مندرجات کا رخ کریں

نحو عربی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عربی نحو کے ابواب دو حصوں میں تقسیم ہیں: پہلا حصہ اعراب سے متعلق ہے، جو اصلی اور فرعی دونوں اقسام پر مشتمل ہے اور ہر ایک کے مقامات بیان کیے گئے ہیں۔ معرب اسماء مرفوعات، منصوبات اور مجرورات میں تقسیم کیے گئے ہیں اور ان کی اصلی اور فرعی علامات بھی بیان کی گئی ہیں۔ دوسرا حصہ بنا سے متعلق ہے، جو لازم بنا اسماء، افعال اور حروفِ معانی میں — اور عارضی بنا — بعض اسماء اور مضارع فعل کی دو حالتوں میں — پر مشتمل ہے اور ان کی علامات بھی بیان کی گئی ہیں۔

عربی نحو علومِ عربیہ میں سے ایک علم ہے۔ یہ ان قواعد کا علم ہے جو الفاظ کے آخر میں آنے والی حالتوں (اعراب اور بنا) سے متعلق ہیں، جیسے الفاظ کے اعرابی احکام، اعراب کی علامات اور وہ مقامات جہاں یہ احکام لاگو ہوتے ہیں ۔

لغوی طور پر "نحو" کے معنی ہیں: قصد یا سمت (رخ) کے ہیں ۔ اصل میں "نحو" کا مطلب ہے اعراب کا علم، یعنی کلام کے آخری حصے کا مطالعہ ۔

جب اسلامی ریاست کا دائرہ وسیع ہوا تو عربی زبان دوسری قوموں کی زبانوں سے ملنے لگی اور اس میں لحن (غلطی) داخل ہو گیا۔ چنانچہ نحو کا آغاز امام علی بن ابی طالب کے زمانے میں ہوا، جنھوں نے ابو الاسود الدؤلی کو علمِ نحو کے اصول وضع کرنے کی ہدایت دی تاکہ عربی زبان کے قواعد کو منظم کیا جا سکے اور لسانی غلطیوں خصوصاً قرآن سے متعلق لغوی بگاڑ کو روکا جا سکے۔

یوں ابو الاسود الدؤلی علمِ نحو کے مؤسس قرار پائے اور بعد کے علما نے اس میں تدریجی اضافہ کیا۔ مثلاً خلیل بن احمد الفراهیدی نے علمِ عروض ایجاد کیا، وزنِ صرفی (صرفی پیمانہ) کی بنیاد رکھی تاکہ الفاظ کی اصل پہچانی جا سکے اور شاذ و دخیل الفاظ کی نشان دہی ہو۔ ان کے بعد سیبویہ آئے جنھوں نے نحوِ عربی کے قواعد پر پہلا جامع کتابی مجموعہ مرتب کیا جسے انھوں نے "الكتاب" کا نام دیا۔ یہ کتاب آج تک عربی نحو کا بنیادی ماخذ ہے۔

نحو کے قواعد کلام پر لاگو ہوتے ہیں اور کلام وہ مفید لفظ ہے جس پر خاموشی درست ہو، یعنی کم از کم دو الفاظ پر مشتمل ہو:

دو اسموں سے: «العِلمُ نُورٌ» (علم روشنی ہے) یا فعل اور اسم سے: «جاءَ الرسولُ» (رسول آیا)۔

ہر وہ لفظ جو مفہوم یا فائدہ نہ دے، اس پر قواعدِ نحو لاگو نہیں ہوتے، جیسے:

مفرد لفظ: «ماء» (پانی)،

مرکب اضافی: «كرة القدمِ» (فٹ بال)،

مرکب مزجی: «بعلبكّ»،

مرکب اسنادی: «جادَ اللهُ» (اللہ نے بخشش کی)۔ اور انہی اقسام میں شرطیہ جملہ بھی شامل ہے جس کا جواب نہ ہو، جیسے: «إنْ فازَ الفريقُ» (اگر ٹیم جیتے)۔

نام کی وجہ (تسمیہ)

[ترمیم]

لغت القاموس المحیط میں لفظ "نحو" کے معنی یوں بیان کیے گئے ہیں:

“نحا ينحو نحواً: کسی چیز یا سمت کی طرف مائل ہونا یا اس کا قصد کرنا۔ جیسے: نحا الصديقان إلى المقهى (دوست قہوہ خانے کی طرف گئے)۔ نحا الطالب نحو أستاذه یعنی اُس کے نقشِ قدم پر چلا یا اُس کی پیروی کی۔ اور نحا عن نفسه الجبنَ یعنی بزدلی کو اپنے سے دور کیا۔”[1]

اسی سے علمِ نحو کو یہ نام ملا کیونکہ اس میں بولنے والا عربوں کے طرزِ گفتگو اور اندازِ بیان کی پیروی کرتا ہے چاہے لفظوں کی انفرادی صورت ہو یا ان کی ترکیب۔ ایک روایت کے مطابق، جب علی بن ابی طالب نے ابو الاسود الدؤلی کو علمِ نحو کے اصول مرتب کرنے کی ہدایت دی تو فرمایا:

“اسم وہ ہے جو کسی چیز کا نام بتائے، فعل وہ ہے جو حرکتِ مسمّیٰ کو ظاہر کرے اور حرف وہ ہے جو اپنے علاوہ کسی چیز کے معنی بتائے۔ فاعل مرفوع ہوتا ہے، مفعول منصوب اور مضاف مجرور۔ اے ابو الاسود! اُنحُ هذا النحو (یعنی اس طریقے پر چلو)۔”

اسی سے اس علم کا نام “نحو” پڑا، یعنی “وہ طریقہ” یا “وہ سمت”۔

اعراب اور زبانِ عربی کی خصوصیت

[ترمیم]

اعراب وہ نظام ہے جو جملے میں الفاظ کے آخر کی حرکات یا حروف کو درست طور پر متعین کرتا ہے، تاکہ مفہوم واضح ہو۔ اعراب کی بنیادی حالتیں ہیں:

رفع (علامت: ضمہ، واو، الف یا نون کا باقی رہنا)

نصب (علامت: فتحہ یا، کسرہ، الف یا نون کا حذف)

جر (علامت: کسرہ یا یا فتحہ)

جزم (علامت: سکون، نون یا حرفِ علت کا حذف)

اسی طرح تنوین بعض اسموں کے آخر میں آتی ہے، جو عام طور پر نکرہ ہونے کی علامت ہے۔ اعراب عربی زبان کی ایک امتیازی خصوصیت ہے، کیونکہ اس سے فاعل اور مفعول کی پہچان ممکن ہوتی ہے چاہے ترتیب بدل جائے، جیسے:

زارَ محمدٌ خالداً ( محمد نے خالد سے ملاقات کی۔) → فاعل: محمدٌ، مفعول: خالداً

زارَ خالداً محمدٌ → فاعل اب بھی محمدٌ ہے کیونکہ وہ مرفوع ہے۔

یہی لچک عربی ادب (شعر، نثر، قصص وغیرہ) کو دنیا کی دیگر زبانوں سے ممتاز بناتی ہے، جیسے صلصال نرم مٹی ہے جس سے خوبصورت شکلیں بن سکتی ہیں، برعکس سخت پتھر کے۔[2]

ادلۂ نحو (نحو کے دلائل)

[ترمیم]

جب اسلامی سلطنت پھیلی تو غیر عرب اقوام اسلام میں داخل ہوئیں اور لحن (زبان کی غلطی) عام ہوا۔ قرآن کے الفاظ کو بگاڑ سے بچانے کے لیے علمِ نحو کی بنیاد رکھی گئی۔ علمائے بصرہ اور کوفہ نے عربی الفاظ اور اشعار کو جمع کیا تاکہ عربی اپنی اصل صورت میں محفوظ رہے۔ انھوں نے زبان ان قبائل سے لی جن کی عربیت پر اعتماد تھا جیسے قریش، قیس، تمیم، اسد، ہذیل وغیرہ اور غیر عربوں یا سرحدی اقوام سے نہیں لی۔

یوں نحو کے دلائل چار ہیں:[3]

  • 1. السماع (نقل) — معتبر عربی سے سن کر نقل کرنا، جیسے آیت:

﴿اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ → "اللهُ" مرفوع مبتدا، "نورُ" مرفوع خبر۔

  • 2. القياس (قیاس) — غیر مسموع مثال کو مسموع پر قیاس کرنا، جیسے:

محمدٌ سيدُ قومِه ← قیاساً بر آیت ﴿مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ﴾۔

  • 3. الإجماع (اجماع) — علما کا کسی قاعدے پر اتفاق، مثلاً خبرِ "ليس" کے تقدیم و تاخیر پر۔
  • 4. استصحاب الحال (اصل کی بقا) — اصل قاعدے کو برقرار رکھنا؛ مثلاً:

اصل میں اسم معرب ہے، مگر خلافِ اصل ہونے پر دلیل چاہیے۔

اصل میں فعل مبنی ہے، خلافِ اصل کہنا بغیر دلیل ممکن نہیں۔ [4]

خلاصہ: علمِ نحو کا مقصد زبانِ عربی کے اصل قاعدے اور اسلوب کو محفوظ رکھنا اور معنی کو درست طور پر پہنچانا ہے — یہی عربی کی بلاغت اور قرآن کی حفاظت کا ضامن ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. القاموسُ المحيطُ، الفيروزأبادي مادةُ نحو
  2. أبي العرفان محمد بن علي/الصبان (2014-01-01)۔ حاشية الصبان على شرح الأشموني على ألفية ابن مالك 1-4 ج1 (بزبان عربی)۔ Dar Al Kotob Al Ilmiyah دار الكتب العلمية۔ ISBN:978-2-7451-0708-4۔ 5 يوليو 2022 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ کتاب}}: تحقق من التاريخ في: |آرکائیو تاریخ= (معاونت)
  3. نشأة النحو العربي في مدرستي البصرة والكوفة، دكتور طلال علامة، ص45، ط أولى سنة 1992، دار الفكر اللبناني، بيروت
  4. الاقتراح للسيوطي، ص59، تحقيق طه عبد الرؤوف سعد، ط. سنة 1420ه، الصفا، القاهرة