نصیر احمد خان بلند شہری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نصیر احمد خان بلند شہری
شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند
برسر منصب
1977ء تا 2008ء
پیشروشریف حسن دیوبندی
جانشینسعید احمد پالن پوری
نائب مہتمم، دار العلوم دیوبند
برسر منصب
1971ء تا 1994ء
پیشرومعراج الحق دیوبندی
جانشینمحمد عثمان دیوبندی
صدر مدرس دار العلوم دیوبند
برسر منصب
1991ء تا 2008ء
پیشرومعراج الحق دیوبندی
جانشینسعید احمد پالن پوری
ذاتی
پیدائش
نصیر احمد خاں

23 دسمبر 1918ء
وفات4 فروری 2010(2010-20-04) (عمر  91 سال)
مدفنقاسمی قبرستان
مذہباسلام
قومیتہندوستانی
مدرسہمدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی
دار العلوم دیوبند
بنیادی دلچسپیتفسیر، حدیث، فقہ، فلکیات
اساتذہحسین احمد مدنی
اعزاز علی امروہوی
قاری محمد طیب
عبد الحق اکوڑوی
عبد الخالق ملتانی
قاضی شمس الدین
مرتبہ

نصیر احمد خان بلند شہری (سنہ ولادت: 1918ء، سنہ وفات: 2010ء) ایک ہندوستانی عالم دین، محدث اور ماہرِ فلکیات کے ماہر تھے۔ انھوں نے دار العلوم دیوبند میں تقریباً پینسٹھ سال تدریسی خدمات انجام دیں، جس میں سے بتیس سال صحیح بخاری کا درس دیا۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی[ترمیم]

نصیر احمد خاں دستاویز کے مطابق 21 ربیع الاول 1337ھ مطابق 23 دسمبر 1918ء کو بَسِی، ضلع بلندشہر، صوبجات متحدہ آگرہ و اودھ (موجودہ اترپردیش)، برطانوی ہند میں عبد الشکور خان کے یہاں پیدا ہوئے (سنہ ولادت دراصل 1335ھ مطابق 1916ء تھا)۔[1]

جب نصیر احمد چار پانچ سال کے تھے تو ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور وہ اپنے بھائی بشیر احمد خاں کے زیر تربیت آگئے، چوں کہ بشیر احمد خاں اس وقت مدرسہ منبع العلوم گلاؤٹھی، بلند شہر میں مدرس تھے تو اپنے چھوٹے بھائی نصیر احمد خاں کا داخلہ منبع العلوم ہی میں کروا دیا، نصیر احمد خاں نے حفظ قرآن سے لے کر دورۂ حدیث تک کی تعلیم مدرسہ منبع العلوم میں حاصل کی۔[2]

1362ھ مطابق 1942ء میں جب بشیر احمد خاں کا تقرر دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس ہوا تو ساتھ میں نصیر احمد بھی دیوبند آئے اور دورۂ حدیث میں داخلہ لے کر دوبارہ دار العلوم سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی، اس وقت کے دار العلوم کے شیخ الحدیث حسین احمد مدنی چوں کہ الہ آباد کے نینی جیل میں نظر بند تھے تو نصیر احمد خاں نے جامع ترمذی و صحیح بخاری؛ اعزاز علی امروہوی سے پڑھی۔[3]

1363ھ مطابق 1943ء میں جب حسین احمد جیل سے رہا ہوکر دیوبند آئے تو نصیر احمد خاں سہ بارہ ان کے صحیح بخاری و جامع ترمذی کے اسباق میں شریک ہوئے، دیگر کتابوں کے اسباق میں بھی شرکت کی، اس کے بعد اگلے دو سال بھی دار العلوم دیوبند میں رہ کر تجوید و قرات کی بہت سی کتابیں پڑھیں (جن میں سبعہ و عشرہ کی بھی کئی کتابیں شامل تھیں)، طب اور معقولات کی کئی کتابوں کے دروس میں بھی حاضر رہے اور ہدایہ آخرین، سراجی، تفسیر بیضاوی، دیوان متنبی، توضیح تلویح، مسلم الثبوت سمیت دیگر کئی کتابوں کے اسباق میں بھی شریک رہے۔[3]

نصیر احمد خاں کے اساتذۂ دار العلوم میں حسین احمد مدنی، اعزاز علی امروہوی، بشیر احمد خان بلند شہری، عبد الخالق ملتانی، عبد الحق اکوڑوی، محمد طیب قاسمی، شمس الدین گجرانوالہ، عبد الرحمن امروہوی، قاری حفظ الرحمن اور حکیم محمد عمر دیوبندی قابل ذکر ہیں۔[4]

تدریس و عملی زندگی[ترمیم]

فراغت کے بعد ملتان کے ایک بڑے مدرسے میں صدر القراء کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا؛ مگر بڑے بھائی بشیر احمد خاں نے اتنے دور بھیجنا گوارا نہ کیا، پھر 1365ھ مطابق 1946ء میں بحیثیت اعزازی مدرس دار العلوم دیوبند میں نصیر احمد خاں کا تقرر ہوا، اولا دو سال عارضی پھر 28 صفر 1367ھ کو مستقل استاذ مقرر ہوئے۔[5]

انھوں نے 1365ھ مطابق 1946ء سے 1429ھ بہ مطابق 2008ء تک قمری سال کے لحاظ سے تقریباً پینسٹھ سال اور شمسی سال کے اعتبار سے تقریباً تریسٹھ سال دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیں، میزان سے بخاری تک کی کتابیں پڑھانے کا شرف ان کو حاصل ہوا۔[1]

1391ھ مطابق 1971ء سے 1397ھ مطابق 1977ء کے درمیان میں حدیث کی تین کتابیں: شرح معانی الآثار (طحاوی شریف)، مسلم شریف جلد ثانی اور مؤطا امام مالک ان سے متعلق رہیں۔ 1397ھ مطابق 1977ء میں دار العلوم میں مدرس بننے کے تقریباً بتیس سال بعد دار العلوم دیوبند کے اس وقت کے شیخ الحدیث شریف حسن دیوبندی کی وفات کے بعد صحیح بخاری کا درس نصیر احمد خاں سے متعلق ہوا، ایک سال مکمل بخاری شریف کا درس دیا، پھر اخیر تک جلد اول ہی کا درس ان سے متعلق رہا۔ 1429ھ مطابق 2008ء تک تقریباً بتیس سال انھوں نے بخاری کا درس دیا اور ان کا درسِ بخاری بے حد مقبول تھا، ان سے صرف صحیح بخاری پڑھنے والے طلبہ کی تعداد کم و بیش پچیس ہزار لکھی ہوئی ہے۔[1][6]

1391ھ مطابق 1971ء سے 1414ھ مطابق 1994ء تک تقریباً تئیس سال انھوں نے دار العلوم دیوبند کی نیابت اہتمام کے فرائض بھی انجام دیے۔[6] نیز 1412ھ مطابق 1991ء سے 1429ھ مطابق 2008ء تک تقریباً اٹھارہ سال وہ؛ دار العلوم دیوبند کی صدارت تدریس کے منصب پر فائز رہے۔[1][6]

1429ھ مطابق 2008ء میں انھوں نے پیرانہ سالی اور مختلف جسمانی عوارض کی وجہ سے دار العلوم دیوبند کی ذمہ داریوں سے معذرت کی تحریر پیش کی، مجلس تعلیمی (منعقدہ: ربیع الاول 1429ھ) میں ان کی تحریر پیش کی گئی، مجلس شوریٰ نے ان کی معذرت قبول کرتے ہوئے سعید احمد پالن پوری کو ان کی جگہ پر ترقی دیتے ہوئے انھیں شیخ الحدیث مقرر کیا، پھر مجلس عاملہ (منعقدہ: یکم جمادی الثانی 1429ھ) نے نصیر احمد خاں کی طویل تدریسی و انتظامی خدمات کے اعتراف میں ان کے لیے پندرہ ہزار ماہانہ وظیفہ جاری کرتے ہوئے مفوضہ ذمہ داریوں سے انھیں سبکدوش کر دیا۔[1]

تلامذہ[ترمیم]

نصیر احمد خاں کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے، دار العلوم دیوبند میں اکثر اساتذہ ان کے شاگرد ہیں، ان کے مشہور تلامذہ میں وحید الزماں کیرانوی، مجاہد الاسلام قاسمی، خورشید عالم دیوبندی، سعید احمد پالن پوری، سید ارشد مدنی، ابو القاسم نعمانی، عثمان منصورپوری، ریاست علی ظفر بجنوری، عبد الخالق مدراسی، عبد الخالق سنبھلی، قمر الدین احمد گورکھپوری، محمد امین پالن پوری، مجیب اللہ گونڈوی، عبد العلی فاروقی، عبد الرزاق بھوپالی، محمد سلمان منصورپوری، واجد حسین دیوبندی، نسیم اختر شاہ قیصر، واصف حسین ندیم الواجدی، عبد الرؤوف خان غزنوی، اشتیاق احمد دربھنگوی، یاسر ندیم الواجدی بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ ملک و بیرون ملک کے بہت سے نامور علما ان کے تلامذہ کے زمرہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔[1][7] 1977ء تا 2008ء ان کے شیخ الحدیث رہنے کے زمانے میں دار العلوم دیوبند سے تقریباً اٹھائیس ہزار فضلا تیار ہوئے۔[8]

فن ہیئت و فلکیات[ترمیم]

فن ہیئت کے وہ ماہر تھے اور من جانب اللہ انھیں اس فن میں بھی خصوصی درک و گیرائی حاصل تھی، جس کا اعتراف ان کے معاصرین کو بھی تھا، دار العلوم میں اس فن کی مشہور کتاب ”التصریح“ سالہا سال ان کے زیر درس رہی، اس فن میں انھوں نے ایک رسالہ بھی لکھا تھا، نیز ایک معروف کتاب ”فتحیہ“ پر انھوں نے حواشی بھی لکھے تھے، جو مکتبہ دار العلوم سے چھپی تھی۔[3] اس فن میں ان سے استفادہ کرنے والے تلامذہ بھی ملک و بیرون ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، جن میں ایک نام ثمیر الدین قاسمی بھی ہیں۔[1][9]

وفات و پسماندگان[ترمیم]

نصیر احمد خاں کا انتقال 19 صفر 1431ھ مطابق 4 فروری 2010ء کو جمعرات کی شب میں؛ مشہور قول کے مطابق ہجری تقویم کے لحاظ سے تقریباً 95 اور شمسی تقویم کے اعتبار سے تقریباً 92 سال کی عمر میں شہر دیوبند میں ہوا اور نماز جنازہ احاطۂ مولسری دار العلوم دیوبند میں ہزاروں کے مجمع نے عثمان منصورپوری کی اقتدا میں ادا کی اور قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔[10][11] [12]

ان کی وفات کے وقت ان کے بقید حیات پسماندگان میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں ضمیر احمد خان، رفیع احمد خان، عزيز احمد خان، شكيل احمد خان، عقيل احمد خان شامل ہیں اور سبھی حافظ قرآن ہیں۔[10][1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ محمد روح الامین میُوربھنجی (28 جون 2022ء)۔ "تذکرہ شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہریؒ (1918ء – 2010ء)"۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2022 ء 
  2. نور عالم خلیل امینی۔ وہ کوہ کَن کی بات (طبع سوم: دسمبر 2000ء ایڈیشن)۔ دیوبند، یوپی: ادارۂ علم و ادب۔ صفحہ: 336 
  3. ^ ا ب پ مولانا ندیم الواجدی۔ "رفتید ولے نہ از دل ما شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر احمد خاں"۔ خدا رحمت کند (طبع اول: 1431ھ م 2010ء ایڈیشن)۔ دیوبند: دار الکتاب۔ صفحہ: 357-364 
  4. عبد الرؤوف خان الغزنوي الأفغاني (رمضان - شوال 1431ھ م اگست - اکتوبر 2010ء)۔ إلى رحمة الله فضيلة الشيخ / نصير أحمد خان رحمه اللّه (بزبان عربی) (2010ء ایڈیشن)۔ مجلہ الداعی، دار العلوم دیوبند۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2022 
  5. خلیل الرحمن قاسمی برنی۔ نقوش حیات (2012ء ایڈیشن)۔ یوپی: دیوبند۔ صفحہ: 121 
  6. ^ ا ب پ محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ (2020 ایڈیشن)۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 649-651، 749 - 750 
  7. خلیل الرحمن قاسمی برنی۔ "آپ کے چند مشہور اور نامور تلامذہ"۔ نقوش حیات (2012ء ایڈیشن)۔ یوپی: دیوبند۔ صفحہ: 168 - 226 
  8. Muhammadullah Khalīli Qasmi (2 اکتوبر 2010ء)۔ "Shaikh Naseer Ahmad Khan 1918 - 2010"۔ Deoband.net۔ 25 جون 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2022ء 
  9. فاروق اعظم قاسمی (رمضان-شوال 1430 ھ مطابق ستمبر-اكتوبر 2009ءء)۔ "ہے تجھ سے دیدہٴ مہہ و انجم فروغ گیر مولانا نصیر احمد خاں صاحب (ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 93)"۔ darululoom-deoband.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2022 ء 
  10. ^ ا ب خلیل الرحمن قاسمی برنی۔ نقوش حیات (2012ء ایڈیشن)۔ یوپی: دیوبند۔ صفحہ: 273 - 275 
  11. حبیب الرحمن قاسمی اعظمی، مدیر (ربیع الاول - ربیع الثانی 1431ھ بہ مطابق مارچ 2010ء)۔ "شیخ الحدیث حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب کے سانحۂ ارتحال کے بعد دار العلوم میں تعزیتی اجلاس اور تدفین از اشتیاق احمد دربھنگوی"۔ ماہنامہ دار العلوم۔ مکتبہ دار العلوم دیوبند۔ 94 (3): 47 - 51 
  12. "Maulana Naseer Ahmad Khan of Darul Uloom Deoband passes away"۔ twocircles.net۔ 4 فروری 2010ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2022ء