نافع بن کاؤس
نافع بن کاؤس | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم ![]() |
نافع بن کاؤسؒ تابعین میں سے ہیں۔
نام ونسب[ترمیم]
نافع نام،ابو عبداللہ کنیت والد کا نام کاؤس یا ہرمز تھا،جیسا کہ ان کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ عجمی النسل تھے،لیکن بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب تھے جوصحیح نہیں ہے،ان کے عجمی ہونے پر قریب قریب سب کا اتفاق ہے،وطن بعض خراسان بعض ویلم،بعض جبال طالقان اوربعض کابل بتاتے ہیں، اس کا صحیح پتہ نہیں چلتاکہ نافع کس طرح ابن عمر کے پاس پہنچے،قیاس یہ ہے کہ کسی جنگ میں گرفتار ہوکر ان کے حصہ میں پڑے ہوں گے،یا ابن عمر نے ان کو خریدا ہوگا۔ مسلمانوں کی غلام نوازی کے طفیل میں ان کے غلام کمالات کے جن مدارج پر پہنچے نافع بھی ا س کی روشن ترین مثال تھے، مسلمانوں کے موالی کی علمی تاریخ میں نافع نہایت ممتاز درجہ رکھتے ہیں،اس دور میں کوئی غلام ان کے رتبہ کا نہ تھا، ابن عباس کے غلام عکرمہ بھی بڑے صاحب علم تھے؛لیکن ان کو بھی اہل مدینہ میں یہ درجہ حاصل نہ تھا، نافع ان سے زیادہ بلند مرتبت سمجھے جاتے تھے [1]اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں غلاموں کی حقیقی تاریخ نافع ہی سے شروع ہوتی ہے۔
تعلیم[ترمیم]
خوش قسمتی سے نافع کو آغاز عمر ہی سے حضرت عبداللہ بن عمر جیسے صاحب کمال بزرگ کی تربیت میسر آگئی تھی،انہی کے دامن میں ان کی نشوونما ہوئی،نافع نے کامل تیس سال تک ابن عمرؓ کی خدمت کی۔ [2]
ان میں تحصیل علم کی فطری صلاحیت واستعداد تھی،شفیق آقا کی صحبت اور تربیت نے ان کے جوہر کو چمکا کر اقلیم علم کا تاج داربنادیا،ان کی علمی جلالت پر تمام علماء اور اربابِ سیر کا اتفاق ہے،امام نووی لکھتے ہیں کہ وہ جلیل القدر تابعی تھے، ان کی توثیق وجلالت پر سب کا اتفاق ہے [3]خلیلی کا بیان ہے کہ نافع مدینہ کے آئمہ تابعین میں اورامام فی العلم تھے خود ابن عمرؓ کو اپنے اس نامور غلام کی ذات پر فخر تھا؛چنانچہ فرمایا کرتے تھے کہ خدا نے نافع کے ذریعہ سے ہم پر احسان کیا ہے۔ [4]
حدیث[ترمیم]
عبداللہ بن عمرؓ حدیث کا بحر بے کراں تھے،نافع اسی بحر سے سیراب ہوتےتھے انہوں نے ان کی احادیث کا بڑا حصہ محفوظ کرلیا تھا [5]حافظ حدیث بنانے کے لیے تنہا ابن عمرؓ کی روایات کافی ہیں،نافع کی علمی تشنگی نے اس بحر بے کراں کے علاوہ دوسرے سرچشموں سے بھی اپنی پیاس بجھائی تھی،چنانچہ ابن عمرؓ کے علاوہ صحابہ میں ابوہریرہؓ، ابوسعید خدریؓ ابولبابہ بن منذر،رافع ابن خدیجؓ،ام المومنین عائشہ صدیقہؓ، ام سلمہؓ اورربیع بنت مسعودؓ سے اور تابعین میں اپنے آقازادوں عبداللہ،عبید اللہ،سالم اورزید اورقاسم بن محمد بن ابی بکر،منبہ بن وہب عدی،عبداللہ بن محمد بن ابی بکر،عبدالرحمن بن حسین اورسعید بن ابی ہند وغیرہ سے استفادہ کیا تھا۔ [6]
ان بزرگوں کے فیض نے ان کو جماعت تابعین میں نہایت ممتاز حافظ حدیث بنادیا تھا،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ ثقہ اورکثیر الحدیث تھے [7]حافظ ذہبی ان کو امام العلم لکھتے ہیں اوران کا شمار حفاظ کے طبقہ اول میں کرتے ہیں۔ [8] کیفیت کے اعتبار سے نافع کی روایات طلائے خالص کا حکم رکھتی ہیں،خلیلی کابیان ہے کہ نافع پر تمام اربابِ فن کا اتفاق ہے، وہ صحیح الروایہ ہیں بعض لوگ انہیں سالم پر بھی جن سے انہوں نے سماع حدیث کیا تھا،ترجیح دیتے تھے،بعض ان کے ہم پایہ سمجھتے تھے ان کی تمام روایات غلطیوں سے پاک ہیں۔ [9]
خصوصاً ابن عمرؓ سے ان کی روایات میں کسی شک وشبہ کا احتمال ہی نہیں تھا، امام مالک فرماتے تھے کہ جب میں ابن عمر کی حدیث نافع کی زبان سے سن لیتا ہوں تو پھر اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ دوسرے کے بیان سے اس کی تصدیق ہوتی ہے یا نہیں [10] محدثین کے نزدیک مالک عن نافع ابن عمر کا سلسلۂ روایت سلسلۃ الذہب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [11]
تلامذہ[ترمیم]
حدیث میں نافع کے تلامذہ کا دائرہ نہایت وسیع تھا جس میں بڑے بڑے تابعی اور تبع تابعی ائمہ تھے،بعض ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں،ابواسحٰق سبیعی حکیم بن عینیہ،محمد بن عجلان ،بکیر بن عبداللہ بن اشج، یحییٰ انصاری،امام زہری،صالح بن کیسان، ایوب سختیانی،عبیداللہ بن عمر، حمید الطویل،میمون بن مہران، موسیٰ بن عقبہ، ابن عون اعمش، ابن جریج اوزاعی،لیث،یونس ابن عبید، ابن ابی ذیب،ابن ابی لیلی،ضحاک بن عثمان اورامام مالک وغیرہ۔ [12]
امام مالک ان کے خاص تلامذہ میں تھے،انہوں نے زیادہ فیض ان ہی سے پایا تھا بچپن سے نافع کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے،ان کا خود بیان ہے کہ میں بچپن میں جب بہت کم سن تھا، نافع کی خدمت میں جاتا تھا،میرے ساتھ ایک غلام ہوتا تھا،نافع اتر کر مجھ سے حدیثیں بیان کرتے تھے [13]نافع کی زندگی بھر امام مالک کے استفادہ کا سلسلہ قائم رہا،جب تک نافع زندہ رہے،امام مالک برابر ان کے حلقہ درس میں جاتے تھے،ان سے پوچھتے تھے کہ ان مسائل میں ابن عمرؓ نے کیا فرمایا ہے۔ [14]
فقہ[ترمیم]
اپنے آقائے نامدار کے فیض سے فقہ میں بھی کامل تھے،حافظ ابن حجران کو نافع الفقیہ لکھتے ہیں [15]صحابہ کے بعد مدینہ کی صاحب علم وافتا جماعت کے رکن رکین تھے (ابن سعد،ج ۶،ترجمہ امام مالک) لیکن اپنے آقازادہ سالم بن عبداللہ کی زندگی بھر جو مدینہ کے فقہائے سبعہ میں تھے اورنافع کے استاد تھے،پاس ادب سے فتوی نہیں دیا۔ [16]
عمر بن عبد العزیزؓ اورنافع[ترمیم]
حضرت عمر بن عبدالعزیز ان کے علم کے اتنے قائل تھے کہ انہیں مصر کے مسلمانوں کو سنت کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا تھا۔ [17]
حضرت ابن عمرؓ کی محبت[ترمیم]
ان کے کمالات کی وجہ سے عبداللہ بن عمرؓ ان کو بہت محبوب رکھتے تھے،بعض شائقین نے نافع کی غلامی کے زمانہ میں ان کی بڑی قیمت پیش کی،لیکن ابن عمرؓ علیحدہ کرنے پر آمادہ نہ ہوئے، عبداللہ بن جعفر نے بارہ ہزار کی خطیر رقم پیش کی،ابن عامر نے تیس ہزار قیمت لگائی،لیکن ابن عمرؓ نے سب کو نا منظور کردیا اور اسی وقت یہ کہہ کر کہ مجھے خوف ہے کہ ابن عامر کے روپئے مجھے فریفتہ کرلیں گے نافع کو آزاد کردیا۔ [18]
وفات[ترمیم]
۱۱۷ میں وفات پائی۔ [19]
حوالہ جات[ترمیم]
- ↑ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۱۴)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۰)
- ↑ (تہذیب الاسماء:۱/۱۲۴)
- ↑ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۱۴)
- ↑ (تہذیب التہذیب ایضاً:۳۱۳)
- ↑ (تہذیب التہذیب ایضاً:۳۱۳)
- ↑ (ابن خلکان :۲/۱۵۱)
- ↑ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۱۲)
- ↑ (تہذیب التہذیب:۱۰/۴۱۴)
- ↑ (تہذیب التہذیب ایضاً)
- ↑ (تہذیب التہذیب ایضاً)
- ↑ (ابن خلکان :۲/۱۵۱)
- ↑ (تہذیب الذہب:۱۰/۴۱۳)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۸)
- ↑ (ابن سعد:۶ ترجمہ امام مالک)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۸)
- ↑ (شذرات الذہب:۱/۱۵۲)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۸۸)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ ایضاً)