نجم الغنی رام پوری
نجم الغنی رام پوری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 8 اکتوبر 1859ء رام پور ، ریاست رام پور ، برطانوی ہند |
وفات | 1 جولائی 1941ء (82 سال) رام پور ، ریاست رام پور ، برطانوی ہند |
شہریت | برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
پیشہ | مورخ ، طبیب ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، فارسی |
شعبۂ عمل | علم عروض ، تاریخ ہند ، منطق ، صرف و نحو ، قرابادین |
درستی - ترمیم |
مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں رام پوری، نجمی تخلص (پیدائش: 8 اکتوبر 1859ء - وفات: یکم جولائی 1941ء) بر صغیر پاک و ہند کے نامور مورخ، شاعر، طبِ یونانی کے حکیم اور علم عروض کے ماہر تھے۔ انھوں نے اخبار الصنادید، ، تاریخ راجگان ہند موسوم بہ وقائع راجستان، تاریخ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر لاتعداد کتب اور علم عروض پر بحر الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ نجم الغنی خاں کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے عہد کے سربر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔
حالات زندگی
[ترمیم]مولوی نجم الغنی خاں رامپوری 8 اکتوبر 1859ءمیں ریاست رام پور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے[1]۔ نجم الغنی کی پرورش ادبی اور علمی ماحول میں ہوئی۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔دادا مولوی عبد العلی خاں عدالت رام پور میں مفتی تھے۔ پر دادا مولوی عبد الرحمان خاں صوفی، منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے، انھوں نے یہ صفات و کردار اپنے والد حاجی محمد سعید خاں سے ورثے میں پائے تھے جنہیں شاہ ولی اللہ دہلوی کا قرب حاصل تھا۔ نجم الغنی خاں کی والدہ حکیم اعظم خاں کی بہن تھیں جو حکیموں کے ممتاز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نجم الغنی خاں کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے عہد کے سر بر آوردہ عالموں میں سے ایک تھے، انھوں نے ریاست اودے پور، راجپوتانہ (موجودہ راجستھان) میں سکونت اختیار کر لی۔ نجم الغنی خاں کی ولادت تو رام پور میں ہوئی لیکن لیکن بچپن والد کے ساتھ اودے پور میں گذرا اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں پائی۔ 1883ء میں 23 برس کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے واپس رامپور آئے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا۔یہاں مولوی حفیظ اللہ، مولوی ظہیر الحسن، مولانا عبد الحق خیر آبادی، مولونا محمد طیب مکی، سید حسن شاہ اور مولوی ارشاد حسین جیسے نابغہ روزگار عالموں سے تعلیم حاصل کی۔ 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اول آئے۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے انچارج، لائبریرین، رضا لائبریری، رام پور کے رکاب دار، نواب حامد علی خان کے دربار دار، اسکول میں مدرس (ہیڈ مولوی سے ہیڈ ماسٹر تک) سمیت بہت سی آسامیوں پر خدمات انجام دیں[2]۔ بلاوے پر ریاست حیدرآباد بھی گئے۔ تاریخ سے انھیں خاص دلچسپی تھی۔ چنانچہ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدرآباد دکن کی بھی تاریخیں لکھیں۔ان کی کتاب اخبار الصنادید روہیل کھنڈ کی تاریخ ہے۔ اس کا پہلا مسودہ ستمبر 1889ء میں یعنی مدرسہ عالیہ سے سند لینے کے تین برس بعد مکمل ہوا تھا۔ کتابی صورت میں اخبار الصنادید کا پہلا ایڈیشن لاہور کے مطبع خادم التعلیم نے 1906ء میں شائع کیا تھا۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتب اور مختصر رسالوں کی تعداد تقریباً 32 ہے۔ پانچ قلمی نسخے بھی یادگار چھوڑے[3]۔ 1893ء میں ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام شمس الغنی خاں رکھا گیا۔[1]
تصانیف
[ترمیم]- اخبار الصنادید (روہیلکھنڈ کی تاریخ)
- اصول فقہ
- مختصر الاصول (1896ء میں مطبع نیر اعظم سے شائع ہوا، 388 صفحات)
- مذاہب الاسلام
- تاریخ راجگان ہند موسوم بہ وقائع راجستان
- تاریخ اودھ (مطبع نیر اعظم مراد آباد سے 1909ء میں چار جلدوں میں شائع ہوئی)
- تاریخ ریاست حیدرآباد دکن (مطبع منشی نول کشور سے دو جلدوں میں 628 صفحات میں شائع ہوئی)
- بحر الفصاحت (یہ کتاب رام پور میں مطبع سرور قیصری سے 1885ء میں شائع ہوئی تھی، اس وقت 232صفحات پر مشتمل تھی۔ دوسری بار 1917ء میں مطبع منشی نول کشور سے شائع ہوئی تو صفحات کی تعداد 1119 تھی۔)
- خواص الادویہ
- خزانۃ الادویہ
- تعلیم الایمان شرح فقہ اکبر
- تہذیب الاعقائد (شرح عقائد نسفی)
- سلک الجواہر فی احوال البواہریہ (بوہری فرقہ کی تاریخ)
- تذکرۃ السلوک (تصوف)
- معیار الافکار (منطق، فارسی)
- میزان الافکار (منطق، فارسی)
- نہج الادب(صرف و نحو، قواعد فارسی)
- مزیل الغواشی
- مختصر الاصول
- شرح سراجی
- قرابا دین نجم الغنی
- منتہی القواعد عرف قواعد حامدی
- تسہیل اللغات (غیر مطبوعہ)
- رسالہ نجم الغنی ( نہج الادب کا انتخاب)
- مفتاح البلاغت ( بحر الفصاحت کا انتخاب)
- شرح چہل کاف
- مختصر تاریخِ دکن
- کارنامہ راجپوتان (592 صفحات کی یہ کتاب 1923ء میں بریلی سے شائع ہوئی)
- تہذیب العقائد
- مفتاح المطالب (قرآنی آیات سے فال نکالنے کے بارے میں شیخ محی الدین ابن عربی کے رسالے کا ترجمہ، 1884ء میں شائع ہوا)
وفات
[ترمیم]حکیم نجم الغنی رام پوری یکم جولائی 1941ء کو 82 سال کی عمر میں رام پور میں فوت ہوئے۔[2]
حوالہ جات
[ترمیم]- ^ ا ب تاریخ راجگان ہند موسوم بہ وقائع راجستان، مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں رام پوری، ہمدم برقی پریس لکھنؤ، جون 1927ء، سوانح عمری مؤلف
- ^ ا ب بحر الفصاحت، حکیم نجم الغنی خاں رام پوری، تدوین: ڈاکٹر کمال احمد صدیقی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، مارچ 2006ء، ص 2 (دیباچہ)
- ↑ بحر الفصاحت، حکیم نجم الغنی خاں رام پوری، تدوین: ڈاکٹر کمال احمد صدیقی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، مارچ 2006ء، ص 3 (دیباچہ)