ناشزہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ناشزہ بد مزاج اورنافرمان عورت جو اپنے خاوند سے بغض رکھے اس کی مخالفت کرے۔
نشوز کے معنی لغت میں بلندی کے بولتے ہیں۔ نشز الشیء اذا ارتفع اسی طرح زمین کے ابھرے ہوئے حصے کو کہتے ہیں اور چونکہ عورت کی نافرمانی اور سرکشی میں اس کا سر اٹھانا پایا جاتا ہے اس لیے اس کو نشوز کہتے ہیں۔ پس جو عورت بلا کسی حجت شرعیہ کے مرد کی نافرمانی کرے ساتھ سونا چھوڑ دے یا سخت کلامی کرے یا ستر و پردہ اور غیر محارم کے روبرو ہونے میں کہا نہ مانے یا والدین کے گھر رہنا پسند کرکے خاوند کے ہاں نہ آوے اس عورت کو ناشزہ کہتے ہیں۔ اس کو نان و نفقہ دینا خاوند پر واجب نہیں رہتا۔[1][2] شوہر کی مرضی کے خلاف بیوی اگر میکے میں رہ رہی ہے اور اس کے بلانے پر بھی نہ آئے تو ایسی بیوی ناشزہ و نافرمان ہے، شوہر اس کے نان و نفقہ اور علاج و معالجہ کا ذمہ دار نہیں، بیوی خود اپنے نفقہ و علاج کی ذمہ دار ہے یا پھر اس کے والدین اس کے ذمہ دار ہیں، جو بغیر کسی وجہ شرعی کے لڑکی کو اپنے گھر روکے ہوئے ہیں: ولا نفقة لخارجة من بیتہ بغیر حق وھي الناشزة حتی تعود [3] اسی طرح اگر میاں بیوی میں طلاق یا خلع ہوجائے اور عورت شوہر کی اجازت کے بغیر بلا وجہ شرعی میکے میں عدت گزارے تو وہ عدت کے نان ونفقہ کی بھی حق دار نہیں ہوتی؛ لہٰذا خلع یا طلاق کے بعد اگر بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر، بلا وجہ شرعی میکے میں عدت گزارے گی تو اس کے لیے زمانہ عدت کا نان ونفقہ بھی شوہرپر واجب نہ ہوگا۔ عام طور سے ” ناشزہ “ کا لفظ عورت کے لیے استعمال ہوتا ہے، جب وہ شوہر کی ، جن باتوں میں اطاعت ضروری ہے، ان میں اطاعت نہ کرے مگر قرآن مجید نے یہ لفظ مرد کے لیے بھی استعمال فرمایا ہے یعنی شوہر بھی ان حقوق کو ادا نہ کرے جو شریعت نے اس پر عائد کیے ہیں یا ازدواجی تقاضوں کے ماتحت جو عورت کے ساتھ اسے ربط رکھنا چاہیے، اگر خاوند اپنی بیوی کے واجبی حقوق از قسم نان و نفقہ اور ازدواجی تعلقات وغیرہ ادا نہ کرے تو وہ بھی ” ناشز “ قرار پاتا ہے۔ ۔[4]

  1. تفسیر حقانی ابو محمد عبد الحق حقانی
  2. آسان فقہی اصطلاحات بدر الاسلام قاسمی
  3. (الدر مع الرد: ج5، ص286، ط․ زکریا دیوبند)
  4. تفسیر فیضان الرحمن شیخ محمد حسین النجفی