس سے آنے والوں) سے ہے، جب کہ بہت کم نسلی (اصالتًا) نارویجین مسلمان ہیں۔

آبادی اور مردم شماری

[ترمیم]

ناروے کی کل آبادی تقریباً 55 لاکھ ہے، جن میں سے 3 سے 4 فیصد مسلمان ہیں مسلمانوں میں زیادہ تر کا تعلق پاکستان، صومالیہ، عراق، مراکش، ترکی اور بوسنیا سے ہے۔[4]

مساجد اور مذہبی سرگرمیاں

[ترمیم]
  • ناروے میں 150 سے زائد مساجد موجود ہیں

</ref>، جن میں سب سے زیادہ اوسلو، برگین، ٹرونڈہائم اور سٹاوانگر میں ہیں۔

  • اسلامک کونسل آف ناروے بہت سی مسلم تنظیموں کی نمائندہ ہے[5]۔
  • جمعہ کی نماز، رمضان اور عیدین کی تقریبات باقاعدگی سے منائی جاتی ہیں۔ اگر چیکہ یہاں روزے بیس بیس گھنٹے تک پھیلے ہوتے ہیں۔ [6]

سماج میں شمولیت اور ناروے کا معاشرہ

[ترمیم]
  • ناروے کے مسلمان سیاست، کاروبار، کھیل اور فنون لطیفہ سمیت تمام شعبہ جات میں متحرک ہیں۔ ایک عام تصور یہ ہے کہ سیاست میں مسلمان بائیں محاذ کو ووٹ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔ [7]
  • انضمام (integration)، اسلاموفوبیا اور مذہبی آزادی جیسے موضوعات اکثر زیرِ بحث رہتے ہیں، جیسے کہ حجاب، حلال کھانے یا اسلامی اسکولوں کا کردار۔ اکثریت ایسے طلبہ کی ہے جنہیں اپنے اسکول کے ساتھیوں میں اپنے نسلی لوگوں کے علاوہ مسلمان افراد سے زیادہ رابطے کے مواقع میسر آئے۔ ان کے اہل اسلام کے بارے میں رویے ان طلبہ کی نسبت زیادہ مثبت تھے جنہیں ایسے رابطوں کے کم مواقع حاصل ہوئے۔ ایسے طلبہ جو ان اسکولوں میں پڑھتے ہیں جہاں مشرق وسطی اور شمالی افریقا سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی تعداد زیادہ ہے، ان میں مسلمانوں کے بارے میں منفی رویے ظاہر کرنا کم عام ہے۔ اس کے ایضًا مسلمانوں کے بارے میں مثبت رویے ظاہر کرنا اُن اسکولوں میں نمایاں طور پر زیادہ عام ہے جہاں ان جغرافیائی خطوں کے پس منظر رکھنے والے طلبہ کی نسبتاً زیادہ تعداد موجود ہو۔[8]
  • مگر بہت سے مسلمان برادریوں کو قریب لانے اور تعصبات کو ختم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔[9]

تعلیم اور نوجوان

[ترمیم]
  • ناروے میں کچھ اسلامی اسکول بھی ہیں[10]، لیکن زیادہ تر بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
  • اسلامی تنظیمیں اواخر ہفتہ کلاسیں منعقد کرتی ہیں[11] جہاں قرآن اور دینی تعلیم کے لیے پروگرام پیش کرتی ہیں۔
  • اب زیادہ تعداد میں ناروے میں پیدا ہونے والے مسلمان نوجوان اپنی دوہری شناخت کے ساتھ معاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔

عوامی مباحثے

[ترمیم]
  • حجاب[12]، مذہبی آزادی، انتہا پسندی اور سیکولرازم جیسے موضوعات میڈیا میں زیرِ بحث رہتے ہیں۔[13]
  • ناروے میں انتہا پسندی کے خلاف پروگرامز بھی موجود ہیں، جبکہ مرکزی مسلم کمیونٹیز کھل کر انتہا پسندی کی مذمت کرتی ہیں۔[14] یہاں ایک انتہا پسندی کے خلاف کمیشن بھی قائم ہے، جس کا کہنا ہے:

Preventing extremism is a shared responsibility that requires a whole of society approach. Both the efforts of responsible authorities and the daily acts of engaged ordinary citizens are critical to foster democratic resilience. Acknowledging the necessity of combined efforts for successful prevention and resilience building, the Commission issues .... key recommendations to improve P/CVE in Norway.

یعنی انتہا پسندی کی روک تھام ایک مشترکہ ذمہ داری ہے جو پورے معاشرے کے مربوط رویے کا تقاضا کرتی ہے۔ اس میں نہ صرف متعلقہ حکام کی کوششیں اہم ہیں بلکہ عام شہریوں کے روز مرہ کے مثبت اور متحرک اقدامات بھی جمہوری مزاحمت (democratic resilience) کو فروغ دینے کے لیے ناگزیر ہیں۔ مشترکہ کوششوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے — چاہے وہ انتہا پسندی کی روک تھام ہو یا مزاحمتی صلاحیت کو مضبوط بنانا— کمیشن ناروے میں P/CVE (یعنی Preventing/Countering Violent Extremism: پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام) کو بہتر بنانے کے لیے .... اہم سفارشات پیش کرتا ہے۔[15]


ٹیلی ویژن پر مسلمانوں کی نمائندگی

[ترمیم]

سفینہ جعفر (Safina Jafar) ایک اور معروف نارویجین نیوز اینکر اور ٹیلی ویژن شخصیت ہیں۔ وہ این آر کے (NRK) کی نیوز ٹیم کا حصہ ہیں اور نارویجین سوسائٹی میں مسلم کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والی ایک اہم شخصیت ہیں۔ سفینہ جعفر نے نارویجین نیوز میں کئی اہم پروگرامز اور خبروں کے شو کی میزبانی کی ہے اور انھوں نے ہمیشہ ثقافتی تنوع اور ہم آہنگی کو اجاگر کیا ہے۔ انھوں نے اپنے کیریئر میں نارویجین سوسائٹی کے مختلف مسائل، جیسے نسلی امتیاز، تعلیمی مواقع اور سماجی انصاف پر زور دیا ہے۔

سفینہ جعفر کا مقصد ہمیشہ لوگوں کے درمیان مثبت مکالمہ اور تفہیم پیدا کرنا رہا ہے، جس میں وہ ٹیلی ویژن کے ذریعے نارویجین اور مسلم کمیونٹی کے درمیان پل کا کردار ادا کرتی ہیں۔


عید کے موقع پر خصوصی پروگرام

[ترمیم]

2020 سے مشہور فلسطینی نارویجین اینکر ریما عراقی نے این آر کے ٹیلی ویژن پر عید الفطر کے خصوصی شو "فیسٹن ایتّر فاستن" (Festen etter fasten) کی میزبانی بھی شروع کر دی۔ یہ شو عید الفطر کے موقع پر نشر کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کے رمضان کے مہینے کے اختتام پر جشن منانے کی ایک روایتی تقریب کو اجاگر کرتا ہے۔ ریما عراقی اس شو کے شریک میزبان کے طور پر حاضر ہوئیں، جہاں انھوں نے نہ صرف عید کی خوشیوں اور اسلامی ثقافت کو اجاگر کیا بلکہ مختلف مشہور شخصیات، فنکاروں اور کمیونٹی رہنماؤں کو بھی مدعو کیا۔اس شو کا مقصد مسلمانوں کی عید کی خوشیوں کو ساری دنیا تک پہنچانا اور ان کے ساتھ منائی جانے والی روایات کو مثبت انداز میں پیش کرنا تھا۔ ریما عراقی کی مہارت اور حاضر دماغی نے اس پروگرام کو کامیاب بنایا اور اس نے سامعین کے دلوں میں ایک خاص جگہ بنائی۔ شو کے دوران انھوں نے عید کی اہمیت، رمضان کے روحانی اثرات اور مسلمانوں کے لیے خاص اہمیت رکھنے والے تہواروں کو بھی اجاگر کیا۔ [16][17][18]

ریما عراقی اس پروگرام میں شریک میزبان کے طور پر نہ صرف عید کی خوشیوں اور اسلامی ثقافت کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ ناروے میں رہنے والی مسلم کمیونٹی کی ہم آہنگی، تنوع اور قومی شناخت کو بھی ایک مثبت روشنی میں پیش کرتی ہیں۔

اس پروگرام میں متعدد نارویجین مشہور شخصیات جیسے کہ:

اور سوشل میڈیا پر مقبول نوجوان مسلمان شخصیات شامل کی گئیں، جنھوں نے اپنے تجربات، خاندانی روایات اور عید کی یادوں کو ناظرین کے ساتھ شیئر کیا۔

اس شو کا مقصد مسلمانوں کی عید کی خوشیوں کو ساری نارویجین سوسائٹی کے ساتھ بانٹنا اور رمضان اور عید سے جڑی روایات کو ایک بین الثقافتی مکالمے کی شکل دینا تھا، تاکہ مختلف مذاہب اور پس منظر رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کی اقدار کو سمجھ سکیں۔

ریما عراقی کی پیشہ ورانہ مہارت، ثقافتی حساسیت اور دلچسپ اندازِ میزبانی نے اس پروگرام کو نارویجین ناظرین میں بے حد مقبول کر دیا اور یہ پروگرام ہر سال ایک مثبت، جامع اور بین الثقافتی روایت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Statistics Norway – Religious communities and life stance communities"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-01-16
  2. "Statistics Norway – Population"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-01-16
  3. "Religious communities and life stance communities". SSB (بزبان انگریزی). Retrieved 2023-10-31.
  4. https://www.ssb.no/en/innvandring-og-innvandrere?de=Population&innholdstype=publikasjon-artikkel&start=30
  5. https://www.bbc.com/urdu/world-39431493
  6. https://www.bbc.com/news/av/world-28373119
  7. https://en.insamer.com/norway-and-islam_1057.html
  8. https://journal-njmr.org/articles/10.33134/njmr.404
  9. https://www.washingtonpost.com/archive/politics/2003/07/27/norway-struggles-to-integrate-muslims/a346bc68-4554-4ec9-88e0-69d362df058a/
  10. https://www.ntnu.edu/studies/courses/RVI2185
  11. https://www.iqskole.no/
  12. https://brill.com/view/journals/jre/5/2/article-p223_5.xml
  13. https://www.aup-online.com/docserver/fulltext/09602720/31/1/EJT2022.1.006.LILL.pdf?expires=1744793283&id=id&accname=guest&checksum=516F378A7BC0F1FBD6390739B673AB48
  14. https://www.regjeringen.no/en/dokumenter/joint-efforts-against-extremism-better-conditions-for-preventive-work/id3050497/?ch=1
  15. https://www.regjeringen.no/en/dokumenter/joint-efforts-against-extremism-better-conditions-for-preventive-work/id3050497/?ch=1
  16. Stoveland, Kjetil (30 Apr 2022). "– De tror jeg er superreligiøs, at min agenda er å spre det muslimske budskapet". Dagbladet (بزبان ناروی).
  17. Nilsen, Ruth Einervoll (30 Apr 2022). "- Religion treng ikkje vere så skummelt". Vårt Land (بزبان ناروی).

مآخذ

[ترمیم]

بیرونی روابط

[ترمیم]

سانچہ:ناروے میں مذہب