نسیم الغنی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نسیم الغنی ٹیسٹ کیپ نمبر 26
ذاتی معلومات
پیدائش14 مئی 1941(1941-05-14)
دہلی، برطانوی ہندوستان
بلے بازیبائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیبائیں ہاتھ کا سلو گیند باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 26)17 جنوری 1958  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
آخری ٹیسٹ6 جنوری 1973  بمقابلہ  آسٹریلیا
واحد ایک روزہ (کیپ 6)11 فروری 1973  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ فرسٹ کلاس
میچ 29 1 117
رنز بنائے 747 1 4490
بیٹنگ اوسط 16.60 1.00 28.41
سنچریاں/ففٹیاں 1/2 -/- 7/23
ٹاپ اسکور 101 1 139
گیندیں کرائیں 4406 21041
وکٹیں 52 343
بولنگ اوسط 37.67 25.16
اننگز میں 5 وکٹ 2 23
میچ میں 10 وکٹ n/a 3
بہترین بولنگ 6/67 6/24
کیچ/سٹمپ 11/- -/- 104/-
ماخذ: کرک انفو، 13 جون 2016

نسیم الغنی انگریزی:Nasim-ul-Ghani(پیدائش: 14 مئی 1941ء دہلی، انڈیا) پاکستان کے سابق کرکٹ کھلاڑی ہیں[1]انھوں نے 29 ٹیسٹ اور 1 ایک روزہ میچ کھیلے۔وہ ایک متاثر کن کرکٹ کھلاڑی تھے اگرچہ ان کو غیر منصفانہ سلوک کے باوجود بہت زیادہ مواقع ملے لیکن وہ زیادہ تسلسل کے ساتھ متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکے بائیں ہاتھ کے عمدہ بلے باز اور سلو لیفٹ آرم آرتھوڈوکس باولر تھے وہ 14 مئی 1941ء کو دہلی تب انڈیا میں پیدا ہوئے ان کے چار حقیقی بھائیوں نے بھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ان میں انیس الغنی ،عتیق الغنی ،رئیس الغنی ،اور تہذیب الغنی شامل ہیں تاہم ان میں صرف نسیم الغنی کو ٹیسٹ کیپ پہننے کا اعزاز ملا نسیم الغنی نے پاکستان کے علاوہ ڈھاکہ،مشرقی پاکستان ،کراچی،مائنر کاونٹی ،نیشنل بنک آف پاکستان ، پاکستان یونیورسٹیز ،پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ اور سٹنفورڑ شائر کاونٹی شامل ہیں۔

منفرداعزاز[ترمیم]

نسیم الغنی نے ویسٹ انڈیز کے خلاف برج ٹاون کے مقام پر 116 رنز دے کر 5 وکٹ لیے اس وقت ان کی عمر 16 سال 303 دن تھی یوں وہ اتنی کم عمر میں 5 وکٹ لینے والے کم عمر ترین کرکٹ کھلاڑی کا اعزاز رکھتے ہیں اسی طرح ان کا ایک ریکارڈ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ویسٹ انڈیز ہی کے خلاف ڈھاکہ میں باولنگ کرتے ہوئے 7 اوورز میں 5 میڈن کے ساتھ صرف 4 رنز دے کر تین وکٹوں کا شکار کیا لیکن ان سب سے بڑھ کر جو ایک منفرد ریکارڈ ان کے پاس ہے کہ جب 17 جنوری 1958ء کو انھیں ویسٹ انڈیز کے دورے میں ٹیم کا حصہ بنایا گیا تو اس وقت ان کی عمر 16 سال 248دن تھی جو اس وقت ایک عالمی ریکارڑ تھا تاہم بعد میں ریکارڑ ٹوٹ گیا تاہم اس وقت بھی یہ ریکارڑ ایک دوسرے پاکستانی ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی حسن رضا کے پاس ہے جس نے محض 14 سال 227 دن کی عمر میں زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کے خلاف فیصل آباد کے مقام پر 24 اکتوبر 1996ء کو یہ منفرد اعزاز اپنے نام کیا تھا۔

ٹیسٹ کیرئیر[ترمیم]

نسیم الغنی کو 1958 ء کے دورہ ویسٹ انڈیز میں ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا اس وقت ان کی عمر 16 سال 203 دن تھی اتنی کم عمری میں ٹیسٹ کریئر کا آغاز کرنا ان کے لیے ایک اچھا موقع نہ بن سکا کیونکہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے 579 رنز نو وکٹوں پر بنا کر اننگ ڈیکلئر کر دی جس میں کونارڑ ہنٹ 142 اور ایورٹن ویکس 197 کی نمایاں کارکردگی شامل تھی اگرچہ یہ ٹیسٹ حنیف محمد کے 337 رنز کے حوالے سے چند یادگار ٹیسٹ میں شمار کیا جاتا ہے لیکن نسیم الغنی باولنگ میں 79 رنز دے کر بھی کوئی وکٹ حاصل نہ کر سکے دوسرے ٹیسٹ میں پورٹ آف سپین میں نسیم الغنی نے گیری سوبرز کو 52 پر آئوٹ کیا۔ گیری الیگزینڈر 20 اور لانس گبز کو 26 رنز پر آوٹ کرکے اننگ میں 42 رنز دے کر 3 وکٹوں کا مجموعہ بنایا پھر دوسری اننگ میں بھی 64 رنز دے کر 3 وکٹیں لیں۔ اس طرح نسیم الغنی نے میچ میں 106 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کرکے اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا تاہم پاکستان یہ ٹیسٹ 120 رنز سے ہار گیا۔ سیریز کا تیسرا ٹیسٹ کنگسٹن میں تھا جس میں وہ زخمی ہو گئے تاہم چوتھے ٹیسٹ میں بیٹنگ میں 13 رنز بنانے کے بعد انھوں نے 116 رنز دے کر ویسٹ انڈیز کے 5 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ دوسری باری میں اگرچہ 22 رنز بنائے تاہم کوئی وکٹ نہ لے سکے۔ ویسٹ انڈیز یہ ٹیسٹ بھی 8 وکٹوں سے جیت گیا۔ سیریز کے پانچویں ٹیسٹ میں پاکستان نے ایک اننگ اور ایک رنز سے فتح حاصل کرکے سیریز کا اختتام 3-1 سے کیا۔ نسیم الغنی پہلی اننگ میں 78 رنز کے عوض 2 وکٹ حاصل کرگئے تاہم بیٹنگ میں 15 تک محدود رہے لیکن وہ دوسری اننگ تھی جس میں انھوں نے 67 رنز دے کر کونارڈ ہنٹ 45' گیری سوبرز 27' کلائیڈ والکوٹ 62' کولن سمتھ 0' گیری الیگزینڈر 1 اور جیوک ٹیلر 0 کو پویلین کا راستہ دکھایا۔ اس کے بعد ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کا پہلا ٹیسٹ کراچی میں تھا جہاں نسیم الغنی نے 34 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا تاہم دوسری اننگز میں صرف ایک کھلاڑی بیزل بائوچر ان کی وکٹ بنے۔ ڈھاکہ کے دوسرے ٹیسٹ میں نسیم الغنی نے صرف 7 اوورز میں 5 میڈن پھینکے اور صرف 4 رنز دے کر 3 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ انھوں نے گیری الیگزینڈر 14 کو آئوٹ کرکے پہلی وکٹ لی۔ یہی نہیں بلکہ بعد میں انھوں نے جوئے سلیمان 0 اور لانس گبس 0 کو بھی پویلین بھجوا کر ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم کو 76 رنز تک محدود کر دیا تاہم دوسری اننگز میں نسیم الغنی 8 اوورز میں 34 رنز دے کر بھی کوئی وکٹ نہ لے سکے تاہم پاکستان 41 رنز سے اس ٹیسٹ میں فتح یاب ہوا۔ سیریز کے تیسرے ٹیسٹ منعقدہ لاہور میں نسیم الغنی نے 106 رنز دے کر 3 کھلاڑی آئوٹ کیا۔ پاکستان یہ ٹیسٹ بھی ایک اننگ اور 156 رنز کے بھاری مارجن سے جیت گیا۔ 1959-60ء آسٹریلیا نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ڈھاکہ کے پہلے ٹیسٹ میں آسٹریلیا کی پرفارمنس متاثر کن تھی تاہم نسیم الغنی نے پہلی اننگ میں 51 رنز کے عوض 3 وکٹ لیے تھے۔ لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں بھی پاکستانی ٹیم مشکلات کا شکار تھی۔ نسیم کی اپنی کارکردگی صرف یہ تھی کہ 72 رنز کے عوض صرف ایک وکٹ لے پائے۔ آخری ٹیسٹ میں انھیں شامل نہیں کیا گیا۔ یوں یہ سیریز 2-0 سے آسٹریلیا کی دسترس میں تھی۔ اس کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم نے 1960ء میں بھارت کا دورہ کیا۔ یہ سیریز اگرچہ ڈرا کی رہی کیونکہ دونوں ٹیمیں کوئی بھی رسک لینے کے لیے تیار نہیں تھیں تاہم اس میں بھی نسیم الغنی کی کارکردگی مایوس کن تھی۔ کان پور کے دوسرے ٹیسٹ میں 70 رنز کی عمدہ باری کے علاوہ وہ جدوجہد میں مصروف دکھائی دیے کیونکہ سیریز کے چاروں ٹیسٹوں میں انھیں صرف 3 وکٹ ہی مل پائے۔ 1961-62ء میں انگلستان کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تو ڈھاکہ کے دوسرے ٹیسٹ میں نسیم الغنی 15 رنز بنانے کے بعد 119 رنز دے کر 2 وکٹوں کے مالک بنے۔ دوسری اننگز میں 12 رنز ہی ان کے منتظر تھے جبکہ کراچی کے تیسرے ٹیسٹ میں پہلی اننگ میں 125 رنز دے کر 3 وکٹیں لیکن دوسری اننگ میں صرف 41 رنز کی بنا سکے۔ 1962ء کے دورہ انگلستان میں جہاں انگلینڈ نے پاکستان کو ایک اننگ اور 24 رنز سے ہرایا' نسیم الغنی 109 رنز دے کر کوئی وکٹ نہ لے سکے۔ دوسرے ٹیسٹ میں لارڈز کے میدان پر انھوں نے پہلی اننگ میں 17 رنز بنائے لیکن دوسری اننگ میں انھوں نے 101 رنز کی باری کھیلی۔ یہ ان کی ٹیسٹ کیریئر کی واحد سنچری تھی اور کسی ایک اننگ کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ اس دوران انھوں نے مشتاق محمد کے ساتھ مل کر چوتھی وکٹ کے لیے 97 رنز کی شراکت بنائی۔ تیسرے ٹیسٹ میں 125 رنز کے عوض 3 وکٹ اور دوسری اننگ میں 41 رنز' چوتھے ٹیسٹ میں 76 رنز کے عوض کوئی وکٹ نہیں مگر دوسری اننگ میں 41 رنز سے انھوں نے ٹیم کی مدد کی۔ پانچواں ٹیسٹ جس میں پاکستان کو 10 وکٹوں سے شکست ہوئی وہاں وہ پہلی اننگ میں صرف ایک وکٹ لے سکے۔ 1964-65ء میں آسٹریلیا کے خلاف دو ٹیسٹوں میں بھی ان کی پرفارمنس کچھ خاص نہ تھی۔ اسی طرح 1964-65ء میں نیوزی لینڈ کا دورہ اور 1967ء میں انگلستان کے دورے میں بھی ان کو ٹیم میں شامل کیا گیا تاہم وہ کچھ خاص کارکردگی نہ دکھا سکے۔ ان کا آخری ٹیسٹ آسٹریلیا کے خلاف تھا جب پاکستان نے 1972-73ء میں آسٹریلیا کا دورہ کیا تو انھوں نے سڈنی کے تیسرے ٹیسٹ میں 105 منٹ میں 64 رنز کی شاندار اننگ کھیلی[2]

اعداد و شمار[ترمیم]

نسیم الغنی نے 29 ٹیسٹ میچوں کی 50 اننگز میں 5 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 747 رنز بنائے جس میں 101 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 16.60 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں ایک سنچری اور 2 نصف سنچریاں بھی شامل تھیں جبکہ 117 فرسٹ کلاس میچوں کی 175 اننگز میں 17 بار ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 4490 رنز بنائے۔ 139 ان کا بہترین سکور تھا۔ 28.41 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں 7 سنچریاں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 1959 رنز دے کر 52 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ 67 رنز کے عوض 6 وکٹیں ان کا کسی ایک اننگ میں بہترین ریکارڈ تھا جبکہ 120 رنز کے عوض 8 وکٹوں کا حصول ان کے کسی میچ میں بہترین کارکردگی تھی۔ 37.67 کی اوسط سے لی گئی وکٹوں میں 2 دفعہ کسی ایک اننگ میں 5 یا 5 سے زائد وکٹ اور ایک دفعہ 4 وکٹ بھی شامل تھے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد[ترمیم]

نسیم الغنی نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد قومی سلیکٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کیں اور آئی سی سی کے میچ ریفری کی حیثیت سے 2 ٹیسٹ اور 9 ایک روزہ میچوں میں اپنے فرائض ادا کیے۔ انھوں نے ون ڈے کرکٹ میں بھی ڈیبیو کیا جب 11 فروری 1973ء کو نیوزی لینڈ کے خلاف انھیں میدان میں اتارا گیا جہاں وہ صرف ایک رن ہی بنا سکے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]