مندرجات کا رخ کریں

ناروے کی مہم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ناروے کی دماعی مہم کی ایک تصویر۔ تمام تر کوششوں کے بعد بھی ناروے پر جرمنی کا قبضہ نہیں روکا جا سکا۔

ناروے کی مہم (انگریزی: Norwegian campaign) (8 اپریل – 10 جون 1940) میں اتحادی افواج نے شمالی ناروے کے دفاع کی کوشش کی، جبکہ ناروے کی فوج نے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی۔

یہ کار روائی "آپریشن ولفریڈ" اور "پلان آر 4" کے تحت منصوبہ بندی کی گئی تھی، اُس وقت جب جرمن حملے کا خدشہ تو تھا مگر وہ ابھی وقوع پزیر نہیں ہوا تھا۔ 4 اپریل کو جنگی بحری جہاز ایچ ایم ایس براؤن (HMS Renown) بارہ تباہ کن جہازوں کے ساتھ اسکاپا فلو سے ویسٹ فجارڈن کی طرف روانہ ہوا۔ 10 اور 13 اپریل کو ناروِک کی پہلی اور دوسری بحری جنگوں میں برطانوی شاہی بحتیہ اور جرمن کریگسمیرین (Kriegsmarine) آمنے سامنے ہوئیں، جبکہ 13 اپریل کو برطانوی افواج نے آندالسنیس میں جہازو کو اتارا۔

جرمنی کی ناروے پر حملے کی بنیادی حکمت عملی کی وجہ ناروِک بندرگاہ پر قبضہ کرنا اور جرمن اسٹیل کی پیداوار کے لیے ضروری لوہے کی کھیپ کی ترسیل کو یقینی بنانا تھا۔

حملہ — آپریشن ویسر ایوبُنگ

[ترمیم]

اتحادی افواج سے کہیں منظم حملہ جرمنی نے کیا جس کی دوسرے لوگ تاب نہیں لا سکے۔جرمنی کی جانب سے ناروے اور ڈنمارک پر مشترکہ فوجی حملے کا آغاز 9 اپریل 1940 کو ہوا، جو عسکری تاریخ میں "آپریشن ویسر ایوبُنگ" (Operation Weserübung) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ حملہ نازی جرمنی کی ایک انتہائی اہم اور دور اندیش حکمت عملی کا حصہ تھا، جس کا مقصد شمالی یورپ میں اپنا تسلط قائم کرنا اور برطانیہ کو سمندری راستوں سے الگ - تھلگ کرنا تھا تاکہ اس کی رسد اور حمل و نقل میں خلل ڈالا جا سکے۔

اس آپریشن میں جرمنی نے بہ یک وقت ڈنمارک اور ناروے دونوں پر حملہ کیا، جس نے اتحادی افواج (مغربی طاقتوں) کو ایک دم حیران اور پریشان کر دیا۔

  • ڈنمارک کی جانب سے فوری ہتھیار ڈال دیا جاتا: سب سے پہلے ڈنمارک جرمن فوجی دباؤ اور اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے پیشِ نظر محض چند گھنٹوں میں بغیر کسی بڑی مزاحمت کے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گیا۔ اس سے جرمن افواج کے حوصلے مزید بلند ہو گئے اور انھی حوصلوں کے بل بوتے پر وہ اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔
  • ناروے کی دلیرانہ مزاحمت: ڈنمارک کی عدم مزاحمتی موقف اور چپ چاپ ہتھیار ڈال دیے جاتے کے بر عکس ناروے نے جرمنی کی توقعات پر پانی پھیرتے ہوئے انتہائی دلیرانہ مزاحمت کی اور تقریباً دو ماہ تک جرمن افواج کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ ناروے کی فوج نے کئی محاذوں پر بہادری سے جنگ لڑی اور انھیں برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادی ممالک کی مدد بھی حاصل ہوئی۔ برطانوی اور فرانسیسی افواج نے فوجی امداد، ہتھیار اور دیگر وسائل فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی، جس کی وجہ سے جرمنی کو شدید مزاحمت اور اگلے چند برسوں میں زبردست عوامی جدوجہد (resistance) کا سامنا کرنا پڑا۔
  • جرمن افواج کی کامیابی: اس سب کے باوجود جرمن فوج کی زبردست تنظیمی صلاحیت، فضائی طاقت (Air Power) اور پہلے سے کی گئی اعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی کے باعث ناروے کے بڑے شہروں اور بندرگاہوں پر بتدریج قبضہ ہوتا چلا گیا۔ اس کا منفی نتیجہ یہ نکلا کہ بالآخر تمام تر جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود ناروے کو مئ 1940ء کے اواخر تک جرمن تسلط قبول کرنا پڑا۔
  • نتیجہ اور اثرات: یہ حملہ نہ صرف نازی جرمنی کی ایک بڑی فوجی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا، بلکہ اس نے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ یورپ میں جنگ اب ایک شدید، منظم اور وسیع تر محاذ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی علامت بنا کہ مختلف اقوام اب براہِ راست ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو چکی تھیں اور عالمی سطح پر محاذ آرائی کے اثرات مزید گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ یہ انتہائی نبرد آزمائی ہی دوسری جنگ عظیم کا سبب اور اس کی محرکات میں ایک اہم اور ناقابل انکار عُنصر رہی تھی۔[1] [2][3]

مجموعی کیفیت

[ترمیم]

دوسری جنگ عظیم کے دوران ناروے کی مہم (Norwegian Campaign) ایک اہم اور فیصلہ کن مرحلہ تھی، جو اپریل 1940 سے جون 1940 تک جاری رہی۔ یہ مہم اس وقت شروع ہوئی جب نازی جرمنی نے 9 اپریل 1940 کو ناروے پر حملہ کیا، جس کا مقصد اسٹریٹیجک بندرگاہوں اور معدنی وسائل، خاص طور پر سویڈن سے آنے والی لوہے کی رسد پر کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ ناروے نے جرمن حملے کے خلاف سخت مزاحمت کی، مگر جرمنی کی اچانک یلغار اور منظم حملوں کے باعث ناروے کی فوج کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس مہم میں برطانیہ اور فرانس نے بھی ناروے کی حمایت میں افواج روانہ کیں، خصوصاً نارویجین بندرگاہ "ناروِک" (Narvik) میں شدید لڑائی ہوئی، جہاں اتحادی افواج نے جرمنوں کو کچھ وقت کے لیے پسپا بھی کیا، لیکن مغربی یورپ میں جرمن پیش قدمی (خصوصاً فرانس پر حملہ) کے باعث اتحادیوں کو ناروے سے اپنی افواج واپس بلانا پڑیں۔ نتیجتاً 7 جون 1940 کو ناروے کے بادشاہ ہاکون ہفتم اور ان کی حکومت جلاوطنی اختیار کر کے لندن چلے گئے، جبکہ جرمنی نے ناروے پر مکمل قبضہ کر لیا۔ اس دوران ناروے میں جرمنی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی جس کی قیادت وڈکن کوئسلنگ (Vidkun Quisling) کر رہا تھا، جس کا نام آج بھی غداری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ جرمنی نے ملک پر کنٹرول حاصل کر لیا، لیکن ناروے کی مزاحمتی تحریک نے جنگ کے اختتام تک نازیوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ ناروے کی مہم نہ صرف اس خطے میں جنگ کے پھیلاؤ کی علامت بنی، بلکہ اس نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اسٹریٹیجک لحاظ سے شمالی یورپ بھی دوسری جنگ عظیم کے مرکزی محاذوں میں شامل تھا۔ اس مہم نے ناروے کے قومی شعور، مزاحمتی ثقافت اور بعد از جنگ اس کی پالیسیوں پر گہرا اثر ڈالا۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]

بیرونی روابط

[ترمیم]