نعیم الحق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
نعیم الحق
معاون خصوصی وزیر اعظم پاکستان برائے سیاسی امور
مدت منصب
20 اگست 2018 – 15 فروری 2020
صدر عارف علوی
ممنون حسین
وزیر اعظم عمران خان
آصف کرمانی
 
معلومات شخصیت
پیدائش 11 جولا‎ئی 1949ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 15 فروری 2020ء (71 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نعیم الحق 11 جولائی 1949ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، نعیم الحق ایک عرصے تک نیو یارک میں مقیم رہے اور سرکاری بنک میں ملازمت کرتے رہے اور پھر اپنی نوکری چھوڑ کر، فلیٹ بیچ کر لندن میں آ کر تحریک استقلال میں شامل ہوئے۔ عمران خان کے ہر معاملے میں دست راست رہے

ولادت[ترمیم]

نعیم الحق 11 جولائی 1949 کو کراچی میں پیدا ہوئے،

تعلیم[ترمیم]

اپنی ابتدائی تعیلم کراچی میں ہی حاصل کی جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ کراچی کا رخ کیا اور وہاں سے 1970ء میں انگلش ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد میں انھوں نے تعلیمی میدان میں اپنی پیش قدمی جاری رکھی اور 1971 میں سندھ مسلم لا کالج کراچی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔

عملی زندگی[ترمیم]

انھوں نے نیشنل بینک آف پاکستان میں جمیل نشتر کی ٹیم میں شمولیت اختیار کرنے سے قبل خالد اسحٰق کے ساتھ اپنے پیشہ وارانہ کیریئر کا آغاز کیا تھا۔بطور ایک نوجوان بینکر وہ نیو یارک میں اقوام متحدہ پلازہ میں قائم ہونے والی نیشنل بینک کی برانچ کے لیے تیار ہونے والی ٹیم کا حصہ تھے، اس کے بعد وہ 1980 میں لندن چلے گئے جہاں انھوں نے بطور بینکر اوریئنٹل کریڈٹ لمیٹڈ میں ملازمت اختیار کی۔نعیم الحق کو بینکنگ، فنانس اور کارپوریٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ پاکستان، امریکا اور برطانیہ میں بطور قانون دان مجموعی طور پر 35 سالہ تجربہ تھا۔اپنے کیریئر کے دوران انھوں نے مختلف کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر بھی کام کیا جن میں ایرو ایشیا ایئرلائنز میں بطور ایڈوائزر اور مجینگ ڈائریکٹر، چیئرمین اور سی ای او میٹروپولیٹن اسٹیل کورپانڈ سر فہرست ہیں۔ لندن میں 1980 کی دہائی میں اپنے کیریئر کے دوران ان کی موجودہ وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے دوستی ہوئی جو وہاں پر اس دوران کاؤنٹی کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔

عمران خان سے دوستی[ترمیم]

عمران خان نعیم الحق اور ان کی اہلیہ سے ملاقات کے لیے لندن میں ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ان دونوں کے درمیان دوستی اس وقت مزید گہری ہوئی جب 1983 میں عمران خان کو فریکچر ہوا تو انھوں نے اپنے دوست کو ایکسرسائز بائیک دی تھی۔

سیاست میں آمد[ترمیم]

نعیم الحق پاکستان کی خدمت کرنے کے جذبے سے سرشار تھے اور انھیں یقین تھا کہ ملک میں مثبت تبدیلی صرف جمہوری سیاسی نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اس سوچ کے ساتھ ہی انھوں نے 1984 میں سیاست میں قدم رکھا اور ایئر مارشل اصغر خان کی تحریک استقلال پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت وہ لندن میں ہی مقیم تھے، تاہم اس کے دو سال بعد ہی انھوں نے لندن سے کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جہاں انھوں نے نہ صرف اپنی سیاسی کوششوں کو آغاز کیا اور کراچی میں اپنے کاروبار کا بھی آغاز کر دیا۔ضیاء الحق کے دور اقتدار کے بعد انھوں نے تحریک استقلال کے ٹکٹ پر ہی 1988 کے عام انتخابات میں حصہ لیا، البتہ انھیں ان انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے پھر بھی اپنی سیاسی دلچسپی کو جاری رکھا ۔ پاکستان کو عالمی چیمپئن بنانے والے کرکٹ کھلاڑی عمران خان نے جب 1996ء میں سیاست میں قدم رکھا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھی تو نعیم الحق بھی ان کے ساتھ اس پارٹی کو بنانے والے بانی رہنماؤں میں شامل تھے۔ وہ پارٹی چیئرمین عمران خان کے قریبی ساتھی تھے، نعیم الحق نے پارٹی کے امور چلانے اور 1997 اور 2002 کے انتخابات میں پارٹی کو پے درپے ناکامیوں کو قابو پانے میں ان کی مدد کی۔

نعیم الحق کی اہلیہ بھی کینسر کے عارضے میں مبتلا تھیں جن کا انتقال 2008 میں ہوا تھا، تاہم اس کے بعد نعیم الحق نے خود کو تحریک انصاف کے لیے وقف کر دیا تھا جہاں وہ اس پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئے جبکہ وہ پی ٹی آئی سندھ کے صدر بھی رہے۔کراچی میں 25 دسمبر 2011 کو پی ٹی آئی کے شاندار اور کامیاب جلسے کا سہرا بھی نعیم الحق کو ہی جاتا ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف قومی سیاسی پارٹی بن کر سامنے آئی۔انھیں 2012 میں پارٹی چیئرمین کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا گیا جس کے بعد وہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو گئے، وہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اہم رکن بھی تھے جس نے 2013 اور 2018 کے عام انتخابات کے لیے مہمات چلائیں۔نعیم الحق نے براہ راست عمران خان کے ہمراہ سخت جانفشانی کے ساتھ کام کرتے ہوئے پارٹی کو بنیادی سطح پر ورکرز اور پارٹی عہدیداران تک منظم کیا۔ دریں اثنا انھوں نے پارٹی کے انفارمیشن سیکریٹری کے عہدے پر بھی کام کرتے ہوئے پارٹی کی کمیونیکیشن حکمت عملی میں اہم کردار ادا کیا۔سال 2018 میں جب پارٹی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو اس سے 8 ماہ قبل یعنی جنوری میں ان میں خون کے سرطان کی تشخیص ہوئی۔ وہ بہادری کے ساتھ اس بیماری سے لڑتے رہے اپنا علاج کرواتے رہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کی انتخابی مہمات کا بھی حصہ رہے۔ چاہے پارٹی کو منظم کرنے کی بات ہو یا پھر پارٹی کے امور چلانے کی مشکلات ہوں نعیم الحق ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ وہ پارٹی کی کور کمیٹی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قابل شخصیت کے مالک تھے اور پارٹی کارکنان میں بے حد مقبول بھی تھے۔جب جولائی 2018 میں تحریک انصاف اپنی 22 سالہ جدوجہد کے بعد مسند اقتدار پر فائز ہوئی تو نومنتخب وزیر اعظم عمران خان نے انھیں اپنا معاون خصوصی برائے سیاسی امور مقرر کیا۔ وہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ مختلف منصوبوں جیسے ہاؤسنگ اسکیم، پارٹی معاملات، پائیدار ترقیاتی اہداف اور کچھ نئی تقرریوں کے معاملات میں شریک رہے

وفات[ترمیم]

نعیم الحق کو کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوئے اور بالآخر 15 فروری 2020ء کو اسی مرض کی وجہ سے وفات پائی۔