نذرمحمد
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
پیدائش | 5 مارچ 1921 لاہور، پنجاب، برطانوی ہندوستان | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
وفات | 12 جولائی 1996 لاہور، پنجاب، پاکستان | (عمر 75 سال)|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا آف اسپن گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تعلقات | فیروز نظامی (بھائی) مدثر نذر (بیٹا) محمد الیاس (بھتیجا) | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 10) | 16 اکتوبر 1952 بمقابلہ بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 12 دسمبر 1952 بمقابلہ بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: کریک انفو ڈاٹ کام |
نذر محمدانگریزی:Nazar Mohammad(پیدائش:5 مارچ 1929ء لاہور، پنجاب)|(وفات:12 جولاٰئی 1996ء لاہور، پنجاب) ایک پاکستانی کرکٹ کھلاڑی تھے۔[1] 1947 میں برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہی نذر محمد کی بیٹنگ کا شہرہ ہو گیا تھا۔
ابتدائی دور
[ترمیم]اسلامیہ ہائی اسکول بھاٹی گیٹ میں تعلیم کے دوران میں وہ لاہور کے مشہور ممدوٹ کرکٹ کلب سے وابستہ ہو گئے۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخلے کے بعد ان کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔ یہ تعلیمی ادارہ کرکٹ کا گڑھ تھا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبد الحفیظ کاردار اور وکٹ کیپر امتیاز احمد بھی اسلامیہ کالج کے طالب علم تھے۔سنہ 1945ء میں اسلامیہ کالج میں نذر محمد کو قائد اعظم محمد علی جناح سے ملنے کا شرف حاصل ہوا، وہ واحد پاکستانی ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی ہیں جن کی بانیِ پاکستان کے ساتھ تصویر موجود ہے۔ تقسیم سے قبل گورنمنٹ کالج اور اسلامیہ کالج کے درمیان میں انٹرکالجیٹ مقابلوں کا کانٹے دار فائنل لاہور کی سماجی زندگی کا اہم واقعہ تھا۔ عوام اسے بڑے جوش وخروش سے دیکھنے آتے۔کالج اور یونیورسٹی کرکٹ سے باہر بھی نذر محمد کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بھرپور موقع ملا اور انھوں نے برصغیر کے اہم کرکٹ مراکز، بمبئی، دہلی، کراچی اور پٹیالہ میں اپنی بیٹنگ کے جوہر دکھائے۔
باولرز کو خاطر میں نہ لاتے
[ترمیم]ناردن انڈیا کرکٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے رانجی ٹرافی کھیلے۔ مشہور کرکٹ ٹورنامنٹ پینٹنگولر میں مسلمان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کی۔ نذر محمد کا شمار ان سٹائلش بیٹسمینوں میں ہوتا جو بولر کو خاطر میں نہ لاتے اور اپنے نیچرل انداز میں کھیلتے۔ مایہ ناز فاسٹ بولر فضل محمود نے اپنی آپ بیتی فرام ڈسک ٹو ڈان میں دو واقعا ت کا ذکر کیا ہے جن سے نذر محمد کی دلاوری کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ سنہ 1946ء میں آسٹریلین سروسز الیون کے خلاف میچ میں نذر محمد نے نارتھ زون کی طرف سے کھیلتے ہوئے لاہور جم خانہ کرکٹ گرانڈ میں معروف آسٹریلیوی فاسٹ بولر کیتھ ملر کے بانسر پر شاندار ہک شاٹ کھیلا تو گیند پویلین کے کلاک سے لگا اور اس کا شیشہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ ملر اس شاٹ پر بیٹسمین کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔فضل محمود نے تقسیم سے پہلے ایک انٹر یونیورسٹی ٹاکرے کا حوالہ بھی دیا ہے۔ ڈرنگ اسٹیڈیم بہاولپور میں فاسٹ بولر دتو پھڈکر کا بانسر ان کے ماتھے پر لگا اور انھیں میدان سے باہر جانا پڑا، طبی امداد ملنے کے بعد وہ دوبارہ کھیلنے کے لیے بیتاب ہو گئے۔غصے میں خود کو برا بھلا کہتے رہے کہ معمولی سے بولر کے ہاتھوں وہ زخمی ہو گئے۔ وکٹ گری تو میدان میں دوبارہ اترے اور پھڈکر کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا، مراد یہ کہ اس کے بانسروں کو بانڈری لائن کی راہ دکھائی۔
نذر محمد بڑی ہمت بندھاتے
[ترمیم]1952 ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ سٹیٹس ملا تو امید تھی کہ اسے نذر محمد کے تجربے اور صلاحیت سے فائدہ پہنچے گا۔ حنیف محمد کی دریافت سے انھیں ایک اچھا اوپننگ پارٹنر بھی مل گیا۔ 1950ء کی دہائی کا پاکستانی کرکٹ سکواڈحنیف محمد نے سنہ 2015ء میں ایکسپریس اخبار کو انٹرویو میں بتایا:نذر محمد میری بڑی ہمت بندھاتے۔ میںاسکول بوائے تھا، اس لیے بڑا بن کر حوصلہ بڑھاتے۔ پنجابی میں کہتے گھبرانا نئیں، مینوں ویکھیں، میں کس طراں کھیڈنا واں۔سنہ 1952ء میں پاکستان ٹیم دورہ ہندوستان پر روانہ ہوئی۔ دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم میں پاکستان ٹیم نے اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا۔ اپنے ملک کی طرف سے نذر محمد نے پہلی گیند کھیلی۔ پہلا رن بنایا۔ میچ پاکستان ہار گیا لیکن ہمت نہ ہاری۔دوسرا ٹیسٹ لکھنئو میں تھا۔ پاکستان نے یہ میچ ایک اننگز سے جیت کر ٹیسٹ میں اپنی پہلی کامیابی حاصل کرلی۔ نذر محمد نے پاکستان کی طرف سے پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس پر بس نہ ہوئے اور بیٹ کیری کیا۔ ایک اور منفرد ریکارڈ یہ بنایا کہ میچ میں تمام وقت گرانڈ میں موجود رہنے والے دنیا کے پہلے کھلاڑی بنے۔ نذر محمد کے بیٹ کیری کرنے کے 30 برس بعد ان کے فرزند مدثر نذر نے ہندوستان کے خلاف سنچری بنائی اور باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بیٹ کیری بھی کیا۔ ٹیسٹ کرکٹ میں کسی اور باپ بیٹے نے یہ اعزاز حاصل نہیں کیا۔
عمدہ فیلڈر
[ترمیم]نذر محمد کی ایک خوبی جو پاکستانی کھلاڑی ہونے کے ناتے اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے، وہ ان کا عمدہ فیلڈر ہونا تھا۔ وہ گلی پوزیشن کے بہت اچھے فیلڈر تھے۔ ہندوستان کے خلاف سیریز کا آخری ٹیسٹ کلکتہ میں ہوا جس کی پہلی اننگز میں نذر محمد نے 55 اور دوسری اننگز میں 47 رنز بنائے۔ اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ یہ ان کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوگا۔ اس وقت یہی نظر آرہا تھا کہ ٹیم کو ایک لمبا عرصہ ان کا ساتھ میسر رہے گا لیکن ایک حادثے نے ان کا سفر کھوٹا کر دیا۔ وہ صرف پانچ ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرسکے۔
برا ہو عشق کا
[ترمیم]نور جہاں کے ساتھ، نذر محمد کے مراسم شاہ نور سٹوڈیو میں پنجابی فلم چن وے کی فلم بندی کے دوران میں استوار ہوئے نذر محمد کے ساتھ جو حادثہ ہوا اس کا تعلق کرکٹ سے نہیں عشق کے میدان سے تھا۔ وہ کوئی یوں ہی سی تو نہ تھی جس نے نذر محمد کو مٹا ڈالا تھا بلکہ ملکہ ترنم نور جہاں تھیں۔اس معرکہ عشق میں دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔کرکٹ میں نذر محمد کے کمالات اپنی جگہ لیکن ان کی آواز بھی سریلی تھی۔ دورہ ہندوستان میں انھوں نے ایک محفل میں آواز کا جادو جگایا تو معروف گلوکار طلعت محمود نے بھی ان کی آواز کو سراہا۔ نورجہاں کے ان کی طرف التفات کی ایک وجہ ان کی آواز بھی تھی۔ممتاز موسیقار فیروز نظامی ان کے بھائی تھے، اس لیے فلم نگری کی فضا ان کے واسطے اجنبی نہ تھی۔ نور جہاں کے ساتھ، نذر محمد کے مراسم شاہ نور اسٹوڈیو میں پنجابی فلم چن وے کی فلم بندی کے دوران میں استوار ہوئے، جہاں ان کا آنا جانا رہتا۔ یہ فلم نور جہاں کے شوہر شوکت حسین رضوی بنا رہے تھے۔یہ 1953ء کا سال تھا۔ اس فلم کے مکمل ہونے کے بعد بھی دونوں پیار کی پینگیں بڑھاتے رہے۔کچھ عرصے بعد لاہور میں ہنگامے شروع ہو گئے۔ حالات اتنے بے قابو ہوئے کہ مارشل لا لگانا پڑا۔ شہر میں کرفیو بھی لگ گیا۔شیخ سعدی نے تو کہا ہے کہ دمشق میں ایک دفعہ ایسا قحط پڑا کہ لوگوں نے عشق کرنا چھوڑ دیا، لیکن لاہور میں کرفیو میں بھی کاروبارِعشق چلتا رہا، اسی لیے راجندر سنگھ بیدی نے کہا تھا: عشق کے لیے لاہور سے بہتر دنیا میں کوئی اور جگہ نہیں۔نور جہاں نے وہ پاس حاصل کر لیا، جو اگر کسی کے پاس ہوتا تو اسے دورانِ کرفیو نقل وحرکت کی اجازت ہوتی۔ لیکن برا ہو عشق کا جو چھپائے نہیں چھپتا۔
کرکٹ کا اختتام
[ترمیم]پاکستان کی کرکٹ ٹیم ہندوستان کا پہلا دورہ کر کے واپس آئی تو اس میں اوپننگ بیٹسمین نذر محمد کی بہت واہ واہ ہو رہی تھی۔ نذر محمد نے ٹیسٹ میچ میں اوپننگ کرنے کے بعد آخری کھلاڑی تک کے ساتھ کھیلنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا اور پھر بھی آٹ نہیں ہوئے تھے۔ ہر طرف ان کے کھیل کی دھوم تھی۔ وہ فضل محمود کی طرح قومی ہیرو بن گئے تھے۔ خوش شکل اور مردانہ شخصیت کے مالک تھے۔ باتیں بہت دلچسپ کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ موسیقی کے دلدادہ تھے اور خود بھی بہت سریلے تھے۔ سننے میں آیا کہ میڈم نور جہاں کی ان سے ملاقات ہوئی تو یہ سلسلہ باقاعدہ ملاقاتوں تک پہنچ گیا یہاں تک کہ دوسری جگہوں پر بھی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ایک روز میڈم نور جہاں ان سے ملاقات کے لیے گئی ہوئی تھیں کہ کسی کھوجی نے شوکت صاحب کو خبر دے دی۔ شوکت صاحب آگ بگولا ہو کر مخبر کے ہمراہ گئے۔ اس گھر پر پہنچے تو میڈم نور جہاں وہاں موجود تھیں مگر نذر محمد کا نام و نشان تک نہ تھا۔بعد میں معلوم ہوا کہ شوکت صاحب کے گرجنے کی آواز سنی تو نذر محمد نے مکان کی دوسری منزل سے چھلانگ لگا دی اور اپنا ایک بازو تڑوا بیٹھے۔ اس طرح پاکستان کی کرکٹ ٹیم ایک مایہ ناز کھلاڑی سے محروم ہو گئی۔نذر محمد ڈاکٹروں کے پاس جانے کی بجائے جراحوں اور پہلوانوں کے چکر میں رہے جس کی وجہ سے بازو کی ہڈی ہمیشہ کے لیے خراب ہو گئی اور وہ پھر کرکٹ نہ کھیل سکے(نذر محمد نے انگلینڈ میں سپیشلشٹ ڈاکٹر سے بھی علاج کرایا لیکن بازو اس قابل نہ ہو سکا کہ وہ کرکٹ جاری رکھ سکیں) البتہ انھوں نے اپنے فرزند مدثر نذر کی صورت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ایک نامور کھلاڑی کا تحفہ ضرور پیش کر دیا۔ ممتاز صحافی خالد حسن کے بقول نذر محمد پھر کبھی کرکٹ کا بلا نہ تھام سکا اور شاید پاکستان کی کرکٹ کے لیے یہ سب سے بڑا المیہ تھا۔
اعداد و شمار
[ترمیم]نذر محمد نے 5 ٹیسٹ میچوں کی 8 اننگز میں ایک مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 277 رنز بنائے۔ ناقابل شکست رہ کر 124 رنز ان کی کسی ایک اننگ میں سب سے بڑا سکور تھا۔ ایک سنچری اور ایک نصف سنچری کی مدد سے ان کی بیٹنگ اوسط 39.57 رہی۔ نذر محمد نے 45 فرسٹ کلاس میچ بھی کھیلے جن کی 70 اننگز میں 4 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 41.50 کی قابل قدر اوسط حاصل کی۔ ان میچوں میں بنائے گئے 2739 رنز ان کی ایک بڑی اننگ 175 کی مدد سے وجود میں آئے۔ 8 سنچریاں اور 9 نصف سنچریاں بنا کر انھوں نے اپنی عمدہ کارکردگی سے سب کو متاثر کیا۔ نذر محمد کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے 1952ء میں لکھنئو کے مقام پر بھارت کے خلاف بیٹ کیری کا اعزاز حاصل کیا۔ پہلی مرتبہ کسی پاکستان بلے باز نے اوپنر کی حیثیت سے اننگ شروع کی اور آخری وقت تک کریز پر موجود رہے۔ اس دوران انھوں نے 331 منٹ کریز پر قیام کرکے ناقابل شکست 124 رنز بنائے۔ یہ کارنامہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ کئی عشروں کے بعد 1983ء میں ان کے صاحبزادے مدثر نذر نے بھارت ہی کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں 152 ناقابل شکست رنز بنا کر بیٹ کیری کیا تھا اور یوں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں وہ واحد باپ بیٹا بن گئے جنھوں نے ایک ہی ملک کے خلاف بیٹ کیری کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ نذر محمد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے ایک میچ میں اوپنر کے طور پر بیٹنگ اننگ کا اعزاز حاصل کیا جبکہ اسی میچ میں انھوں نے اوپننگ بولر کے طور پر بھی بولنگ کی[2]
وفات
[ترمیم]ان کی وفات 12 جولائی 1996ء کو لاہور میں ہوئی اس وقت ان کی عمر 75 سال اور 130 دن تھی ان کے بیٹے مدثر نذر اور مبشر نذر بھی کرکٹ سے وابستہ رہے تاہم صرف مدثر نذر ہی ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ کھیل سکے اور دوسرے بیٹے مبشر نذر صرف تین فرسٹ کلاس میچوں تک محدود رہے۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]- کرکٹ
- ٹیسٹ کرکٹ
- پاکستان قومی کرکٹ ٹیم
- پاکستان کے ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی
- بین الاقوامی کرکٹ میں بیٹ کیری کرنے والے کرکٹرز کی فہرست
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Nazar Mohammad"
- ↑ https://www.espncricinfo.com/player/nazar-mohammad-42068
پیش نظر صفحہ سوانح پاکستانی کرکٹ سے متعلق سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |
- 1921ء کی پیدائشیں
- 1996ء کی وفیات
- پاکستان کے کرکٹ کھلاڑی
- پاکستان کے ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی
- پاکستانی کرکٹ امپائر
- پنجاب (پاکستان) کے کرکٹ کھلاڑی
- جامعہ پنجاب (پاکستان) کے کرکٹ کھلاڑی
- لاہور سے کرکٹ کھلاڑی
- لاہور کے کھلاڑی
- مسلمان کرکٹ کھلاڑی
- اسلامیہ کالج لاہور کے فضلا
- نارتھ زون کے کرکٹ کھلاڑی
- شمالی ہندوستان کے کرکٹ کھلاڑی
- پنجابی شخصیات