نذر صابری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نذر صابری کااصل نام"غلام محمد" ہے۔ آپ ١نومبر،م، 1923ء کو مولوی علی بخش کے گھر ملتان میں پیدا ہوئے۔جالندھر آپ کے آباءو اجداد کا وطن ہے۔ آپ نے گورنمنٹ ہائی اسکول جالندھر سے میٹرک ،اسلامیہ کالج جالندھر سے بی۔ اے آنرز اور پنجاب یونیورسٹی سے ڈپلوما ان لائبریرین شپ کا امتحان پاس کیا۔ آپ کے اساتذہ میں مولوی عبد اﷲ اور سید فیضی کے اسماء شامل ہیں۔ آپ نے قرات و تجوید کے چند رسائل اپنے والد گرامی سے پڑھے۔ تقسیم ہندوستان سے قبل آپ اسلامیہ کالج جالندھر میں کتاب دار رہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد پنجاب پبلک لائبریری میں اسسٹنٹ کیٹلاگر مقرر ہوئے بعد ازآں آپ گورنمنٹ کالج اٹک میں کتاب دار مقرر ہوئے یہاں آپ پروفیسر مرزا محمد رشید پرنسپل گورنمنٹ کالج اٹک کی دعوت پر آئے۔ آپ ریٹائر منٹ تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔ آپ نے دوران ملازمت ایم۔ اے فارسی کا امتحن بھی پاس کر لیا۔ نذر صابری نے 1938ء میں مشق سخن آغاز کی۔ شاعری کے ساتھ ساتھ تحقیق اور تنقید بھی آپ کی دلچسپیوں کے مرکز ہیں۔ آپ نے 1957 میں محفل شعرو ادب اور 1963ء میں مجلس نوادرات علمیہ کی بنیاد ڈالی یہ دونوں تنظیمیں تا حال مصرف عمل ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں ادبی افق کی درخشانی میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ آپ دونوں تنظیموں کے بانی اور سیکرٹری ہیں۔[1]

تصانیف[ترمیم]

  • واماندگی شوق (نعتیه مجموعه)
  • دیوان شاکر اٹکی (قصہ مشائخ)
  • غایتہ الامکان فی معرفتہ الزمان و المکان
  • انتخاب دیوان ظفر احسن۔
  • باده ناخورده(فارسی مجموعه کلام)

نمونہِ کلامِ فارسی[ترمیم]

چشم ما شد وقف بہر دیدن روی کسیما کسی دیگر نمی دانیم در کوی کسی
موسیٰ را بے کار کردہ نور بیضا و عصایبر فراز طور سینا حسن جادوی کسی
چشم من آلودہ و روی نگار من صفاشرم می آید مرا از دیدن سوی کسی
ہر کمال حسن و خوبی ختم شد بر روی اونیست در بازار امکاں ہم ترازوی کسی
سست شد بال فرشتہ، پست قوسین و دنیٰتنگ شد میدان عالم از تگا پوی کسی
حاجت لعلی ندارم نی سر در عدنپر شدہ دامان دل از موج لولوی کسی
حوریاں از شوق شعر نذر را بوسہ دہندزانکہ از انفاس او آید ہمی بوی کسی

نمونہِ کلامِ اردو[ترمیم]

حسن تمام و لطف سراپا تمہی تو ہوروح نشاط و جان تمنا تمہی تو ہو
دانندہ حقائق اشیاء تمہی تو ہوآئینہ مظاہر اسماء تمہی تو ہو
شائستہ سعادت عظمیٰ تمہی تو ہونازاں ہے جس پہ سیرت کبریٰ تمہی تو ہو
ساماں طراز رنگ تماشا تمہی تو ہوچشم و چراغ دیدہ بینا تمہی تو ہو
شایاں ہے تم کو مرجع حاجات کا لقبہر درد لا دوا کا مداوا تمہی تو ہو
لیتی ہے جس سے زندگی بھی درسِ زندگیوہ رشک صد ہزار مسیحا تمہی تو ہو
ہر نقش پا سے جس کے بنے اولیاء کے دلوہ سرِ ناز وادی بطحا تمہی تو ہو
عالم میں اور مرکز انوار کون ہے؟اے آفتاب ملت بیضا تمہی تو ہو
دنیا سے کیا غرض مجھے عقبی سے کیا غرعقبی تمہی تو ہو میری دنیا تمہی تو ہو
جس کے لیے زوال نہیں کہنگی نہیںوہ صبح دلکشا، وہ سویرا تمہی تو ہو
آنکھوں میں جس کی ڈوب گئی محفل الستوہ ساقی شراب طہورا تمہی تو ہو
کونین جس کے سایۂ نعلیں میں آ گئےوہ شہ سوار عرصہ اسریٰ تمہی تو ہو
یوں آ رہی ہے دل میں تری یاد مشکبارمحسوس ہو رہا ہے کہ گویا تمہی تو ہو

نمونہِ کلامِ پنجابی[ترمیم]

مدینے دی راہاں توں تن وار دیواںدیار نبیؐ توں میں من وار دیواں
ببولاں توں سرو و سمن وار دیواںسراباں توں گنگ و جمن وار دیواں
خوشی نال تھپیڑے سہاں صر صراں دےسموماں تو بوئے سمن وار دیواں
حرا، شعب تے ثور دی کھندراں توںبہشت بریں دی پھبن وار دیواں
جے سپنے چے مکھڑے دی اک جھات پاواںتے جگراتیاں دی لگن وار دواں
مسلماں جے ہو واں تے قدماں تو تیرےزباں وار دیواں وطن ور دیواں
جلاں عود وانگوں تری جالیاں تےوجود اپنا تیں تھی سجن وار دیواں

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سہ ماہی فروغ نعت، تیسرا شماره، مطبوعات اٹک، پاکستان
  1. مقاله:وا ماندگی شوقآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ lib.bazmeurdu.net (Error: unknown archive URL)

زمرہ:فارسی شعراء