نصر الدین مراد خان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نصر الدین مراد خان
تمغۂ امتیاز
نصر الدین مراد خان (عثمانی ترک)
Nasreddin Murat-han  (ترکی)
Насреддин Муратханов  (روسی)
مراد خان کی ایک تصویر
مراد خان کی ایک تصویر
مراد خان، 1962ء میں

معلومات شخصیت
پیدائش 1904
داغستان، سلطنت روس
وفات 15 اکتوبر 1970ء (عمر 65–66)
لاہور
وجہ وفات دورۂ قلب  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن لاہور  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت روسی (1907ء–1950ء)
پاکستانی (1950ء–1970ء)
نسل ترک النسل
آبائی علاقہ داغستان
مذہب اسلام
زوجہ حمیدہ آکموت (شادی. 1944–70)
اولاد میرال مراد خان (بیٹی)
عملی زندگی
تعليم مدنی ہندسیات
معماری
مادر علمی ریاستی جامعہ سینٹ پٹیرزبرک (–1930)  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تخصص تعلیم مدنی ہندسیات  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ معمار،  سول انجیئنر،  انجینئر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں مینار پاکستان
قذافی اسٹیڈیم
اعزازات
تمغۂ امتیاز
1963ء

نصر الدین مراد خان (1904ء–1970ء) ایک روسی نژاد، ترک النسل، پاکستانی معمار اور مدنی مہندس تھے، جنہیں مینار پاکستان کے معمار ہونے کی بدولت پہ یاد کیا جاتا ہے۔

زندگی[ترمیم]

ابتدائی زندگی[ترمیم]

نصر الدین مراد خان 1904ء میں شمالی قفقاز میں واقع سلطنت روس کے شہر داغستان میں پیدا ہوئے۔ 1930ء میں انھوں نے لینن گراڈ یونیورسٹی سے مدنی ہندسیات کی ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں، انھوں نے اسی یونیورسٹی سے معماری اور شہری منصوبہ بندی کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔

روس کی آرکیٹیکٹس ایسوسی ایشن کے رکن بنے۔ انھیں روسی حکومت کی طرف سے بہترین نقشہ نویسی پر کئی انعامات بھی ملے مگر روسی کمیونسٹ پارٹی سے اختلاف کے باعث وہ جرمنی چلے گئے یہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا زمانہ تھا اور جرمنی کی بیشتر عمارات تباہ وبرباد ہو چکی تھیں چنانچہ جرمنی حکومت نے انھیں سول انجینئر کی حیثیت سے ملازمت دے دی۔ مراد خان نے جرمنی میں رہائشی عمارتوں کے علاوہ دو جدید طرز کے تھیٹر اور دو بڑے چرچ اور متعدد عمارات کے ڈیزائن تیار کیے۔

پناہ گزینی[ترمیم]

مراد خان قفقاز کے علاقہ کو سوویت راج سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ اس کے سبب، 1943ء میں انھیں اپنی جان بچانے کے لیے داغستان سے جرمنی فرار ہونا پڑا، جہاں وہ برلن میں اقوام متحدہ انتظامیہ برائے بحالی و ریلیف کے قائم کردہ پناہ گزین کیمپ میں ٹھہرے۔ وہیں انھوں نے ایک ترکی پناہ گزین خاتون، حمیدہ آکموت سے، 1944ء میں شادی کر لی۔

پاکستان آمد[ترمیم]

جرمنی میں سات سالہ پناہ گزینی کے بعد، 1950ء میں، مراد خان اپنے خاندان سمیت پاکستان آ گئے۔ 1946ءمیں ان کی ملاقات جرمنی میں ڈاکٹر عبد الحفیظ مالواڑہ سے ہوئی جن کا تعلق لاہور سے تھا اور وہ اسلحہ سازی اور کیمیا گری کے ماہر تھے۔ ڈاکٹر عبد الحفیظ نے اپنی بیٹی حمیدہ بیگم کی شادی مراد خان سے کردی۔ اس عرصہ میں پاکستان بھی دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے مستقل طور پر لاہور میں سکونت کا فیصلہ کر لیا اور جرمنی کو چھوڑ کر 1950ءمیں پاکستان آگئے۔ جون 1951ءمیں انھیں محکمہ تعمیرات میں زیر تعمیر واہ آرڈیننس فیکٹری میں گیریژن انجینئر کے طور پر متعین کر دیا گیا۔ 1953ءسے 1958ءتک مراد خاں حکومت مغربی پاکستان کے مشیر تعمیرات رہے۔ قذافی اسٹیڈیم لاہور کے علاوہ انھوں نے بادشاہی مسجد لاہور کی مرمت، مشتر ہسپتال و میڈیکل کالج ملتان، دماغی امراض کا ہسپتال اور رہائشی کالونی مانسہرہ، ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ لائلپور (فیصل آباد) بوریوالہ ٹیکسٹائل ملز اور ہمالہ پولیس ٹریننگ کالج کے منصوبے بھی تشکیل دیے۔

وفات[ترمیم]

15 اکتوبر، 1970ء کو دل کے دورہ کے باعث مراد خان وفات پا گئے۔

فنی کیریئر[ترمیم]

1930ء میں مراد خان داغستان اور لینن گراڈ میں کئی عہدوں پہ فائز رہ چکے تھے۔ انھیں سٹالن کی تطہیر مہندسان کے دوران گرفتار کیا گیا، مگر فروری 1940ء میں انھیں دوبارہ شمالی قفقازپروجیکٹ ٹرسٹ کی پیتی گورسک شاخ کا انجینئر اعلى اور معمار اعلى مقرر کر دیا گیا۔

مینار پاکستان[ترمیم]

نصرالدین مراد خان نے مینار پاکستان کی تعمیر کے لیے اپنی خدمات بِلا معاوضہ پیش کیں۔ انھوں نے مینار کے ڈیزائن اور تعمیر کی فیس ( جو تقریباََ 2 لاکھ 52 ہزار بنتی تھی ) نہ لی اور اِسے مینار کی تعمیر کے لیے بطور عطیہ دے دیا۔

انعامات[ترمیم]

1963ء میں تمغا امتیاز ملا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]