نظرنامہ
محمود نظامی کا ”نظر نامہ“ بیسویں صدی میں سفر نامے کے اس موڑ کی نشان دہی کر تا ہے جہاں قدیم روایتی انداز سے صرف ِنظر کرکے فنی طور پر سفر نامے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ۔ڈاکٹر انور سدید نے جدید سفر نامے کی تعریف یوں کی ہے،
”سفر نامے کا شمار ادب کے بیانیہ اصناف میں ہوتا ہے اس صنف میں مشاہدے کا عمل دخل زیادہ اور تخلیق کا عنصر بے حد کم ہے سفر نامہ چونکہ چشم دید واقعات و حالات کا بیانیہ ہوتا ہے اس ليے سفر اس کی اساسی شرط ہے۔“ نظر نامہ کے بارے میں مولانا صلاح الدین فرماتے ہیں،
”کہنے کو تو یہ سفر نامہ ہے لیکن اصل میں یہ ان چند نادر تاثرات کا مجموعہ ہے جو صاحب مضمون نے اپنی عمر کے مختلف حصوں میں اپنے وطن سے دور دیار ِ فرنگ کی جلوتوں اور خلوتوں میں قبول کیے ۔“
یہ سفر نامہ فنی اعتبار سے کیسا ہے؟ اس کا ادبی معیار کیا ہے؟ کن خوبیوں سے متصف اور کن خامیوں کا مرتکب ہوا ہے؟ مصنف نے ان مباحث میں پڑنے کی بجائے اُسے ”نظر نامہ“ کا نام دے دیا۔ اور نہایت صاف گوئی سے یہ بھی کہہ دیا۔
”سیاحت میرا مستقل مشغلہ ہے نہ کہ سفر نامہ لکھنا میرا مقصدِ حیات یہ تو ایک اتفاق تھا کہ اکتوبر 1952 ءمیں مجھ کو زندگی کا بیشتر حصہ گھر کی چاردیواری میں بسر کر چکنے کے بعد باہر نکلنے کا موقع ہاتھ آگیا۔“
مصنف کے اس اعتراف کے باوجود جب ہم برصغیر کے سفر ناموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نظر نامہ اردو ادب کا پہلا باقاعدہ سفر نامہ ہے جو جدید دور کے تقاضوں پر پور ا اترتا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں جو سفر نامے لکھے گئے ہیں ان میں سر عبد القادر کے سفر نامے ”مقام خلافت“ کوقدیم اور جدید سفر ناموں کی درمیانی کڑی کہا جاتا رہا ہے لیکن سفر نامہ نگاری کا تیسرا دور جو 1950ءکے بعد شروع ہوا اس دور کا پہلا باقاعدہ سفر نامہ بلاشبہ محمود نظامی کا ”نظر نامہ ‘ ‘ ہے۔
نظر نامہ محمود نظامی کے عالیٰ ذوق اور ادیبانہ اسلوب کی عکاسی کرتا ہے وہ کوئی باقاعد ہ ادیب نہ تھے اور نہ نظر نامہ سے پہلے ان کی کوئی ادبی کاوش منظر عام پر آئی تھی۔ وہ ریڈیوپاکستان کے ملازم تھے اور اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں اکتوبر 1952ءکو یونیسکو کے زیر اہتمام دوسرے ملکوں کی نشرگاہوں کا جائزہ لینے کے ليے ملک سے باہر جانے کا موقع ملا چونکہ وہ ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اس ليے اس سفر سے واپسی پر انھوں نے اس کی روداد لکھ کر ہر خاص و عا م کی داد حاصل کی۔ نظامی کا اصل نام مرزا محمود بیگ تھا وہ زمانہ طالب علمی ہی سے خواجہ حسن نظامی سے بہت متاثر تھے ایک دفعہ اپنے والد کے ساتھ خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو خواجہ اپنے نوجوان عقیدت مند کی ذہانت اور صلاحیت سے بہت خوش ہوئے اور ازرائے شفقت انھیں اپنی کتابیں دیں اور کہا
کہ”صاحبزادے آج سے تم نظامی ہو۔“ محمود بیگ نے اس نسبت کو بڑی خوشی اور فخر سے قبول کیا اور مرزا محمود بیگ کی بجائے محمود نظامی کہلانے لگے۔ آئیے نظر نامہ کاجائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں وہ کون سی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اس سفر نامے کو اردو ادب کا پہلاباقاعدہ سفر نامہ مانا جاتا ہے۔
قدیم اور جدید کا امتزاج
[ترمیم]سفر نامے کا شمار اردو کی بیانیہ اصناف میں ہوتا ہے اور یہ خارج کی ایک ایسی تصویر ہے جسے سفر نامہ نگار اپنے تخیل کی آمیزش سے رنگین بنا دیتا ہے۔ جدید سفر نامہ میں خالق اپنا فلسفہ حیات اس میں شامل کر دیتا ہے اس طرح سفر نامے کی تخلیقی اور ادبی حیثیت بڑھ گئی ہے۔ محمود نظامی کا یہ سفر نامہ بھی ان کے مکمل نظریہ حیات کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کتابی شکل میں شائع ہونے سے پہلے یہ سفر نامہ قیوم نظر کے ادبی رسالے ”نئی تحریریں ’ ’ میں قسط وار چھپتا رہا اس ليے اس سفر نامے میں کہیں کہیں ربط اور وحدت ِ تاثر کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ چونکہ یہ سفر نامہ ایک دفعہ نہیں لکھا گیا اس لیے ایسا ہونا ہی تھا۔ دراصل نظر نامے کی ایک جداگانہ اہمیت اور حیثیت اس ليے بھی ہے کہ مصنف نے مروجہ روش سے ہٹ کر اسے تحریر کیا ہے۔ یہ سفر نامہ قدیم اور جدید کا حسین امتزاج ہے مثلاً قدیم سفر ناموں کی طرح نظر نامے میں تاریخ کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اور جدید سفر نامے کی طرح اس میں ایک سچی سیاحت مخصوص مشاہدات اور فلسفہ زندگی ملتی ہے۔
شخصیت کی چھاپ
[ترمیم]اس سفر نامے میں مختلف ملکوں کے شہروں کے آبادی کے اعداد و شمار اور سیاسی حالات نہیں ملتے بلکہ سفر کے دوران جو نقوش محمود نظامی کے دل و دماغ پر مسلط ہوئے انہی کو موضو ع بنایاگیا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ انھیں خود احساس ہے کہ اس کو سفر نامے کی حیثیت نہیں مل سکے گی کیونکہ یہ تو ان کی ذاتی آراءیادوں، پسند اور ناپسند پر مشتمل ایک مجموعہ ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مصنف کے ذوق نظر ذاتی تاثرات اور حسن بیان نے مل جل کر نظر نامے کو ایک دلچسپ کہانی کی طرح پر لطف بنا دیا ہے۔ نظر نامہ محض جگ بیتی نہیں بلکہ آپ بیتی بھی ہے اور ہر جگہ مصنف کی شخصیت چھائی ہوئی ہے۔ اس ليے قاری کو نظر نامے میں ”میں “ کا احساس ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مصنف کا احساس قابل غور ہے وہ لکھتے ہیں،
”میں نے مختلف ممالک کے حالات پیش کرنے سے زیادہ ان مختلف آئینہ خانوں میں خود کو دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں میں سفر میں بہت سے شہر وں سے گذرا ہوں وہاں کئی شہر ایسے بھی تھے جو میر دل سے گذرے۔“
سچے سیاح کا دل
[ترمیم]مصنف نے دل سے گذرے ہوئے انہی شہروں کی روداد کا نام ”نظر نامہ “ ہے۔ محمود نظامی نے سفر نامے کا رخ خارج سے داخل کی طرف موڑ دیا اور ہر منظر پر ایک ادیب کی نگاہ ڈال کر سوچ کے زاویوں کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ محمود نظامی فرماتے ہیں کہ ”سیاحت میرا مستقل مشغلہ ہے نہ سفر نامہ لکھنا میرا مقصد حیات“ تاہم انھوں نے جس باریک بینی سے روم مصر لندن اور میکسیکو کا مشاہدہ کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک اچھے سیاح کی بہت سی خوبیاں ان میں موجود تھیں۔ 22 اکتوبر 1952ءسے 24 اپریل 1953ءتک وہ حالت سفر میں رہے۔ انکا سفر فرائض منصبی کے سلسلے میں تھا اس ليے وہ سیاح کی جملہ آزادیوں سے بحرور نہ تھے۔ لیکن انھوں نے اس کو اس طرح پورا کیا کہ شہروں کے نقوش کو دل میں اتار دیا اور اس طرح یہی شہر ان کے ذوق اور وجدان کا حصہ بن گئے۔ ان کا سفر نامہ ایک ”گائیڈ بک “ نظر نہیں آتا بلکہ ہر جگہ ان کا دلی رابطہ محسوس ہوتا ہے۔
تخلیقی ادیب:۔
[ترمیم]دوران سفر مصنف نے محض نوٹس لینے پر اکتفا کیا لیکن واپسی پر اشفا ق احمد قیوم نظر اور نصیر انور جیسے دوستوں کے بے حداصرار پر انھوں نے ان یاداشتوں کو سفر نامے کی شکل دی۔ یاد آفرینی کے اس عمل میں ان کے متحرک تخیل نے بڑی خوبی سے کام کیا ہے اور قاری یہ محسوس کرتا ہے جیسے وہ اُن واقعات اور مقامات کو نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے بلکہ وہ مقام اس کے دل سے بھی گذرے رہے ہیں۔
چونکہ نظامی نے ہر شہر کو ایک تخلیقی ادیب کے حیثیت سے دیکھا ہے اور اس کی نادر کیفیات کو گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے اس ليے نظر نامہ ایک کامیاب کاوش نظر آتی ہے۔ مثلاً لندن کے بارے میں لکھتے ہیں،
”کتنا حسین نظارہ ہے لندن کی کیا بات ہے کیا فضا ہے لندن کا منظر ہمیشہ اس قدر دلفریب ہوتا ہے میں نے اسے ہمیشہ ایسا ہی دلکش پایا ہے لندن اور اس کے مناظر کبھی نہیں بدلتے ۔“
شہروں کی انفرادیت
[ترمیم]چھ ماہ کے مختصر عرصے میں محمود نظامی نے مصر لبنان روم اٹلی سویٹزر لینڈ فرانس برطانیہ کینڈا ریاست ہائے متحدہ کیوبا اور مکسیکو کا چکر لگایا۔ اگرچہ سفر نامے میں اس سفر کی روداد زیادہ نظرآتی ہے جو 1952ءمیں روالپنڈی سے شروع ہوا اور اپریل 1953ءمیں میکسکو سے پاکستان آنے پر ختم ہوا لیکن ضمنی طور پر اس سفر کے حالات بھی ملتے ہیں جو مصنف نے 20 سال پہلے تعلیم کے سلسلے میں لندن کے ليے کیا تھا۔ ان مختصر سیاحتوں کے علاوہ محمود نظامی سفر حیات کے تجربات و مشاہدات کا عکس بھی نظر نامے میں ملتا ہے۔ انھوں نے جس انداز میں ماضی اور حال مشرق اور مغرب کی تہذیب اور ثقافتی سطح کا موازنہ کیا ہے اس سے ان کے ذوق جمال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہ ہر شہر اور مقام کو الگ حیثیت سے جانتے ہیں اور اس کی انفرادیت کو نمایاں کرنے کی سفری کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا کہنا قابل غور ہے۔
ہر شہر میں کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوتی ہے جو نہ صرف اسے دوسروں سے مہمیز کرتے بلکہ اس کی پہچان بن جاتی ہے۔“
وطن کی یاد
[ترمیم]محمود نظامی کی بحیثیت سفر نامہ نگار یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ ہر شہر کوایک سچے سیاح کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن چشم تصور میں وطن عزیز کے گلی کوچے ان کی یادوں میں روشن دیکھے جا سکتے ہیں وہ بظاہر موجودہ منظر سے منسوب ہے۔ وطن کی یاد کو پورے سفر نامے میں نہ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ کئی مثالوں کو بطور نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے۔
” روم میں، میں نے کئی مناظر ایسے دیکھے اور کئی ایسی کیفیات سے دوچار ہوا جنھوں نے لاہور اور پنڈی کی یاد سے مجھے تڑپایا میں نے دیکھا کہ روم میں آسمان کی پیلاہٹ اس قدر گہر ی، دھوپ اتنی ہی شفاف اور زمین ایسی ہی سرسبز تھی جو لاہور میں نظرآتی ہے۔“
” اس کمرے کو دیکھ کر مجھے اکرم خان کا گائوں نور ڈھری یاد آگیا جو پشاور سے دس بارہ میل باہر ایک ہرے بھرے علاقے میں واقع ہے ۔
ماضی پرستی
[ترمیم]وہ نہ صرف وطن کی یاد بلکہ مسلمانوں کے عظیم ماضی میں بھی جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل محمود نظامی ماضی پرست انسان ہیں۔ چشم تصور سے ماضی کی سیر ان کا محبوب مشغلہ ہے اور جب انھیں ماضی کے جھرنکوں سے حال کی طرف لوٹنا پڑتا ہے تو ان کے دل و دماغ اور بیان پر اداسی اور افسردگی کی کیفیت کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پورے سفر نامے میں محمود نظامی مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا قصہ دہراتے رہے ہیں۔ وہ ماضی کے ایک ایسے سیاح معلوم ہوتے ہیں جس کے دل پر اپنی قوم کی تاریخ رقم ہے اور وہ حال کی ہر کروٹ کا موازنہ اس قدیم تاریخ کے ساتھ کرتے کفِ افسوس ملتے ہیں کہ نئی تہذیب نے ماضی کی قدیم اور اصلی شکل و صورت کا کتنا بگاڑ دیا ہے وہ نظر اور منظر کے موجود زاویوں اور اس کی گمشدہ تاریخ سے آگاہ کرتے ہیں لیکن جہاں یہ سفر نامے کی ایک خوبی ہے وہاں اس کا ایک نقصان یہ ہے کہ نئے عہد کا قاری جو منظر کی تاریخ سے پوری طرح واقف نہیں وہ مصنف کی تخیل کی بلند پروازی کا ساتھ نہیں دے سکتا اور اسے یہ ایک افسانوی داستان معلوم ہونے لگتا ہے۔
تاریخی واقعات
[ترمیم]تاریخی واقعات اس سفر نامے کی ایک اہم خاصیت ہے محمود نظامی کا تاریخی شعور پختہ اور اسلوب فنکارانہ ہے وہ زمانہ گردش ایام کے آئینے میں ماضی کی جھلک کو نمایاں کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ مثلاً جب وہ بذریعہ ٹرین قاہر ہ جانے لگتے ہیں تو قاہر ہ کے قدیم شہر کے تصور میں کھو جاتے ہیں اور پھر الف لیلیٰ کی داستان کی طرح ایک ایک ورق ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ قاہرہ سے باہر دریائے نیل کے کنارے حضرت موسی کا فرعون کے محل میں پہنچنے کا پورا واقع بھی متحرک ہو کر آنکھوں کے سامنے گزرنے لگتا ہے اسی طرح اہرام مصر کی تعمیر کے سلسلے میں وہاں کے مزدوروں نے جو تکالیف اٹھائی ہیں اس کی جیتی جاگتی تصویر اس سفر نامے میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اسلوب
[ترمیم]دراصل محمود نظامی کے بیان میں ایسا اثر اور ان کے اظہار میں ایسا سحر ہے کہ ہم بچنے کی چاہے کتنی ہی کوشش کریں دامن نہیں بچا سکتے۔ اسلوب اور قدرت بیان کے حوالے سے نظر نامہ اول تا آخر ایک بھر پور سفر نامہ ہے کتاب کے وہ حصے جہاں مصنف کسی مقام سے وابستہ تاثرات کو ابھارنا چاہتا ہے نہایت عمدہ اور بھر پور ہیں بالخصوص جب وہ Venusکا ذکر کرتے ہیں تو ان کا ذوق نظر اور باریک بینی دن اور رات کے فرق میں Venusکی خوبصورتی کو محسوس کرنے پر قادر ہے وہ لکھتے ہیں،
”میں سوچنے لگا کہ وینس Venusکا حسن دن کی نسبت رات کو کس قدر نکھر آتا ہے اس وقت اس میں ایک بے پنا ہ کشش پیدا ہو جاتی ہے جس کے سامنے باہر سے آنے والا مسافر اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔۔۔۔۔ جوں جوں شام گزرتی ہے اور تاریکی کی گہرائی خود وینس کے حسین چہر ے کو اس طرح پر کشش بنا دیتی ہے۔ جس طرح بعض اوقات سیا ہ ہلکوں میں لپٹی شفاف آنکھوں کا حسن کاجل کی سیاہی سے اُ بھر اآتا ہے۔“
ایسے مناظر کے بیان میں وہ شاعرانہ اسلوب برمحل تشبیہات اور دلکش الفاظ کا استعمال کرتے ہیں حسن جہاں کہیں اور جس رنگ میں بھی ہے محمود نظامی کی توجہ جذب کیے بغیر نہیں رہ سکتا وہ حسن کے جلوئوں کو سرسر ی نہیں دیکھتے بلکہ اس کی کیفیات میں ڈوب جاتے ہیں۔ بقول حفیظ ہوشیار پوری، اپنی بھر پور شخصیت کے پورے اظہار کے ليے زبان و قلم کی بے ساختگی اور روانی کے ساتھ اُن کے حصے میں آئی تھی بولتے تو سننے والوں کے کان آنکھیں بن کر رہ جاتے۔ لکھتے تو قلم سے موقلم کا کام لیتے ۔“
نظر نامے کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیاہے بازار مصر، روم نامچہ، برسبیل تذکرہ، سب طلوع پیرس، بلاخر میکسکو اس کے علاوہ عذر گناہ کے عنوان سے ایک دیباچہ بھی سفرنامے کی زینت ہے۔ یورپ کے شہروں کی گہما گہمی اور جلوہ سامانی ہو یا مصر کے چھوٹے چھوٹے گروندے روم کی فنی عظمت کے نمونے ہوں یا میکسیکو کے قدرتی مناظر انھوں نے ہر مقام کے بیان میں ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ قاری خود کو اس جگہ محسوس کرتا ہے یہی ایک کامیاب سفر نامہ نگار کی نشانی ہے کہ وہ قاری کا ہاتھ پکڑ کر ان مقامات تک لے جاتا ہے جہاں وہ خود گھوما پھرا ہے۔ اگر محمود نظامی نے مختلف ملکوں اور شہروں کا درمیانی فاصلہ آناً فاناً طے کیا ہے مگر جہاں کہیں انھیں قیام کا موقع ملا انھوں نے شہر وں کی تہذیبی زندگی تاریخی مقامات اور شہروں کے مضافات خصوصاً قاہر ہ روم پیرس اور میکسیکو جیسے شہروں کے معاشرتی حالات کا اچھی طرح چل پھر کر گہری نگاہ سے مشاہدہ کیا ہے۔
ایک سچے سیاح کی طرح انھیں سیاسی اور معاشی تقسیم سے سخت نفرت ہے۔ اور وہ ہر تعصب سے بالا تر ہو کر کسی جگہ کو دیکھتے ہیں اور بیان کرتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اس سفر نامے میں کرداروں کے حوالے سے کوئی شخصیت سامنے نہیں آتی۔ کیونکہ وہ شخصیات کو پرکھنے کی بجائے مناظر قدرت اور مظاہر انسانی کے ذریعے عظیم خالق کی تخلیقات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ان کے دل میں بے انتہا محبت اور خلوص ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ بنی نوع انسان کی بہتری کی شدید خواہش بھی رکھتے ہیں، وہ تمام تفریقات ختم کردینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ سماجی معاشی اور مذہبی تفریقات بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اور مصنف نے اس تلخ حقیقت کوبڑی عمدگی سے سفر نامے کا حصہ بنایا ہے۔
مجموعی جائزہ
[ترمیم]محمود نظامی کا یہ سفر نامہ جدید سفر نامے کی طرف پہلا باقاعدہ قدم ہے اور اس میں پیش کردہ جہتوں کی وجہ سے آنے والے سفر نامہ نگاروں کے ليے راہیں کشادہ ہوئی ہیں اور آج کے سفرنامے میں جو دلچسپ انداز اسلوب کی ندرت کہانی پن اور تخیل کی آمیزش نظر آتی ہے اس کی ابتدائی شکل نظر نامے میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ نظر نامہ کی زبان نہات شگفتہ ہے۔ خوبصور ت الفاظ، برجستہ تشبیہات اور خوبصورت اسلوب نے اس سفر نامے کو ایک مرصع تصنیف بنا دیا ہے۔ اس لحاظ سے ”نظر نامہ “ اردو سفر ناموں میں قابل ِ قدر اضافہ ہے۔